دریافت:
مناسک حج
- حج کی فضيلت اور اہمیتمقدمهحج کی فضيلت اور اہمیت
شریعت میں حج ، چند خاص اعمال اور مناسک کے ایک مجموعے کا نام ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے جيسا کہ امام محمدباقر علیہ السلام سے روايت ہے :
" بُني الاسلام علي خمس علي الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولاية"(1)
ترجمہ: «اسلام پانچ بنيادوں پر استوار ہے:نماز ، زکات ، روزہ ، حج اور ولايت »
حج ، خواہ واجب ہو یا مستحب، اسکی بہت زیادہ فضيلت اور اجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرم اور اہل بيت (عليہم السلام) سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں، چنانچہ امام صادق سے روايت ہے:
"الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم "(2)
"حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے، اگر شفاعت کريں تو قبول کرتاہے اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔
1۔ کافی، ج۲، ص ۱۸، ح ۱؛ وسائل الشیعه، ج۱، ص ۷، باب ۱، ح ۱۔
2۔ کافی، ج۴، ص ۲۵۵، ح ۱۴۔ - حج ترک کرنے کا حکمحج ترک کرنے کا حکم
مسئلہ ۱۔ حج ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے اور اس کا واجب ہونا کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے۔ جو شخص حج کے شرائط رکھتے ہوئے اور اسک ے واجب ہونے کا علم رکھتے ہوئے اسے ترک کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔
اللہ تعالي قرآن مجید ميں فرماتا ہے:
{ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}(1)
ترجمہ: « اللہ کے لیے ان لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا واجب ہے جو اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔»
اور امام صادق علیہ السلام سے یوں روايت ہوئی ہے
"من ماتَ ولم یَحُجَّ حَجّۃ الاسلام و لم یَمنعہُ من ذلک حاجۃٌ تجحفُ بہ او مرض لا یطیق فیہ الحج أو سلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً أو نصرانیاً" (2)
ترجمہ: جو شخص انجام دیے بغیر مرجائے، جبکہ اس کے حالات بھی مساعد ہوں یا کوئی سخت بیماری یا ظالم بادشاہ اسے حج سے روکنے کا سبب نہ بنے، تو وہ یہودی یا مسیحی مرے گا۔
1۔سورہ آل عمران، آیت ۹۷۔
2۔تہذیب الاحکام، ج۵، ص ۱۷۔ - حج اور عمرہ کے اقسامحج اور عمرہ کے اقسام
مسئلہ ۲۔ جو انسان حج انجام ديتا ہے يا وہ اسے اپنے لئےانجا م ديتا ہے يا کسي کي نیابت میں بجالاتا ہے، اس حج کو "نيابتي حج " کہتے ہيں اور جو حج اپنے لئے بجا لاتا ہےاس کی دو قسمیں ہیں: واجب اورمستحب۔
مسئلہ ۳۔ واجب حج يا شريعت کے اصولوں کی بنیاد پر واجب ہوتا ہے جسے "حجة الاسلام" کہتے ہيں يا کسي اور وجہ سے ، جیسے نذر يا حج کے باطل ہونے کے سبب واجب ہوتا ہے۔
مسئلہ ۴۔ حجة الاسلام اورنيابتي حج ميں سے ہر ايک کي اپني اپني شرائط اور احکام ہيں کہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں کے ضمن ميں ذکر کريں گے۔
مسئلہ ۵۔ حج کی تین اقسام ہیں: ۱۔ تمتع، ۲۔ اِفراد، ۳۔ قِران۔
پہلی قسم (حج تمتع) ان افراد پر واجب ہوتا ہے کہ جنکا وطن مکہ سے ۴۸ میل (تقریبا ۹۰ کیلومیٹر) کے فاصلے پر ہو۔ حج کی دوسری اور تیسری قسم (اِفراد اور قِران) ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو مکہ میں رہتے ہیں یا ان کی رہائش کی جگہ مذکورہ فاصلہ سے کم پر واقع ہو۔
حج تمتع مناسک اور اعمال کے اعتبار سے دیگر دو قسموں سے کچھ فرق رکھتا ہے۔
مسئلہ ۶۔ حج تمتع، حج قِران اور اِفراد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ حج تمتع، عمرہ اور حج پر مشتمل ایک عبادت ہے اور اس میں عمرہ حج پر مقدم ہوتا ہے اور عمرہ و حج کے درمیان فاصلہ زمانی بھی پایا جاتا ہے اور اس فاصلے میں انسان احرام سے خارج ہوتا ہے اور حج کے لئے مُحرِم ہونے تک مُحرِم پر حرام ہونے والی چیزوں سے فائدہ اٹھانا حلال ہوتا ہے ۔ اسی لئے حج تمتع (بہرہ مند ہونا) کا عنوان اس کے لئے مناسب ہے۔اور حج اس کا دوسرا حصہ کہلاتا ہے اور ان دونوں کو ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے۔ حج اِفراد اور قِران کے برخلاف کہ جن میں صرف حج انجام دیا جاتا ہے۔ اور ان میں عمرہ ایک مستقل عبادت تصور کی جاتی ہے اور اسے "عمرہ مفردہ" کہا جاتاہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عمرہ مفردہ ایک سال اور حج اِفراد یا قِران اگلے سال انجام دیا جائے۔
