دریافت:
مناسک حج
- مقدمه: حج کی فضیلت اور اہمیت
مقدمه: حج کی فضیلت اور اہمیت
شریعتِ اسلام میں حج مخصوص عبادتوں کا ایک مجموعہ ہے، جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: «بُنِیَ اَلْإِسْلاَمُ عَلَی خَمْسٍ عَلَی اَلصَّلاَةِ وَ اَلزَّکَاةِ وَ اَلصَّوْمِ وَ اَلْحَجِّ وَ اَلْوَلاَیَة»[1]
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت۔
حج خواہ واجب ہو یا مستحب، بڑی فضیلت اور بےشمار اجر و ثواب کا حامل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے پاک اہل بیت علیہم السلام سے حج کی فضیلت میں بہت سی روایات منقول ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «الْحَاجُّ وَ الْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ إِنْ سَأَلُوهُ أَعْطَاهُمْ وَ إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ وَ إِنْ شَفَعُوا شَفَّعَهُمْ وَ إِنْ سَکَتُوا ابْتَدَأَهُمْ وَ یُعَوَّضُونَ بِالدِّرْهَمِ أَلْفَ أَلْفِ دِرْهَمٍ.»[2]
حج اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ اگر کچھ مانگیں تو اللہ عطا کرتا ہے؛ دعا کریں تو مستجاب ہوتی ہے؛ کسی کے حق میں شفاعت کریں تو اللہ قبول کرتاہے اور اگر کچھ نہ کہیں تو بھی اللہ خود ان پر کرم فرماتا ہے اور (حج پر خرچ ہونے والے ) ایک درہم کے بدلے اللہ اسے دس لاکھ درہم عطا کرتا ہے۔
حج دین اسلام کے اہم ترین واجبات اور شریعت کے ارکان میں سے ہے اور ایک ایسا فریضہ ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ گویا دین کے تمام فردی، اجتماعی، زمینی، آسمانی، تاریخی اور عالمی پہلوؤں کو حج میں سمیٹنا مقصود ہے۔ حج میں ایسی معنویت ہے جو تنہائی یا گوشہ نشینی سے دور ہے؛ ایسا اجتماع ہے جس میں لڑائی جھگڑا، بدگوئی اور بدخواہی کا شائبہ نہیں۔ ایک طرف انسان کا دل اللہ سے راز و نیاز، دعا اور ذکر سے لبریز ہوتا ہے، تو دوسری طرف لوگوں سے محبت اور تعلق بھی برقرار رہتا ہے۔
حاجی ایک آنکھ سے ماضی میں جھانکتا ہے اور حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل اورحضرت ہاجرہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور رسول خدا کا فاتحانہ انداز میں ا بتدائے اسلام کے مومنین کے جھرمٹ میں مسجد الحرام میں داخل ہونےکے مناظر کو خیال میں لاتا ہے اور دوسری آنکھ سے اپنے آس پاس مؤمنوں کا جم غفیر دیکھتا ہے، جو سب ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے متمسک ہیں۔
حج پر غور و فکر کرنے سے انسان اس یقین پر پہنچتا ہے کہ دین کے بہت سے اہداف اوربشریت کے لئے اس کی آرزوئیں اس وقت پوری ہو سکتی ہیں جب اہل ایمان آپس میں تعاون، یکجہتی اور ہم آہنگی کا جذبہ پیدا کریں۔اگر باہمی تعاون اور ہمدلی کا یہ جذبہ قائم ہو جائے، تو دشمنوں کی سازشیں کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
- پہلی فصل:کلیات
- فصل دوم: واجب حج (حجّة الاسلام)
- تیسر ی فصل: حج نیابتی (کسی کی طرف سے حج کرنا)
- نائب کے شرائط
نائب کے شرائط
