دریافت:
مناسک حج
- حج کی فضيلت اور اہمیتمقدمهحج کی فضيلت اور اہمیت
شریعت میں حج ، چند خاص اعمال اور مناسک کے ایک مجموعے کا نام ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے جيسا کہ امام محمدباقر علیہ السلام سے روايت ہے :
" بُني الاسلام علي خمس علي الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولاية"(1)
ترجمہ: «اسلام پانچ بنيادوں پر استوار ہے:نماز ، زکات ، روزہ ، حج اور ولايت »
حج ، خواہ واجب ہو یا مستحب، اسکی بہت زیادہ فضيلت اور اجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرم اور اہل بيت (عليہم السلام) سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں، چنانچہ امام صادق سے روايت ہے:
"الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم "(2)
"حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے، اگر شفاعت کريں تو قبول کرتاہے اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔
1۔ کافی، ج۲، ص ۱۸، ح ۱؛ وسائل الشیعه، ج۱، ص ۷، باب ۱، ح ۱۔
2۔ کافی، ج۴، ص ۲۵۵، ح ۱۴۔ - حج ترک کرنے کا حکمحج ترک کرنے کا حکم
مسئلہ ۱۔ حج ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے اور اس کا واجب ہونا کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے۔ جو شخص حج کے شرائط رکھتے ہوئے اور اسک ے واجب ہونے کا علم رکھتے ہوئے اسے ترک کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔
اللہ تعالي قرآن مجید ميں فرماتا ہے:
{ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}(1)
ترجمہ: « اللہ کے لیے ان لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا واجب ہے جو اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔»
اور امام صادق علیہ السلام سے یوں روايت ہوئی ہے
"من ماتَ ولم یَحُجَّ حَجّۃ الاسلام و لم یَمنعہُ من ذلک حاجۃٌ تجحفُ بہ او مرض لا یطیق فیہ الحج أو سلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً أو نصرانیاً" (2)
ترجمہ: جو شخص انجام دیے بغیر مرجائے، جبکہ اس کے حالات بھی مساعد ہوں یا کوئی سخت بیماری یا ظالم بادشاہ اسے حج سے روکنے کا سبب نہ بنے، تو وہ یہودی یا مسیحی مرے گا۔
1۔سورہ آل عمران، آیت ۹۷۔
2۔تہذیب الاحکام، ج۵، ص ۱۷۔ - حج اور عمرہ کے اقسامحج اور عمرہ کے اقسام
مسئلہ ۲۔ جو انسان حج انجام ديتا ہے يا وہ اسے اپنے لئےانجا م ديتا ہے يا کسي کي نیابت میں بجالاتا ہے، اس حج کو "نيابتي حج " کہتے ہيں اور جو حج اپنے لئے بجا لاتا ہےاس کی دو قسمیں ہیں: واجب اورمستحب۔
مسئلہ ۳۔ واجب حج يا شريعت کے اصولوں کی بنیاد پر واجب ہوتا ہے جسے "حجة الاسلام" کہتے ہيں يا کسي اور وجہ سے ، جیسے نذر يا حج کے باطل ہونے کے سبب واجب ہوتا ہے۔
مسئلہ ۴۔ حجة الاسلام اورنيابتي حج ميں سے ہر ايک کي اپني اپني شرائط اور احکام ہيں کہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں کے ضمن ميں ذکر کريں گے۔
مسئلہ ۵۔ حج کی تین اقسام ہیں: ۱۔ تمتع، ۲۔ اِفراد، ۳۔ قِران۔
پہلی قسم (حج تمتع) ان افراد پر واجب ہوتا ہے کہ جنکا وطن مکہ سے ۴۸ میل (تقریبا ۹۰ کیلومیٹر) کے فاصلے پر ہو۔ حج کی دوسری اور تیسری قسم (اِفراد اور قِران) ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو مکہ میں رہتے ہیں یا ان کی رہائش کی جگہ مذکورہ فاصلہ سے کم پر واقع ہو۔
حج تمتع مناسک اور اعمال کے اعتبار سے دیگر دو قسموں سے کچھ فرق رکھتا ہے۔
مسئلہ ۶۔ حج تمتع، حج قِران اور اِفراد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ حج تمتع، عمرہ اور حج پر مشتمل ایک عبادت ہے اور اس میں عمرہ حج پر مقدم ہوتا ہے اور عمرہ و حج کے درمیان فاصلہ زمانی بھی پایا جاتا ہے اور اس فاصلے میں انسان احرام سے خارج ہوتا ہے اور حج کے لئے مُحرِم ہونے تک مُحرِم پر حرام ہونے والی چیزوں سے فائدہ اٹھانا حلال ہوتا ہے ۔ اسی لئے حج تمتع (بہرہ مند ہونا) کا عنوان اس کے لئے مناسب ہے۔اور حج اس کا دوسرا حصہ کہلاتا ہے اور ان دونوں کو ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے۔ حج اِفراد اور قِران کے برخلاف کہ جن میں صرف حج انجام دیا جاتا ہے۔ اور ان میں عمرہ ایک مستقل عبادت تصور کی جاتی ہے اور اسے "عمرہ مفردہ" کہا جاتاہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عمرہ مفردہ ایک سال اور حج اِفراد یا قِران اگلے سال انجام دیا جائے۔
مسئلہ ۷۔ عمرہ تمتع اور عمرہ مفردہ کے کچھ احکام مشترک ہیں کہ دوسری فصل میں ذکر کئے جائیں گے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ مسئلہ نمبر ۱۶ میں بیان کیا جائے گا۔
مسئلہ ۸۔ عمرہ بھی حج کی طرح کبھی واجب ہے تو کبھی مستحب ۔
مسئلہ ۹۔ دین اسلام میں عمرہ زندگی میں ایک بار ایسے شخص پر واجب ہوتا ہے جو صاحب استطاعت ہو (جیسا کہ حج کے مورد میں بیان کیا جاتا ہے(1))۔ اور اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح فوری ہے۔ اور اس کے وجوب میں حج بجالانے کی استطاعت شرط نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت پیدا کرلے تو اس پر عمرہ واجب ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ حج کے لئے استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس بھی اسی کے مانند ہے ، یعنی اگر کوئی شخص حج کے لئے استطاعت رکھتا ہو، لیکن عمرہ کے لئے مستطیع نہ ہو تو اسے حج بجالانا چاہیے۔ یہ حکم ان افراد کے لئے ہے کہ جو مکہ میں یا ۴۸ میل سے کم تر فاصلہ پر رہائش پذیر ہوں لیکن جو لوگ مکہ سے دور ہیں اور انکا وظیفہ حج تمتع انجام دینا ہے تو انکے لئے کبھی بھی عمرہ کی استطاعت حج کی استطاعت سے اور حج کی استطاعت عمرہ کی استطاعت سے جدا نہیں ہے کیونکہ حج تمتع دونوں اعمال کا مرکب ہے اور دونوں کو ایک ہی سال میں بجالانا چاہیے۔