مسئلہ ۷۔ عمرہ تمتع اور عمرہ مفردہ کے کچھ احکام مشترک ہیں کہ دوسری فصل میں ذکر کئے جائیں گے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ مسئلہ نمبر ۱۶ میں بیان کیا جائے گا۔
مسئلہ ۸۔ عمرہ بھی حج کی طرح کبھی واجب ہے تو کبھی مستحب ۔
مسئلہ ۹۔ دین اسلام میں عمرہ زندگی میں ایک بار ایسے شخص پر واجب ہوتا ہے جو صاحب استطاعت ہو (جیسا کہ حج کے مورد میں بیان کیا جاتا ہے(1))۔ اور اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح فوری ہے۔ اور اس کے وجوب میں حج بجالانے کی استطاعت شرط نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت پیدا کرلے تو اس پر عمرہ واجب ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ حج کے لئے استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس بھی اسی کے مانند ہے ، یعنی اگر کوئی شخص حج کے لئے استطاعت رکھتا ہو، لیکن عمرہ کے لئے مستطیع نہ ہو تو اسے حج بجالانا چاہیے۔ یہ حکم ان افراد کے لئے ہے کہ جو مکہ میں یا ۴۸ میل سے کم تر فاصلہ پر رہائش پذیر ہوں لیکن جو لوگ مکہ سے دور ہیں اور انکا وظیفہ حج تمتع انجام دینا ہے تو انکے لئے کبھی بھی عمرہ کی استطاعت حج کی استطاعت سے اور حج کی استطاعت عمرہ کی استطاعت سے جدا نہیں ہے کیونکہ حج تمتع دونوں اعمال کا مرکب ہے اور دونوں کو ایک ہی سال میں بجالانا چاہیے۔
مسئلہ ۱۰۔ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور اگروہ موسم حج کے علاوہ کسی اور موقع پر مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہو تو واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو۔ اس حکم سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں:
1. وہ لوگ جن کا پیشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکہ میں زیادہ آمد و رفت کریں۔
2. وہ لوگ جو حج یا عمرہ بجالانے کے بعد مکہ سے باہر نکل چکے ہیں اور اسی حج یا عمرہ بجالائے ہوئے مہینے میں دوبارہ مکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۱۔ دوبارہ عمرہ بجالانا حج کے دوبارہ بجا لانے کی طرح مستحب ہے۔ اور دو عمرہ کے درمیان کوئی خاص فاصلہ شرط نہیں ہے۔ لیکن احتیاط کی بنا پر ہر ماہ میں اپنے لئے صرف ایک عمرہ بجا لائے۔ اور اگر دوسرے افراد کے لئے دو عمرے بجا لائے یا ایک عمرہ اپنے لئے اور دوسرا عمرہ کسی دوسرے کے لئےبجا لائے تو مذکورہ احتیاط ضروری نہیں ہے۔ اسی لئے اگر دوسرے عمرے کو کسی کی نیابت میں بجا لائے تو نائب کا اس کے بدلے میں اجرت لینا جائز ہے اور یہ منوب عنہ کے عمرہ مفردہ کے لئے کافی ہے چاہے وہ واجب ہی کیوں نہ ہو۔1 . مسئلہ 34 کے بعد - حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہحج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
مسئلہ ۱۲۔ حج تمتع دو عمل کا مرکب ہے: ۱۔ عمرہ تمتع ۲۔ حج تمتع۔ عمرہ تمتع حج پر مقدم ہے اور ان دونوں کے اپنے مخصوص اعمال ہیں کہ جن کی جانب اشارہ کیا جائے گا۔
مسئلہ ۱۳۔ عمرہ تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. کسی بھی ایک میقات پر احرام باندھنا،
2. کعبہ کا طواف،
3. نماز طواف،
4. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
5. تقصیر (تھوڑے سے بال یا ناخن کاٹنا)
مسئلہ ۱۴۔ حج تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. مکہ مکرمہ میں احرام باندھنا،
2. ۹ ذی الحجہ کی ظہر سے غروب شرعی تک عرفات میں وقوف،
3. ۱۰ ذی الحجہ کی رات کو سورج طلوع ہونے تک مشعر الحرام میں وقوف،
4. ۱۰ ذی الحجہ (عید قربان کے دن) کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا،
5. قربانی،
6. سرمنڈوانا یا تقصیر کرنا،
