دریافت:
استفتاآت کے جوابات
- تقلید
- طہا رت
- احکام نماز
- احکام روزہ
- کتاب خمس
- جہاد
جہاد
س١٠٤۸: امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا حکم کیا ہے؟ اور کیا با اختیار جامع الشرائط فقیہ (ولی فقیہ)کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا حکم دے؟
ج: بعید نہیں ہے کہ جب مصلحت کا تقاضا ہو تو ولی فقیہ کیلئے جہاد ابتدائی کا حکم دینا جائز ہو بلکہ یہی اقویٰ ہے۔
س١٠٤۹: جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟
ج: اسلام اور مسلمانوں کا دفاع واجب ہے اور یہ والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سزاوار ہے کہ جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
س١٠۵۰: کیاان اہل کتاب پر جو اسلامی ملکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں، کافر ذمی کا حکم جاری ہوگا؟
ج: جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں کہ جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور امان کے خلاف کوئی کام بھی نہیں کرتے تو ان کا وہی حکم ہے جو معاہَد کا ہے۔
س١٠۵۱: کیا کوئی مسلمان کسی کافر کو خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب سے، مردوں میں سے ہو یا عورتوں میں سے اور چاہے اسلامی ممالک میں ہو یا غیر اسلامی ممالک میں، اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟
ج: یہ کام جائز نہیں ہے، اور جب کفار اسلامی سرزمین پر حملہ کریں اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو اسراء کی تقدیر کا فیصلہ حاکم اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
س١٠۵۲: اگر فرض کریں کہ حقیقی اسلام محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس شخص کے قتل پر موقوف ہے تو کیا یہ عمل ہمارے لئے جائز ہے؟
ج: نفس محترم کا خون ناحق بہانا شرعی لحاظ سے حرام اور حقیقی اسلام محمدی کے احکام کے خلاف ہے، لہذا یہ بے معنی بات ہے کہ اسلام محمدی کا تحفظ ایک بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ انسان جہادفی سبیل اللہ اور اسلام محمدی سے دفاع کیلئے ان حالات میں قیام کرے کہ جن میں اسے اپنے قتل کا بھی احتمال ہو تو اسکی مختلف صورتیں ہیں، لہذا اگر انسان کی اپنی تشخیص یہ ہو کہ مرکز اسلام خطرے میں ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے قیام کرے، اگرچہ اس میں اسے قتل ہوجانے کا خوف ہی کیوں نہ ہو۔
- امر بالمعروف و نہی عن المنکر
- حرام معاملات
- شطرنج اور آلات قمار
- موسیقی اور غنا
موسیقی اور غنا
س ١١٢۸: حلال اورحرام موسیقی میں فرق کرنے کا معیار کیا ہے ؟ آیا کلاسیکی موسیقی حلال ہے؟ اگر ضابطہ بیان فرمادیں تو بہت اچھا ہوگا۔
ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں لہو و لعب، راہ خدا سے منحرف کرنے والی اور عیاشی اور شراب و کباب کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو وہ حرام ہے اور حرام ہونے کے لحاظ سے کلاسیکی اور غیر کلاسیکی میں کوئی فرق نہیں ہے اور موضوع کی تشخیص کا معیار خود مکلف کی عرفی نظر ہے اور جو موسیقی اس طرح نہ ہو بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١٢۹: ایسی کیسٹوں کے سننے کا حکم کیا ہے جنہیں سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی دوسرے اسلامی ادارے نے مجاز قراردیاہو؟ اور موسیقی کے آلات کے استعمال کا کیا حکم ہے جیسے، سارنگی ، ستار، بانسری وغیرہ؟
ج: کیسٹ کے سننے کا جواز خودمکلف کی تشخیص پر ہے لہذا اگر مکلّف کے نزدیک متعلقہ کیسٹ کے اندر عیاشی اور شراب و کباب کی محافل سے مناسبت رکھنے والی لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی اور غنا نہ ہو اور نہ ہی اسکے اندر باطل مطالب پائے جاتے ہوں تو اسکے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ فقط سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی اور اسلامی ادارے کی جانب سے مجاز قرار دینا اسکے مباح ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔لہو اور گناہ کی محافل سے مناسبت رکھنے والی مطرب اور لہوی موسیقی کے لئے موسیقی کے آلات کا استعمال جائز نہیں ہے البتہ معقول مقاصد کے لئے مذکورہ آلات کا جائز استعمال اشکال نہیں رکھتا۔ اور مصادیق کی تعیین خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔
س ١١۳۰: لہوی موسیقی سے کیا مراد ہے؟ اور لہوی اور غیر لہوی موسیقی کی تشخیص کا راستہ کیا ہے؟
ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی وہ ہے جواپنی خصوصیات کی وجہ سے انسان کو خداوند متعال اور اخلاقی فضائل سے دور کرتی ہے اور اسے گناہ اور بے قید و بند حرکات کی طرف دھکیلتی ہے۔ اورموضوع کی تشخیص کا معیار عرفِ عام ہے۔
س ١١۳۱:کیا آلات موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، بجانے کی جگہ یا اس کا ھدف و مقصد موسیقی کے حکم میں دخالت رکھتا ہے؟
ج: فقط وہ موسیقی حرام ہے جو لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والی اورلہو و گناہ کی محافل سے مناسب ہو البتہ بعض اوقات آلاتِ موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، اسکے ساتھ ترنّم سے پیش کیا جانے والا کلام ، محل یا اس قسم کے دیگر امور ایک موسیقی کے حرام اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی یا کسی اور حرام عنوان کے تحت داخل ہونے میں مؤثر ہیں مثال کے طور پر ان چیزوں کی وجہ سے اس میں کوئی مفسدہ پیدا ہوجائے۔
س ١١۳۲:کیا موسیقی کے حرام ہونے کامعیار فقط لہو ومطرب ہونا ہے یا یہ کہ ہیجان میں لانا بھی اس میں مؤثر ہے؟ اور اگر کوئی ساز،موسیقی سننے والے کے حزن اور گریہ کا باعث بنے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور ان غزلیات کے پڑھنے کا کیا حکم ہے جو راگوں سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔
ج: معیار یہ ہے کہ موسیقی بجانے کی کیفیت اسکی تمام خصوصیات کے ساتھ ملاحظہ کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی اور فسق و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھنے والی موسیقی ہے؟ چنانچہ جو موسیقی طبیعی طور پر لہوی ہو وہ حرام ہے چاہے جوش و ہیجان کا باعث بنے یا نہ ۔ نیز سا معین کے لئے موجب حزن و اندوہ و غیرہ ہو یا نہ ۔ اور موسیقی کے ہمراہ مجالس لہو و لعب کے ساتھ سازگارآواز اور غنا کے ساتھ گائی جانے والی غزلوں کا گانا اور سننا بھی حرام ہے ۔
س١١۳۳:غنا کسے کہتے ہیں اور کیا فقط انسان کی آواز غنا ہے یا آلات موسیقی کے ذریعے حاصل ہونے والی آواز بھی غنا میں شامل ہے؟
ج: غنا انسان کی اس آواز کو کہتے ہیں کہ جسے گلے میں پھیرا جائے اور مجالس لہو و گناہ کے مناسب ہو اس صورت میں گانا اور اس کا سننا حرام ہے۔
س ١١۳۴:کیا عورتوں کے لئے شادی بیاہ کے دوران آلات موسیقی کے علاوہ برتن اور دیگر وسائل بجانا جائز ہے ؟ اگر اسکی آواز محفل سے باہر پہنچ کر مردوں کو سنائی دے رہی ہو تو اسکا کیا حکم ہے ؟
ج: جواز کا دارو مدار کیفیت عمل پر ہے کہ اگر وہ شادیوں میں رائج عام روایتی طریقے کے مطابق ہو ، لہوولعب میں شمار نہ ہوتا ہو اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١۳۵: شادی بیاہ کے اندر عورتوں کے ڈفلی بجانے کا کیا حکم ہے؟
ج: آلاتِ موسیقی کا لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی بجانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
س ١١۳۶:کیا گھر میں غنا کاسننا جائز ہے؟ اور اگر گانے کا انسان پر اثر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: غنا کاسننا مطلقاً حرام ہے چاہے گھر میں تنہا سنے یا لوگوں کے سامنے ،متاثر ہو یا نہ ہو۔
س ١١۳۷:بعض نوجوان جو حال ہی میں بالغ ہوئے ہیں انہوں نے ایسے مجتہد کی تقلید کی ہے جو مطلقاً موسیقی کو حرام سمجھتا ہے چاہے یہ موسیقی اسلامی جمہوری (ایران)کے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے ہی نشر ہوتی ہو۔ مذکورہ مسئلہ کا حکم کیا ہے؟کیا ولی فقیہ کا حلال موسیقی کے سننے کی اجازت دینا حکومتی احکام کے اعتبار سے مذکورہ موسیقی کے جائز ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یا ان پر اپنے مجتہد کے فتوی کے مطابق ہی عمل کرنا ضروری ہے؟
ج: موسیقی سننے کے بارے میں جواز اور عدم جواز کا فتوی حکومتی احکام میں سے نہیں ہے بلکہ یہ فقہی اور شرعی حکم ہے۔ اور ہر مکلف کو مذکورہ مسئلہ میں اپنے مرجع کی نظر کے مطابق عمل کرنا ہوگا ہاں اگر موسیقی ایسی ہو جو کہ لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت نہیں رکھتی اور نہ ہی اس پرمفسدہ مترتب ہو تو ایسی موسیقی کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
س١١٣۸:موسیقی اور غنا سے کیا مراد ہے؟
ج: آ واز کو اس طرح گلے میں گھمانا کہ جو محافل لہو سے مناسبت رکھتا ہے غنا کہلاتا ہے ۔اسکا شمار گناہوں میں ہوتاہے یہ سننے اور گانے والے پر حرام ہے ۔ لیکن موسیقی آلات موسیقی کا بجانا ہے۔ اگر یہ لہو و گناہ کی محافل میں راءج طریقے سے ہو تو بجانے اور سننے والے پر حرام ہے لیکن اگر مذکورہ صفات کے ساتھ نہ ہو تو بذات خود موسیقی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١٣۹:میں ایسی جگہ کام کرتا ہوں جس کا مالک ہمیشہ گانے کے کیسٹ سنتا ہے اور مجھے بھی مجبوراً سننا پڑتے ہیں کیا یہ میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اگر کیسٹوں میں موجودلہوی موسیقی اور غنا لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتے ہوں تو انکا سننا جائز نہیں ہے ہاں اگر آپ مذکورہ جگہ میں حاضر ہونے پر مجبور ہیں تو آپ کے وہاں جانے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن آپ پر واجب ہے کہ گانے کان لگا کر نہ سنیں اگرچہ آواز آپ کے کانوں میں پڑے اور سنائی دے۔
س١١۴۰:وہ موسیقی جو اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ریڈیو اور ٹیلیوژن سے نشر ہوتی ہے کیا حکم رکھتی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ )نے موسیقی کو مطلقاً حلال قرار دیا ہے کیا صحیح ہے؟
ج: حضرت امام خمینی قدس سرہ کی طرف موسیقی کومطلقاً حلال کرنے کی نسبت دینا جھوٹ اور افترا ہے وہ ایسی موسیقی کو حرام سمجھتے تھے جو گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو جیسا کہ ہماری رائے بھی یہی ہے لیکن موضوع کی تشخیص نقطۂ نظر میں اختلاف کا سبب ہے ۔ کیونکہ موضوع کو تشخیص دینا خود مکلف کے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے بعض اوقات بجانے والے کی رائے سننے والے سے مختلف ہوتی ہے لہذا جسے خود مکلف لہوی اور گناہ کی محافل کے مناسب موسیقی سمجھتا ہو اسکا سننا اس پر حرام ہے البتہ جن آوازوں کے بارے میں مکلف کو شک ہو وہ حلال ہیں اورمحض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہو جانا حلال اور مباح ہونے کی شرعی دلیل شمار نہیں ہوتا ۔
س ١١۴۱:ریڈیو اور ٹیلیویژن سے کبھی کبھی ایسی موسیقی نشر ہوتی ہے جو میری نظر میں لہو اور فسق و فجور کی محافل سے مناسبت رکھتی ہے کیا میرے لئے واجب ہے کہ ایسی موسیقی سے اجتناب کروں؟ اور دوسروں کو بھی روکوں؟
ج: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے اور یہ لہوی محافل سے مناسبت رکھتی ہے تو آپ کے لئے سننا جائز نہیں ہے لیکن دوسروں کو نہی عن المنکر کے عنوان سے روکنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ بھی مذکورہ موسیقی کو آپ کی مانند حرام موسیقی سمجھتے ہوں۔
س ١١۴۲:وہ لہوی موسیقی اور غنا کہ جسے مغربی ممالک میں ترتیب دیا جاتا ہے کے سننے اور پھیلانے کا کیا حکم ہے؟
ج: لہوی اور لہو و باطل کی محافل سے مناسبت رکھنے والی موسیقی کے سننے کے جائزنہ ہونے میں زبانوں اور ان ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے جہاں یہ ترتیب دی جاتی ہے لہذا ایسی کیسٹوں کی خرید و فروخت ،انکا سننا اور پھیلانا جائز نہیں ہے جو غنا اور حرام لہوی موسیقی پر مشتمل ہوں۔
س١١۴۳:مرد اورعورت میں سے ہر ایک کے غنا کی صورت میںگانے کا کیا حکم ہے؟ کیسٹ کے ذریعہ ہویا ریڈیو کے ذریعہ؟موسیقی کے ساتھ ہو یا نہ؟
ج: غنا حرام ہے اور غنا کی صورت میں گانا اوراس کا سننا جائز نہیں ہے چاہے مرد گائے یاعورت ، براہ راست ہو یا کیسٹ کے ذریعے چاہے گانے کے ہمراہ آلات لہو استعمال کئے جائیںیا نہ۔
س ١١۴۴: جائز اور معقول مقاصد کے لیئے مسجد جیسے کسی مقدس مقام میں موسیقی بجانے کا کیا حکم ہے؟
ج: لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی جو کہ مجالس لہوو گناہ سے مناسبت رکھتی ہو وہ مطلقاجائز نہیں ہے اگر چہ مسجد سے باہر اور حلال و معقول مقاصد کے لئے ہو۔ البتہ جن مواقع پر انقلابی ترانے پڑھنا مناسب ہے، مقدس مقامات میں موسیقی کے ساتھ انقلابی ترانے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ یہ امر مذکورہ جگہ کے تقدس و احترام کے خلاف نہ ہو اور نہ ہی مسجد میں نمازیوں کے لئے باعث زحمت ہو۔
س ١١۴۵ : آیا موسیقی سیکھنا جائز ہے خصوصاً ستار؟ اوردوسروں کواسکی ترغیب دلانے کا کیا حکم ہے؟
ج: غیر لہوی موسیقی بجانے کیلئے آ لات موسیقی کا استعمال جائز ہے اگر دینی یا انقلابی نغموں کیلئے ہو یا کسی مفیدثقافتی پروگرام کیلئے ہو اور اسی طرح جہاں بھی مباح عقلائی غرض موجود ہو مذکورہ موسیقی جائز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی اورمفسدہ لازم نہ آئے اور اس طرح کی موسیقی کو سیکھنا اور تعلیم دینا بذات ِ خود جائز ہے لیکن موسیقی کو ترویج دینا جمہوری اسلامی ایران کے بلند اہداف کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔
س ١١۴۶: عورت جب خاص لحن کے ساتھ شعر و غیرہ پڑھے تو اس کی آواز سننے کا کیا حکم ہے ؟سننے والا جوان ہو یا نہ ہو ، مرد ہو یا عورت ،اور اگر عورت محارم میں سے ہو تو کیا حکم ہے؟
ج: اگر خاتون کی آواز غنا کی کیفیت نہ رکھتی ہواور اس کا سننا لذت کے لیے اور ریبہ کے ساتھ نہ ہو اور اس پر کوئی دوسرا مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سلسلے میں سوال میں مذکورہ صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