مسئلہ ۱۰۔ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور اگروہ موسم حج کے علاوہ کسی اور موقع پر مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہو تو واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو۔ اس حکم سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں:
1. وہ لوگ جن کا پیشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکہ میں زیادہ آمد و رفت کریں۔
2. وہ لوگ جو حج یا عمرہ بجالانے کے بعد مکہ سے باہر نکل چکے ہیں اور اسی حج یا عمرہ بجالائے ہوئے مہینے میں دوبارہ مکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۱۔ دوبارہ عمرہ بجالانا حج کے دوبارہ بجا لانے کی طرح مستحب ہے۔ اور دو عمرہ کے درمیان کوئی خاص فاصلہ شرط نہیں ہے۔ لیکن احتیاط کی بنا پر ہر ماہ میں اپنے لئے صرف ایک عمرہ بجا لائے۔ اور اگر دوسرے افراد کے لئے دو عمرے بجا لائے یا ایک عمرہ اپنے لئے اور دوسرا عمرہ کسی دوسرے کے لئےبجا لائے تو مذکورہ احتیاط ضروری نہیں ہے۔ اسی لئے اگر دوسرے عمرے کو کسی کی نیابت میں بجا لائے تو نائب کا اس کے بدلے میں اجرت لینا جائز ہے اور یہ منوب عنہ کے عمرہ مفردہ کے لئے کافی ہے چاہے وہ واجب ہی کیوں نہ ہو۔1 . مسئلہ 34 کے بعد - حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہحج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
مسئلہ ۱۲۔ حج تمتع دو عمل کا مرکب ہے: ۱۔ عمرہ تمتع ۲۔ حج تمتع۔ عمرہ تمتع حج پر مقدم ہے اور ان دونوں کے اپنے مخصوص اعمال ہیں کہ جن کی جانب اشارہ کیا جائے گا۔
مسئلہ ۱۳۔ عمرہ تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. کسی بھی ایک میقات پر احرام باندھنا،
2. کعبہ کا طواف،
3. نماز طواف،
4. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
5. تقصیر (تھوڑے سے بال یا ناخن کاٹنا)
مسئلہ ۱۴۔ حج تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. مکہ مکرمہ میں احرام باندھنا،
2. ۹ ذی الحجہ کی ظہر سے غروب شرعی تک عرفات میں وقوف،
3. ۱۰ ذی الحجہ کی رات کو سورج طلوع ہونے تک مشعر الحرام میں وقوف،
4. ۱۰ ذی الحجہ (عید قربان کے دن) کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا،
5. قربانی،
6. سرمنڈوانا یا تقصیر کرنا،
7. طواف حج،
8. نماز طواف،
9. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
10. طوافِ نساء،
11. نماز طواف نساء،
12. ۱۱ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ ( رات گزارنا)کرنا،
13. ۱۱ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا
14. ۱۲ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ کرنا،
15. ۱۲ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات کنکریاں مارنا۔ - حج اِفراد اورعمرہ مفردہحج اِفراد اورعمرہ مفردہ
مسئلہ ۱۵۔ حج اِفراد کی کیفیت حج تمتع کی مانند ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج تمتع میں قربانی کرنا واجب ہے اور حج افراد میں مستحب۔
مسئلہ ۱۶۔ عمرہ مفردہ بھی عمرہ تمتع کی مانند ہے سوائےدرج ذیل مواقع کے:
1. عمرہ تمتع میں انسان کو تقصیر کرنا ضروری ہے لیکن عمرہ مفردہ میں یہ اختیار ہے کہ سر منڈانے اور تقصیر میں اختیار ہے البتہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے لیکن خواتین پر واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع میں صرف تقصیر کریں۔
2. عمرہ تمتع میں طواف نساء اور نماز طواف نساء واجب نہیں ہے اگرچہ بنابر احتیاط ان دو اعمال کو تقصیر سے پہلے رجا کی قصد سے بجا لائے۔ لیکن عمرہ مفردہ میں طواف نساء اور اس کی نماز واجب ہے۔
3. عمرہ تمتع کو حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ میں یعنی شوال، ذی قعد یا ذی الحجہ میں انجام دیا جانا چاہیے جبکہ عمرہ مفردہ کو سال کے تمام ایام میں سے کسی میں بھی بجالانا صحیح ہے۔
4. عمرہ تمتع کے میقات، پانچ میقاتوں میں سے ایک ہے کہ جس کی تفصیل آیندہ آئے گی۔ جبکہ عمرہ مفردہ کا میقات شہر مکہ کے اندر موجود افراد کے لئے اَدنَی الحِلّ(حرم کے باہر نزدیک ترین مقام) ہے۔ اگرچہ پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر بھی احرام باندھنا جائز ہے لیکن جو مکہ سے باہر ہو اور عمرہ مفردہ بجالانا چاہتا ہو تو اسے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔ - حج قِرانحج قِرانمسئلہ ۱۷۔ حج قِران کی کیفیت حج اِفراد کی مانندہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج قِران میں مُحرِم ہونے کے ساتھ ساتھ قربانی کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سےاس پر قربانی واجب ہے۔
اسی طرح حج قِران میں احرام لبیک کہنے سے یا اشعار یا تقلید(1) سے محقق ہوجاتا ہے لیکن حج اِفراد میں فقط لبیک کہنے سے محقق ہوتا ہے۔1۔ان دونوں کے معنی مسئلہ ۱40 میں بیان کئے جائیں گے۔ - حج تمتع کے کلی احکامحج تمتع کے کلی احکام