7. طواف حج،
8. نماز طواف،
9. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
10. طوافِ نساء،
11. نماز طواف نساء،
12. ۱۱ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ ( رات گزارنا)کرنا،
13. ۱۱ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا
14. ۱۲ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ کرنا،
15. ۱۲ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات کنکریاں مارنا۔ - حج اِفراد اورعمرہ مفردہحج اِفراد اورعمرہ مفردہ
مسئلہ ۱۵۔ حج اِفراد کی کیفیت حج تمتع کی مانند ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج تمتع میں قربانی کرنا واجب ہے اور حج افراد میں مستحب۔
مسئلہ ۱۶۔ عمرہ مفردہ بھی عمرہ تمتع کی مانند ہے سوائےدرج ذیل مواقع کے:
1. عمرہ تمتع میں انسان کو تقصیر کرنا ضروری ہے لیکن عمرہ مفردہ میں یہ اختیار ہے کہ سر منڈانے اور تقصیر میں اختیار ہے البتہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے لیکن خواتین پر واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع میں صرف تقصیر کریں۔
2. عمرہ تمتع میں طواف نساء اور نماز طواف نساء واجب نہیں ہے اگرچہ بنابر احتیاط ان دو اعمال کو تقصیر سے پہلے رجا کی قصد سے بجا لائے۔ لیکن عمرہ مفردہ میں طواف نساء اور اس کی نماز واجب ہے۔
3. عمرہ تمتع کو حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ میں یعنی شوال، ذی قعد یا ذی الحجہ میں انجام دیا جانا چاہیے جبکہ عمرہ مفردہ کو سال کے تمام ایام میں سے کسی میں بھی بجالانا صحیح ہے۔
4. عمرہ تمتع کے میقات، پانچ میقاتوں میں سے ایک ہے کہ جس کی تفصیل آیندہ آئے گی۔ جبکہ عمرہ مفردہ کا میقات شہر مکہ کے اندر موجود افراد کے لئے اَدنَی الحِلّ(حرم کے باہر نزدیک ترین مقام) ہے۔ اگرچہ پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر بھی احرام باندھنا جائز ہے لیکن جو مکہ سے باہر ہو اور عمرہ مفردہ بجالانا چاہتا ہو تو اسے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔ - حج قِرانحج قِرانمسئلہ ۱۷۔ حج قِران کی کیفیت حج اِفراد کی مانندہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج قِران میں مُحرِم ہونے کے ساتھ ساتھ قربانی کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سےاس پر قربانی واجب ہے۔
اسی طرح حج قِران میں احرام لبیک کہنے سے یا اشعار یا تقلید(1) سے محقق ہوجاتا ہے لیکن حج اِفراد میں فقط لبیک کہنے سے محقق ہوتا ہے۔1۔ان دونوں کے معنی مسئلہ ۱40 میں بیان کئے جائیں گے۔ - حج تمتع کے کلی احکامحج تمتع کے کلی احکام
مسئلہ ۱۸۔ حج تمتع کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی شرط: نیت: یعنی جس وقت سے عمرہ تمتع کا احرام باندھا چاہتا ہے اسی وقت سے حج تمتع انجام دینے کا قصد بھی رکھتا ہو۔ ورنہ اس کا حج صحیح نہیں ہے۔
دوسری شرط: عمرہ اور حج دونوں حج کے مہینوں میں واقع ہوں۔
تیسری شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی سال میں واقع ہوں۔
چوتھی شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی شخص کے لئے اور ایک ہی شخص کے توسط سے انجام دیئے جانا چاہیے لہذا اگر کوئی شخص دو افراد کو اجیر کرے کہ ان میں سے ایک میت کی طرف سے حج تمتع بجالائے اور دوسرا عمرہ تمتع، تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہو وہ خود اپنی مرضی سے اپنے حج تمتع کو حج قِران یا حج اِفراد میں تبدیل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ ۲۰۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہے اور اگر اسے یہ احساس ہو کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ عمرہ تمتع کو مکمل کر کے حج کو درک نہیں کر سکتا ہے، ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے حج تمتع کو حج اِفراد میں تبدیل کرے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے۔