س ١١۴۷:کیا ایران کی روایتی موسیقی کہ جو اس کا قومی ورثہ ہے حرام ہے یا نہیں ؟
ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں لہوی موسیقی ہو اور محافل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہو وہ مطلقاً حرام ہے چاہے ایرانی ہو یا غیر ایرانی چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی۔
س ١١٤۸:عربی ریڈیو سے بعض خاص لحن کی موسیقی نشر ہوتی ہے ، آیا عربی زبان سننے کے شوق کی خاطر اسے سنا جاسکتا ہے؟
ج: لہوی موسیقی جو کہ محافل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہو مطلقاً حرام ہے اور عربی زبان کے سننے کا شوق شرعی جواز نہیں ہے ۔
س ١١٤۹: کیا بغیر موسیقی کے گانے کی طرز پر گائے جانے والے اشعار کا دہرانا جائز ہے؟
ج: غنا حرام ہے چاہے موسیقی کے آلات کے بغیر ہو اور غنا سے مراد یہ ہے کہ اس طرح آواز کو گلے میں گھمایا جائے جس طرح راہ خدا سے منحرف کرنے والی محافل فسق و فجور میں رائج ہے ، البتہ فقط اشعار کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١١۵۰:موسیقی کے آلات کی خریدو فروخت کا کیاحکم ہے اور ان کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟
ج: مشترک آلات کی خرید و فروخت غیر لہوی موسیقی بجانے کے لئے اشکال نہیں رکھتی ۔
س ١١۵۱: کیا دعا ، قرآن اور اذان وغیرہ میں غنا جائز ہے؟
ج: غناء سے مراد ایسی آواز ہے جو ترجیع پر مشتمل ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو اور یہ مطلقاً حرام ہے حتی، دعا، قرآن ، اذان اور مرثیہ و غیرہ میں بھی۔
س١١۵۲: آج کل موسیقی بعض نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے جیسے افسردگی، اضطراب ، جنسی مشکلات اور خواتین کی سرد مزاجی وغیرہ۔ یہ موسیقی کیا حکم رکھتی ہے؟
ج: اگر امین اور ماہرڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ مرض کا علاج موسیقی پر متوقف ہے تو مرض کے علاج کی حدّ تک موسیقی کا استعمال جائز ہے۔
س ١١۵۳:اگر غنا سننے کی وجہ سے زوجہ کی طرف رغبت زیادہ ہوجاتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: ز وجہ کی جانب رغبت کا زیادہ ہونا، غنا سننے کا شرعی جواز نہیں ہے۔
س١١۵۴ : عورتوں کے مجمع میں خاتون کا کنسرٹ اجرا کرناکیا حکم رکھتا ہے جبکہ موسیقی بجانے والی بھی خواتین ہوں ؟
ج: اگر کنسرٹ کا اجرا لہوی ترجیع (غنا) کی صورت میں ہو یا اسکی موسیقی لہوی، راہ خدا سے منحرف کرنے والی اور محافل گناہ سے مناسبت رکھنے والی ہو تو حرام ہے۔
س١١۵۵:اگر موسیقی کے حرام ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ لہوی ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو تو ایسے گانوں اور ترانوں کا کیا حکم ہے جو بعض لوگوں حتی کہ خوب و بد کونہ سمجھنے والے بچوں میں بھی ہیجان پیدا کر دیتے ہیں؟ اور آیا ایسے فحش کیسٹ سننا حرام ہے جو عورتوں کے گانوں پر مشتمل ہوں لیکن ہیجان کا سبب نہ ہوں ؟ اور ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایسی عوامی بسوں میں سفر کرتے ہیں جنکے ڈرائیور مذکورہ کیسٹ استعمال کرتے ہیں؟
ج: موسیقی یا ہر وہ گانا جو ترجیع کے ہمراہ ہے اگر کیفیت و محتوا کے لحاظ سے یا گانے، بجانے کے دوران گانے یا بجانے والے کی خاص حالت کے اعتبار سے غنا یا لہوی اور لہو و گناہ کی محافل کے مناسب موسیقی ہوتو اس کا سننا حرام ہے حتی ایسے افراد کے لئے بھی کہ جنھیں یہ ہیجان میں نہ لائیں اور تحریک نہ کریں اور اگر عوامی بسوں یا دوسری گاڑیوں میں لہوی موسیقی نشر ہو تو ضروری ہے کہ سفر کرنے والے لوگ اسے کان لگا کر نہ سنیں اور نہی عن المنکرکریں۔
س١١۵۶ : آیا شادی شدہ مرداپنی بیوی سے لذت حاصل کرنے کے قصد سے نا محرم عورت کا گانا سن سکتا ہے؟ آیا زوجہ کا غنا اپنے شوہر یا شوہر کا اپنی زوجہ کے لءے جاءز ہے ؟ اور آیا یہ کہنا صحیح ہے کہ شارع مقدس نے غنا کو اس لئے حرام کیا ہے کہ غنا کے ہمراہ ہمیشہ محافل لہو و لعب ہوتی ہیں اور غنا کی حرمت ان محافل کی حرمت کا نتیجہ ہے۔
ج: غنا کہ جو اس طرح ترجیع صوت پر مشتمل ہو کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والا بھی اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسب ہو مطلقا حرام ہے حتی میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے بھی اور بیوی سے لذت کا قصد غنا کو مباح نہیں کرتا اور غنا وغیرہ کی حرمت شریعت مقدسہ میں تعبداً ثابت ہے اور شیعہ فقہ کے مسلمات میں سے ہے اور انکی حرمت کا دارو مدار فرضی معیارات اور نفسیاتی و اجتماعی اثرات کے اوپر نہیں ہے بلکہ یہ مطلقاً حرام ہیں اور ان سے مطلقاً اجتناب واجب ہے جب تک ان پر یہ عنوانِ حرام صادق ہے۔
س١١۵۷: بعض آرٹ کا لجزکے طلبا کے لئے اسپیشل دروس کے دوران انقلابی ترانوں اور نغموں کی کلاس میں شرکت لازمی ہے۔ جہاں وہ موسیقی کے آلات کی تعلیم لیتے ہیں اور مختصر طور پر موسیقی سے آشنا ہوتے ہیں اس درس کے پڑھنے کا اصلی آلہ اَرگن ہے۔ اس مضمون کی تعلیم کا کیا حکم ہے ؟جبکہ اس کی تعلیم لازمی ہے۔ مذکورہ آلہ کی خریدو فروخت اور اسکا استعمال ہمارے لئے کیا حکم رکھتا ہے؟ ان لڑکیوں کیلئے کیا حکم ہے جو مردوں کے سامنے پریکٹس کرتی ہیں؟
ج: انقلابی ترانوں، دینی پروگراموں اور مفید ثقافتی و تربیتی سرگرمیوں میں موسیقی کے آلات سے استفادہ کرنے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے ۔ مذکورہ اغراض کے لئے موسیقی کے آلات کی خرید و فروخت نیز انکا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اسی طرح خواتین حجاب اور اسلامی آداب و رسوم کی مراعات کرتے ہوئے کلاس میں شرکت کرسکتی ہیں ۔
س١١۵۸: بعض نغمے ظاہری طور پر انقلابی ہیں اور عرف ِعام میں بھی انہیں انقلابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ گانے والے نے انقلابی قصد سے نغمہ گایا ہے یا طرب اور لہو کے ارادے سے ، ایسے نغموں کے سننے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ان کے گانے والا مسلمان نہیں ہے ، لیکن اس کے نغمے ملی ہوتے ہیں اور انکے بول جبری تسلّط کے خلاف ہوتے ہیں اور استقامت پر ابھارتے ہیں۔
ج: اگر سامع کی نظر میں عرفاًگانے کی کیفیت اور راہ خدا سے منحرف کرنے والے گانے جیسی نہ ہو تو اس کے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور گانے والے کے قصد، ارادے اورمحتوا کااس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
س ١١۵۹:ایک جوان بعض کھیلوں میں بین الاقوامی کوچ اورریفری کے طور پر مشغول ہے اسکے کام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بعض ایسے کلبوں میں بھی جائے جہاں حرام موسیقی اور غنا نشر ہو رہے ہوتے ہیں اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ اس کام سے اسکی معیشت کا ایک حصہ حاصل ہوتاہے اورا سکے رہائشی علاقے میں کام کے مواقع بھی کم ہیں کیا اسکے لئے یہ کام جائز ہے ؟
ج: اس کے کام میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ لہوی موسیقی اور غنا کا سننا اس کے لئے حرام ہے اضطرار کی صورت میں حرام غنا اورموسیقی کی محفل میںجانا اس کے لئے جائز ہے البتہ توجہ سے موسیقی نہیں سن سکتا ،بلا اختیار جو چیز کان میں پڑے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
س ١١۶۰:آیا توجہ کے ساتھ موسیقی کا سننا حرام ہے یا کان میں آواز کا پڑنا بھی حرام ہے؟
ج: غنا یا لہوی موسیقی کے کان میں پڑنے کا حکم اسے کان لگاکرسننے کی طرح نہیں ہے سوائے بعض ان مواقع کے جن میں عرف کے نزدیک کان میں پڑنا بھی کان لگا کر سننا شمار ہوتاہے۔
س ١١۶۱:کیا قرأت قرآن کے ہمراہ ایسے آلات کے ذریعے موسیقی بجانا کہ جن سے عام طور پر لہو و لعب کی محافل میں استفادہ نہیں کیا جاتا جائز ہے؟
ج: اچھی آواز اور قرآن کریم کے شایان شان صدا کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہتر امر ہے بشرطیکہ حرام غنا کی حدّ تک نہ پہنچے البتہ تلاوت قرآن کے ساتھ موسیقی بجانے کا کوئی شرعی جواز اور دلیل موجود نہیں ہے۔
س١١۶۲:محفل میلاد و غیرہ میں طبلہ بجانے کا کیا حکم ہے ؟
ج: لہوی اور لہو و گناہ کی محافل کے مناسب کیفیت میں آلات موسیقی سے استفادہ کرنا مطلقاً حرام ہے ۔
س ١١٦۳: موسیقی کے ان آلات کا کیا حکم ہے کہ جن سے تعلیم و تربیت والے نغموں کے پڑھنے والی ٹیم کے رکن طلبا استفادہ کرتے ہیں ؟
ج: موسیقی کے ایسے آلات جو عرف عام کی نگاہ میں مشترک اور حلال کاموں میں استعمال کے قابل ہوں انہیں غیر لہوی طریقے سے حلال مقاصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے لیکن ایسے آلات جو عرف کی نگاہ میں لہو کے مخصوص آلات سمجھے جاتے ہوں انکا استعمال جائز نہیں ہے۔
س ١١۶۴:کیا موسیقی کا وہ آلہ جسے ستار کہتے ہیں بنانا جائز ہے اور کیا پیشے کے طور پر اس سے کسبِ معاش کیا جاسکتا ہے ، اس کی صنعت کو ترقی دینے اور اسے بجانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری ومالی امداد کی جاسکتی ہے؟ اور اصل خالص موسیقی پھیلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ایرانی روایتی موسیقی کی تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں؟
ج: قومی یا انقلابی ترانوں یا ہر حلال اور مفید چیزمیں موسیقی کے آلات کا استعمال جب تک محافل گناہ کے مناسب لہو تک نہ پہنچے بلا اشکال ہے اسی طرح اس کے لئے آلات کا بنانا اور مذکورہ ہدف کے لئے تعلیم و تعلم بھی بذاتِ خود اشکال نہیں رکھتے۔
س ١١۶۵: کونسے آلات آلاتِ لہو شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کا استعمال کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے؟
ج: وہ آلات جو عام طور پر لہو و لعب میں استعمال ہوتے ہیں اور جن کی کوئی حلال منفعت نہیں ہے ۔
س ١١۶۶:جو آڈیوکیسٹ حرام چیزوں پر مشتمل ہے کیا اس کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے؟
ج: جن کیسٹوں کا سننا حرام ہے ان کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
- رقص
رقص
س ١١۶۷:آیا شادیوں میں علاقائی رقص جائز ہے؟ اور ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص حرام ہے اور عورت کا عورتوں کے درمیان رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ نشست محفل رقص بن جاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگررقص میں ایسی کیفیت پائی جاتی ہو جو شہوت کو ابھارے یا کسی حرام فعل کے ہمراہ ہو (جیسے حرام موسیقی اور گانا) یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو یا وہاں کوئی نا محرم مرد موجود ہو تو حرام ہے اور اس حکم میں شادی اور غیر شادی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ رقص کی محافل میں شرکت کرنا اگر دوسروں کے فعل حرام کی تائید شمار ہو یا فعل ِحرام کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١٦۸: کیا خواتین کی محفل میں بغیر موسیقی کی دھن کے رقص کرنا حرام ہے یا حلال ؟ اور اگر حرام ہے توکیا شرکت کرنے والوں پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟
ج: عورت کا عورتوں کیلئے رقص اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ محفل محفل رقص میں بدل جائے تو محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگر رقص اس طرح ہو کہ شہوت کو ابھارے یا فعل حرام کا سبب بنے یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو حرام ہے ۔ فعل حرام پر اعتراض کے طور پر محفل کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔
س ١١٦۹: مرد کا مرد کے لئے اور عورت کا عورت کے لئے یا مرد کا خواتین کے درمیان یا عورت کا مردوں کے درمیان علاقائی رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص کرنا حرام ہے اور عورت کا عورتوں کیلئے رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ پروگرام محفل رقص میں تبدیل ہوجاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اس کا ترک کرنا ہے اور اس صورت کے علاوہ اگر رقص میں ایسی کیفیت پاءی جاتی ہو کہ وہ شہوت کو ابھارے یا فعل ِحرام (جیسے حرام موسیقی اور گانا) کے ہمراہ ہو یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہویا کوئی نا محرم مرد وہاں موجود ہو تو حرام ہے۔
س ١١۷۰:مردوں کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا حکم کیا ہے؟ ٹیلیویژن و غیرہ پر چھوٹی بچیوں کا رقص دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر رقص شہوت کو ابھارے یا اس سے گناہ گار انسان کی تائید ہوتی ہو یا اسکے لئے مزید جرأت کا باعث ہو اور یا کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جائز نہیں ہے۔
س ١١۷۱:اگر شادی میں شرکت کرنا معاشرتی آداب کے احترام کی وجہ سے ہو تو کیا رقص کے احتمال کے ہوتے ہوئے اس میں شرکت کرنا شرعا اشکال رکھتا ہے ؟
ج: ایسی شادیوں میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن میں رقص کا احتمال ہو جب تک کہ فعل حرام کو انجام دینے والے کی تائید شمار نہ ہو اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب نہ بنے۔
س ١١۷۲:آیا بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا حرام ہے؟
ج: بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا اگرکسی اور حرام کام کے ہمراہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١١۷۳ : آیا اولاد کی شادی میں رقص کرنا جائز ہے؟اگرچہ رقص کرنے والے ماں باپ ہوں۔
ج: اگر رقص حرام کا مصداق ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی میں رقص کریں۔
س ١١۷۴: ایک شادی شدہ عورت شادیوں میں شوہر کی اطلاع کے بغیر نامحرم مردوں کے سامنے ناچتی ہے اور یہ عمل چند بار انجام دے چکی ہے اور شوہر کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس پر اثر نہیں کرتا اس صورت میں کیا حکم ہے؟
ج: عورت کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا مطلقاً حرام ہے اور عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا بھی بذات ِ خود حرام ہے اورنشوز کا سبب ہے جس کے نتیجے میں عورت نان و نفقہ کے حق سے محروم ہوجاتی ہے۔