مسئلہ ۱۸۔ حج تمتع کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی شرط: نیت: یعنی جس وقت سے عمرہ تمتع کا احرام باندھا چاہتا ہے اسی وقت سے حج تمتع انجام دینے کا قصد بھی رکھتا ہو۔ ورنہ اس کا حج صحیح نہیں ہے۔
دوسری شرط: عمرہ اور حج دونوں حج کے مہینوں میں واقع ہوں۔
تیسری شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی سال میں واقع ہوں۔
چوتھی شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی شخص کے لئے اور ایک ہی شخص کے توسط سے انجام دیئے جانا چاہیے لہذا اگر کوئی شخص دو افراد کو اجیر کرے کہ ان میں سے ایک میت کی طرف سے حج تمتع بجالائے اور دوسرا عمرہ تمتع، تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہو وہ خود اپنی مرضی سے اپنے حج تمتع کو حج قِران یا حج اِفراد میں تبدیل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ ۲۰۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہے اور اگر اسے یہ احساس ہو کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ عمرہ تمتع کو مکمل کر کے حج کو درک نہیں کر سکتا ہے، ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے حج تمتع کو حج اِفراد میں تبدیل کرے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے۔
مسئلہ ۲۱۔ وہ خاتون جو حج تمتع انجام دینا چاہتی ہے لیکن میقات پر پہنچنے پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی اگر وہ احتمال دیتی ہے کہ حج تمتع کے احرام کے لئے وقت کی تنگی سے پہلے پاک ہوجائے گی اور غسل کرنے کے بعد عمرہ تمتع کے اعمال بجالاسکتی ہے اور پھر حج کے احرام سے عرفات کے وقوف کو عرفہ کے دن اول ظہر سے درک کرسکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ میقات میں عمرہ تمتع کے لئے مُحرِم ہوجائے پھر اگر پاک ہوئی اور عمرہ تمتع کے اعمال کو بجالانے اور عرفات میں اختیاری وقوف درک کرنے کے لئے کافی وقت ہوا تو اسے یہی کام انجام دینا چاہیے اگر اتفاق طور پر پاک نہ ہوئی یا پاک ہونے کے بعد اس کے پاس عمرہ تمتع بجالانے اور عرفات کے وقوف کو درک کرنے کے لئے وقت کافی نہیں ہے تو عمرہ تمتع کے احرام کے ساتھ حج افراد کی طرف عدول کرے گی اور اس کے بعد ایک عمرہ مفردہ کو بجالائے گی اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہے۔
اور اگر اسے اطمینان ہے کہ حج تمتع کے احرام اور وقوف عرفات کو درک کرنے کے وقت تک پاک نہیں ہوسکتی ہے یا اگر پاک ہوجائے تو عمرہ کے اعمال انجام دینے اور وقوف عرفات کو درک کرنے تک کافی وقت نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ میقات پر ہی ما فی الذمہ کے قصد سے یا حج اِفراد کے لئے مُحرِم ہوجائے اور اعمال حج بجالانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ بجالائے۔ اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا۔
لیکن اگر میقات پر احرام باندھنے کے کے وقت پاک تھی، پھر راستے میں یا مکہ پہنچنے پر عمرہ کا طواف اور اسکی نماز بجالانے سے پہلے یا طواف کے دوران چوتھے چکر کو تمام کرنے سے پہلے، ماہانہ عادت سے دوچار ہوجائے اور عمرہ کے اعمال انجام دینے، عرفات کے وقوف اختیاری درک کرنے کے وقت تک پاک نہ ہوئی تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یا تو اسی احرام کے ساتھ عمرہ تمتع کو حج افراد میں بدل دے اور حج افراد کو انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا؛ یا عمرہ تمتع کے طواف اور اسکی نماز کو چھوڑ کر، سعی اور تقصیر کو انجام دے او رعمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہوجائے، اس کے بعد حج تمتع کے لئے محرم ہونے، دونوں وقوف کو درک کرنے اور اعمال منی کو انجام دینے کے بعد مکہ آنے پر، حج کے طواف ، اس کی نماز اور سعی بجا لانےسے پہلے یا ان کو انجام دینے کے بعد عمرہ تمتع کے طواف اور اس کی نماز کو قضا کے طور پر بجالائے۔ اس کا یہ عمل بھی حج تمتع کے لئے کافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی اور چیز نہیں رہے گی۔
اور اگر طواف کے دوران، چوتھے چکر کے اختتام پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی تو باقی طواف اور نماز کو چھوڑ کر سعی اور تقصیر کو انجام دے اور احرام سے خارج ہوجائے پھر حج تمتع کے لئے محرم ہوکر دونوں وقوف کو درک کرنے اور منی کے اعمال کو انجام دینے کے بعد واپس مکہ لوٹنے پر طواف، نماز اور سعی کو بجالانے کے بعد یا اس سے پہلے، عمرہ کا طواف(1) اور اس کی نماز بجا لائے، اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئےکافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی چیز نہیں ر ہےگی۔
مسئلہ ۲۲۔ حج کے اعمال اور اس کے احکام تیسری فصل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
1۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے مسئلہ نمبر 286 کی طرف رجوع کریں۔ - پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
- دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
- پہلي فصل :احرام باندھنے کےمیقات
- دوسري فصل :احرام
- 1۔ واجبات احرام
- 2۔ احرام کے مستحبات
- 3۔ احرام کے مکروہات3۔ احرام کے مکروہات