96۔ جو شخص حج بجالانے کے لئے نائب بنتا ہے، اس کے لئے درج ذیل شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے:
1. احتیاط واجب کی بنا پر بالغ ہو
2. عاقل ہو
3. مورد وثوق اور قابل اعتماد ہو کہ حج کے اعمال کو بجالائے گا۔
4. احتیاط واجب کی بناپر شیعہ ہو ۔
5. حج کے اعمال و احکام سے واقف ہو یا حج کے دوران کاروان کے مذہبی سالار کی رہنمائی میں یا مناسک حج کی کتاب سے ان اعمال کو سیکھ لے۔
بہرحال اگر حج کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے اعمال درست طور پر انجام دی ہیں تو کافی ہے۔
6. اس سال اس پر خود حج واجب نہ ہو۔ ہاں! اگر نائب کو معلوم نہ ہو کہ اس پر خود حج واجب ہے، تو اس کا حج نیابتی کاصحیح ہونا بعید نہیں ۔
7. حج کے اعمال کو مکمل انجام دینے کی قدرت رکھتا ہو یعنی کسی عذر کی وجہ سے حج کے بعض اعمال کو ترک کرنے کا مجاز نہ ہو پس مثلاً اگر کوئی شخص طواف کی نماز میں صحیح قرائت کرنے کی بالکل بھی صلاحیت نہیں رکھتاہو تو اس کا نائب ہونا صحیح نہیں اور اگر صحیح قرائت سیکھ سکتا ہو تو اس پر سیکھنا واجب ہے۔
97۔ جب یہ بات ثابت ہو جائے کہ نائب نے حج انجام دے دیا ہے تو اس کے عمل کی صحت کا اطمینان حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کے عمل کو صحیح سمجھا جائے گا۔
- منوبعنه کے شرائط
منوبعنه کے شرائط
98۔ منوبعنه[1] درج ذیل شرائط کا حامل ہونا چاہئے:
1. مسلمان ہو لہٰذا کسی کافر کی نیابت میں حج کرنا درست نہیں۔
2. واجب حج میں نیابت اس صورت میں صحیح ہے جب منوبعنه فوت ہو چکا ہو یا بڑھاپا یا بیماری کی وجہ سے آئندہ سالوں میں بھی بغیر مشقت کے حج انجام دینے کی توانائی نہ رکھتا ہو البتہ مستحب حج میں نیابت ہرحال میں جائز ہے۔
- نیابت کے احکام
نیابت کے احکام
99۔ منوبعنه کے لیے عاقل یا بالغ ہونا شرط نہیں ہے۔
100۔ مرد کا عورت کی طرف سےنائب ہونا اور عورت کا مرد کی طرف سے نائب ہونا صحیح ہے۔
101۔ صروره (یعنی وہ شخص جس نے آج تک خود حج نہیں کیا) دوسرے صروره یا غیر صروره کا نائب بن سکتا ہے، خواہ نایب یا منوب عنه مرد ہو یا عورت۔
102۔حج نیابتی میں نیابت کی نیت اور منوبعنه کی تعیین خواہ اجمالی طور پرکیوں نہ ہو، شرط ہےالبتہ زبان پر جاری کرنا ضروری نہیں۔
103۔ ایسے شخص کو اجیربنانا درست نہیں جس کا وظیفہ وقت کی تنگی کی وجہ سے حجِ تمتع سے حجِ افراد کی طرف عدول کرنا ہو البتہ اگر نایب کو اس وقت اجیر کیا گیا ہو جب وقت کافی تھا اس کے بعد اتفاقا وقت تنگ ہوجائے تو واجب ہے کہ حجِ افراد کی نیت سے احرام باندھے یا حجِ افراد کی طرف عدول کرے اور اس کا یہ عمل منوبعنه کے حجِ تمتع کے لئے کافی ہوگا اور وہ اجرت کا مستحق ہوگا۔
104۔ اگر کوئی شخص معین اجرت پر حج کیلئے اجیر بن جائے اور اجرت، حج کے اخراجات سے کم ہو تو اجیر کرنے والے پر اس کمی کو پورا کرنا واجب نہیں ہے اسی طرح اگر ادا کی گئی رقم میں سے کچھ بچ جائے تو اسے واپس لینے کا حق نہیں ہے۔
105۔ جن موارد میں نائب کا حج منوب عنہ کیلئے کفایت نہ کرے چنانچہ اسی سال حج بحا لانے کے لئے اجیر بنا ہو تو اجیربنانے والےکو اجرت واپس کرنا واجب ہے۔ بصورت دیگر لازم ہے کہ اگلے سالوں میں دوبارہ حج بجالائے۔