س١١۷۵:دیہاتوں کے اندرہونے والی شادیوں میں عورتوں کا مردوں کے سامنے رقص کرنے کاکیاحکم ہے؟ جبکہ اس میں آلات ِموسیقی بھی استعمال ہوں؟ مذکورہ عمل کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: عورتوں کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا اور ہر وہ رقص جو شہوت کو ابھارے اور مفسدے کا سبب بنے حرام ہے اور موسیقی کے آلات کا استعمال اور موسیقی کا سننا اگرموسیقی لہوی اور مطرب ہو تو وہ بھی حرام ہے ، ان حالات میں مکلّفین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہی از منکر کریں۔
س ١١۷۶:ممیزبچے یا بچی کا زنانہ یا مردانہ محفل میں رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: نا بالغ بچہ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مکلف نہیں ہے لیکن بالغ افراد کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ اسے رقص کی ترغیب دلائیں۔
س ١١۷۷:رقص کی تربیت کے مراکز قائم کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: رقص کی تعلیم و ترویج کے مراکز قائم کرنا حکومت اسلامی کے اہداف کے منافی ہے۔
س ١١٧۸: مردوں کا محرم خواتین کے سامنے اور خواتین کا محرم مردوں کے سامنے رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ چاہے محرمیت سببی ہو یا نسبی ؟
ج: وہ رقص جو حرام ہے اس کا مرد اور عورت یا محرم اور نامحرم کے سامنے انجام دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س ١١٧۹:آیا شادیوں میں ڈنڈوں سے لڑائی کی نمائش کرنا جائز ہے اور اگر اسکے ساتھ آلات موسیقی استعمال کئے جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تفریحی اور ورزشی کھیل کی صورت میں ہو اور جان کا خطرہ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے کے طریقے سے آلات ِموسیقی کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے۔
س ١١۸۰:دبکہ کا کیا حکم ہے؟ (دبکہ ایک طرح کا علاقائی رقص ہے جس میں افرادہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اچھل کر جسمانی حرکات کے ساتھ ملکر زمین پر پاؤں مارتے ہیں تا کہ ایک شدید اورمنظم آواز پیدا ہو)
ج: اگر یہ عرف میں رقص شمار ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو رقص کا حکم ہے۔
- تالی بجانا
تالی بجانا
س١١۸۱: میلاد اور شادی و غیرہ جیسے زنانہ جشن میں خواتین کے تالیاں بجانے کا کیا حکم ہے؟ برفرض اگر جائز ہو تو محفل سے باہر نامحرم مردوں کو اگر تالیوں کی آواز پہنچے تو اسکا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر اس پر کوئی مفسدہ مترتب نہ ہو تومروجہ انداز سے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ نامحرم کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے۔
س ١١۸۲:معصومین علیہم السلام کے میلاد یا یوم وحدت و یوم بعثت کے جشنوں میں خوشحالی کے طور پر قصیدہ یا رسول اکرمؐ اور آپ کی آل پر درود پڑھتے ہوئے تالی بجانے کا کیا حکم ہے ؟ اس قسم کے جشن کامساجد اورسرکاری اداروں میں قائم نماز خانوں اور امام بارگاہ جیسی عبادت گاہوں میں برپا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بطور کلی عید و غیرہ جیسے جشنوں میں داد و تحسین کے لئے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ دینی محفل کی فضا درود وتکبیر سے معطر ہو بالخصوص ان محافل میں جو مساجد، امام بارگاہوں ،نمازخانوں وغیرہ میں منعقد کی جائیں تاکہ تکبیر اور درود کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکے۔
- نامحرم کی تصویر اور فلم
نامحرم کی تصویر اور فلم
س١١۸۳:بے پرد ہ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ٹیلی ویژن میں عورت کا چہرہ دیکھنے کا کیا حکم ہے؟کیا مسلمان اور غیر مسلم عورت میں فرق ہے؟کیا براہ راست نشر ہونے والی تصویر اور ریکارڈنگ دیکھنے میں فرق ہے؟
ج: نامحرم عورت کی تصویرکا حکم خود اسے دیکھنے کے حکم جیسا نہیں ہے لہذا مذکورہ تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو اور گناہ میں پڑنے کا خوف نہ ہو اور تصویر بھی ایسی مسلمان عورت کی نہ ہو جسے دیکھنے والا پہچانتاہے۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نا محرم عورت کی وہ تصویر جو براہ راست نشر کی جا رہی ہو نہ دیکھی جائے لیکن ٹیلی ویژن کے وہ پروگرام جو ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں ان میں خاتون کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ریبہ اور گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو۔
س١١۸۴:ٹیلیویژن کے ایسے پروگرام دیکھنے کا کیا حکم ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں؟ خلیج فارس کے گردو نواح میں رہنے والوں کا خلیجی ممالک کے ٹیلیویژن دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: وہ پروگرام جو مغربی ممالک سے سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہوتے ہیں اور اسی طرح اکثر ہمسایہ ممالک کے پروگرام چونکہ گمراہ کن، مسخ شدہ حقائق اور لہو و مفسدہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا دیکھنا غالباً ، گمراہی ، مفاسد اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتاہے لہذا ان کا دریافت کرنا اورمشاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
س١١۸۵:کیا ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ طنز و مزاح کے پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج ہے؟
ج: طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں کسی مؤمن کی توہین ہو۔
س١١۸۶: شادی کے جشن میں میری کچھ تصویریں اتاری گئیں جبکہ میں پورے پردے میں نہیں تھی وہ تصویریں حال حاضر میں میری سہیلیوںاور میرے رشتہ داروں کے پاس موجود ہیں کیا مجھ پر ان تصویروں کا واپس لینا واجب ہے؟
ج: اگر دوسروں کے پاس تصاویر موجود ہونے میں کوئی مفسدہ نہ ہویا مفسدہ ہو لیکن ان تصویروں کے دینے میں آپ کا کوئی دخل نہ ہو یا تصاویر واپس لینے میں آپ کیلئے زحمت و مشقّت ہو تو ان تمام صورتوں میں آپ پر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔
س ١١۸۷:ہم عورتوں کیلئے حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور شہداء کی تصویروں کو چومنے کا کیا حکم ہے جب کہ وہ ہمارے نامحرم ہیں۔
ج: بطور کلی نامحرم کی تصویر خود نامحرم والا حکم نہیں رکھتی لہذا احترام، تبرک اور اظہار محبت کے لئے نامحرم کی تصویر کو بوسہ دینا جائز ہے البتہ اگر قصد ریبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
س١١٨۸:کیا سینماکی فلموں وغیرہ میں برہنہ یا نیم برہنہ عورتوں کی تصاویر جنہیں ہم نہیں پہچانتے دیکھنا جائز ہے؟
ج: تصویر اور فلم دیکھنے کا حکم خود نامحرم کو دیکھنے کی طرح نہیں ہے لہذا شہوت، ربیہ (بری نیت) اور خوف مفسدہ کے بغیر ہو تو شرعاً اسے دیکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن چونکہ شہوت کو ابھارنے والی برہنہ تصاویر کو دیکھنا عام طور پر شہوت کے بغیر نہیں ہوتا لہذا ارتکاب گناہ کا مقدمہ ہے پس حرام ہے ۔
س ١١٨۹:کیا شادی کی تقریبات میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیئے تصویر اتروانا جائز ہے؟ جواز کی صورت میں آیا مکمل حجاب کی مراعات کرنا اس پر واجب ہے ؟
ج: بذات خود تصویر اتروانے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے البتہ اگر یہ احتمال پایا جاتاہو کہ عورت کی تصویر کو کوئی نامحرم دیکھے گا اور عورت کی طرف سے مکمل حجاب کا خیال نہ رکھنا مفسدہ کا باعث بنے گا تو اس صورت میں حجاب کا خیال رکھنا واجب ہے ۔
س ١١۹۰:آیا عورت کے لئے مردوں کے کشتی کے مقابلے دیکھنا جائز ہے؟
ج: ان مقابلوں کو اگر کشتی کے میدان میں حاضر ہو کر دیکھا جائے یا پھرلذت وریبہ کے قصد سے دیکھا جائے اور یا مفسدے اور گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہو تو جائزنہیں ہے اور اگر ٹی وی سے براہ راست نشر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا جائے تو بنابر احتیاط جائز نہیں ہےاس کے علاوہ دیگر صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔
س ١١۹۱: اگر دلہن شادی کی محفل میں اپنے سر پر شفاف و باریک کپڑا اوڑھے تو کیا نامحرم مرد اس کی تصویر کھینچ سکتا ہے یانہیں؟
ج: اگر یہ نامحرم عورت پر حرام نگاہ کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ جائز ہے۔
س ١١۹۲:بے پردہ عورت کی اسکے محارم کے درمیان تصویر لینے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر احتمال ہو کہ نامحرم اسے دھوتے اور پرنٹ کرتے وقت دیکھے گا تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تصویر کھینچنے والا مصور جو اسے دیکھ رہا ہے اس کے محارم میں سے ہو توتصویر لینا جائز ہے اوراسی طرح اگر مصور اسے نہ پہچانتا ہو تو اس سے تصویر دھلانے اور پرنٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١١۹۳: بعض جوان فحش تصاویر دیکھتے ہیں اور اس کے لئے خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس طرح کی تصاویر کا دیکھنا انسان کی شہوت کوایک حدّ تک تسکین دیتا ہو کہ جو اسے حرام سے بچانے میں مؤثر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تصاویر کا دیکھنا بری نیت سے ہو یا یہ جانتا ہو کہ تصاویر کا دیکھنا شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنے گا یا مفسدے اور گناہ کے ارتکاب کا خوف ہو تو حرام ہے اور ایک حرام عمل سے بچنا دوسرے حرام کے انجام دینے کا جواز فراہم نہیں کرتا ۔
س١١۹۴:ایسے جشن میں فلم بنانے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے جہاں موسیقی بج رہی ہو اور رقص کیا جارہا ہو؟ مرد کا مردوں کی تصویر اور عورت کا خواتین کی تصویر کھینچنے کا کیا حکم ہے؟ مرد کا شادی کی فلم کو دھونے کا کیا حکم ہے چاہے اس خاندان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ؟ اور اگر عورت فلم کو دھوئے تو کیا حکم ہے؟ کیا ایسی فلموں میں موسیقی کا استعمال جائز ہے؟
ج: خوشی کے جشن میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مرد کا مردوں اور عورت کا خواتین کی فلم بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جب تک غنا اورحرام موسیقی سننے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی کسی اور حرام فعل کے ارتکاب کا باعث بنے۔ مردوں کا عورتوں اور عورتوں کا مردوں کی فلم بنانا اگرریبہ کے ساتھ نگاہ یا کسی دوسرے مفسدے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے اور اسی طرح لہو و گناہ کی محافل سے مناسب لہوی موسیقی کا شادی کی فلموں میں استعمال حرام ہے۔
س١١۹۵:اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ملکی اور غیر ملکی فلموں اور موسیقی کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں دیکھنے اور سننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر سامعین اور ناظرین کی تشخیص یہ ہے کہ وہ موسیقی جو ریڈیو یا ٹیلیویژن سے نشر ہو رہی ہے وہ ایسی لہوی موسیقی ہے جو محافل لہو گناہ سے مناسبت رکھتی ہے اور وہ فلم جو ٹیلیویژن سے دکھائی جارہی ہے اس کے دیکھنے میں مفسدہ ہے تو انکے لئے ان کا سننا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور محض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونا جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے۔
س١١۹۶: سرکاری مراکز میں آویزاں کرنے کی غرض سے رسول اکرمؐ ، امیر المؤمنین اور امام حسین سے منسوب تصاویر چھاپنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: مذکورہ تصاویر کے چھاپنے میں بذات ِخودکوئی مانع نہیں ہے، بشرطیکہ ایسی کسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو عرف عام کی نگاہ میں موجب ہتک اور اہانت ہے نیز ان عظیم ہستیوں کی شان سے منافات نہ رکھتی ہوں۔
س١١۹۷:ایسی فحش کتابیں اور اشعار پڑھنے کا کیا حکم ہے جو شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنیں؟
ج: ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
س١١٩۸: بعض ٹی وی اسٹیشنز اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے براہ راست سلسلہ وار پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جو مغرب کے معاشرتی مسائل پیش کرتے ہیں لیکن ان پروگراموں میں مرد و عورت کے اختلاط اور ناجائز تعلقات کی ترویج جیسے فاسد افکار بھی پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ پروگرام بعض مومنین پر بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جسے ان کو دیکھنے کے بعد اپنے متاثر ہونے کا احتمال ہو؟ اور اگر کوئی اس غرض سے دیکھے کہ دوسروں کے سامنے اس کے نقصان کو بیان کرسکے یا اس پر تنقید کرسکے اور لوگوں کو نہ دیکھنے کی نصیحت کرسکے تو کیا اس کا حکم دوسروں سے فرق کرتا ہے؟
ج: لذت کی نگاہ سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر دیکھنے سے متاثر ہونے اورمفسدے کا خطرہ ہو تو بھی جائز نہیں ہے ہاں تنقید کی غرض سے اور لوگوں کو اسکے خطرات سے آگاہ کرنے اور نقصانات بتانے کے لئے ایسے شخص کے لیئے دیکھنا جائز ہے جو تنقید کرنے کا اہل ہو اور اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ ان سے متأثر ہوکر کسی مفسدہ میں نہیں پڑے گا اور اگراسکے لیئے کچھ قوانین ہوں تو انکی ضرور رعایت کی جائے ۔
س١١٩۹: ٹیلی ویژن پر آنے والی اناؤ نسر خاتون جو بے پردہ ہوتی ہے اور اسکا سر و سینہ بھی عریاں ہوتا ہے کے بالوں کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے ؟
ج: اگرلذت کے ساتھ نہ ہو اور اس سے حرام میں پڑنے اورمفسدہ کا خوف نہ ہو اور نشریات بھی براہ راست نہ ہوں تو فقط دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١۲۰۰: شادی شدہ شخص کے لیئے شہوت انگیز فلمیں دیکھنا جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اگر دیکھنے کا مقصد شہوت کو ابھارنا ہو یا انکا دیکھنا شہوت کے بھڑکانے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔
س ١۲۰۱:شادی شدہ مردوں کیلئے ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں حاملہ عورت سے مباشرت کرنے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ہے جبکہ اس بات کا علم ہے کہ مذکورہ عمل اسے حرام میں مبتلا نہیں کرے گا؟
ج: ایسی فلموں کا دیکھنا چونکہ ہمیشہ شہوت انگیز نگاہ کے ہمراہ ہوتا ہے لہذاجائز نہیں ہے ۔
س ١۲۰۲:مذہبی امور کی وزارت میں کام کرنے والے فلموں ، مجلات اور کیسٹوں کی نظارت کرتے ہیں تاکہ جائز مواد کو ناجائز مواد سے جدا کریں اس چیز کے پیش نظر کہ نظارت کے لئے انہیں غور سے سننا اوردیکھنا پڑتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
ج: کنٹرول کرنے والے افراد کے لیئے قانونی فریضہ انجام دیتے ہوئے بقدر ضرورت دیکھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان پر لازم ہے کہ لذت و ریبہ کے قصد سے پرہیز کریں نیز جن افراد کو مذکورہ مواد کے کنٹرول پر تعینات کیا جاتاہے ان کا فکری اور روحانی حوالے سے اعلی حکام کے زیر نظر اور زیر رہنمائی ہونا واجب ہے ۔
س١۲۰۳: کنٹرول کرنے کے عنوان سے ایسی ویڈیو فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو کبھی کبھی قابل اعتراض مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں تاکہ ان مناظر کو حذف کرکے ان فلموں کو دوسرے افراد کے دیکھنے کے لئے پیش کیا جائے؟
ج: فلم کا اسکی اصلاح اور اسے فاسد و گمراہ کن مناظر کے حذف کرنے کے لئے مشاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اصلاح کرنے والا شخص خود حرام میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو۔
س١۲۰۴:آیا میاں بیوی کے لئے گھر میں جنسی فلمیں دیکھنا جائز ہے ؟ آیا وہ شخص جس کے حرام مغز کی رگ کٹ گئی ہو وہ مذکورہ فلمیں دیکھ سکتا ہے تاکہ اپنی شہوت کو ابھارے اور اس طرح اپنی زوجہ کے ساتھ مباشرت کے قابل ہوسکے؟
ج: جنسی ویڈیو فلموں کے ذریعہ شہوت ابھارنا جائز نہیں ہے۔
س١۲۰۵: حکومت اسلامی کی طرف سے قانونی طور پر ممنوع فلمیں اور تصاویر دیکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ ان میں کسی قسم کا مفسدہ نہ ہو؟ اور جو ان میاں بیوی کے لئے مذکورہ فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: ممنوع ہونے کی صورت میں انھیں دیکھنے میں اشکال ہے۔
س١۲۰۶: ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں کبھی کبھی اسلامی جمہوریہ (ایران)کے مقدسات یا رہبر محترم کی توہین کی گئی ہو؟
ج: ایسی فلموں سے اجتناب واجب ہے۔
س١۲۰۷:ایسی ایرانی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد بنائی گئی ہیں اور ان میں خواتین ناقص حجاب کے ساتھ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی انسان کو بُری چیزیں سکھاتی ہیں؟
ج: اگرلذت اور ریبہ کے قصد سے نہ ہو اور مفسدہ میں مبتلا ہونے کا موجب بھی نہ ہو تو بذاتِ خود ایسی فلمیں دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن فلمیں بنانے والوں پر واجب ہے کہ ایسی فلمیں نہ بنائیں جو اسلام کی گرانقدر تعلیمات کے منافی ہوں۔
س١٢٠۸:ایسی فلموں کی نشر و اشاعت کا کیا حکم ہے جنکی تائید مذہبی اور ثقافتی امور کی وزارت نے کی ہو؟ اور یونیورسٹی میں موسیقی کی ایسی کیسٹوں کے نشر کرنے کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذکورہ وزارت نے کی ہو؟
ج: اگر مذکورہ فلمیں اور کیسٹیں مکلف کی نظر میں عرفاغنا اور محافل لہو و گناہ کے ساتھ مناسبت رکھنے والی موسیقی پر مشتمل ہوں تو ان کا نشر کرنا، پیش کرنا ، سننا اور دیکھنا جائز نہیں ہے، اور بعض متعلقہ اداروں کا تائید کرنا مکلف کے لئے جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے جب کہ موضوع کی تشخیص میں خود اس کی رائے تائید کرنے والوں کی نظر کے خلاف ہو۔
س ١٢٠۹:زنانہ لباس کے ایسے مجلات کی خرید و فروخت اورانہیں محفوظ رکھنے کا کیا حکم ہے کہ جن میں نامحرم خواتین کی تصاویر ہوتی ہیں اور جن سے کپڑوں کے انتخاب کیلئے استفادہ کیا جاتا ہے؟
ج: ان مجلات میں صرف نامحرم کی تصاویرکا ہونا خرید و فروخت کو ناجائز نہیں کرتا اور نہ ہی لباس کو انتخاب کرنے کیلئے ان سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے مگر یہ کہ مذکورہ تصاویر پر کوئی مفسدہ مترتب ہو ۔
س ١٢۱۰:کیا ویڈیو کیمرے کی خریدو فروخت جائز ہے؟
ج: اگر حرام امور میں استعمال کی غرض سے نہ ہوتو ویڈیو کیمرے کی خرید و فروخت جائز ہے ۔
س ١٢۱۱:فحش ویڈیو فلمیں اوروی سی آر کی فروخت اور کرائے پر دینے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ فلمیں ایسی ہیجان آور تصاویر پر مشتمل ہوں جو شہوت کو ابھاریں اور انحراف اور مفسدے کا موجب بنیں یا غنا اور لہوی موسیقی جو کہ محافل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہے پر مشتمل ہوں تو ایسی فلموں کا بنانا ،انکی خرید و فروخت ، کرایہ پر دینا اور اسی طرح وی سی آر کا مذکورہ مقصد کے لئے کرا ئے پر دینا جائز نہیں ہے۔
س ١٢۱۲:غیر ملکی ریڈیو سے خبریں اور ثقافتی اور علمی پروگرام سننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مفسدے اور انحراف کا سبب نہ ہوں تو جائز ہے۔
- ڈش ا نٹینا
ڈش ا نٹینا
س ١٢۱۳:کیا ڈش کے ذریعے ٹی وی پروگرام دیکھنا ، ڈش خریدنا اور رکھنا جائز ہے؟ اور اگر ڈش مفت میں حاصل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: چونکہ ڈش، ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لئے محض ایک آلہ ہے اور ٹی وی پروگرام جائز بھی ہوتے ہیں اور ناجائز بھی لہذا ڈش کا حکم بھی دیگر مشترک آلات جیسا ہے کہ جنہیں حرام مقاصد کے لئے بیچنا ،خریدنا اور اپنے پاس رکھنا حرام ہے لیکن جائز مقاصد کے لئے جائز ہے البتہ چونکہ یہ آلہ جسکے پاس ہو اسے یہ حرام پروگراموں کے حاصل کرنے کے لئے کاملاًمیدان فراہم کرتاہے اور بعض اوقات اسے گھر میں رکھنے پر دیگر مفاسد بھی مترتب ہوتے ہیں لہذا اسکی خرید و فروخت اور رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اس شخص کے لئے جائز ہے جسے اپنے اوپر اطمینان ہوکہ اس سے حرام استفادہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے گھر میں رکھنے پر کوئی مفسدہ مترتب ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قانون ہو تو اسکی مراعات کرنا ضروری ہے۔
س١٢۱۴:آیا جو شخص اسلامی جمہوریہ ایران سے باہر رہتا ہے اسکے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھنے کے لیئے سیٹلائٹ چینلز دریافت کرنے والا ڈش انٹیناخریدنا جائز ہے؟
ج: مذکورہ آلہ اگرچہ مشترک آلات میں سے ہے اور اس بات کی قابلیت رکھتا ہے کہ اس سے حلال استفادہ کیا جائے لیکن چونکہ غالباً اس سے حرام استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اسے گھر میں رکھنے سے دوسرے مفاسد بھی پیدا ہوتے ہیں لہذا اسکا خریدنا اور گھر میں رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کو اطمینان ہو کہ اسے حرام میں استعمال نہیں کرے گا اور اسکے نصب کرنے پر کوئی اور مفسدہ بھی مترتب نہیں ہوگا تو اسکے لئے جائز ہے ۔
س١٢۱۵:ایسے ڈش انٹینا کا کیا حکم ہے جو اسلامی جمہوریہ کے چینلز کے علاوہ بعض خلیجی اور عرب ممالک کی خبریں اور انکے مفید پروگراموں کے ساتھ ساتھ تمام مغربی اور فاسد چینلز بھی دریافت کرتاہے؟
ج: مذکورہ آلہ کے ذریعے ٹیلیویژن پروگرام کے حصول اور استعمال کا معیار وہی ہے جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اورمغربی اور غیر مغربی چینلز میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س١٢۱۶:علمی اور قرآنی اور ان جیسے دیگر پروگراموں سے مطلع ہونے کے لئے کہ جنہیں مغربی ممالک اور خلیج فارس کے پڑوسی ممالک نشر کرتے ہیں ڈش کے استعمال کا حکم کیا ہے؟
ج: مذکورہ آلے کو علمی ، قرآنی وغیرہ پروگراموں کے مشاہدے کے لئے استعمال کرنا بذات ِ خود صحیح ہے۔ لیکن وہ پروگرام جو سیٹلائٹ کے ذریعہ مغربی یا اکثر ہمسایہ ممالک نشر کرتے ہیں غالباً گمراہ کن افکار، مسخ شدہ حقائق اور لہو ومفسدے پر مبنی ہوتے ہیں حتی کہ قرآنی ، علمی پروگرام دیکھنا بھی مفسدے اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے لہذا ایسے پروگرام دیکھنے کیلئے ڈش کا استعمال شرعاً حرام ہے۔ ہاں اگر خالص علمی اور قرآنی پروگرام ہوں اور ان کے دیکھنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو اور اس سے کسی حرام کام میں بھی مبتلا نہ ہو تو جائز ہے البتہ اس سلسلے میں اگر کوئی قانون ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے۔
س١٢۱۷:میرا کام ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام دریافت کرنے والے آلات کی مرمت کرنا ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے ڈش لگانے اور مرمت کرانے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مذکورہ مسئلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور ڈش کے اسپئیر پارٹس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مذکورہ آلہ سے حرام امور میں استفادہ کیا جائے جیسا کہ غالباً ایسا ہی ہے یا آپ جانتے ہیں کہ جو شخص اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے حرام میں استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کا فروخت کرنا، خریدنا ، نصب کرنا ، چالو کرنا، مرمت کرنا اور اس کے اسپئیر پارٹس فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
- تھیٹر اور سینما
تھیٹر اور سینما
س١٢١۸:کیا فلموں میں ضرورت کے تحت علماء دین اور قاضی کے لباس سے استفادہ کرنا جائز ہے؟کیا ماضی اور حال کے علما پر دینی اور عرفانی پیرائے میں فلم بنانا جائز ہے؟ اس شرط کے ساتھ کہ ان کا احترام اور اسلام کی حرمت بھی محفوظ رہے ؟ اور انکی شان میں کسی قسم کی بے ادبی اور بے احترامی بھی نہ ہو بالخصوص جب ایسی فلمیں بنانے کا مقصد دین حنیف اسلام کی اعلی اقدار کو پیش کرنا اور عرفان اور ثقافت کے اس مفہوم کو بیان کرنا ہو جو ہماری اسلامی امت کا طرہ امتیاز ہے اور اس طرح سے دشمن کی گندی ثقافت کا مقابلہ کیا جائے اور اسے سینما کی زبان میں بیان کیا جائے کہ جو جوانوں کے لئے بالخصوص جذاب اور زیادہ موثر ہے ؟
ج: اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سینما بیداری ، شعور پیدا کرنے اور تبلیغ کا ذریعہ ہے پس ہر اس چیز کی تصویر کشی کرنا یا پیش کرنا جو نوجوانوں کے فہم و شعور کو بڑھائے اور اسلامی ثقافت کی ترویج کرے، جائز ہے۔ انہیں چیزوں میں سے ایک علما ء دین کی شخصیت ، انکی ذاتی زندگی اور اسی طرح دیگر صاحبان علم و منصب کی شخصیت اور انکی شخصی زندگی کا تعارف کراناہے۔ لیکن ان کی ذاتی حیثیت اور ان کے احترام کی رعایت کرنا اور انکی ذاتی زندگی کے حریم کا پاس رکھنا واجب ہے اور یہ کہ ایسی فلموں سے اسلام کے منافی مفاہیم کو بیان کرنے کے لئے استفادہ نہ کیا جائے۔
س١٢١۹: ہم نے ایک ایسی داستانی اور حماسی فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے کہ جو کربلا کے ہمیشہ زندہ رہنے والے واقعہ کی تصویر پیش کرے اور ان عظیم اہداف کو پیش کرے کہ جنکی خاطر امام حسین شہید ہوئے ہیں البتہ مذکورہ فلم میں امام حسین ـ کو ایک معمولی اور قابل رؤیت فرد کے طور پر نہیں دکھا یا جائے گا بلکہ انہیں فلم بندی ،اسکی ساخت اور نورپردازی کے تمام مراحل میں ایک نورانی شخصیت کی صورت میں پیش کیا جائے گا کیا ایسی فلم بنانا اور امام حسین علیہ السلام کو مذکورہ طریقے سے پیش کرنا جائز ہے ؟
ج: اگر فلم قابل اعتماد تاریخی شواہد کی روشنی میں بنائی جائے اور موضوع کا تقدس محفوظ رہے اور امام حسین اور ان کے اصحاب اور اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ ملحوظ رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ موضوع کے تقدس کو اس طرح محفوظ رکھنا جیسے کہ محفوظ رکھنے کا حق ہے اور اسی طرح امام اور ان کے اصحاب کی حرمت کو باقی رکھنا بہت مشکل ہے لہذا اس میدان میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
س١٢۲۰:اسٹیج یا فلمی اداکاری کے دوران مردوں کے لئے عورتوں کا لباس اور عورتوں کے لئے مردوں والا لباس پہننے کا کیا حکم ہے؟ اور عورتوں کے لئے مردوں کی آواز کی نقل اتارنے اور مردوں کیلئے عورتوں کی آواز کی نقل اتارنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اداکاری کے دوران کسی حقیقی شخص کی خصوصیات بیان کرنے کی غرض سے جنس مخالف کے لئے ایک دوسرے کا لباس پہننا یا آواز کی نقل اتارنا اگر کسی مفسدے کا سبب نہ بنے تو اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔
س١٢۲۱: اسٹیج شو یاتھیڑمیں خواتین کے لئے میک اپ کا سامان استعمال کرنے کا کیاحکم ہے؟ جبکہ انہیں مرد مشاہدہ کرتے ہوں؟
ج: اگر میک اپ کا عمل خود انجام دے یا خواتین کے ذریعے انجام پائے یا کوئی محرم انجام دے اور اس میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو جائز ہے وگرنہ جائز نہیں ہے البتہ میک اپ شدہ چہرہ نامحرم سے چھپانا ضروری ہے ۔
- مصوری اور مجسمہ سازی
مصوری اور مجسمہ سازی
س١٢۲۲:گڑیا ، مجسمے، ڈراءنگ اور ذی روح موجودات جیسے نباتات، حیوانات اور انسان کی تصویریں بنانے کا کیا حکم ہے؟ انکی خرید و فروخت ،گھر میں رکھنے یا انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: موجودات کی مجسمہ سازی اور تصویریں اور ڈراءنگ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ وہ ذی روح ہوں اسی طرح مجسموں اور ڈرائنگ کی خرید و فروخت ان کی حفاظت کرنے نیز انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٢۲۳: جدید طریقۂ تعلیم میں خود اعتمادی کے عنوان سے ایک درس شامل ہے جس کا ایک حصہ مجسمہ سازی پر مشتمل ہے بعض اساتید طالب علموں کو دستی مصنوعات کے عنوان سے کپڑے یا کسی اور چیز سے گڑیا یا کتّے ، خرگوش و غیرہ کا مجسمہ بنانے کا حکم دیتے ہیں ۔ مذکورہ اشیاء کے بنانے کا کیا حکم ہے ؟ استاد کے اس حکم دینے کا کیا حکم ہے؟کیا مذکورہ اشیاء کے اجزا کا مکمل اور نامکمل ہونا انکے حکم میں اثر رکھتا ہے؟
ج: مجمسہ سازی اور اس کا حکم دینا بلا مانع ہے۔