مسئلہ 1۵۸۔ سياہ ، ميلے اور دھاري دار کپڑےمیں احرام باندھنا مکروہ ہے اور بہتر يہ ہے کہ احرام کا لباس سفید رنگ کا ہو اسی طرح احرام کی حالت میں زرد بستر يا تکيے پر سونا مکروہ ہے اور احرام سے پہلے ایسی مہندی لگانا بھی مکروہ ہے جس کا رنگ احرام کی حالت تک باقی رہے۔ اسیطرح اگر اسے کوئي پکارے تو "لبيک" کے ساتھ جواب دينا بھی مکروہ ہے اوراحرام کی حالت میں حمام ميں جانا اور بدن کو کیسہ ( بدن کو صاف کرنے کے لئے حمام کا تھیلی نما کپڑا)یا اس جیسی دوسری اشیاء وغيرہ کے ساتھ دھونا بھي مکروہ ہے ۔ - 4۔ احرام کے محرمات
- محرمات احرام کے احکام
- 1۔ سِلے ہوئے لباس کا پہننا ( مردوں کے لئے)1۔ سِلے ہوئے لباس کا پہننا ( مردوں کے لئے)
مسئلہ ۱۶۲۔ سِلا ہوا لباس جیسے قمیص، قبا، شلوار، کوٹ، اوور کوٹ، اندرونی لباس، اور ان جیسے دوسرے لباس کا پہنا، اسیطرح بٹن لگے ہوئے کپڑے کہ جو بٹن لگنے کے بعد قمیض یا اس سے ملتی جلتی شکل بن جاتے ہیں، احرام کی حالت میں مردوں کے لئے پہننا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ 1۶۳۔ مذکورہ مسئلہ میں سِلے ہوئ لباس یا بُنے ہوئے لباس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶۴۔ سلی ہوئی ایسی چیز جس کا پہننا جو لباس شمار نہیں ہوتی ہے جیسے کمربند، یا و ہ تھيلي کہ جس ميں پيسے رکھے جاتے ہيں اور گھڑي کا پٹہ و غيرہ کے پہننے ميں کوئي اشکال نہيں ہے ۔
مسئلہ ۱۶۵۔ سِلے ہوئے بستر يا اس لباس پر بيٹھنے اور سونے میں کوئی حرج نہيں ہے کہ جس کا پہننا حرام ہے ۔
مسئلہ1۶۶۔ شانوں پر لحاف یا کمبل یا اس کے مانند کوئی اور چیز ڈالنا جسکا کنارہ سلا ہوا ہو، کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶۷۔ احرام کے کپڑوں کے کنارے سلے ہوئے ہونے میں کوئي حرج نہيں ہے ۔
مسئلہ ۱۶۸۔ اگر جان بوجھ کر سلا ہوا لباس پہنے تو ايک گوسفند کا کفارہ دينا واجب ہے اور اگر سلے ہوئے متعد د کپڑے پہنے جيسے شلوار ، قمیص ، کوٹ اور اندروني لباس پہنے تو ہر ايک کپڑے کے لئے الگ الگ کفارہ ادا کرنا ہو گا۔
مسئلہ ۱۶۹۔ اگر سردي یا بیماری یا کسی اور عذر کی وجہ سے مُحرم سِلے ہوئے کپڑے پہننے پر مجبور ہوجائے تو پہننا جائز ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر ایک گوسفند کفارہ دیدے۔
مسئلہ ۱۷۰۔ عورتوں کيلئے ہر قسم کاسِلا ہوالباس پہنجنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس ميں کفارہ بھی نہيں ہے لیکن ان کيلئے دستانے پہننا جائز نہيں ہے۔ - 2۔ پاؤں کا اوپر والا حصہ پورے طور پر ڈھانکنا ( مردوں کے لئے)2۔ پاؤں کا اوپر والا حصہ پورے طور پر ڈھانکنا ( مردوں کے لئے)
مسئلہ ۱۷۱۔ مرد احرام کي حالت ميں موزے اور جوراب نہ پہننے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ہر اس چيز کے پہننے سے اجتناب کرے جو پاؤں کے اوپر والے پورے حصے کو چھپالے جيسے جوتے اور چپل و غيرہ ۔
مسئلہ 1۷۲۔ اس چوڑي پٹي والے جوتے کے پہننے ميں کوئي اشکال نہيں ہے کہ جو پاؤں کے پورے اوپر والے حصے کو نہيں ڈھانپتا ۔
مسئلہ1۷۳۔ بيٹھنے يا سونے کي حالت ميں پاؤں پر لحاف و غيرہ کے رکھنے ميں کوئي حرج نہيں ہے اسي طرح اگر احرام کا لباس پاؤں پر آپڑے تو بھي کوئی حرج نہيں ہے ۔
مسئلہ1۷۴۔ اگر مُحرم ايسے جوتے و غيرہ کو پہننے پر مجبور ہو کہ جو پاؤں کے اوپر والے حصے کو پورا ڈھانپ لے تو اس کو پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ليکن احتیاط واجب يہ ہے کہ اسکے اوپر والے حصے کو کاٹ دیا جائے۔
مسئلہ 1۷۵۔ گزشتہ مسئلہ ميں مذکور جوتا اور جوراب و غيرہ پہنے تو کفارہ نہيں ہے لیکن جوراب پہننے کی صورت میں احتیاط مستحب کی بنا پر ايک گوسفندکفارہ دينا ہوگا۔
مسئلہ ۱۷۶۔ مذکورہ حکم ( جوتا اور جوراب و غيرہ کے پہننے کي حرمت ) مردوں کے ساتھ مختص ہے ليکن عورتوں کيلئے بھي احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسکي رعايت کرے ۔ - 3۔ مرد وں کا اپنا سر اور عورت کا اپنے چہرے کو ڈھا نپنا3۔ مرد وں کا اپنا سر اور عورت کا اپنے چہرے کو ڈھا نپنا
مسئلہ 177۔ محرم مرد کيلئے ٹوپي ، عمامے ، تولیہ ، رومال وغيرہ کے ساتھ اپنے سر کو ڈھانپنا جائز نہيں ہے۔
مسئلہ 178۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ مرد اپنے سر کے اوپر کوئي ايسي چيز نہ رکھے اور نہ لگائے جو اسکے سر کو ڈھانپ لے جيسے مہندي ، صابن کي جھاگ يا اپنے سر کے اوپر سامان اٹھانا و غيرہ ۔
مسئلہ 179۔ کان بھی سر کا حصہ ہيں اور احرام کي حالت ميں انہيں ڈھانپنا جائز نہيں ہے ۔
مسئلہ 180۔ سرکے بعض حصے کو اس طرح ڈھانپنا کہ اسے عرف ميں سر کا ڈھانپنا کہا جائے- جیسے چھوٹی سی ٹوپی سرکے درمیان میں رکھے- جائز نہيں۔ لیکن اس کے علاوہ جیسے قرآن اور اس جیسی دیگر چیزوں کو سر پر رکھنا یا اپنے سرکے بعض حصے کو تدريجاً خشک کرنا اشکال نہیں ہے۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ اس سے بھي اجتناب کیا جائے۔
مسئلہ 181۔ مُحرم کيلئے اپنے پورے سر کو پاني ميں ڈبونا جائز نہيں ہے اور علی الظاہر اس مسئلہ ميں مرد اور عورت کے درميان کوئی فرق نہيں ہے ليکن اگر پورے سر کو پانی میں ڈبو دے تو اس پر کوئی کفارہ نہيں ہے۔
مسئلہ 182۔ احتیاط واجب کي بناپر سر کو ڈھانپنے کا کفارہ ايک گوسفند ہے ۔
مسئلہ 1۸۳۔ اگر بھول کر يا غفلت کي وجہ سے سر کو ڈھانپے تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے۔
مسئلہ 1۸۴۔ عورتوں کيلئے احرام کي حالت ميں اپنے چہرے کو اس طرح سے چھپانا جس طرح سے نامحرم سے حجاب کرنے یا اپنی پہچان نہ ہونے کی خاطر چھپانا عورتوں میں متعارف ہے، اس طرح سے چہرہ چھپانا عورت کے لئے جائز نہیں ہے۔ بنابرایں چہرے کے بعض حصے کو ڈھانپنا کہ جس پر چہرے کا ڈھانپناصدق کرے جيسے حجاب کے لئے یا پہچان نہ کرانے کے لئے، رخساروں کو ناک ، منہ اور ٹھوڑي سميت ڈھانپنا جائز نہيں ہے ۔