مسئلہ ۲۱۔ وہ خاتون جو حج تمتع انجام دینا چاہتی ہے لیکن میقات پر پہنچنے پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی اگر وہ احتمال دیتی ہے کہ حج تمتع کے احرام کے لئے وقت کی تنگی سے پہلے پاک ہوجائے گی اور غسل کرنے کے بعد عمرہ تمتع کے اعمال بجالاسکتی ہے اور پھر حج کے احرام سے عرفات کے وقوف کو عرفہ کے دن اول ظہر سے درک کرسکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ میقات میں عمرہ تمتع کے لئے مُحرِم ہوجائے پھر اگر پاک ہوئی اور عمرہ تمتع کے اعمال کو بجالانے اور عرفات میں اختیاری وقوف درک کرنے کے لئے کافی وقت ہوا تو اسے یہی کام انجام دینا چاہیے اگر اتفاق طور پر پاک نہ ہوئی یا پاک ہونے کے بعد اس کے پاس عمرہ تمتع بجالانے اور عرفات کے وقوف کو درک کرنے کے لئے وقت کافی نہیں ہے تو عمرہ تمتع کے احرام کے ساتھ حج افراد کی طرف عدول کرے گی اور اس کے بعد ایک عمرہ مفردہ کو بجالائے گی اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہے۔
اور اگر اسے اطمینان ہے کہ حج تمتع کے احرام اور وقوف عرفات کو درک کرنے کے وقت تک پاک نہیں ہوسکتی ہے یا اگر پاک ہوجائے تو عمرہ کے اعمال انجام دینے اور وقوف عرفات کو درک کرنے تک کافی وقت نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ میقات پر ہی ما فی الذمہ کے قصد سے یا حج اِفراد کے لئے مُحرِم ہوجائے اور اعمال حج بجالانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ بجالائے۔ اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا۔
لیکن اگر میقات پر احرام باندھنے کے کے وقت پاک تھی، پھر راستے میں یا مکہ پہنچنے پر عمرہ کا طواف اور اسکی نماز بجالانے سے پہلے یا طواف کے دوران چوتھے چکر کو تمام کرنے سے پہلے، ماہانہ عادت سے دوچار ہوجائے اور عمرہ کے اعمال انجام دینے، عرفات کے وقوف اختیاری درک کرنے کے وقت تک پاک نہ ہوئی تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یا تو اسی احرام کے ساتھ عمرہ تمتع کو حج افراد میں بدل دے اور حج افراد کو انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا؛ یا عمرہ تمتع کے طواف اور اسکی نماز کو چھوڑ کر، سعی اور تقصیر کو انجام دے او رعمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہوجائے، اس کے بعد حج تمتع کے لئے محرم ہونے، دونوں وقوف کو درک کرنے اور اعمال منی کو انجام دینے کے بعد مکہ آنے پر، حج کے طواف ، اس کی نماز اور سعی بجا لانےسے پہلے یا ان کو انجام دینے کے بعد عمرہ تمتع کے طواف اور اس کی نماز کو قضا کے طور پر بجالائے۔ اس کا یہ عمل بھی حج تمتع کے لئے کافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی اور چیز نہیں رہے گی۔
اور اگر طواف کے دوران، چوتھے چکر کے اختتام پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی تو باقی طواف اور نماز کو چھوڑ کر سعی اور تقصیر کو انجام دے اور احرام سے خارج ہوجائے پھر حج تمتع کے لئے محرم ہوکر دونوں وقوف کو درک کرنے اور منی کے اعمال کو انجام دینے کے بعد واپس مکہ لوٹنے پر طواف، نماز اور سعی کو بجالانے کے بعد یا اس سے پہلے، عمرہ کا طواف(1) اور اس کی نماز بجا لائے، اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئےکافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی چیز نہیں ر ہےگی۔
مسئلہ ۲۲۔ حج کے اعمال اور اس کے احکام تیسری فصل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
1۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے مسئلہ نمبر 286 کی طرف رجوع کریں۔ - پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
- دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
- پہلي فصل :احرام باندھنے کےمیقات
- دوسري فصل :احرام
- 1۔ واجبات احرام
- اول - نيتاول - نيت
مسئلہ ۱۲۶۔ نیت کی کیفیت اور شرایط حسب ذیل ہے:
الف : قصد، يعني حج يا عمرہ کے اعمال کے بجالانے کا قصد کرنا پس جو شخص مثال کے طو پر عمرہ تمتع کا احرام باندھنا چاہے وہ احرام کے وقت عمرہ تمتع کو انجام دينے کا قصد کرے۔