س١٢۲۴: بچوں اورنوجوانوں کا قرآنی قصّوں کے خاکے اور ڈراءنگ بنانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً بچوں سے یہ کہا جائے کہ اصحاب فیل یا حضرت موسیٰ کے لئے دریا کے پھٹنے کے واقعہ کی تصویریں بنائیں؟
ج: بذات خود اس کام میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہواورغیر واقعی اور ہتک آمیزنہ ہو۔
س١٢۲۵: کیا مخصوص مشین کے ذریعے گڑیا یا انسان و غیرہ جیسے ذی روح موجودات کا مجسمہ بنانا جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٢۲۶:مجسمے کی طرز کا زیور بنانے کا کیا حکم ہے؟کیا مجسمہ سازی کے لئے استعمال شدہ مواد بھی حرام ہونے میں مؤثر ہے؟
ج: مجمسہ بنانے میں اشکال نہیں ہے اور اس سلسلے میں اس مواد میں کوئی فرق نہیں ہے جس سے مجسمہ بنایا جاتاہے۔
س١٢۲۷: آیا گڑیا کے اعضا مثلاً ہاتھ پاؤں یا سر دوبارہ جوڑنا مجسمہ سازی کے زمرے میں آتاہے؟ کیا اس پر بھی مجسمہ سازی کا عنوان صدق کرتاہے؟
ج: صرف اعضا بنانا یا انھیں دوبارہ جو ڑنا ، مجسمہ سازی نہیں کہلاتا اور ہر صورت میں مجسمہ بنانا اشکال نہیں رکھتا۔
س١٢٢۸:جلد کو گودناــ (خالکوبی )جو کہ بعض لوگوں کے ہاں رائج ہے کہ جس سے انسانی جسم کے بعض اعضا پر اس طرح مختلف تصاویر بنائی جاتی ہیں کہ وہ محو نہیں ہوتیںــکیا حکم رکھتاہے؟اور کیا یہ ایسی رکاوٹ ہے کہ جس کی وجہ سے وضو یا غسل نہیں ہوسکتا ؟
ج: گودنے اور سوئی کے ذریعے جلد کے نیچے تصویر بنانا حرام نہیں ہے اور وہ اثر جو جلد کے نیچے باقی ہے وہ پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہے لہذا غسل اور وضو صحیح ہے۔
س١٢٢۹:ایک میاں بیوی معروف مصور ہیں۔ ان کا کام تصویری فن پاروں کی مرمت کرنا ہے۔ ان میں سے بہت سے عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ بعض میں صلیب یا حضرت مریم یا حضرت عیسی کی شکل ہوتی ہے مذکورہ اشیا کو گرجا والے یا مختلف کمپنیاں ان کے پاس لے کر آتی ہیں تاکہ ان کی مرمت کی جائے جبکہ پرانے ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے بعض حصے ضایع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ آیا ان کے لئے ان چیزوں کی مرمت کرنا اور اس عمل کے عوض اجرت لینا صحیح ہے؟ اکثر تصاویر اسی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کا یہی واحد پیشہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ وہ دونوں اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں آیا مذکورہ تصاویر کی مرمت اور اس کا م کے بدلے اجرت لینا انکے لئے جائز ہے؟
ج: محض کسی فن پارے کی مرمت کرنا اگرچہ وہ عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت مریم علیہا السلام کی تصاویر پر مشتمل ہوں جائز ہے اور مذکورہ عمل کے عوض اجرت لینا بھی صحیح ہے اور اس قسم کے عمل کو پیشہ بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ یہ باطل اور گمراہی کی ترویج یا کسی اور مفسدے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔
- جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا
- قسمت آزمائی
قسمت آزمائی
س١٢۳۷:قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے اور مکلّف کے لئے اس سے حاصل شدہ انعام کا کیا حکم ہے؟
ج: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنا اور فروخت کرنا بنابرا احتیاط واب حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام کا مالک نہیں بنتا اور اسے مذکورہ مال کے لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
س١٢٣۸:وہ ٹکٹ جو ایک ویلفیر پیکج (ارمغان بہزیستی)کے نام سے نشر کیئے جاتے ہیں انکی بابت پیسے دینا اور انکی قرعہ اندازی میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟
ج: بھلائی کے کاموں کیلئے لوگوں سے ہدایا جمع کرنے اور اہل خیر حضرات کی ترغیب کی خاطر ٹکٹ چھاپنے اور تقسیم کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اسی طرح مذکورہ ٹکٹ بھلائی کے کاموںمیں شرکت کی نیت سے خرید نے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔
س١٢٣۹: ایک شخص کے پاس گاڑی ہے جسے وہ بخت آزمائی کیلئے پیش کرتا ہے اس طرح کہ مقابلے میں شرکت کرنے والے افراد ایک خاص ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک مقررہ تاریخ کو ایک معیّن قیمت کے تحت انکی قرعہ اندازی ہوگی معیّنہ مدت کے ختم ہونے پر اور لوگوں کی ایک تعداد کی شرکت کے بعد قرعہ اندازی کی جاتی ہے جس شخص کے نام قرعہ نکلتاہے وہ اس قیمتی گاڑی کو لے لیتا ہے تو کیا قرعہ اندازی کے ذریعے مذکورہ طریقے سے گاڑی بیچنا شرعاً جائز ہے؟
ج: بنابر احتیاط ان ٹکٹوں کی خرید و فروش حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام (گاڑی) کا مالک نہیں بنے گا بلکہ مالک بننے کیلئے ضروری ہے کہ انعام (گاڑی) کا مالک بیع، ہبہ یا صلح وغیرہ جیسے کسی شرعی عقد کے ذریعے اسے جیتنے والے کو تملیک کرے ۔
س١٢۴۰:کیا رفاہ عامہ کیلئے ٹکٹ فروخت کرکے عام لوگوں سے چندہ جمع کرنا اور بعد میں حاصل شدہ مال میں سے ایک مقدار کو قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والوں کو تحفہ کے طورپردینا جائزہے؟ جبکہ باقی مال رفاہ عامہ میں خرچ کردیا جائے؟
ج: مذکورہ عمل کو بیع کہنا صحیح نہیں ہے ہاں بھلائی کے کاموں کے لئے ٹکٹ جاری کرنا صحیح ہے۔ اور قرعہ اندازی کے ذریعہ لوگوں کو انعام دینے کے وعدے کے ذریعہ انہیں چندہ دینے پر آمادہ کرنا بھی جائز ہے۔البتہ اس شرط کے ساتھ کہ لوگ بھلائی کے کاموں میں شرکت کے قصدسے ٹکٹ حاصل کریں۔
س١٢۴۱:کیا بخت آزمائی (lotto)کے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟جبکہ مذکورہ ٹکٹ ایک خاص کمپنی کی ملکیت ہیں اور ان ٹکٹوں کی بیس فیصد منفعت عورتوں کے فلاحی ادارے کو دی جاتی ہے؟
ج: ان ٹکٹوں کی خرید و فروش بنابر احتیاط واجب حرام ہے اور جیتنے والے جیتی ہوئی رقم کے مالک نہیں بنیں گے۔
- رشوت
- مأمورِخریدو فروخت
مأمورِخریدو فروخت
س١٢۵۱: بعض بیچنے والے اپنی چیزیں فروخت کرنے کے لئے کمپنی یا اداروں کی طرف سے خریداری کیلئے معین کئے گئے نمائندوں کو اشیاء کی اصل قیمت پر اضافہ کیئے بغیر فقط رابطہ کرانے کی خاطرکچھ مال دیتے ہیں بیچنے اور خریدنے والے نمایندے کے لئے مذکورہ مال دینے اور لینے کا کیا حکم ہے ؟
ج: فروخت کرنے والے کے لئے وہ مال دینا اورنمائندے کے لئے لینا جائز نہیں ہے اور وہ تمام مال جو نمائندہ لیتا ہے واجب ہے کہ اسے اس دفتر یا کمپنی کے سپرد کرے کہ جس کی طرف سے یہ خریداری کے لئے نمائندہ ہے ۔
س١٢52:سرکاری یا پرائیویٹ کمپنی کا ملازم کہ جوکمپنی کی طرف سے ضروری اشیاء کی خریداری کے لئے مامور ہے آیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ بیچنے والے پر شرط لگائے کہ خریدی ہوئی اشیاء کے منافع کا کچھ فی صد وہ اس نمائندے کو دے گا؟ اور کیا اس کیلئے مذکورہ منافع لینا جائز ہے؟ اور اگر اس سے بالاتر آفیسر کی طرف سے مذکورہ عمل انجام دینے کی اجازت ہو تو کیا حکم ہے؟
ج: اس نمائندے کی طرف سے مذکورہ شرط لگانا صحیح نہیں ہے لہذا اس کے لئے مقررکردہ فی صد لینا جائز نہیں ہے اورمافوق آفیسر بھی اجازت دینے کا مجاز نہیں ہے اور اس کی اجازت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
س١٢53:کمپنی یا کسی ادارے کی طرف سے خریداری کیلئے معین کیا گیا نماءندہ اگر کسی شے کو بازار کی معین قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے تاکہ فروخت کرنے والا اس کی مالی معاونت کرے توکیا یہ خریداری صحیح ہے؟ اور اس کیلئے بیچنے والے سے مالی کمک لینا جائز ہے؟
ج: اگر اشیاء کو بازار کی عادلانہ قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے یا یہ مذکورہ اشیاء کو کم قیمت پر خریدسکتا تھا تو یہ معاملہ جو کہ زیادہ قیمت پر کیا گیا ہے فضولی ہے اور متعلقہ قانونی آفیسر کی اجازت پر موقوف ہے بہر حال اس کے لئے فروخت کرنے والے سے اس سے خرید نے کی وجہ سے کوئی چیز لینا جائز نہیں ہے۔
س١٢54:اگر سرکاری یا نجی ادارے یا کمپنی کا ملازم اسکی طرف سے ضروری اشیاء کی خریداری کیلئے نمائندہ ہو اور وہ مختلف مراکز کے موجود ہونے کے باوجود صرف اپنے واقف کے پاس جاتا ہے اور اس پر شرط لگاتا ہے کہ اگر میں تم سے اشیاء خریدوں تو اسکے منافع میں سے کچھ فیصد کا شریک قرار پاؤں گا۔
١) اس شرط کا شرعی حکم کیا ہے؟
٢) اس بارے میں ادارے کے سربراہ یامافوق آفیسر کی جانب سے اجازت نامہ ہونے کی صورت میں اسکا شرعی حکم کیا ہے ؟
٣)اگر مذکورہ شے کی قیمت کہ جس کی معاملہ کی دوسری طرف کی جانب سے ادارے یا کمپنی کو پیشکش کی گئی ہے بازار کی نسبت زیادہ ہو لیکن اسی کو طے کرلیاجائے تو کیا حکم ہے؟
٤) بعض فروخت کرنے والے اداروں کی جانب سے خریداری کے نمائندے کو رسید میں درج رقم سے ہٹ کر جو رقم دی جاتی ہے اس کا فروخت کرنے والے اور نمائندے کیلئے کیا حکم ہے ؟
٥) اگر مذکورہ شخص ادارے کی نمائندگی کے علاوہ ایک دوسری کمپنی کی طرف سے فروخت کرنے کیلئے مارکیٹنگ کا نمائندہ ہوتو اگر وہ اپنی کمپنی کے لیے مذکورہ کمپنی کی مصنوعات خریدے تو اس صورت میں کیا وہ منافع میں سے کچھ فی صد لے سکتاہے؟
٦) اگر کوئی شخص مذکورہ طریقوں سے نفع حاصل کرتاہے تو اس نفع کی نسبت اس فرد کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ج:
١) اسکی کوئی شرعی صورت نہیں ہے اور باطل ہے۔
٢) ادارے کے سربراہ یا افسر بالا کی جانب سے اجازت کی کوئی شرعی و قانونی حیثیت نہیں ہے۔لہذا یہ معتبر نہیں ہے۔
3) اگر بازار کی عادلانہ قیمت سے زیادہ ہو، یا اس سے کم قیمت میں اس شے کا حاصل کرنا ممکن ہو تو طے شدہ معاملہ نافذ نہیں ہے۔
٤) جائز نہیں ہے اور خریداری کا نمائندہ جو کچھ وصول کرے اسے متعلقہ ادارے کہ جس کی جانب سے یہ خریداری کیلئے نمائندہ ہے تک پہنچانا ضروری ہے۔
٥) کسی بھی فیصد کے لینے کا حق نہیں رکھتا، اور جو کچھ دریافت کرے اسے متعلقہ ادارے کے حوالے کرنا ہوگا اور اگر ایسا معاملہ انجام دے جو ادارے کی منفعت اور مصلحت کے خلاف ہو تو وہ ابتدا سے ہی باطل ہے۔
٦) جو کچھ بھی ناجائز طریقے سے وصول کیا ہے اسے اس ادارے کوکہ جسکی جانب سے یہ خریداری کیلئے نمائندہ ہے دینا ضروری ہے۔
-
- طبی مسائل
- تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
س ١٣19:کیا پیش آنے والے مسائل شرعیہ کو نہ سیکھنا گنا ہ ہے ؟
ج: اگر نہ سیکھنے کی وجہ سے ترک واجب یا فعل حرام کامرتکب ہو تو گناہ گار ہوگا۔
س١٣20:اگر دینی طالب علم سطحیات تک کے مراحل طے کرلے اور وہ اپنے آپ کو درجہ اجتہاد تک کی تعلیم مکمل کرنے پر قادر سمجھتا ہو تو کیا ایسے شخص کے لئے تعلیم مکمل کرنا واجب عینی ہے؟
ج: بلا شک علوم دینی کی تحصیل اور درجہ اجتہادتک پہنچنے کیلئے اسے جاری رکھنا عظیم فضیلت ہے ، لیکن صرف درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کی قدرت رکھنا اسکے واجب عینی ہونے کا باعث نہیں بنتا۔
س١٣21: اصول دین میں حصول یقین کا کیا طریقہ ہے؟
ج: عام طور پر یقین عقلی براہین و دلائل سے حاصل ہوتا ہے۔البتہ مکلفین کے ادراک و فہم میں اختلاف مراتب کی وجہ سے براہین و دلائل بھی مختلف ہیں۔ بہرحال اگر کسی شخص کو کسی دوسرے طریقے سے یقین حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔
س١٣22:حصول علم میں سستی کرنے اور وقت ضائع کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آیا یہ حرام ہے؟
ج: بے کار رہنے اور وقت ضائع کرنے میں اشکال ہے۔ اگر طالب علم، طلاب کے لئے مخصوص سہولیات سے استفادہ کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طلاب کیلئے مخصوص درسی پروگرام کی بھی رعایت کرے وگرنہ اس کے لئے مذکورہ سہولیات جیسے ماہانہ وظیفہ اور امدادی مخارج و غیرہ سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے۔
س١٣23:اکنامکس کی بعض کلاسوں میں استاد سودی قرض سے متعلق بعض مسائل پر گفتگو کرتا ہے اور تجارت و صنعت وغیرہ میں سود حاصل کرنے کے طریقوں کا مقایسہ کرتا ہے مذکورہ تدریس اور اس پر اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟
ج: صرف سودی قرضے کے مسائل کا جائزہ لینا اور ان کی تدریس حرام نہیں ہے۔
س١٣24: اسلامی جمہوری(ایران ) میں عہد کی پابندی کرنے والے اور ذمہ دار ماہرین تعلیم کیلئے دوسروں کو تعلیم دینے کیلئے کونسا صحیح طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ اوراداروں میں کون لوگ حساس ٹیکنیکی علوم اور معلومات حاصل کرنے کے لائق ہیں؟
ج: کسی شخص کا کوئی بھی علم حاصل کرنا اگر جائز عقلائی مقصد کیلئے ہو اور اس میں فاسد ہونے یا فاسد کرنے کا خوف نہ ہو تو بلا مانع ہے سوائے ان علوم و معلومات کے کہ جنکے حاصل کرنے کیلئے حکومت اسلامی نے خاص قوانین اور ضوابط بنائے ہیں۔
س١٣25:آیا دینی مدارس میں فلسفہ پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے؟
ج: جس شخص کو اطمینان ہے کہ فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے سے اسکے دینی اعتقادات میں تزلزل نہیں آئیگااس کیلئے فلسفہ پڑھنا اشکال نہیں رکھتابلکہ بعض موارد میں واجب ہے۔
س١٣26:گمراہ کن کتابوں کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ مثلاً کتاب آیات شیطانی؟
ج: گمراہ کن کتابوں کا خریدنا، بیچنا اور رکھنا جائز نہیں ہے مگر اس کا جواب دینے کیلئے البتہ اگرعلمی لحاظ سے اس پر قادر ہو۔
س١٣27:حیوانات اور انسانوں کے بارے میں ایسے خیالی قصّوں کی تعلیم اور انہیں بیان کرنا کیا حکم رکھتا ہے جن کے بیان کرنے میں فائدہ ہو؟
ج: اگر قرائن سے معلوم ہورہاہو کہ داستان تخیلی ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٣28: ایسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنے کا کیا حکم ہے جہاں بے پردہ عورتوں کے ساتھ مخلوط ہونا پڑتاہے؟
ج: تعلیمی مراکز میں تعلیم و تعلم کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خواتین اور لڑکیوں پر پردہ کرنا واجب ہے اور مردوں پر بھی واجب ہے کہ انکی طرف حرام نگاہ سے پرہیز کریں اور ایسے اختلاط سے اجتناب کریں کہ جس میں مفسدے اور فاسد ہونے کا خوف ہو۔
س١٣29:آیا خاتون کا غیر مرد سے ایسے مقام پر جو ڈرائیونگ سکھانے کے لئے مخصوص ہے ڈرائیونگ سیکھنا جائز ہے؟ جبکہ خاتون شرعی پردے اور عفت کی پابند ہو؟