مسئلہ 1۸۵۔ احرام کي حالت ميں عورتوں کيلئے ناک اور منہ ڈھانپنے کے لئے ماسک کا استعمال جائز ہے ۔
مسئلہ 1۸۶۔ چہرے کے اوپر ، نيچے يا دونوں اطراف کی اتني مقدار ڈھانپنا کہ جتنا رائج ہے اور جس طرح عورتيں نماز کے وقت چہرے کو ڈھانپنے کے لئے مقنعہ وغیرہ پہنتی ہیں کہ جس سے چہرے کا ڈھانپنا صدق نہيں آتا ہے، اس مقدار کو ڈھانپنا جائز ہے چاہے نماز ميں ہو يا غير نماز ميں۔
مسئلہ 1۸۷۔ چہرے کو پنکھے یا اسکی مانند دوسری چیزوں ( جيسے اخبار یا کاغذ۔۔۔) کے ساتھ ڈھانپنا حرام ہے لیکن چہرے پر ہاتھ رکھنے ميں کوئي اشکال نہيں ہے ۔
مسئلہ 1۸۸۔ احرام کی حالت میں عورت کيلے اپني چادر یا اس کپڑے کو جو سر پر رکھا ہے اس کے سرے کو اپنے چہرے پر ڈال سکتی ہےاس طرح سے کہ اسکے چہرے کے بعض حصے اور اسکي پيشاني کو ناک کے اوپر والے حصے تک ڈھانپ لے ليکن احوط یہ ہے کہ اگر کوئی نامحرم اسے نہیں دیکھتا ہے تو اس کام سے اجتناب کرے۔
مسئلہ 1۸۹۔ سابقہ مسئلہ ميں احوط يہ ہے کہ مذکورہ کپڑا اس کے چہرے کے ساتھ نہ لگ جائے۔
مسئلہ 1۹۰۔ چہرے کو ڈھانپنے پر کفارہ نہيں ہے لیکن احوط یہ ہے کہ کفارہ دیا جائے۔ - 4۔ سر پر سایہ قرار دینا (مردوں کيلئے )4۔ سر پر سایہ قرار دینا (مردوں کيلئے )
مسئلہ 1۹۱۔ مرد کيلئے احرام کي حالت ميں چلتے ہوئے اور منزليں طے کرتے ہوئے ( جيسے ميقات سے مکہ اور مکہ سے عرفات و غيرہ کی طرف چلنا) سر کے طور پر سايہ کرنا جائز نہيں ۔ لیکن اگر راستے ميں کہيں رک جائے يا منزل مقصود تک پہنچ جائے جيسے گھر يا ريسٹورنٹ ميں داخل ہوجائے تو سايہ کے نیچے چلے جانے میں کوئي حرج نہيں ہے پس چھت والي بس ميں سوار ہونا جائز نہيں ہے۔لیکن مکہ پہنچنے کے بعد گھروں یا ہوٹلوں میں سائے تلے چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 1۹۲۔ احوط يہ ہے کہ مُحرِم مکہ پہنچنے کے بعد اور اعمال عمرہ کو بجالانے سے پہلے اور اسیطرح عرفات اور منی میں احرام کی حالت میں متحرک سائوں کے نیچے جانے سے اجتناب کرے۔ جيسے چھت والي بس ميں سوار ہونا يا چھتري کا استعمال کرنا۔
مسئلہ 1۹۳۔ سابقہ دومسئلوں ميں مذکور حکم دن ميں سايہ کرنے کے ساتھ مختص ہے بنابرايں رات کے وقت چھت والي بس ميں سوار ہونے میں کوئی حرج نہيں ہے اگر چہ اس سلسلے میں احتياطکی رعایت کرنا مطلوب ہے۔
مسئلہ 1۹۴۔ باراني اور ٹھنڈي راتوں ميں احوط يہ ہے کہ چھت والي بسوں اور دیگر ایسی چیزوں ميں اگر بارش یا ٹھنڈ سے بچنے کی نیت سے ہو تو سوار ہونے سے پرہیز کیا جائے۔
مسئلہ 1۹۵۔ ديوار، درخت یا ان جیسی چیزوں کے سايے سے استفادہ کرنا اور اسي طرح ثابت چھتوں کے نیچے سے گزرنا جيسے سرنگ اور پُل وغیرہ کے نيچے سے عبور کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 1۹۶۔ مُحرم پر سايہ سےاستفادہ کرنے کي حرمت مردوں کے ساتھ مختص ہے پس عورتوں کيلئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 1۹۷۔ سايہ کے نیچے جانے کا کفارہ ايک گوسفند ہے ۔
مسئلہ 1۹۸۔ اگر بيماري يا کسي اور عذر کي وجہ سے سايہ تلے جانے پر مجبور ہو تو ايسا کرنا جائز ہے ليکن ايک گوسفند کفارہ دیدے ۔
مسئلہ 1۹۹۔ ہر احرام ميں سايہ تلے جانے کا صرف ايک کفارہ ہے اگر چہ باربار سايہ کے نیچے چلا جائے پس اگر عمرہ کے احرام میں کئی بار سائے تلے چلا جائے تو اس پر ايک سے زيادہ کفارہ واجب نہيں ہے اور اسي طرح حج کے احرام ميں۔ - 5۔ خوشبو کا استعمال5۔ خوشبو کا استعمال
مسئلہ ۲۰۰۔ احرام کي حالت ميں ہر قسم کا عطر استعمال کرنا حرام ہے جيسے مشک، عود، گلاب اوردوسری رائج خوشبو ئيں۔
مسئلہ ۲۰۱۔ پہلے سے معطر ہوئے لباس کا پہننا جب تک اس کی خوشبو باقی ہو، جائز نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۰۲۔ بنابر احتیاط، احرام کی حالت میں خوشبودار صابن اور شمیمپو کا استعمال کرنا جائز نہيں ہے۔
مسئلہ ۲۰۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ محرم خوشبودار چيزوں کے سونگھنے سے اجتناب کرے اگرچہ اس پر عطر صدق نہ جیسے پھول ، خوشبودار سبزياں اور خوشبودار میوئے۔
مسئلہ ۲۰۴۔ محرم کيلئے ايسا کھانا کھانا جائز نہيں کہ جس ميں زعفران ڈالا گيا ہو۔
مسئلہ ۲۰۵۔ محرم کے لئے سيب اور مالٹے جيسے خوشبودار پھلوں کے کھانے ميں کوئي حرج نہيں ہے ليکن احتیاط واجب يہ ہے کہ انہيں سونگھنے سے پرہیز کرے۔
مسئلہ ۲۰۶۔ محرم کو بدبو کے مقابلے میں اپنی ناک کو بند نہیں کرنا چاہیےلیکن بدبو والي جگہ سے باہر نکل جانے اور اس سے عبور کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۰۷۔ اگر خوشبو اور عطر کو جان بوجھ کر استعمال کرے تو احتیاط واجب يہ ہے کہ ايک گوسفندکفارہ دے ، خواہ کھانے ميں ہو جيسے زعفران ياکھانے ميں نہ ہو۔ - 6۔ آئينے ميں ديکھنا6۔ آئينے ميں ديکھنا
مسئلہ ۲۰۸۔ احرام کي حالت ميں زينت کي غرض سے آئينے ميں ديکھنا حرام ہے ليکن زینت کی قصد کے بغیر دیکھے(جيسےگاڑي چلاتے هوئے ڈرائیور کا گاڑی کے آئینے میں دیکھنا)تو کوئي حرج نہيں ہے۔
مسئلہ ۲۰۹۔ صاف پاني يا صيقل کي ہوئي چيزوں ميں ديکھنا کہ جن ميں تصويریں دیکھی جاسکتی ہیں، آئينے ميں ديکھنے کا حکم رکھتا ہے پس اگر زينت کي غرض سے ہو تو جائز نہيں ہے۔