ب : قصد قربت اور خدا کی اطاعت کی خالص نیت رکھنا چاہیے کیونکہ حج اور عمرہ اور اس کے تمام اعمال عبادت ہیں اس لئے لازم ہے کہ انکو خداوند متعال سے قربت کی نیت سے انجام دیا جائے۔
ج :جو شخص مُحرم ہونا چاہتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ احرام باندھتے وقت اپنی نیت کو معین کرےیعنی معین کرے کہ حج بجا لانا چاہتا ہے یا عمرہ، اور اسی طرح معین کرے کہ حج تمتع ہے یا اِفراد یا قِران، اپنی طرف سے حج کرنا چاہتا ہے یا کسی اور کی نیابت میں، حجہ الاسلام ہے یا نذرکا حج یا مستحب حج۔
مسئلہ ۱۲۷۔ قصد ميں اعمال اور مناسک کي تفصيلي صورت کو ذہن میں لانا ضروری نہيں ہے بلکہ اجمالي صورت کافي ہے پس اجمالي طور پر حج یا عمرہ کے اعمال کے واجبات کو انجام دينے کا اجمالی قصد کرے پھر ان ميں سے ايک ايک کو ترتيب کے ساتھ بجالائے تو کافی ہے۔
مسئلہ ۱۲۸۔ جو شخص محرم ہوتا ہے اس کے لئے لازم نہیں ہے کہ وہ محرمات کو ترک کرنے کا قصد کرے بلکہ بعض محرمات کو انجام دینے کا قصد بھی احرام کے صحیح ہونے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ہے مگر یہ کہ ایسے محرمات کو انجام دینے کا قصد کرے جن کا مرتکب ہونا عمرہ یا حج کو باطل کرتا ہو مثلا عورت سے بعض مواقع پر مباشرت کرنا، جسکا ذکر بعد میں آئے گا۔ کیونکہ ان امور کو انجام دینے کا قصد مناسک حج کو انجام دینے کے قصد کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا بلکہ احرام کے قصد کے منافی ہے۔
مسئلہ ۱۲۹۔ اگر مسئلہ سے لاعلمي يا غفلت کي وجہ سے عمرہ کے بدلے حج کي نيت کرلے تو اس کا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع کيلئے احرام باندھتے وقت کہے: حج تمتع کيلئے احرام باندھ رہا ہو ں "قربةً الي اللہ " ليکن وہی عمل انجام دینے کا قصد رکھتا ہو جسے دوسرے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے کہ اس عمل کا نام حج ہے۔ تو اس کا احرام صحيح ہے ۔
مسئلہ ۱۳۰۔ نيت کو زبان پر لانا یا ذہن میں ڈالنا شرط نہيں ہے بلکہ اس قدر کہ عمل کو انجام دینے کا قصد رکھتا ہوکافي ہے۔
مسئلہ ۱۳۱۔ نيت ، احرام باندھنے کے ساتھ ہونی چاہیے لہذا پہلے سے کی گئی نيت کافي نہيں ہے مگر يہ کہ احرام کے وقت تک وہ نیت برقرار رہے۔ - دوم : لبیک کہنادوم : لبیک کہنا
مسئلہ ۱۳۲۔ احرام میں تلبيہ نماز ميں تکبيرة الاحرام کی مانند ہے، جب حاجي تلبيہ کہہ دے تو مُحرِم ہوجاتا ہےاور عمرہ تمتع کے اعمال شروع کرتا ہے۔ اور يہ تلبيہ حقيقت میں اللہ تعالی کي دعوت قبول کرنے کے مترادف ہے کہ جو مکلفين کو حج کي دعوت دی ہے اسي لئے مناسب ہے کہ تلبیہ کو پورے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے۔
مسئلہ ۱۳۳۔ تلبيہ کي صورت علي الاصح يوں ہے :
"لَبَّيکَ اَللّہُمَّ لَبَّيکَ لَبَّيکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيکَ "
اگر اس مقدار پر اکتفا کرے تو اس کا احرام صحيح ہے اور احتیاط مستحب يہ ہے کہ مذکورہ چارتلبیہ کے بعد کہے
"اِنَّ الحَمدَ و النِّعمَةَ لَکَ وَ المُلکَ لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيکَ"
اور اگر مزيد احتياط کرنا چاہے تو پھر يہ بھي کہے :
"لَبَّيکَ اللّہُمَّ لَبَّيکَ، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمَةَ لَکَ وَ المُلکَ، لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيکَ"
اور مستحب ہے کہ اسکے ساتھ ان جملوں کا بھي اضافہ کرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :
«لَبَّيكَ ذَا الْمَعارِجِ لَبَّيكَ، لَبَّيْكَ داعِياً إِلي دارالسَّلامِ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفّارَ الذُّنُوبِ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ أَهْلَ التَّلْبِيَةِ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلالِ وَالاِكْرامِ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْدِئُ وَ الْمَعادُ إِلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تَسْتَغْنِي و يُفْتَقَرُ إِلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إِلهَ الْحَقِّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْماءِ وَالفَضْلِ الْحَسَنِ الْجَمِيلِ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَبِ الْعِظامِ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ عبدُكَ وَابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَرِيمُ لَبَّيْكَ»۔