ج: نامحرم سے ڈرائیونگ سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جب پردے اور عفت کا خیال رکھا جائے اورمفسدہ میں نہ پڑنے کا اطمینان ہوہاں اگر کوئی محرم بھی ساتھ ہو تو بہتر ہے بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ نامحرم مرد کی بجائے کسی عورت یا اپنے کسی محرم سے ڈرائیونگ سیکھے۔
س١٣30:کالج ، یونیورسٹی میں جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور کلاس فیلو ہونے کی بنیاد پردرس وغیرہ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات لذت اوربرے قصد کے بغیر ہنسی مذاق بھی ہوجاتا ہے آیا مذکورہ عمل جائز ہے؟
ج: اگر پردے کی پابندی کی جائے بری نیت بھی نہ ہو اور مفسدے میں نہ پڑنے کا اطمینان ہو تو اشکال نہیں رکھتا ورنہ جائز نہیں ہے۔
س١٣31:حالیہ دور میں کس علم کا ماہر ہونا اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے؟
ج: بہتر یہ ہے کہ علماء ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے طلباء ان تمام علوم میں ماہر ہونے کو اہمیت دیں جو مفید اور مسلمانوں کی ضرورت ہیں تا کہ غیروں سے اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بے نیاز ہو سکیں۔ ان میں سے مفید ترین کی تشخیص موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے متعلقہ ذمہ دار لوگوں کا کام ہے ۔
س١٣32:گمراہ کن کتابوں اور دوسرے مذاہب کی کتابوں سے آگاہ ہونا کیسا ہے؟ تاکہ ان کے دین اور عقائد کے بارے میں زیادہ اطلاعات اور معرفت حاصل ہوسکے؟
ج: فقط معرفت اور زیادہ معلومات کے لئے انکے پڑھنے کے جواز کا حکم مشکل ہے ہاں اگر کوئی شخص گمراہ کنندہ مواد کی تشخیص دے سکے اور اسکے ابطال اور اس کا جواب دینے کیلئے مطالعہ کرے تو جائز ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ حق سے منحرف نہیں ہوگا۔
س١٣33:بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرانے کا کیا حکم ہے جہاں بعض فاسد عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے اس فرض کے ساتھ کہ بچے ان سے متاثر نہیں ہوں گے؟
ج: اگر ان کے دینی عقائد کے بارے میں خوف نہ ہو اور باطل کی ترویج بھی نہ ہو اوران کیلئے فاسد اور گمراہ کن مطالب کو سیکھنے سے دوررہنا ممکن ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣34: میڈیکل کا طالب علم چار سال سے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ اسے دینی علوم کا بہت شوق ہے ، آیا اس پر واجب ہے کہ تعلیم جاری رکھے یا اسے ترک کرکے علوم دینی حاصل کرسکتا ہے؟
ج: طالب علم اپنے لئے علمی شعبہ اختیار کرنے میں آزادہے لیکن یہاں پر ایک نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر اسلامی معاشرے کی خدمت پر قادر ہونے کیلئے دینی علوم کی اہمیت ہے تو امت اسلامی کو طبی خدمات پہنچانے ،انکی بیماریوں کا علاج کرنے اور انکی جانوں کو نجات دینے کیلئے آمادہ ہونے کے قصد سے میڈیکل کی تعلیم بھی امت اسلامی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
س١٣35:استاد نے کلاس میں ایک طالب علم کو سب کے سامنے بہت شدت سے ڈانٹا کیاطالب علم بھی ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟
ج: طالب علم کو اس طرح جواب دینے کا حق نہیں ہے جو استاد کے مقام کے لائق نہ ہو اور اس پر واجب ہے کہ استاد کی حرمت کا خیال رکھے اور کلاس کے نظم کی رعایت کرے البتہ شاگرد قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے اسی طرح استاد پر واجب ہے کہ وہ بھی طالب علم کی حرمت کادوسرے طلّاب کے سامنے پاس رکھے اور تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت کرے۔
- حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
س١٣36: کتب اورمقالات جو باہر سے آتے ہیں یا اسلامی جمہوریہ(ایران) میں چھپتے ہیں ان کے ناشروں کی اجازت کے بغیر انکی اشاعت مکرر کا کیا حکم ہے؟
ج: اسلامی جمہوریہ (ایران)سے باہر چھپنے والی کتب کی اشاعت مکرر یا افسیٹ مذکورہ کتب کے بارے میں اسلامی جمہوریہ(ایران) اور ان حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تابع ہے لیکن ملک کے اندر چھپنے والی کتب میں احوط یہ ہے کہ ناشر سے انکی تجدید طباعت کے لئے اجازت لیکر اسکے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔
س١٣37: آیا مؤلفین ، مترجمین اور کسی ہنرکے ماہرین کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی زحمت کے عوض یا اپنی کوشش ،وقت اور مال کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے اس کام پرخرچ کیا ہے ( مثلاً ) حق تالیف کے عنوان سے رقم کا مطالبہ کریں؟
ج: انہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنے علمی اورہنری کام کے پہلے یا اصلی نسخے کے بدلے میں ناشرین سے جتنا مال چاہیں دریافت کریں۔
س١٣٣8:اگر مؤلف ، مترجم یا صاحب ہنرپہلی اشاعت کے عوض مال کی کچھ مقدار وصول کرلے اور یہ شرط کرے کہ بعد کی اشاعت میں بھی میرا حق محفوظ رہے گا۔ تو آیا بعد والی اشاعتوں میں اسے مال کے مطالبہ کا حق ہے؟ اور اس مال کے وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر پہلا نسخہ دیتے وقت ناشر کے ساتھ ہونے والے معاملے میں بعد والی اشاعتوں میں بھی رقم لینے کی شرط کی ہو یا قانون اس کا تقاضا کرے تو اس رقم کا لینا اشکال نہیں رکھتا اور ناشر پر شرط کی پابندی کرنا واجب ہے۔
س١٣٣9:اگر مصنف یا مؤلف نے پہلی اشاعت کی اجازت کے وقت اشاعت مکرر کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہو تو آیا ناشر کے لئے اسکی اجازت کے بغیر اور اسے مال دیئے بغیر اسکی اشاعت مکرر جائزہے؟
ج: چاپ کے سلسلے میں ہونے والا معاہدہ اگر صرف پہلی اشاعت کے لئے تھا تو احوط یہ ہے کہ مؤلف کے حق کی رعایت کی جائے اور بعد کی اشاعتوں کیلئے بھی اس سے اجازت لی جائے۔
س١٣40:اگر مصنف سفر یا موت و غیرہ کی وجہ سے غائب ہو تو اشاعت مکرر کے لئے کس سے اجازت لی جائے اور کسے رقم دی جائے؟
ج: مصنف کے نمائندے یا شرعی سرپرست یا فوت ہونے کی صورت میں وارث کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
س١٣41:آیا اس عبارت کے باوجود ( تمام حقوق مؤلف کے لئے محفوظ ہیں) بغیر اجازت کے کتاب چھاپنا صحیح ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ مؤلف اور ناشر کے حقوق کی رعایت کی جائے اور طبع جدید میں ان سے اجازت لی جائے البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی قانون ہو تو اس کی رعایت کرنا ضروری ہےاور بعد والے مسائل میں بھی اس امر کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س١٣42:تواشیح اور قرآن کریم کی بعض کیسٹوں پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے ( کاپی کے حقوق محفوظ ہیں) آیا ایسی صورت میں اس کی کاپی کرکے دوسرے لوگوں کو دینا جائز ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ اصلی ناشر سے کاپی کرنے کی اجازت لی جائے۔
س١٣43:آیا کمپیوٹر کی ڈسک کاپی کرنا جائز ہے؟بر فرض حرمت آیا یہ حکم اس ڈسک کے ساتھ مختص ہے جوایران میں تیارکی گئی ہے یاباہر کی ڈسک کو بھی شامل ہے؟یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ بعض کمپیوٹر ڈسکوں کی قیمت انکے محتوا کی اہمیت کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتی ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ ملک کے اندر بننے والی ڈسک کی کاپی کرنے کیلئے مالکوں سے اجازت لی جائے اور انکے حقوق کی رعایت کی جائے اور بیرون ملک سے آنے والی ڈسکیں معاہدہ کے تحت ہیں۔
س١٣44:آیا دوکانوں اور کمپنیوں کے نام اور تجارتی مارک ان کے مالکوں سے مختص ہیں ؟ اس طرح کہ دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دوکانوں یا کمپنیوں کو ان ناموں کے ساتھ موسوم کریں؟ مثلاً ایک شخص ایک دوکان کا مالک ہے اور اس دوکان کا نام اس نے اپنے خاندان کے نام پر رکھا ہوا ہے آیا اسی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو مذکورہ نام سے دوکان کھولنے کی اجازت ہے؟ یا کسی اور خاندان کے شخص کواپنی دوکان کیلئے مذکورہ نام استعمال کرنے کی اجازت ہے؟
ج: اگر حکومت کی طرف سے دوکانوں اور کمپنیوں کے نام ملکی قوانین کے مطابق ایسے افراد کو عطا کیئے جاتے ہوں جو دوسروں سے پہلے مذکورہ عنوان کو اپنے نام کروانے کیلئے باقاعدہ طور پر درخواست دیتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں ان کے نام رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں دوسروں کیلئے اس شخص کی اجازت کے بغیر اس نام سے استفادہ اور اقتباس کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کی دوکان یا کمپنی کیلئے یہ رجسٹرڈ ہو چکا ہے اور اس حکم کے لحاظ سے فرق نہیں ہے کہ استعمال کرنے والا شخص اس نام والے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا نہ ۔ اور اگر مذکورہ صورت میں نہ ہو تو دوسروں کے لئے اس نام سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٣45:بعض افراد فوٹوکاپی کی دوکان پر آتے ہیں اور وہاں پر لائے گئے کاغذات اور کتابوں کی تصویر برداری کی درخواست کرتے ہیں اور دوکاندار جو کہ مومن ہے تشخیص دیتا ہے کہ یہ کتاب یا رسالہ یا کاغذات سب مومنین کے لئے مفید ہیں آیا اس کے لئے کتاب کے مالک سے اجازت لئے بغیر کتاب یا رسالے کی تصویر برداری جائز ہے؟ اور اگر دوکاندار کو علم ہو کہ صاحب کتاب راضی نہیں ہے تو آیا مسئلہ میں فرق پڑے گا؟
ج: احوط یہ ہے کہ کتاب یا اوراق کے مالک کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر برداری نہ کی جائے۔
س١٣46:بعض مومنین ویڈیو کیسٹ کرائے پر لاتے ہیں اور جب ویڈیو کیسٹ مکمل طور پر انکی پسند کا ہو تو اس وجہ سے کہ بہت سارے علما کے نزدیک حقوق طبع محفوظ نہیں ہوتے دوکاندار کی اجازت کے بغیر اسکی کاپی کرلیتے ہیں کیاان کا یہ عمل جائز ہے؟ اور بر فرض عدم جواز ، اگر کوئی شخص ریکارڈ کرلے یا اس کی کاپی کرلے تو کیا اس پر لازم ہے کہ وہ دوکاندار کو اطلاع دے یاریکارڈشدہ مواد کا صاف کردینا کافی ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ بغیر اجازت ریکارڈ نہ کی جائے لیکن اگر بغیر اجازت کے ریکارڈ کرلے تو محو کرنا کافی ہے۔
- غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
س١٣47:آیا اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ اور اگر یہ کام وقوع پذیر ہوجائے اگرچہ اضطرارکی وجہ سے تو آیا مذکورہ مال کو فروخت کرنا جائز ہے؟
ج: ایسے معاملات سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ جو غاصب اور اسلام و مسلمین کی دشمن اسرائیلی حکومت کے نفع میں ہوں اور کسی کے لئے بھی ان کے اس مال کو درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز نہیں ہے جس کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسے فائدہ پہنچے ، اور مسلمانوں کے لئے ان اشیاء کا خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفسدہ اور ضرر ہے۔
س١٣٤8:کیااس ملک کے تاجروں کے لئے جس نے اسرائیل سے اقتصادی بائیکات کو ختم کردیاہے اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟
ج: واجب ہے کہ اشخاص ایسی اشیاء کہ جن کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسرائیل کی پست حکومت کو فائدہ پہنچتا ہو اجتناب کریں۔
س١٣٤9:آیا مسلمانوں کے لئے ان اسرائیلی مصنوعات کو خریدنا جائز ہے کہ جو اسلامی ممالک میں بکتی ہیں؟
ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی مصنوعات کی خریداری اور ان سے استفادہ کرنے سے پرہیز کریں کہ جن کے بنانے اور بیچنے کا فائدہ اسلام و مسلمین کے ساتھ بر سر پیکار صیہونی دشمنوں کو پہنچے۔
س١٣50:آیا اسلامی ممالک میں اسرائیل کے سفر کے لئے دفاتر کھولنا جائز ہے؟ اور آیا مسلمانوں کے لئے ان دفاتر سے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟
ج: چونکہ اس کام میں اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہے لہذا جائز نہیں ہے اور اسی طرح کسی شخص کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کام کرے جو اسرائیل کی دشمن اور محارب حکومت سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے خلاف ہو۔
س١٣51:آیا ایسی یہودی،امریکی یا کینڈین کمپنیوں کی مصنوعات خریدنا جائز ہے جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ وہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں ؟
ج: اگران مصنوعات کی خریدو فروخت اسرائیل کی گھٹیا اور غاصب حکومت کی تقویت کا سبب بنے یا یہ اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنی کیلئے کام میں لائی جاتی ہوں تو کسی فرد کے لئے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے وگرنہ اشکال نہیں ہے۔
س١٣52:اگراسرائیلی مال اسلامی ممالک میں درآمد کیا جائے تو کیا جائز ہے کہ تجار اس کا کچھ حصہ خرید کر لوگوں کوبیچیں اور اس کی ترویج کریں؟
ج: چونکہ اس کام میں بہت مفاسد ہیں لہذا جائز نہیں ہے ۔
س١٣53:اگر کسی اسلامی ملک کی عام مارکیٹوں میں اسرائیلی مصنوعات پیش کی جائیں تو اگر ضرورت کی غیر اسرائیلی مصنوعات کو مہیا کرنا ممکن ہو کیا مسلمانوں کے لیے اسرائیلی مصنوعات خریدنا جائز ہے؟
ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایسی اشیاء کے خریدنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کریں کہ جن کے بنانے اور خریدنے کا فائدہ اسلام ومسلمین سے برسر پیکار صہیونیوں کو پہنچتا ہو۔
س١٣54:اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ اسرائیلی مصنوعات کو ان کی اسرائیلی مہر تبدیل کرنے کے بعد ترکی یا قبرص کے ذریعے دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان خریداریہ سمجھیں کہ مذکورہ مصنوعات اسرائیلی نہیں ہیں اس لئے کہ اگر مسلمان اس امر کو جان لے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی ہیں تو انہیں نہیں خریدے گا ایسی صورت حال میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج: مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی مصنوعات کے خریدنے، ان سے استفادہ کرنے اورانکی ترویج کرنے سے اجتناب کریں۔