مسئلہ ۲۱۰۔ اگر ايسے کمرے ميں رہتا ہو کہ جس ميں آئينہ ہے اور اسے علم ہو کہ بھول کر اسکي نظر آئينے پر پڑجائيگي تو اس کمرے میں رہنے میں کوئی حرج نہيں ہے ليکن بہتر يہ ہے کہ آئينے کو کمرے سے نکال دے يا اسے ڈھانپ دے۔
مسئلہ۲۱۱۔ عينک اگر زینت کے لئے نہ ہو تو پہننے ميں کوئي حرج نہيں ہے۔
مسئلہ ۲۱۲۔ احرام کي حالت ميں تصوير کھینچنے یا ویڈیو بنانے ميں کوئي حرج نہيں ہے۔
مسئلہ ۲۱۳۔ آئينے ميں ديکھنے پر کفارہ نہيں ہے ليکن احتیاط واجب يہ ہے کہ آئینہ ديکھنے کے بعد لبیک کہے۔ - 7۔ انگوٹھي پہننا7۔ انگوٹھي پہننا
مسئلہ ۲۱۴۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ محرم انگوٹھي اگر زینت شمار ہوتی ہو تو پہننے سے اجتناب کرے۔
مسئلہ ۲۱۵۔ اگر انگوٹھي زينت کيلئے نہ ہو بلکہ استحباب کے قصد سےیا کسی دوسری غرض سے انگوٹھي پہنےتو کوئي حرج نہيں ہے۔
مسئلہ ۲۱۶۔ احرام کي حالت ميں انگوٹھي پہننےپر کفارہ نہيں ہے ۔ - 8۔ مہندي اور بالوں کا رنگ استعمال کرنا8۔ مہندي اور بالوں کا رنگ استعمال کرنا
مسئلہ ۲۱۷۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ اگر زينت شمار ہو تو محرم مہندي کے استعمال اور بالوں کو رنگنے سے اجتناب کرے بلکہ ہر اس شے سے اجتناب کرےجو زينت شمار ہوتی ہے۔
مسئلہ ۲۱۸۔ اگر احرام سے پہلے اپنے ہاتھوں ، پيروں اور ناخنوں پر مہندي لگائے يا اپنے بالوں کو رنگ کرے اور احرام کے وقت تک ان کا اثر باقي رہے تو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے ۔
مسئلہ ۲۱۹۔ مہندي اور بال کے رنگ کے استعمال کرنے ميں کفارہ نہيں ہے ۔ - 9۔ بدن پر تيل لگانا9۔ بدن پر تيل لگانا
مسئلہ ۲۲۰۔ محرم کيلئے اپنے بدن اور بالوں پر تيل لگانا جائز نہيں ہے چاہے زینت کے لئے استعمال ہونے والاتيل ہو یا اس کے علاوہ کوئی او رتیل سے ، چاہے وہ خوشبودار ہو یا بغیر خوشبو والا۔
مسئلہ ۲۲۱۔ اگر خوشبودارتيل کي خوشبو احرام کے وقت تک باقي رہے گی تو احرام سے پہلے بھي ايسا تيل لگان جائز نہیں ہے ۔
مسئلہ ۲۲۲۔ ایسے تيل( گھي) اور چربی کے کھانے ميں کوئي حرج نہيں ہے جس میں خوشبو نہ ہو ۔
مسئلہ ۲۲۳۔ اگر علاج کي غرض سے يا سورج کی نقصان دہ کرنوں کو روکنے یا بدن میں ورم اور جلن پیدا کرنے والے پسینے کی وجہ سے تیل استعمال کرنے پر مجبور ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔
مسئلہ ۲۲۴۔ خوشبو والا تيل لگانے کا کفارہ بنابر احتیاط ايک گوسفند ہے اوربغیر خوشبو والے تیل کے لئے کفارہ ايک فقير کوکھانا کھلانا ہے۔ اگر چہ بعید نہیں کہ ان موارد ميں کفارہ واجب نہ ہو۔ - 10۔ بدن کے بالوں کو زائل کرنا10۔ بدن کے بالوں کو زائل کرنا
مسئلہ ۲۲۵۔ احرام کی حالت میں سر اور بدن کے کسی بھی حصے سےبالوں کو زائل کرنا حرام ہے چاہے اسکی مقدار کم ہو یا زیادہ ، اسي طرح بال کاٹنے اور نوچنے میں بھی فرق نہيں ہےنيز کوئي فرق نہيں ہے کہ اپنے سر اور بدن کے بال زائل کرے يا کسي اور کے سر اور بدن کے بال ۔
مسئلہ ۲۲۶۔ وضو، غسل يا تيمم کرتے ہوئے بغیر قصد کے کوئی بال گرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۲۷۔ اگر بالوں کے زائل کرنے پر مجبور ہو جيسے آنکھوں کی پلکوں کے بال جو تکلیف کا باعث بنیں يا سر کے بال جو سر میں درد کا موجب بن جائے تو ایسے بالوں کو صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۲۲۸۔ اگر محرم جان بوجھ کر اپنا سر مونڈے تو ايک گوسفند کفارہ دینا چاہیے ليکن اگر غفلت ، بھولنے يا مسئلہ سے لاعلمي کي وجہ سے ہو تو کوئي کفارہ نہيں ہے ۔
مسئلہ ۲۲۹۔ اگر اپنا سر مونڈنے پر مجبور ہو تو اس کا کفارہ بارہ مُد طعام ہے جو چھ مساکين کو ديا جائيگا يا تين دن روزہ رکھے يا ايک گوسفند دے ۔
مسئلہ ۲۳۰۔ اگر محرم قينچي يامشين سے اپنے سر کے بال کاٹے تو احتیاط واجب ايک گوسفند کفارہ ديدے۔
مسئلہ ۲۳۱۔ اگر محرم اپنے پر ہاتھ پھیرےاور ايک يا ایک سے زيادہ بال گرجائيں تو احتیاط مستحب يہ ہے کہ مٹھي بھر گندم ، آٹا اور ان جيسي کسي چيز کا صدقہ فقیر کو دے ۔ - 11۔ سرمہ لگانا11۔ سرمہ لگانا
مسئلہ ۲۳۲۔ سرمہ لگانا اگر زينت شمار کيا جائے تو محرم کيلئے جائز نہيں ہے اسي طرح آنکھوں کے گرد خط کھینچنا، جو عام طور پر عورتیں انجام دیتی ہیں، جائز نہیں ہے اور اس ميں سياہ اور غير سياہ رنگ کے درميان بھی کوئي فرق نہيں ہے۔ - 12۔ ناخن کاٹنا12۔ ناخن کاٹنا
مسئلہ ۲۳۳۔ محرم کيلئے اپنے ہاتھ یا پاوں کے ناخن کاٹنا حرام ہے چاہے تمام ناخن کاٹے یا ان میں سے کچھ کاٹےاور اسیطرح کے ناخن کاٹنے ، تراشنے اور اکھاڑنے کے درميان فرق نہیں ہے چاہےقينچي سے کاٹے یا ناخن گیر سےیا چاقو ياکسي اور وسیلے سے ۔
مسئلہ ۲۳۴۔ اگر ناخن کاٹنے پر مجبور ہوجائے تو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے مثلاً اگر ناخن کا کچھ حصہ ٹوٹ جائے اور باقي حصہ تکليف کا باعث ہو ۔
مسئلہ 2۳۵۔ دوسروں کے ناخن کاٹنے ميں کوئي حرج نہيں ہے۔
مسئلہ 2۳۶۔ احرام کي حالت ميں ناخن کاٹنے کا کفارہ مندرجہ ذيل ہے۔
• اگر اپنے ہاتھ پاؤں کا ايک يا زيادہ ناخن کاٹے تو ہر ايک ناخن کے بدلے ايک مد طعام کفارہ دينا ہوگا ۔
• اگر ہاتھ يا پاؤں کے تمام ناخن کاٹے تو ايک گوسفند کفارہ دينا ہوگا۔
• اگر ايک ہي وقت ميں ہاتھ اور پاؤں کے پورے ناخن کاٹے تو ايک گوسفند کفارہ ميں دينا ہوگا اور اگر ہاتھ کے ناخن ايک وقت ميں اور پاؤں کے دوسري وقت ميں کاٹے تو دو گوسفند کفارے ميں دينا ہوں گے ۔ - 13۔ بدن سے خون نکالنا اور دانت نکالنا13۔ بدن سے خون نکالنا اور دانت نکالنا