مسئلہ ۱۳۴۔ ايک مرتبہ تلبيہ کہنا واجب ہے ليکن جتنا ممکن ہو اس کی تکر ار کرنا مستحب ہے۔
مسئلہ ۱۳۵۔ تلبيہ کي واجب مقدار کو صحيح تلفظ کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔ اگر انسان باوجود اس کے کہ اسے صحیح طور پر سیکھ سکتا ہے یا تلبیہ کہنے کے وقت کوئی اسے تلقین کرسکتا ہے ، پھر بھی غلط پڑھے تو کافی نہیں ہے
لیکن اگر وقت کي تنگي کي وجہ سے سيکھنے پر قادر نہ ہو اور کسي دوسرے کے سکھانے سے بھي صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو جس طريقے سے ممکن ہو ادا کرے اور احتیاط يہ ہے کہ خود کے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نائب بھي بنائے۔
مسئلہ ۱۳۶۔ جو شخص جان بوجھ کر تلبيہ کو ترک کردے تو اسکا حکم اس شخص جیسا ہے جس نے جان بوجھ کر ميقات سے احرام کو ترک کردیا ہو۔
مسئلہ ۱۳۷۔ جو شخص تلبيہ کو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھي نہ رکھتا ہو تو اسکا حکم اس شخص جیسا ہے جس نے جان بوجھ کر تلبیہ کو ترک کردیا ہو۔
مسئلہ 1۳۸۔ جو شخص عمرہ تمتع کے لئے محرم ہوا ہو اس کے لئے واجب ہے کہ مکہ مکرمہ کے گھروں کو ديکھتے ہي لبیک کہنا چھوڑ دے اگر چہ مکہ کے اطراف میں نئےتعمیر کیے گئے مکان بھی ہوں جو اس وقت مکہ کا حصہ شمار ہوتے ہيں اور جس نے حج کے لئے احرام باندھا ہو اس پر روز عرفہ کے ظہر سے تلبیہ ترک کرنا واجب ہے ۔
مسئلہ 1۳۹۔ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج اِفراد اور عمرہ مفردہ کا احرام تلبیہ سے منعقد ہوتا ہے ليکن حج قِران کا احرام تلبيہ کے ساتھ بھي محقق ہو سکتا ہے اور اِشعار يا تقليد کے ساتھ بھي، اِشعار صرف اونٹ کے ساتھ مختص ہے ليکن تقليد، قرباني کے سارے جانوروں پر صدق آتی ہے۔
مسئلہ ۱۴۰۔ اشعار کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کی کوہان زخمی ہو کرخون میں آغشتہ ہوجائے۔ اور تقلیدکا مطلب یہ ہے کہ حاجی اپنے جوتے یا کسی دھاگے کو قربانی کی گردن میں لٹکا دے تاکہ پتا چل سکے کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ - سوم : احرام کے دو جامے پہنناسوم :احرام کے دو جامے پہننا
مسئلہ ۱۴۱۔ دو جاموں میں سے ایک «لنگی» ہے جسے کمر سے باندھنا چاہیے اور دوسرا جامہ «ردا» ہے جسے کاندھوں پر ڈالا جاتا ہے ان دو جاموں کو ان تمام کپڑوں کو اتارنے کے بعد پہننا چاہیے جن کا پہننا محرم پر حرام ہے۔
مسئلہ 1۴۲۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ دونوں کپڑوں کو احرام اور تلبيہ کي نيت سے پہلے پہن لے ۔
مسئلہ 1۴۳۔ ضروری نہیں ہے کہ لنگی ناف سے زانو تک کو چھپائے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ لنگی اس پر صدق آئے اور معمول کے مطابق ہو۔
مسئلہ 1۴۴۔ لنگی کا گردن سے گِرہ باندھنا جائز نہيں ليکن اسکو پِن(PIN) یا کلپ وغيرہ لگانا یا لنگی کے کسی حصے کو دوسرے حصے سے گِرہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے جبتک ازار کے عنوان سے خارج نہ ہوجائے۔ اور اسی طرح اگر ردا کو پن یا کلپ سے گرہ باندھنا یا اس کے دونوں اطراف میں کنکریاں باندھنا یا اسے دھاگے سے متعارف صورت میں باندھنا، جبتک راد کے عنوان سے خارج نہ ہوجائے، جائز ہے۔
مسئلہ ۱۴۵۔ احتیاط واجب يہ ہے کہ دونوں کپڑوں کو قربةًالي اللہ کے قصد سے پہنا جائے۔
مسئلہ 1۴۶۔ احرام کے کپڑوں ميں نمازی کے لباس کی ساری شرائط کا ہونا ضروری ہے پس ریشمی کپڑوں میں احرام باندھنا، یا حرام گوشت حیوان یا مردار کے اجزا کا بنا ہوا یا ایسا جامہ جو کسی ایسی نجاست سے نجس ہوا ہو کہ نماز میں اس کا پہننا معاف نہیں ہے، کافی نہیں ہے۔ ، غصبي اور اس نجاست کے ساتھ نجس شدہ لباس ٹھیک نہيں ہے کہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے ۔