س١٣55:امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ حکم تمام مغربی ممالک جیسے فرانس، برطانیہ کو شامل ہے؟ آیا یہ حکم ایران کے لیے مخصوص ہے یا تما م ممالک میں جاری ہے؟
ج: اگر غیر اسلامی ممالک سے درآمد شدہ مصنوعات کی خریداری اوران سے استفادہ ان کافر استعماری حکومتوں کی تقویت کا باعث ہو کہ جو اسلام ومسلمین کی دشمن ہیں یا اس سے پوری دنیا میں اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے اوپر حملے کرنے کیلئے انکی قوت مضبوط ہوتی ہو تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مصنوعات کی خریداری، ان سے استفادہ کرنے اور انکے استعمال سے اجتناب کریں۔ اور مذکورہ حکم تمام مصنوعات اور تمام کافر اور اسلام ومسلمین کی دشمن حکومتوں کے لیے ہے اور مذکورہ حکم ایران کے مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے۔
س١٣56: ان لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے جو ایسے کارخانوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ کافر حکومتوں کو پہنچتا ہے او ریہ امر ان کے استحکام کا سبب بنتا ہے؟
ج: جائز کاموں کے ذریعے کسب معاش کرنا بذات خوداشکال نہیں رکھتااگر چہ اس کی منفعت غیر اسلامی حکومت کوپہنچے مگر جب وہ حکومت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہواور مسلمانوں کے کام کے نتیجے سے اس جنگ میں استفادہ کیا جائے تو جائز نہیں ہے۔
- ظالم حکومت میں کام کرنا
ظالم حکومت میں کام کرنا
س١٣57: آیا غیر اسلامی حکومت میں کوئی ذمہ داری انجام دینا جائز ہے؟
ج: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذمہ داری بذات خود جائز ہو۔
س١٣٥8:ایک شخص کسی عرب ملک کی ٹریفک پولیس میں ملازم ہے اور اس کاکام ان لوگوں کی فائلوں پر دستخط کرنا ہے جو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تاکہ انھیں قید خانے میں ڈالا جائے وہ جس کی فائل پردستخط کردے توقانون کی مخالفت کرنے والے اس شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے آیا یہ نوکری جائز ہے؟ اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے جووہ مذکورہ کام کے عوض حکومت سے لیتا ہے؟
ج: معاشرے کے نظم و نسق کے قوانین اگر چہ غیراسلامی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہوں ان کی رعایت کرناہر حال میں واجب ہے اور جائز کام کے بدلے میں تنخواہ لینا اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣٥9:امریکہ یا کینیڈا کی شہریت لینے کے بعد آیا مسلمان شخص وہاں کی فوج یا پولیس میں شامل ہوسکتا ہے؟ اورکیا سرکاری اداروں جیسے بلدیہ اور دوسرے ادارے کہ جو حکومت کے تابع ہیں اُن میں نوکری کرسکتا ہے؟
ج: اگراس پر مفسدہ مترتب نہ ہو اور کسی حرام کو انجام دینے یا واجب کے ترک کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣60:آیا ظالم حاکم کی طرف سے منصوب قاضی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ تاکہ اس کی اطاعت کرنا واجب قرار پائے؟
ج: جامع الشرائط مجتہد کے علاوہ وہ شخص کہ جوایسے شخص کی طرف سے منصوب نہیں ہے جسے قاضی نصب کرنے کا حق ہے اس کیلئے منصب قضاوت کو سنبھالنا اور لوگوں کے درمیان قضاوت انجام دینا جائز نہیں ہے۔اور لوگوں کیلئے اسکی جانب رجوع کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا حکم نافذ ہے مگر ضرورت اور مجبوری کی حالت میں۔
- لباس کے احکام
لباس کے احکام
س١٣61:لباس شہرت کا معیار کیا ہے؟
ج: لباس شہرت ایسے لباس کو کہا جاتاہے جو رنگت، سلائی،بوسیدگی یا اس جیسے دیگر اسباب کی وجہ سے پہننے والے کے لئے مناسب نہ ہو اور لوگوں کے سامنے پہننے سے لوگوں کی توجہ کا سبب بنے اور انگشت نمائی کا باعث ہو۔
س١٣62:اس آواز کا کیا حکم ہے جو چلنے کے دوران خاتون کے جوتے کے زمین پر لگنے سے پیدا ہوتی ہے؟
ج: بذات خود جائز ہے جب تک لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ بھی نہ ہو۔
س١٣63:آیا لڑکی کے لئے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے؟
ج: بذات خود جائز ہے بشرطیکہ لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ نہ ہو ۔
س١٣64: کیا خواتین کے لئے ایسا تنگ لباس پہننا جائز ہے جس سے بدن کا نشیب و فراز نمایاں ہو یا شادیوں میں عریاں اور ایسا باریک لباس پہننا جس سے بدن نمایاں ہو؟
ج: اگر نامحرم مردوں کی نظرسے اورمفسدے کے مترتب ہونے سے محفوظ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔
س١٣65:آیا مومنہ خاتون کے لئے چمکدار کالے جوتے پہننا جائز ہے؟
ج: اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رنگ یا شکل نامحرم کی توجہ کو جذب کرنے یا اسکی طرف انگشت نمائی کا سبب بنے۔
س١٣66:آیا خاتون کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے لباس جیسے اسکارف ، شلوار اور قمیص کے لئے فقط سیاہ رنگ کا انتخاب کرے؟
ج: شکل، رنگ اور طرز سلائی کے اعتبار سے عورت کے کپڑوں کا وہی حکم ہے جو گزشتہ جواب میں جوتوں کے بارے میں گزر چکا ہے۔
س١٣67:آیا جائز ہے کہ عورت کا لباس اور پردہ ایسا ہو جو لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا جنسی خواہشات کو ابھارے مثلاً اس طرح چادر پہنے جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے یا کپڑے اور جوراب کا ایسا رنگ انتخاب کرے جو جنسی خواہشات کو ابھارنے کا سبب ہو ؟
ج: جو چیز بھی رنگ، ڈیزائن یا پہننے کے انداز کے اعتبار سے نامحرم کی توجہ جذب کرنے کا باعث ہو اور مفسدے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے اس کا پہننا جائز نہیں ہے۔
س١٣٦8: آیا عورت اور مرد کے لئے جنس مخالف سے مشابہت کی نیت کے بغیر گھر کے اندر ایک دوسرے کی مخصوص اشیاء پہننا جائز ہے۔؟
ج: اگراسے اپنے لئے لباس کے طور پر انتخاب نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
س١٣٦9: مردوں کیلئے خواتین کے مخصوص پوشیدہ لباس کا فروخت کرناکیا حکم رکھتا ہے؟
ج: اگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا موجب نہ بنے تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣70:آیا باریک جورابیں بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا شرعاً جائز ہے ؟
ج: اگرانہیں بنانا اور انکی خرید و فروخت اس قصد سے نہ ہو کہ خواتین انہیں نامحرم مردوں کے سامنے پہنیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٣71: کیا غیر شادی شدہ افرادکیلئے شرعی قوانین اور اخلاقی آداب کا خیال رکھتے ہوئے زنانہ لباس اور میک اپ کا سامان فروخت کرنے کے مراکز میں کام کرنا جائز ہے؟
ج: کام کرنے کا جائز ہونا اور کسب حلا ل شرعاً کسی خاص صنف سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی شرعی قوانین اور اسلامی آداب کی رعایت کرتا ہو اسے اس کا حق ہے لیکن اگر تجارتی یا کام کا لائسنس دینے کیلئے بعض اداروں کی جانب سے عمومی مصالح کی خاطر بعض کاموں کے لئے خاص شرائط ہوں تو ان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س١٣72:مردوں کے لیے زنجیر پہننے کا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر زنجیرسونے کا ہو یا ایسی چیز کا ہو کہ جس سے استفادہ کرناخواتین کے لیئے مخصوص ہو تو مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔
- مغربی ثقافت کی پیروی
- جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
س١٣٨8: ہمیں مکتوب طور پر ایک شخص کی طرف سے حکومت کا مال غبن کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تحقیقات کے بعد بعض جرائم کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا لیکن جب اس شخص سے تحقیقات کی گئیں تو اس نے جرائم سے انکار کردیا آیا ہمارے لئے ان معلومات کو کورٹ میں پیش کرنا جائز ہے؟ کیونکہ مذکورہ عمل اس کی عزت کو ختم کردے گا ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو ایسے افراد کی کیا ذمہ داری ہے جو اس مسئلے سے مطلع ہیں؟
ج: بیت المال اور سرکاری اموال کی حفاظت پر مامور افسر کو جب اطلاع ہوجائے کہ انکے ملازم یا کسی دوسرے شخص نے سرکاری مال و دولت کا غبن کیا ہے تو اس شخص کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ اس کیس کو متعلقہ ادارے کے سامنے پیش کرے تاکہ حق ثابت ہوسکے اورملزم کی آبرو کی پائمالی کا خوف بیت المال کی حفاظت کیلئے حق کو ثابت کرنے میں کوتاہی کا جواز شمار نہیں ہوتا اور دیگر افراداپنی معلومات کو مستند طور پر متعلقہ حکام تک پہنچائیں تا کہ وہ تحقیق و تفحص اور ان کے اثبات کے بعد اقدام کرسکیں۔
س١٣٨9:بعض اخبارات آئے دن چوروں ، دھوکا بازوں ، اداروں کے اندر رشوت خور گروہوں، بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والوں نیز فسادو فحشاکے مراکز اور نائٹ کلبوں کی خبریں چھاپتے ہیں کیا اس قسم کی خبریں چھاپنا اور منتشر کرنا ایک طرح سے ترویج فحشا کے زمرے میں نہیں آتا؟
ج: اخبارات میں محض واقعات شائع کرنا فحشا کو پھیلانا شمار نہیں ہوتا۔
س١٣90:کیا کسی تعلیمی ادارے کے طالب علموں کیلئے جائز ہے کہ وہ جن منکرات اور برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں انکی اطلاع تعلیم و تربیت کے ذمہ دار افراد تک پہنچائیں تاکہ ان کی روک تھام کی جاسکے؟
ج: اگر رپورٹ علنی اور ایسے امور کے بارے میں ہو جو ظاہر ہیں اور اس پر جاسوسی اور غیبت کا عنوان صدق نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر یہ نہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے۔
س١٣91: آیا اداروں کے بعض افسروں کی خیانت اور ظلم کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا جائز ہے؟
ج: ظلم کی تحقیق اور اطمینان کے بعد ایسے معاملات کی چھان بین اور پیچھا کرنے کیلئے متعلقہ مراکز کو اطلاع دینا اشکال نہیں رکھتا بلکہ اگرنہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے انکو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ حکومت اسلامی کوکمزور کرنے اور فتنہ و فساد کا باعث ہو تو حرام ہے۔
س١٣92:مومنین کے اموال کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسکی رپورٹ ظالم حکومت اور ظالم حکمرانوں کودینا کیا حکم رکھتا ہے ؟ بالخصوص اگر ان کے لئے نقصان اور تکلیف کا باعث ہو؟
ج: ایسے کام شرعاً حرام ہیں اوراگر نقصان کا سبب ظالم کے سامنے مؤمنین کے خلاف رپورٹ پیش کرنا ہو تو یہ ضامن ہونے کا سبب ہے۔
س١٣93:کیاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر مومنین کے ذاتی وغیرذاتی امور کی جاسوسی کرناجائز ہے؟البتہ جب ان سے منکر کا انجام دینا اورمعروف کا ترک کرنا مشاہدہ کیا گیا ہو؟ اور ایسے اشخاص کا کیا حکم ہے جو لوگوں کی خلاف ورزیوں کی جاسوسی میں لگے رہتے ہیں جبکہ یہ کام ان کی ذمہ داری نہیں ہے؟
ج: تحقیق و تفحص کے باقاعدہ طور پر ذمہ دار افراد کیلئے اداروں کے ملازمین اور دوسرے لوگوں کے کام کے بارے میں قوانین و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے قانونی تحقیق و تفتیش کرنا اشکال نہیں رکھتا لیکن اسرار فاش کرنے کیلئے قوانین و ضوابط کی حدود سے باہر دوسروں کے کاموں کی جاسوسی کرنا یا ملازمین کے اعمال و کردار کی تحقیق کرنا ان ذمہ دار لوگوں کیلئے بھی جائز نہیں ہے۔
س١٣94:کیالوگوں کے سامنے اپنے ذاتی اسرار اور ذاتی پوشیدہ امور کو بیان کرنا جائز ہے؟
ج: دوسروں کے سامنے اپنے ان ذاتی اور خصوصی امور کو بیان کرنا جائز نہیں ہے جو کسی طرح سے دوسروں سے بھی مربوط ہوں یا کسی مفسدے کے مترتب ہونے کا موجب ہوں۔
س١٣95:نفسیاتی ڈاکٹرعام طور پر مریض کے ذاتی اور خاندانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں تاکہ اس کے مرض کے اسباب اورپھر علاج کے طریقے معلوم کیے جاسکیں آیا بیمار کے لئے ان سوالات کاجواب دینا جائز ہے؟
ج: اگر کسی تیسرے شخص کی غیبت یا اہانت نہ ہو اور کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہو تو جائز ہے۔
س١٣96: سکیورٹی کے بعض افراد بے حیائی و فحشا کے مراکز اور دہشت گرد گروہوں کو کشف کرنے کیلئے بعض مراکز میں داخل ہونا اور بعض گروہوں میں نفوذ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ تحقیق اور تجسس کا تقاضا ہے۔ مذکورہ عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ کام متعلقہ افسر کی اجازت سے ہو اور قوانین و ضوابط کی رعایت کی جائے اور گناہ کے ساتھ آلودہ ہونے اور فعل حرام کے ارتکاب سے اجتناب کیا جائے تو اشکال نہیں رکھتا اور افسروں پر بھی واجب ہے کہ اس لحاظ سے ان کے کاموں پر پوری توجہ اور کڑی نگاہ رکھیں ۔
س١٣97:بعض لوگ دوسروں کے سامنے اسلامی جمہوریہ (ایران) میں موجود بعض کمزوریوں کو بیان کرتے ہیں ان باتوں کو سننے اور پھر انہیں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: واضح ہے کہ کسی بھی ایسے کام کو انجام دینا جو اسلامی جمہوریہ (ایران) جو کہ عالمی کفر و استکبار سے برسر پیکار ہے کوبدنام کرے وہ اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ میں نہیں ہے پس اگر یہ باتیں اسلامی جمہوری (ایران) کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب ہوں تو جائز نہیں ہے۔
- سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
س١٣٩8:عمومی مقامات اور سرکاری دفاتر میں دخانیات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر عمومی مقامات اور دفاتر کے داخلی قوانین کے خلاف ہو یا دوسروں کے لئے اذیت و آزار یا ضرر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔
س١٣٩9: میرا بھائی منشیات کے استعمال کا عادی ہے اور منشیات کا سمگلر بھی ہے آیا مجھ پر واجب ہے کہ اس کی اطلاع متعلقہ ادارے کو دوں تاکہ اسے اس عمل سے روکا جاسکے؟
ج: آپ پر نہی از منکر واجب ہے اور ضروری ہے کہ نشہ کو ترک کرنے میں اسکی مدد کریں اور اسی طرح اسے منشیات کی سمگلنگ، انکے فروخت کرنے اور پھیلانے سے منع کریں اور اگر متعلقہ ادارے کو اطلاع دینا مذکورہ امر میں اس کا معاون ہویا نہی از منکر کا پیش خیمہ شمار ہو تو یہ واجب ہے۔