مسئلہ 2۳۷۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ محرم ايسا کام نہ کرے جس سے اسکے بدن سے خون نکل آئے ۔
مسئلہ 2۳۸۔ احرام کي حالت ميں انجکشن لگانے میں کوئی حرج نہيں ہے ليکن اگر اسکي وجہ سے بدن سے خون نکل آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ ضروری موارد کے سواے دیگر مواقع میں اس سے اجتناب کيا جائے ۔
مسئلہ 2۳۹۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر دانت نکالنے سے خون نکلتا ہو تو ، مجبور یاور ضرورت نہ ہو تو دانت نکلوانے سے پرہیز کرے ۔
مسئلہ ۲۴۰۔ بدن سے خون نکالنے کي صورت ميں کفارہ نہيں ہے لیکن ايک گوسفند کفارے ميں دينا مستحب ہے۔ - 14۔ فسوق14۔ فسوق
مسئلہ 2۴۱۔ فسوق ، جھوٹ بولنے، گالياں دينے اورفخر کا اظہار کرنے کو کہتے ہیں اس بناپر احرام کي حالت ميں جھوٹ بولنے اور گالي دينے کي حرمت غير احرام کي حالت سے زيادہ ہے ۔
ليکن فخر کا اظہارکرنا عام حالات میں حرام نہيں ہے ليکن احرام کی حالت میں حرام ہے ۔
مسئلہ 2۴۲۔ فسوق ميں کفارہ واجب نہيں ہےاور صرف استغفار کرنا چاہیے ۔ - 15۔ جدال15۔ جدال
مسئلہ 2۴۳۔ دوسروں کے ساتھ جدال کرنا خدا کی قسم کھانے پر مشتمل ہو تو محرم کے لئے حرام ہے جیسا کہ نزاع کرتے ہوئے "لا واللہ " يا " بلي واللہ" کہنے۔
مسئلہ 2۴۴۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ اس لفظ کے ساتھ بھی قسم اٹھانے سے اجتناب کيا جائے کہ جسے ديگر زبانوں ميں لفظ "اللہ" کا ترجمہ شمار کيا جاتا ہے جيسے فارسي ميں لفظ "خدا" ہے اور اسي طرح احتیاط واحب يہ ہے کہ جھگڑتے وقت اللہ تعالي کے ديگر ناموں کے ساتھ قسم اٹھانے سے بھی پرہیز کيا جائے جيسے "رحمن، رحيم ، قادر ، متعال ۔۔۔و غيرہ"۔
مسئلہ2۴۵۔ اللہ تعالي کے علاوہ ديگر مقدس چيزوں کي قسم اٹھانا احرام کے محرمات ميں سے نہيں ہے ۔
مسئلہ 2۴۶۔ اگر سچي قسم زبان پر جاری کرے تو پہلي اور دوسري مرتبہ ميں صرف استغفار واجب ہے اور اس پر کفارہ نہيں ہے ليکن اگر دومرتبہ سے زيادہ قسم اٹھائے تو کفارے ميں ايک گوسفند دينا چاہیے۔
مسئلہ 2۴۷۔ اگر جھوٹي قسم اٹھائے تو پہلي اور دوسري مرتبہ ميں ايک گوسفند کفارہ دےاور احوط يہ ہے کہ دوسري مرتبہ ميں دو گوسفند دے اور اگر دومرتبہ سے زيادہ جھوٹی قسم کھائے تو کفارہ ميں ايک گائے دينا واجب ہے۔ - 16۔ جسم پر موجود حشرات کو مارنا16۔ جسم پر موجود حشرات کو مارنا
مسئلہ 2۴۸۔ بنابر احتیاط احرام کي حالت ميں بدن کے جوؤں کو مارنا جائز نہيں ہے ۔ اور دوسرے حشرات کے بارے میں بھی جيسے پِسُّو وغیرہ، ایسا ہی حکم ہے۔ - 17۔ حرم کی گھاس اور درختوں کو کاٹنا17۔ حرم کی گھاس اور درختوں کو کاٹنا
مسئلہ 2۴۹۔ حرم ميں اُگے ہوئے درخت اور گھاس کو قطع کرنا ، کاٹنا اور توڑنا حرام ہے اور اس ميں محرم اور غير محرم کے درميان کوئي فرق نہيں۔
مسئلہ 2۵۰۔ مذکورہ حکم سے گھاس مستثني ہیں جو راستہ چلنے کي وجہ سےاکھڑ جاتے ہیں یا حیوانوں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔
مسئلہ 2۵۱۔ حرم سےخشک گھاس ، اور خشک پودے اکھاڑنے پر کفارہ نہيں ہے لیکن استغفار واجب ہے ليکن اگر ایسے درخت کو کاٹے جس کاکاٹنا حرام ہے تو احتیاط واجب يہ ہے کہ ايک گائے کفارے ميں دے ۔ - 18۔ اسلحہ ساتھ رکھنا18۔ اسلحہ ساتھ رکھنا
مسئلہ ۲۵۲۔ محرم کيلئے اسلحہ ساتھ رکھنا جائز نہيں ہے ۔
مسئلہ 2۵۳۔ اپني جان يا کسي دوسرے کي جان کي حفاظت کيلئے اسلحہ رکھنا ضروری ہو تو اسلحہ ساتھ رکھنا جائز ہے۔ - 19۔ جنگلی جانوروں کا شکار کرنا19۔ جنگلی جانوروں کا شکار کرنا
مسئلہ 2۵۴۔ احرام کي حالت ميں جنگلی جانوروں کا شکار کرنا حرام ہے۔ مگر یہ کہ جانور کی جانب سے نقصان پہنچانے کاخوف ہو۔ اسي طرح پرندوں اور ٹڈي کا شکار کرنا بھي حرام ہے ۔
مسئلہ ۲۵۵۔ محرم کيلئے شکار کا گوشت کھانا حرام ہے چاہے اس نے خود اسے شکار کيا ہو يا کسي اور نے اور چاہے شکار کرنے والا محرم ہو يا نہ ہو۔
مسئلہ 2۵۶۔ دريائي جانوروں جیسے مچھلی وغیرہ کے شکار کرنے اور انکے کھانے ميں کوئي حرج نہيں ہے۔
مسئلہ 2۵۷۔ پالتو جانوروں کو ذبح کرنے اورانکا گوشت کھانے ميں کوئي حرج نہيں ہے جيسے گوسفند، مرغي وغيرہ ۔
مسئلہ 2۵۸۔ حرم کے احاطے میں شکار کرنا جائز نہيں ہے چاہے محرم ہو يا نہ ہو۔
نوٹ: احرام کي حالت ميں شکار کرنے اور اسکے کفارات کے احکام بہت زيادہ ہيں لیکن چونکہ موجودہ دور ميں يہ مسائل پيش نہيں آتے اسلئے ہم ان سے صرفِ نظر کر رے ہيں۔ - 20۔ جماع20۔ جماع
مسئلہ 2۵۹۔ احرام کي حالت ميں جماع اور بيوي سے ہر قسم کي لذت حاصل کرنا ، جيسے بوسہ لینا، اسکے بدن کو چھونا ، اسکي طرف شہوت کے ساتھ ديکھنا، حرام ہے ۔
مسئلہ 2۶۰۔ مياں بيوي ميں سے ہر ايک کا دوسرے کي طرف ديکھنا اور ایک دوسرے کے ہاتھ کو چھونا اگر شہوت اور لذت سے نہ ہوتو کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 2۶۱۔ انسان کے محارم جیسے باپ، ماں ، بھائي ، بہن اور چچا، پھوپھي و غيرہ احرام کي حالت ميں بھي اس کے لئے مَحرم ہيں اورشہوت کے قصد کے بغیر دیکھنے میں کو ئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ 2۶۲۔ بيوي کے ساتھ جماع کرنے کا کفارہ ايک اونٹ ہے اور بعض موارد ميں یہ کام حج کےباطل ہونے کا سبب بن جاتا ہے اور اسکي تفصيل فقہ کي مفصل کتابوں ميں ذکر کی گئی ہے۔
مسئلہ ۲۶۳۔ ديگر لذات ميں سے ہر ايک کيلئے بھی ايک کفارہ ہے کہ جنکي تفصيل فقہي کتابوں ميں ذکر کی گئی ہے۔ - 21۔ عورت کا نکاح کرنا21۔ عورت کا نکاح کرنا