106۔ جو شخص حج کے بعض اعمال انجام دینے سے معذور ہو، حج نیابتی کے لئے اجیر نہیں بن سکتا ہے۔ اور معذور اس شخص کو کہتے ہیں جو حج کے اختیاری اعمال جیسے تلبیہ اور طواف اور سعی میں اپنے پاؤں پر چلنے، نماز طواف کو صحیح طریقے سے بجالانے، اپنے ہاتھ سے رمی جمرات، مقررہ وقت میں عرفات اور مشعر میں وقوف اور منی میں رات گزارنے پر قادر نہ ہواس طرح کہ اس کے نتیجے میں حج کے بعض اعمال ناقص رہ جائیں۔ لیکن اگر عمل ناقص ہونے پر منتج نہ ہوجائے اور فقط احرام کے بعض محرمات کے ارتکاب میں معذور ہو تو اس کی نیابت صحیح ہے۔
107۔ اگر نیابتی حج کے دوران نائب معذور ہوجائے اور اس کا عذر حج کے اعمال ناقص ہونے کا باعث بنے تو اجارہ کا باطل ہو جانا بعید نہیں ہے ۔ اور احوط یہ ہے کہ منوب عنہ کی طرف سے دوبارہ حج بجالائے اور نائب اور منوب عنہ کے درمیان اجرت پرمصالحت ہونا چاہئے۔
108۔ جو لوگ مشعر الحرام میں اختیاری وقوف سے معذور ہیں ان کا نائب بننا صحیح نہیں ہے اور اگر ایسے لوگ نائب بن جائیں تو وہ اجرت کے مستحق نہیں ہوں گے مثلا کار وانوں کے خدمت گزار جن کو معذور افراد کی ہمراہی کرنا ضروری ہے یا کاروان کے انتظامات کی انجام دہی کے لئے طلوع فجر سے پہلے مشعر سے منی کی طرف نکلنا پڑتا ہے۔ اگر یہ افراد نیابتی حج انجام دینے کے لئے اجیر بنیں تو وہ ضرور اختیاری وقوف انجام دیں اور حج بجا لائیں ۔
109۔ معذور نائب کا حج کافی نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ اجیر ہو یا مفت میں حج انجام دے رہا ہو۔ اس میں بھی کوئی فرق نہیں ہے کہ خود نائب اپنے معذور ہونے سے لاعلم ہو یا نائب بنانے والا اس بات سے لاعلم ہو؛ اسی طرح کوئی فرق نہیں ہے نائب اس عذر کی وجہ سے نیابت صحیح نہ ہونے سے لاعلم ہو یا نائب بنانے والا اس سے لاعلم ہو مثلا نہیں جانتا ہو کہ نائب مشعر الحرام میں وقوف اضطراری پر اکتفا نہیں کرسکتا ہے۔
110۔ نایب کو حج کے اعمال انجام دینے میں اپنے مرجعِ تقلید کے فتوے کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
111۔ اگر نایب احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعد فوت ہو جائے تو حج منوبعنه پرسے حج ساقط ہوگا لیکن اگر احرام کے بعد اور حرم میں داخل ہونے سے پہلے فوت ہوجائے تو احتیاط واجب کی بناپر حج کافی نہیں ہوگا، خواہ نیابت مفت ہو یا اجرت پر، حجۃ الاسلام ہو یا کوئی دوسرا واجب حج۔
112۔ اگر نایب احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعد فوت ہوجائےچنانچہ وہ منوبعنه کا فریضہ ادا کر رہا تھا چنانچہ اجارہ کے اطلاق سے یہی ظاہر ہوتا ہے، لہذا وہ پوری اجرت کا مستحق ہوگا جوکہ اس کے ورثاء کو دی جائے۔
113۔ جو شخص کسی دوسرے کی طرف سے حج پر گیا ہو اور اس نے خود اپنی طرف سے حجۃ الاسلام ادا نہ کیا ہوتو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ حج کے اعمال مکمل کرنے کے بعد اگر ممکن ہو تو مکہ میں اپنی طرف سے عمرہ مفردہ انجام دے۔