مسئلہ 1۴۷۔ ضروری ہے کہ جس لباس کی لنگی ہو وہ اتنا نازک نہ ہو کہ بدن دکھائی دے ۔ لیکن چادر کا بدن نُما ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس پر ردا کا عنوان صدق آئے۔
مسئلہ ۱۴۸۔ احرام کے دو کپڑوں کے پہننے کا وجوب مردوں کے ساتھ مختص ہے اور عورتیں اپنے کپڑوں ميں احرام باندھ سکتی ہیں چاہے وہ سِلے ہوئے ہوں يا نہ ہوں، اس شرط کے ساتھ کہ نمازي کے لباس کے شرائط کي رعايت مدّ نظر رکھی گئی ہو۔
مسئلہ 149۔ عورت کے احرام کا لباس خالص ريشم کا نہیں ہونا چاہیے ۔
مسئلہ 150۔ دونوں کپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے کہ وہ بُنے ہوئے ہوں یا کاٹن يا اُون و غيرہ کے ہوں بلکہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹک کے لباس کا احرام باندھنا بھی کافي ہے البتہ اگر ان پر کپڑا ہونا صدق آئے اور ان کا پہننا متعارف ہو اسي طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھے تو اس میں بھي کوئي حرج نہيں ہے بشرطیکہ اس کا پہننا متعارف ہو۔
مسئلہ 151: اگرا حرام باندھتے وقت وقت جان بوجھ کرسِلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسکے احرام کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط واجب يہ ہے کہ اسے اتارنے کے بعد دوبارہ نيت کرے اور تلبيہ کہے۔
مسئلہ 152۔ اگر سردي و غيرہ کي وجہ سے سِلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو رائج لباس جیسے قمیص وغیرہ سے استفادہ کرسکتا ہےليکن اس کو نہیں پہن سکتا ہے بلکہ اسکے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپر اور نیچے کے حصے کو الٹا کرکے اپنے اوپر ڈال لے ۔
مسئلہ 1۵۳۔ محرم شخص احرام کے جامہ کو غسل کرنے یا دوسرے احرام میں تبدیل کرنے کے لئے اتار سکتا ہے ۔
مسئلہ 1۵۴۔ محرم کيلئے سردي و غيرہ سے بچنے کيلئے دوسے زيادہ کپڑوں کا اوڑھنا جائز ہے پس دو يا دو سے زيادہ کپڑوں کو اپنے شانوں کے اوپر ڈالے يا کمر میں باندھ لے ۔
مسئلہ 1۵۵۔ اگر احرام کا جامہ نجس ہوجائے تو احتیاط واجب يہ ہے کہ اسے پاک کرے يا تبديل کرے ۔
مسئلہ 1۵۶۔ حدث اصغر يا اکبر سے پاک ہونا احرام کے صحیح ہونے کے لئےشرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض کي حالت ميں احرام باندھ سکتا ہے ہاں احرام سے پہلے غسل کرنا مستحب مؤکد ہے اور اس مستحب غسل کو غسل احرام کہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے کہ اسے تر ک نہ کرے۔
-
- 2۔ احرام کے مستحبات
- 3۔ احرام کے مکروہات3۔ احرام کے مکروہات
مسئلہ 1۵۸۔ سياہ ، ميلے اور دھاري دار کپڑےمیں احرام باندھنا مکروہ ہے اور بہتر يہ ہے کہ احرام کا لباس سفید رنگ کا ہو اسی طرح احرام کی حالت میں زرد بستر يا تکيے پر سونا مکروہ ہے اور احرام سے پہلے ایسی مہندی لگانا بھی مکروہ ہے جس کا رنگ احرام کی حالت تک باقی رہے۔ اسیطرح اگر اسے کوئي پکارے تو "لبيک" کے ساتھ جواب دينا بھی مکروہ ہے اوراحرام کی حالت میں حمام ميں جانا اور بدن کو کیسہ ( بدن کو صاف کرنے کے لئے حمام کا تھیلی نما کپڑا)یا اس جیسی دوسری اشیاء وغيرہ کے ساتھ دھونا بھي مکروہ ہے ۔ - 4۔ احرام کے محرمات
-
- تیسری فصل: طواف اور اس کی نماز
- چوتھي فصل :صفا اور مروہ کے درمیان سعي
- پانچويں فصل: تقصيرپانچويں فصل: تقصير
مسئلہ ۳۶۲۔ عمرہ کے واجبات ميں سے پانچواں واجب تقصیر ہے۔
مسئلہ ۳۶۳۔ سعي انجام دینے کے بعد تقصير کرنا واجب ہے یعنی اپنے سر کے بال یا داڑھی یا مونچھوں میں سے ٹھوڑے سے بال یا اپنے ہاتھ یا پاوں کے تھوڑے سے ناخن کاٹ لے۔
مسئلہ ۳۶۴۔ تقصيرعمرہ کے دوسرے اعمال کی طرح عبادات میں سے ہے اور اس کے لئے بھی نیت کرنی چاہیے جس طرح احرام کی نیت کے بارے میں بیان کیاگیا ۔