مسئلہ 2۶۴۔ احرام کي حالت ميں جائز نہیں ہے کہ کسی عورت کو اپنےلئے یا دوسرے کے لئے عقد پڑھے، چاہے وہ
دوسرا شخص احرام کی حالت میں نہ ہو اور اس قسم کا عقد باطل ہے ۔
مسئلہ 2۶۵۔ عقد جاری کرنے کے حرام ہونے میں عقد دائم اورموقت کے درميان کوئي فرق نہيں ہے ۔ - 22۔ استمناء22۔ استمناء
مسئلہ 2۶۶۔ احرام کي حالت ميں استمناءکرنا حرام ہے اور اس کا حکم جماع والا حکم ہے۔اور اس سے مراد ایسا کام انجام دینا ہےجو منی خارج ہونے کا سبب بنے۔
-
- کفاروں کے احکام
-
-
- تیسری فصل: طواف اور اس کی نماز
- چوتھي فصل :صفا اور مروہ کے درمیان سعي
- پانچويں فصل: تقصيرپانچويں فصل: تقصير
مسئلہ ۳۶۲۔ عمرہ کے واجبات ميں سے پانچواں واجب تقصیر ہے۔
مسئلہ ۳۶۳۔ سعي انجام دینے کے بعد تقصير کرنا واجب ہے یعنی اپنے سر کے بال یا داڑھی یا مونچھوں میں سے ٹھوڑے سے بال یا اپنے ہاتھ یا پاوں کے تھوڑے سے ناخن کاٹ لے۔
مسئلہ ۳۶۴۔ تقصيرعمرہ کے دوسرے اعمال کی طرح عبادات میں سے ہے اور اس کے لئے بھی نیت کرنی چاہیے جس طرح احرام کی نیت کے بارے میں بیان کیاگیا ۔
مسئلہ ۳۶۵۔ عمرہ تمتع سے خارج ہونے کيلئے حلق (سر کا مونڈنا)کافی نہیں ہے اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کے لئے حتما تقصیر کرنی چاہیے او راگر تقصیر کرنے سے پہلے مسئلہ کو جانتے ہوئے اور جان بوجھ کر سر مونڈ لے تو نہ فقط یہ کہ یہ کافی نہیں ہے بلکہ اسے ایک گوسفند کفارہ بھی دینا ہوگا لیکن اگر عمرہ مفردہ کے لئےمحرم ہوا ہو تو تقصیر یا حلق میں سے کسی ایک کو انجام دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۳۶۶۔ عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کيلئے بالوں کا نوچنا کافي نہيں ہے بلکہ جس طرح سے کہا گیا اسی طرح سے تقصیر کرنا چاہیے۔ پس اگر جان بوجھ کر اور مسئلہ جاننے کے باوجود تقصير کے بجائے اپنے بالوں کو نوچے تو نہ فقط يہ کافي نہيں بلکہ اسےبال نوچنے کا کفارہ بھي دینا ہوگا۔
مسئلہ ۳۶۷۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کي وجہ سے تقصير کے بجائے بالوں کو نوچے اور پھر حج کو بجالائے تو اس کا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج اِفراد کہلائے گا اور اس صورت میں اگر اس پر حج واجب تھی تو بنا بر احتیاط واجب اعمال حج بجا لانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ انجام دے اور آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج کو دوبارہ بجالائے۔ جس نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے تقصیر کے بجائے حلق کیا اور پھر پورا جج بجالایا ہو تو اس کا حکم بھی یہی ہے۔ ۔
مسئلہ ۳۶۸۔ : سعي کے بعد تقصير کي انجام دہي ميں جلدي کرنا واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۳۶۹۔ اگر جان بوجھ کر يا لاعلمي کي وجہ سے تقصير کو ترک کر کے حج کا احرام باندھ لے تو بنابر اقوی اس کا عمرہ باطل ہے اور اس کا حج ، حج اِفراد ہوجائيگا اور احتیاط واجب يہ ہے کہ حج کے بعد عمرہ مفردہ کو بجالائے اور اگر اس کا حج واجب تھا تو اسےآئندہ سال عمرہ اور حج کو دوبارہ انجام دینا چاہیے۔
مسئلہ ۳۷۰۔ اگر بھول کر تقصير کو ترک کردے اور حج کيلئے احرام باندھ لے تو اس کا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر کوئي کفارہ نہيں ہے لیکن مستحب ہے کہ ایک گوسفندکفارہ دے بلکہ احوط یہ ہے کہ کفارہ دینے کو ترک نہ کرے۔
مسئلہ ۳۷۱۔ تقصير اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہون کے بعد احرام کے تمام محرمات حتی کہ بیوی بھی اس پر حلال ہوجاتی ہے۔
مسئلہ ۳۷۲۔ عمرہ تمتع ميں طواف النساءواجب نہيں ہے اگر چہ احتیاط يہ ہے کہ ثواب کی امید سے تقصیر سے پہلے طواف النساءاور اسکي نماز کو بجالائے ليکن اگر عمرہ مفردہ کی نیت سے احرام باندھا ہو تو تقصير يا حلق کے بعد اس صورت میں اس پر بیوی حلال ہوگی کہ اس نے طواف النساءاور نماز طواف کو بجالایا ہو۔ طواف نساءکا طريقہ اور احکام، طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں کہ جو پہلے بیان ہوئی ہے۔
مسئلہ ۳۷۳۔ علی الظاہر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج کيلئے الگ الگ طواف النساء بجا لانا چاہیے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايک حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو بیوی اس پر حلال ہونے کے لئے اگر چہ بعید نہیں ہے کہ ایک طواف النسا کافی ہو لیکن اعمال کی تکمیل کے لئے دونوں عمرہ میں سے ہر ایک کے لئے یا ایک عمرہ اور ایک حج کے لئے الگ الگ طواف النسا بجا لانا چاہیے.
-
- تیسرا حصہ حج کے اعمال
- حج اور عمرہ کے استفتائات
مسئلہ 1۵۷۔ مستحب ہے کہ احرام سے پہلے بدن پاک ہو ، بدن کے زائد بالوں کا صاف کیے جائیں، اورناخن کاٹے جائیں۔ احرام سے پہلے مسواک کرنا بھی مستحب ہے، اسی طرح مستحب ہے کہ ميقات پر پہنچنے سے پہلے، مثلاً مدينہ ميں، غسل کیا جائے اور کہا گیا ہے(1) کہ احوط یہ ہے کہ اس غسل کو ترک نہ کیا جائے۔
اور مستحب ہے کہ نماز ظہر يا کسي اور فريضہ نماز يا دورکعت نافلہ نماز کے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ رکعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسکي بہت زيادہ فضيلت ہے ۔ اور اسی طرح جو شخص حج بجالانا چاہتا ہے اس کے لئے مستحب ہے کہ ذي القعدہ کي پہلي تاريخ سے اپنے سر اورداڑھي کے بالوں کو نہ کاٹے۔
1 . مسئلہ : 156