114۔ نایب ، حج نیابتی مکمل کرنے کے بعد اپنی طرف سے یا کسی اور کی طرف سے طواف یا عمرہ مفردہ کر سکتا ہے۔
115۔ جس طرح احتیاط واجب کی بناپر خود نیابت میں ایمان (شیعہ ہونا) شرط ہے،اسی طرح ان اعمال میں بھی احتیاط واجب کی بناپر یہی شرط ہے جن میں نیابت جائز ہے، جیسے طواف، رمی اور قربانی[1]۔
116۔ نایب پر واجب ہے کہ حج کے اعمال اور طوافِ نساءمنوبعنه کی نیابت کی نیت سے انجام دے۔
- نیابت سے متعلق استفتائات
نیابت سے متعلق استفتائات
117۔ کوئی شخص مدینہ منورہ میں کسی کو اپنے والد کے لیے حج میقاتی کے لیے اجیر بنائے لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ مسجد شجرہ سے احرام باندھنا ہے یا کسی اور میقات سے، تو کیا اجیر مسجد شجرہ سے عمرہ مفردہ کی نیت سے احرام باندھ سکتا ہے، پھر جحفہ یا قرن المنازل جا کر عمرہ تمتع نیابتی کے لیے احرام باندھ لے؟
جواب: ہاں، وہ مسجد شجرہ سے عمرہ مفردہ کا احرام باندھ سکتا ہے اور بعد میں حج نیابتی کے لیے پانچ معروف میقاتوں میں سے کسی سے احرام باندھ سکتا ہے، البتہ اگر مدینہ میں اجیر بنانا قرینہ ہو کہ احرام مسجد شجرہ سے ہی باندھنا چاہیےتو مسجد شجرہ سے محرم ہونا چاہئے۔
118۔ ایک شخص نے حج کے لیے رجسٹریشن کروائی اور وصیت کی کہ اس کا بیٹا اس کے کوٹے سے نیابتی حج کرے۔باپ کے انتقال کے بعد بیٹے کے پاس مالی استطاعت آ گئی لیکن وہ صرف والد کےکوٹے سے حج پر جا سکتا ہےتو کیا باپ کے کوٹے سے استفادہ کرنے اور میقات پر پہنچنے کے بعد والد کی طرف سے نیابتی حج کرے یا اپنی طرف سے؟
جواب۔ اگر حج میقاتی سے زائد اخراجات، مال کے ایک تہائی مقدار سے زیادہ نہ ہوں، یا ورثاء نے زائد اخراجات کی اجازت دے دی ہو تو والد کی نیابت میں حج کرنا چاہئے۔
119۔ پچھلے مسئلے میں اگر میت نے وصیت نہ کی ہو اور ورثا ءحج کا کوٹہ اس بیٹے کو دیں جو مالی استطاعت رکھتا ہے تاکہ وہ باپ کی طرف سے حج کرے تو کیا وہ بیٹا جب میقات پر پہنچے تو اپنے باپ کی نیابت میں حج کرے یا خود مستطیع ہونے کی وجہ سے اپنے لیے؟
جواب: اس صورت میں بھی چونکہ راستہ باپ کےکوٹے کی وجہ سے ہموار ہوا ہے لہذا نیابتی حج مقدم ہے۔
120۔ گذشتہ دونوں مسئلوں میں اگر اس کا فریضہ نیابتی حج ہو چنانچہ اپنے لیے حج ادا کرے تو کیا یہ اس کے حجة الاسلام کے لیے کافی ہوگا؟
جواب: "حجة الاسلام" کے لیے کافی ہونا محلِ اشکال ہے۔
121۔ اگر کسی کا باپ مستطیع تھا اور وفات پا ئےاور بیٹا باپ کے کوٹے سے حج کے لیے روانہ ہو اور میقات پہنچ کر خود بھی مستطیع ہو جائے توکیا کرے؟ جبکہ نہ وصیت ہے نہ اسے نیابت کے لیے کہاگیا ہے مثلاً وہی تنہا وارث ہے اور راستہ صرف اسی ذریعے ممکن تھا۔
جواب: اپنے لیے حج ادا کرے اور والد کی طرف سے کسی اور کو نائب بنائے۔
122۔ جو شخص حج کے بعض اعمال جیسے طواف، رمی جمرات، قربانی وغیرہ نیابتاً انجام دے رہا ہو، کیا اس کے لیے احرام باندھنا ضروری ہے؟
جواب: ضروری نہیں۔
123۔ اگر کوئی شخص میقات پر احرام باندھتے وقت ایک خاص فرد کی نیابت کی نیت کرے، لیکن حج کے اعمال انجام دیتے وقت دانستہ یا بھول کر کسی اور کی نیت کرے، تو کیا حکم ہے؟