مسئلہ ۳۶۵۔ عمرہ تمتع سے خارج ہونے کيلئے حلق (سر کا مونڈنا)کافی نہیں ہے اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کے لئے حتما تقصیر کرنی چاہیے او راگر تقصیر کرنے سے پہلے مسئلہ کو جانتے ہوئے اور جان بوجھ کر سر مونڈ لے تو نہ فقط یہ کہ یہ کافی نہیں ہے بلکہ اسے ایک گوسفند کفارہ بھی دینا ہوگا لیکن اگر عمرہ مفردہ کے لئےمحرم ہوا ہو تو تقصیر یا حلق میں سے کسی ایک کو انجام دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۳۶۶۔ عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کيلئے بالوں کا نوچنا کافي نہيں ہے بلکہ جس طرح سے کہا گیا اسی طرح سے تقصیر کرنا چاہیے۔ پس اگر جان بوجھ کر اور مسئلہ جاننے کے باوجود تقصير کے بجائے اپنے بالوں کو نوچے تو نہ فقط يہ کافي نہيں بلکہ اسےبال نوچنے کا کفارہ بھي دینا ہوگا۔
مسئلہ ۳۶۷۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کي وجہ سے تقصير کے بجائے بالوں کو نوچے اور پھر حج کو بجالائے تو اس کا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج اِفراد کہلائے گا اور اس صورت میں اگر اس پر حج واجب تھی تو بنا بر احتیاط واجب اعمال حج بجا لانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ انجام دے اور آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج کو دوبارہ بجالائے۔ جس نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے تقصیر کے بجائے حلق کیا اور پھر پورا جج بجالایا ہو تو اس کا حکم بھی یہی ہے۔ ۔
مسئلہ ۳۶۸۔ : سعي کے بعد تقصير کي انجام دہي ميں جلدي کرنا واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۳۶۹۔ اگر جان بوجھ کر يا لاعلمي کي وجہ سے تقصير کو ترک کر کے حج کا احرام باندھ لے تو بنابر اقوی اس کا عمرہ باطل ہے اور اس کا حج ، حج اِفراد ہوجائيگا اور احتیاط واجب يہ ہے کہ حج کے بعد عمرہ مفردہ کو بجالائے اور اگر اس کا حج واجب تھا تو اسےآئندہ سال عمرہ اور حج کو دوبارہ انجام دینا چاہیے۔
مسئلہ ۳۷۰۔ اگر بھول کر تقصير کو ترک کردے اور حج کيلئے احرام باندھ لے تو اس کا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر کوئي کفارہ نہيں ہے لیکن مستحب ہے کہ ایک گوسفندکفارہ دے بلکہ احوط یہ ہے کہ کفارہ دینے کو ترک نہ کرے۔
مسئلہ ۳۷۱۔ تقصير اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہون کے بعد احرام کے تمام محرمات حتی کہ بیوی بھی اس پر حلال ہوجاتی ہے۔
مسئلہ ۳۷۲۔ عمرہ تمتع ميں طواف النساءواجب نہيں ہے اگر چہ احتیاط يہ ہے کہ ثواب کی امید سے تقصیر سے پہلے طواف النساءاور اسکي نماز کو بجالائے ليکن اگر عمرہ مفردہ کی نیت سے احرام باندھا ہو تو تقصير يا حلق کے بعد اس صورت میں اس پر بیوی حلال ہوگی کہ اس نے طواف النساءاور نماز طواف کو بجالایا ہو۔ طواف نساءکا طريقہ اور احکام، طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں کہ جو پہلے بیان ہوئی ہے۔
مسئلہ ۳۷۳۔ علی الظاہر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج کيلئے الگ الگ طواف النساء بجا لانا چاہیے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايک حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو بیوی اس پر حلال ہونے کے لئے اگر چہ بعید نہیں ہے کہ ایک طواف النسا کافی ہو لیکن اعمال کی تکمیل کے لئے دونوں عمرہ میں سے ہر ایک کے لئے یا ایک عمرہ اور ایک حج کے لئے الگ الگ طواف النسا بجا لانا چاہیے.
-
- تیسرا حصہ حج کے اعمال
- حج اور عمرہ کے استفتائات
مسئلہ 1۵۷۔ مستحب ہے کہ احرام سے پہلے بدن پاک ہو ، بدن کے زائد بالوں کا صاف کیے جائیں، اورناخن کاٹے جائیں۔ احرام سے پہلے مسواک کرنا بھی مستحب ہے، اسی طرح مستحب ہے کہ ميقات پر پہنچنے سے پہلے، مثلاً مدينہ ميں، غسل کیا جائے اور کہا گیا ہے(1) کہ احوط یہ ہے کہ اس غسل کو ترک نہ کیا جائے۔
اور مستحب ہے کہ نماز ظہر يا کسي اور فريضہ نماز يا دورکعت نافلہ نماز کے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ رکعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسکي بہت زيادہ فضيلت ہے ۔ اور اسی طرح جو شخص حج بجالانا چاہتا ہے اس کے لئے مستحب ہے کہ ذي القعدہ کي پہلي تاريخ سے اپنے سر اورداڑھي کے بالوں کو نہ کاٹے۔
1 . مسئلہ : 156