دریافت:
مناسک حج
- مقدمه: حج کی فضیلت اور اہمیت
- پہلی فصل:کلیات
- حج کا وجوب اوراس کو ترک کرنے کا حکم
- حج اور عمرہ کی اقسام
حج اور عمرہ کی اقسام
3۔ جو حج انسان انجام دیتا ہے، وہ یا اس پر خود واجب ہوتا ہے اور اپنے لیے انجام دیتا ہے، یا کسی اور پر واجب ہوا ہے اور اس کی نیابت میں انجام دیتا ہے۔ اس قسم کے حج کو "حجِ نیابی" کہتے ہیں۔
حج کی دو قسمیں ہیں: واجب اور مستحب۔
4۔ شریعتِ اسلام میں ہر وہ مسلمان جو حج کی استطاعت رکھتا ہو، اس پر زندگی میں ایک بار حج بجالانا واجب ہے جس کو "حجةالاسلام "کہا جاتا ہے۔ حج باطل ہونے یا نذر وغیرہ کی وجہ سے بھی حج کا واجب ہونا ممکن ہے۔
5۔ حج، تین قسموں یعنی تمتّع، افراد اور قِران میں تقسیم ہوتا ہے۔
پہلی قسم، یعنی حجِ تمتّع، ان لوگوں پر واجب ہے جن کا وطن مکہ سے 48 میل (تقریباً 82 کلومیٹر) سے زیادہ فاصلہ ہو۔
دوسری اور تیسری قسم یعنی افراد اور قِران، ان لوگوں پر واجب ہے جو مکہ کے رہائشی ہوں یا ان کی رہائش گاہ کا مکہ سےفاصلہ مذکورہ مسافت سے کم ہو۔
6۔ حج تمتع، حج قِران اور اِفراد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ حج تمتع، عمرہ اور حج پر مشتمل ایک عبادت ہے ۔ اس کا پہلا حصہ عمرہ تمتع ہے جو حج پر مقدم ہوتا ہے اور عمرہ او رحج کے درمیان فاصلہ زمانی بھی پایا جاتا ہےاگرچہ مختصر کیوں نہ ہو اور اس فاصلے میں انسان احرام سے باہر آجاتا ہے اور وہ سب چیزیں جو احرام کی حالت میں حرام تھیں، حلال ہو جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسے حج تمتّع کہا جاتا ہے۔
دوسرا حصہ حجِ تمتّع ہے جو عمرہ کے بعد انجام دیا جاتا ہے اور دونوں عبادتیں ایک ہی سال میں ہونی چاہئیں۔ اس کے برعکس حج افراد اور قِران صرف حج پر مشتمل ہوتا ہے ، جبکہ عمرہ الگ اور مستقل عبادت ہے جسے عمرہ مفردہ کہا جاتا ہےاسی وجہ سے عمرہ مفردہ کو ایک سال میں اور حجِ افراد یا قِران کو دوسرے سال میں انجام دینا ممکن ہے۔
7۔ عمرہ تمتّع اور عمرہ مفردہ کے بعض احکام مشترک ہیں، جنہیں باب چہارم میں بیان کیا جائے گا، اور کچھ فرق بھی ہیں، جن کا ذکر باب ششم میں ہوگا۔
8۔ عمرہ بھی حج کی طرح بعض اوقات واجب اور بعض اوقات مستحب ہوتا ہے۔
9۔ اسلام میں اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت رکھتا ہو (چنانچہ حج کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے[1])، تو اس پر عمر میں ایک بار عمرہ کرنا واجب ہے، اور حج کی طرح اس کابھی واجب ہونا فوری ہے [2] اور اس کے وجوب میں حج بجالانے کی استطاعت شرط نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت پیدا کرلے تو اس پر عمرہ واجب ہوجاتا ہےاگرچہ وہ حج کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح اس کے برعکس یعنی اگر کوئی حج کی استطاعت رکھتا ہو لیکن عمرہ کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو حج انجام دینا چاہئے۔ یہ حکم ان افراد کے لیے ہے جو مکہ یا مکہ سے 48 میل (تقریباً 82 کلومیٹر) کے اندر رہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ مکہ سے دور رہتے ہیں اور ان کا وظیفہ حجِ تمتّع بجالانا ہے اس لیے حج اور عمرہ کی استطاعت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے کیونکہ حجِ تمتّع ، عمرہ اور حج دونوں پر مشتمل ہے اور دونوں کو ایک ہی سال میں انجام دیا جاتا ہے۔
10۔ کسی بھی مکلف شخص کے لیے جائز نہیں کہ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہو چنانچہ حج کے علاوہ کسی اور موسم میں مکہ جانا چاہے تو عمرہ مفردہ کے احرام کے ساتھ مکہ میں داخل ہونا واجب ہے۔ البتہ دو قسم کے لوگ اس حکم سے مستثنی ہیں:
الف) وہ لوگ جن کاپیشہ مکہ میں بار بار آنا جانا ہے۔
ب) وہ افراد جو حج یا عمرہ کے اعمال کے بعد مکہ سے باہر گئے ہیں اور جس مہینے میں حج یا عمرہ انجام دیا ہے اسی قمری مہینے کے اندر دوبارہ مکہ آنا چاہتے ہیں۔
حجِ افراد اور قِران
11۔ حجِ افراد کی کیفیت (طریقہ کار) حجِ تمتّع جیسی ہی ہے،البتہ اس لحاظ سے فرق ہے کہ حج تمتّع کا میقات مکہ ہے جبکہ حجِ افراد کا احرام پانچ مخصوص مقامات (میقات) سے باندھا جاتا ہے، جن کا ذکر آگے آئے گا۔ جو لوگ میقات یا میقات کے مساوی مقام اور مکہ کے درمیان رہتے ہیں ، ان کے لیے اپنی رہائش گاہ میقات ہے اور احرام باندھنے کے لئے کسی میقات تک جانا واجب نہیں اسی طرح حجِ تمتّع میں قربانی واجب ہے جبکہ حجِ افراد میں قربانی مستحب ہے۔
12۔ حجِ قِران کی کیفیت بھی حجِ افراد کی طرح ہے البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حج قران میں احرام باندھتے وقت حاجی کے ساتھ قربانی کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا قربانی واجب ہے۔ اسی طرح حجِ قِران میں لبیک کہنے ، اشعار یا تقلید [3]سے احرام محقّق ہوجاتا ہے جبکہ حجِ افراد میں صرف لبیک کہنے سے احرام محقّق ہوتا ہے۔
حجِ افراد اور قِران کے استفتاءات
13۔ جو شخص حجِ افراد بجالارہا ہے خواہ واجب ہو یا مستحب، اور اس سے پہلے کئی عمرے کر چکا ہے، کیا اس پر لازم ہے کہ اس حجِ افراد کے لیے ایک اور عمرہ بھی کرے؟
جواب: نہیں، اس پر عمرہ واجب نہیں سوائے ان صورتوں کے جب حجِ تمتّع کسی وجہ سے حجِ افراد میں تبدیل کر دیا گیا ہو۔
14۔ جو شخص حجِ افراد کے لیے احرام باندھ چکا ہے، کیا وہ طواف و سعی سے پہلے یا بعد میں جدّہ یا کسی اور جگہ جا کر وہاں سے عرفات جاسکتا ہے؟
جواب: اگر وہ عرفات اور مشعر میں وقوف کو درک کر سکے، تو کوئی اشکال نہیں۔
15۔ جو خاتون حجِ افراد انجام دے رہی ہے، کیا وہ عید قربان کی رات کو رمیِ جمرات کے بعد تقصیر کر سکتی ہے؟
جواب:وہ منیٰ میں تقصیر کر سکتی ہے۔
16۔ جس مسافت کے اندر رہنے والے حجِ افرادبجالاتے ہیں، وہ مکہ سے 82 کلومیٹر ہے۔یہ فاصلہ کہاں سے شمار کیا جائے گا؟ اگر جدّہ کے آخری گھروں اور مکہ کے ابتدائی گھروں کے درمیان فاصلے کی پیمائش کی جائے تو کیا نئے محلے معیار ہیں یا پرانے؟
جواب: نئے محلّے معیار ہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ رہائشی مقام پر اپنے گھر سے حساب کیا جائے۔
حجِ تمتّع کا خاکہ
17۔حجِ تمتّع دو اعمال پر مشتمل ہے: عمرۂ تمتّع اور حجِ تمتّع
عمرۂ تمتّع حج سے پہلے انجام دیا جاتا ہے، اور ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اعمال ہیں جن کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
18۔ عمرۂ تمتّع کے اعمال درج ذیل ہیں:
1. احرام
2. طوافِ کعبہ
3. نمازِ طواف
4. سعی
5. تقصیر
19۔ حجِ تمتّع کے اعمال درج ذیل ہیں:
1. احرام
2. عرفات میں وقوف
3. مشعر الحرام میں وقوف
4. جمرۂ عَقَبہ پر کنکریاں مارنا
5. قربانی
6. سر منڈوانا یا تقصیر
7. طوافِ حج
8. نمازِ طواف
9. سعی
10. طوافِ نساء
11. نمازِ طوافِ نساء
12. منیٰ میں بیتوتہ[4]
13. تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا
[1] مسئلہ 27 کے بعد
[2] یعنی استطاعت حاصل ہونے کے بعد ابتدائی ممکنہ سال میں انجام دینا چاہئے اور کسی عذر کے بغیر تاخیر جائز نہیں ہے۔
[3] اشعار یعنی اونٹ کا کوہان زخمی یا خون آلود کرنا اور تقلید یعنی حیوان کے پاوں میں نعلین یا گردن میں رسی باندھنا تاکہ قربانی کا جانور ہونا معلوم ہوجائے۔
[4] بیتوتہ کا مطلب کسی جگہ رات گزارنا ہے
- حجِ تمتع کے عمومی احکام
-
- فصل دوم: واجب حج (حجّة الاسلام)
- تیسر ی فصل: حج نیابتی (کسی کی طرف سے حج کرنا)