جواب: کافی نہیں ہے اور واجب ہے کہ نائب نے محرم ہوتے وقت جو نیت کی ہے اعمال نیابتی بھی اسی کے مطابق انجام دے۔
124۔ اگر کوئی شخص عمرہ یا حج یا مخصوصا طواف کے لیے اجیر بناہو تو کیا وہ کسی اور کی طرف سے (بلامعاوضہ یا معاوضہ کے ساتھ) قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے؟
جواب: کوئی اشکال نہیں۔
125۔ اگر نائب جان بوجھ کر دن میں رمی جمرات ترک کر دے، تو اس کی نیابت کا کیا حکم ہے؟
جواب: رمی جمرات حج کے اعمال میں سے ہے، اگر صحیح طریقے سے انجام نہ دے تو اس کی نیابت صحیح ہونا محلِ اشکال ہے، خاص طور پر اگر ایام تشریق میں اس کی قضا نہ کرے۔
126۔ اگر نائب کا عمل حج مکمل ہونے سے پہلے منوب عنه کا عذر ختم ہو جائے تو کیا نائب کا حج کافی ہوگا؟
جواب: کافی نہیں ہوگا۔
127۔ اگر اجارہ مطلق ہو (یعنی نہ ذمہ بری کرنے کی قید ہواور نہ اعمال کی قید ہو) اور اجیر احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعد فوت ہوجائے تو کیا وہ پوری اجرت کا حقدار ہے یا اجرت تقسیم ہوگی؟
جواب: اگر اجارہ منوب عنہ کو بری الذمہ کرنے کے لیے ہو، جیسا کہ حج کے اجاروں میں عام طور پر ہوتا ہے، تو وہ پوری اجرت کا مستحق ہے۔
128۔ اگر نائب کچھ وقت کے اندر عمل نیابتی انجام دینے کی توانائی رکھتا تھا اور وقت وسیع ہونے کے باوجود انجام نہ دے اور بعد میں عمل انجام دینا ناممکن ہوجائے مثلا بارہویں تاریخ کے ظہر تک رمی جمرات انجام دے سکتا تھا لیکن تاخیر کی اور ظہر کے بعد رش یا کسی اور وجہ سے انجام نہ دے سکے یا مکہ کے اعمال کو چند روز موخر کیا اس کے بعد بیماری یا کسی اور وجہ سے انجام نہیں دے سکے تو نیابت کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر اجارہ اسی سال کے لیے ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہے، بیشتر احتیاط یہ ہے کہ قضا ہونے والے عمل کے لیے نائب مقرر کرے اور اجرت کے بارے میں مستأجر سے مصالحت کرے۔ اگر اجارہ کسی خاص سال کے لیے نہ ہو تو احتیاط واجب کی بناپرنیابتی حج آئندہ سال ادا کرے۔
129۔ اگر نائب جانتا ہو کہ وہ "حجِ تمتع" کے لیے اجیر بنا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ "حجة الاسلام کے لئے نائب بنا ہے یا حج نذری یا مستحب حج کے لیے، تو اگر وہ منوب عنہ کے لئے حج تمتع کی نیت کرے یا اس حج کی نیت کرے جس کے لیے اجیر بنا ہے، تو کیا یہ کافی اور صحیح ہے؟
جواب: جس حج کے لئے نائب بنا ہے اس کی اجمالی نیت کافی ہے۔
130۔ جن افراد کو خواتین یا کمزوروں کے ساتھ عید کی آدھی رات کومنیٰ جانا لازمی ہے،چنانچہ انہیں معلوم ہو کہ وقوفِ اختیاری کے لیے مشعر واپس آ سکتے ہیں تو کیا وہ نیابتی حج کر سکتے ہیں؟
جواب: احتیاط واجب کی بناپر نائب رات کو مشعر الحرام سےنہ نکلے اگرچہ مشعر الحرام میں وقوف اختیاری کے لئے واپسی ممکن ہو۔ لیکن اگر وہ معذور نہ ہو اور اپنی مرضی سے مشعر سے باہر نکلے اور واپس آ کر وقوفِ اختیاری درک کر لے تو نیابت میں کوئی اشکال نہیں۔
-