س١400:آیا نسوار کا استعمال جائز ہے؟ اس کے عادی بننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر قابل اعتنا ضرر رکھتا ہو توا س کا استعمال اور اس کا عادی ہونا جائز نہیں ہے۔
س١401: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال کا کیا حکم ہے؟
ج: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال بذات خود جائز ہے۔ ہاں اگر اس کے استعمال میں شخص کیلئے قابل اعتنا ضرر ہو تو اس کی خرید و فروخت اور استعمال جائز نہیں ہے۔
س ١402:آیا بھنگ پاک ہے؟ اور کیا اس کا استعمال کرنا حرام ہے؟
ج: بھنگ پاک ہے ۔ لیکن اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔
س١403: نشہ آور اشیاء جیسے بھنگ، چرس، افیون، ہیروئین، مارفین ، میری جوانا …کے کھانے، پینے، کھینچنے، انجکشن لگانے یا حقنہ کرنے کے ذریعے استعمال کا کیا حکم ہے؟ اور ان کی خرید و فروخت اور انکے ذریعے کمانے کے دوسرے طریقوں جیسے انکا حمل ونقل، انکی حفاظت اور اسمگلنگ کا کیا حکم ہے؟
ج: منشیات کا استعمال اور ان سے استفادہ کرنا ، انکے برے اثرات جیسے انکے استعمال کے قابل توجہ معاشرتی اور فردی مضرات کے پیش نظر حرام ہے اور اسی بنا پر ان کے حمل و نقل، انکو محفوظ کرنے اور انکی خریدوفروخت و غیرہ کے ذریعے کسب معاش کرنا بھی حرام ہے۔
س١404:کیا منشیات کے استعمال سے مرض کا علاج کرنا جائز ہے؟ اور برفرض جواز آیا مطلقاً جائز ہے یا علاج کے اسی پر موقوف ہونے کی صورت میں جائز ہے ؟
ج: اگر مرض کا علاج کسی طرح منشیات کے استعمال پر موقوف ہو اور یہ امر قابل اطمینان ڈاکٹر کی تجویز سے انجام پائے تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١405:خشخاش اور کویی و غیرہ کہ جن سے افیون، ہیروئن، مارفین ، بھنگ اور کوکین وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں کی کاشت اور دیکھ بھال کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس قسم کی فصلوں کی کاشت اور نگہداری جو اسلامی جمہوریہ (ایران)کے قانون کے خلاف ہے جائز نہیں ہے۔
س١406: منشیات کے تیار کرنے کا کیا حکم ہے چاہے اسے قدرتی اور طبیعی مواد سے تیار کیا جائے جیسے مارفین، ہیروئن، بھنگ، میری جوانا وغیرہ یامصنوعی مواد سے جیسے I.S.D و غیرہ ؟
ج: جائز نہیں ہے۔
س١٤٠7:آیا ایسا تنباکو استعمال کرنا جائز ہے جس پربعض قسم کی شراب چھڑکی گئی ہو ؟ آیا اس کے دھوئیں کو سونگھنا جائز ہے؟
ج: اگر عرف کی نگاہ میں یہ تنباکو پینا شراب پینا نہ کہلائے اور نشہ آور نہ ہو اور قابل توجہ ضرر کا سبب نہ ہو تو جائز ہے۔ اگرچہ احوط اس کا ترک کرنا ہے ۔
س١٤٠8:آیا دخانیات کے استعمال کو شروع کرنا حرام ہے ؟اور اگر عادی شخص دخانیات کے استعمال کو چند ہفتوں یا اس سے زیادہ مدت تک ترک کردے تو ان کا دوبارہ استعمال کرنا حرام ہے؟
ج: دخانیات کے استعمال کے ضرر کے درجے کے مختلف ہونے سے اس کا حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے کلی طور پر اس مقدار میں دخانیات کا استعمال کہ جس سے بدن کو قابل توجہ ضرر پہنچتاہے جائز نہیں ہے اور اگر انسان کو معلوم ہو کہ دخانیات کا استعمال شروع کرنے سے اس مرحلہ تک پہنچ جائے گا تو بھی جائز نہیں ہے۔
س١٤٠9:ایسے مال کا کیا حکم ہے جس کا بعینہ خود حرام ہونا معلوم ہو مثلاً نشہ آور اشیاء کی تجارت سے حاصل شدہ مال ؟ اور اگر اس کے مالک کا علم نہ ہو تو آیایہ مال مجہول المالک کے حکم میں ہے؟ اور اگر مجہول المالک کے حکم میں ہو تو کیا حاکم شرعی یا اس کے وکیل عام کی اجازت سے اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟
ج: عین مال کی حرمت کے علم کی صورت میں اگرانسان مال کے شرعی مالک کو جانتا ہو اگرچہ محدود افراد کے درمیان تو مال کو اس کے مالک تک پہنچنانا واجب ہے ورنہ اسے اسکے شرعی مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال اسکے حلال مال سے مل گیا ہو اور اس کی مقداراور شرعی مالک کو نہ جانتا ہو تو واجب ہے کہ اس کا خمس متولی خمس کو دے۔
- داڑھی مونڈنا
داڑھی مونڈنا
س١٤10: نیچے والا جبڑا۔ کہ جس کے بالوں کو رکھنا واجب ہے۔ سے کیا مراد ہے اور کیا یہ دو رخساروں کو بھی شامل ہے؟
ج: معیار یہ ہے کہ عرفاً کہا جائے کہ اس شخص نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔
س١٤11: لمبی اور چھوٹی ہونے کے اعتبار سے ریش کے کیا حدود ہیں؟
ج: اس کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؟ بلکہ معیار یہ ہے کہ عرف کی نظر میں داڑھی کہلائے ، ہاں ایک مٹھی سے زیادہ لمبی ہونا مکروہ ہے۔
س١٤12: مونچھ کو بڑھانے اور داڑھی کو چھوٹا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بذات خود اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤13:بعض لوگ اپنی ٹھوڑی کے بال نہیں مونڈتے اور باقی بال مونڈ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
ج: داڑھی کے بعض حصے کے مونڈنے کا حکم پوری داڑھی مونڈنے جیسا ہے۔
س١٤14:کیا داڑھی مونڈنا فسق شمار ہوتا ہے؟
ج: احتیاط کی بنا پر داڑھی مونڈنا حرام ہے اور احوط یہ ہے کہ اس پر فسق کے احکام جاری ہوں گے۔
س١٤15: مونچھوں کے مونڈ نے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا بہت لمبا کرنا جائز ہے؟
ج: مونچھیں مونڈ نا، رکھنا اور انہیں بڑھانا بذات خود اشکال نہیں رکھتا ہاں انہیں اتنا لمبا کرنا کہ کھانے اور پینے کے دوران طعام یا پانی کے ساتھ لگیں تو مکروہ ہے۔
س١٤16:ایسے فنکار کیلئے بلیڈیا داڑھی مونڈنے والی مشین سے داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے کہ جس کا شغل مذکورہ عمل کا تقاضا کرتا ہو؟
ج: اگر اس پر داڑھی مونڈنا صادق آتا ہو تو احتیاط کی بناپر حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا یہ کام اسلامی معاشرے کی لازمی ضرورت شمار ہوتا ہو تواس ضرورت کی مقدار مونڈ نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤١7: میں اسلامی جمہوریہ (ایران )کی ایک کمپنی میں تعلقات عامہ کا افسر ہوں اور مجھے مہمانوں کے لئے شیو کے آلات خرید کر انہیں دینا ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی داڑھی مونڈسکیں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: داڑھی مونڈنے کے آلات کی خریداری اور دوسروں کو پیش کرنا احتیاط کی بناپرجائز نہیں ہے مگر ضرورت کے مقام میں۔
س١٤١8 : اگر داڑھی رکھنا اہانت کا باعث ہو تو داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے؟
ج: جو مسلمان اپنے دین کو اہمیت دیتا ہے اس کے لئے داڑھی رکھنے میں کوئی اہانت نہیں ہے اوراحتیاط کی بنا پرداڑھی کا مونڈنا جائز نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ اس کے رکھنے میں ضرر یا حرج ہو ۔
س١٤١9: اگر داڑھی رکھنا جائز مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہو تو کیا داڑھی مونڈنا جائز ہے ؟
ج: مکلفین پر حکم الہی کی اطاعت کرنا واجب ہے مگر یہ کہ قابل توجہ ضرریا حرج رکھتا ہو۔
س١٤20:کیا شیونگ کریم کہ جس کا اصل استعمال داڑھی مونڈنے میں ہوتا ہے کا خریدنا ، فروخت کرنا اور بنانا جائز ہے؟ جبکہ یہ کبھی کبھی اس کے علاوہ بھی استعمال کی جاتی ہے؟
ج: اگر کریم داڑھی مونڈنے کے علاوہ دیگرحلال فوائد رکھتی ہو تو اس مقصد سے اس کا بنانا ،اور فروخت کرنا اشکال نہیں رکھتا۔
س١٤21:کیاداڑھی مونڈنے کے حرام ہونے سے مرادیہ ہے کہ چہرے کے بال کامل طور پر اگے ہوئے ہوں اورپھرانہیں مونڈا جائے یا یہ اس صورت کو بھی شامل ہے کہ جہاں چہرے پر کچھ بال اگے ہوئے ہوں۔
ج: کلی طور پر چہرے کے اتنے بال مونڈنا کہ جس پر داڑھی مونڈنا صادق آئے احتیاط کی بنا پر حرام ہے۔ ہاں اتنی مقدار مونڈنا کہ جس پر مذکورہ عنوان صادق نہ آئے اشکال نہیں رکھتا۔
س١٤22:کیا وہ اجرت جو نائی داڑھی مونڈنے کے عوض لیتا ہے حرام ہے؟ برفرض حرمت اگر وہ مال مالِ حلال سے مخلوط ہوجائے تو کیا خمس نکالتے وقت اس کا دودفعہ خمس نکالنا واجب ہے یا نہیں؟
ج: داڑھی مونڈنے کے عوض اجرت لینا بنابر احتیاط حرام ہے لیکن وہ مال جو حرام سے مخلوط ہوگیا ہے اگر حرام مال کی مقدار معلوم ہو اور اسکا مالک بھی معلوم ہو تو اس پر واجب ہے کہ مال کو اس کے مالک تک پہنچائے یا اسکی رضامندی حاصل کرے اور اگرمالک کو نہ پہچانتا ہو حتی کہ محدود افراد میں بھی تو واجب ہے کہ اس کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال کی مقدار کا علم نہ ہو لیکن مالک کو جانتا ہو تو واجب ہے کہ کسی طرح اس کی رضایت رضامندی حاصل کرے اور اگر نہ مال کی مقدار کا علم ہو اور نہ ہی مالک کا تو اس صورت میں مال کا خمس نکالنا واجب ہے تاکہ مال ،حرام سے پاک ہوجائے۔ اب اگر خمس نکالنے کے بعد باقیماندہ مقدار کا کچھ حصہ سالانہ اخراجات کے بعد بچ جائے تو سالانہ بچت کے عنوان سے بھی اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔
س١٤23:بعض اوقات لوگ میرے پاس شیونگ مشین کی مرمت کرانے آتے ہیں اور چونکہ داڑھی مونڈنا شرعاً حرام ہے کیا میرے لئے مرمت کرنا جائز ہے؟
ج: مذکورہ آلہ چونکہ داڑھی مونڈنے کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے ، لہذا اس کی مرمت کرنا اور اجرت لینا اشکال نہیں رکھتا بشرطیکہ یہ داڑھی مونڈنے کیلئے استعمال کرنے کے مقصد سے نہ ہو۔
س١٤24: کیا رخسارکے ابھرے ہوئے حصے سے دھاگے یا چمٹی کے ذریعے بال کاٹنا حرام نہیں ہے؟
ج: اس حصّے کے بال کاٹنا مونڈنے کی صورت میں بھی جائز ہے۔
- محفل گناہ میں شرکت کرنا
محفل گناہ میں شرکت کرنا
س١٤25: بعض اوقات غیر ملکی یونیورسٹی یا اساتذہ کی طرف سے اجتماعی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پہلے سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی محافل میں شراب ہوتی ہے۔ایسے جشن میں شرکت کا ارادہ رکھنے والے یونیورسٹی کے طلبا کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: کسی کیلئے بھی ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جس میں شراب پی جاتی ہے ایسی محفلوں میں شرکت نہ کیجئے تا کہ انہیں پتا چلے کہ آپ نے مسلمان ہونے کی وجہ سے شراب نوشی کی محفل میں شرکت نہیں کی اور آپ شراب نہیں پیتے۔
س١٤26:شادی کے جشن میں شرکت کا کیا حکم ہے؟کیا شادی کی ایسی محفل کہ جس میں رقص ہے میں شرکت پر یہ عنوان(الداخل فی عمل قوم فہو منہم) "کسی قوم کے کام میں شریک ہونے والا انہیں میں سے ہے "صادق آتاہے پس ایسی محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ یا رقص اور ایسی دوسری رسومات میں شرکت کئے بغیر شادی میں جانا اشکال نہیں رکھتا؟
ج: اگر محفل ایسی نہ ہو کہ اس پر، لہو ولعب اور گناہ کی محفل کا عنوان صدق کرے اور نہ ہی وہاں جانے میں کوئی مفسدہ ہو تو اس میں شرکت کرنے اور بیٹھنے میںکوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اسے عرفا اسکی عملی تائید شمار نہ کیا جائے جو کہ جائز نہیں ہے۔
س١٤٢7: ١۔ ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جہاں مرد اور خواتین جداگانہ طور پر رقص کرتے ہیں اور موسیقی بجاتے ہیں؟
٢۔ آیا ایسی شادی میں شرکت کرنا جہاں رقص و موسیقی ہو جائز ہے؟
٣ ۔ آیا ایسی محافل میں نہی عن المنکر کرنا واجب ہے جہاں پر رقص ہو رہاہو جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کاان پر کوئی اثر نہ ہو؟
٤ ۔ مرد اور خواتین کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ج: کلی طور پر رقص اگرشہوت کو ابھارنے کا سبب ہو یا حرام عمل کے ہمراہ انجام پائے یا اس کا سبب ہو یا نامحرم مرد اور خواتین ایک ساتھ انجام دیں تو جائز نہیں ہے اور کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ شادی کے جشن میں ہو یا کسی اور پروگرام میں اور گناہ کی محفل میں شرکت کرنا اگر عمل حرام کے ارتکاب کا سبب ہو جیسے ایسی مطرب اور لہوی موسیقی کا سننا جو کہ محفل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہے یا اس میں شرکت گناہ کی تائید شمار ہوتی ہو تو جائزنہیں ہے۔ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اثر کرنے کا احتمال نہ ہو تو انکا وجوب ساقط ہے۔
س١٤٢8:اگر نامحرم مرد شادی کی محفل میں داخل ہو اور اس محفل میں بے پردہ عورت ہو اور مذکورہ شخص اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس خاتون پر نہی از منکر کا کوئی اثر نہیں ہوگا تو کیا اس مرد پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟
ج: اعتراض کے طور پر محفل گناہ کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔
س١٤٢9:آیا ایسی محافل میں شرکت کرنا جائز ہے جہاں فحش غنا کے کیسٹ سنے جا رہے ہوں؟ اور اگر اسکے غنا ہونے میں شک ہو جبکہ کیسٹ کو روک بھی نہ سکتا ہو تو حکم کیا ہے؟
ج: لہوی موسیقی اور غنا کی ایسی محفل میں جانا کہ جو لہو و گناہ کی محفل سے مناسبت رکھتی ہے اگر اسکے سننے کا باعث ہویا اسکی تائید شمار ہو تو جائز نہیں ہے لیکن موضوع میں شک کی صورت میں اس محفل میں شرکت کرنے اور اسکے سننے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤30:ایسی محفل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے کہ جہاں انسان کو بعض اوقات غیر مناسب کلام سننا پڑتا ہے؟ مثلاً دینی شخصیات یا اسلامی جمہوریہ کے عہدے داروں یادوسرے مومنین پر بہتان باندھنا؟
ج: صرف جانا اگر فعل حرام میں مبتلا ہونے ــمثلاً غیبت کا سنناــ اور برے کام کی ترویج و تائید کا سبب نہ بنے تو بذات خود جائز ہے۔ ہاں شرائط کے ہوتے ہوئے نہی عن المنکر واجب ہے۔
س١٤31:بعض غیر اسلامی ممالک کی میٹنگوں اور نشستوںمیں روایتی طور پر مہمانوں کی ضیافت کے لئے شراب استعمال کی جاتی ہے۔ آیا ایسی میٹنگوں اور نشستوں میں شرکت کرنا جائز ہے؟
ج: ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جہاں شراب پی جاتی ہو اور مجبوری کی صورت میں قدر ضرورت پر اکتفا کرنا واجب ہے۔
- دعا لکھنا اور استخارہ
دعا لکھنا اور استخارہ
س١٤32:آیا دعا لکھنے کے عوض پیسے دینا اور لینا جائز ہے؟
ج: منقول دعاؤں کے لکھنے کی اجرت کے طور پر پیسے دینے ا ور لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤33:ایسی دعاؤں کا کیا حکم ہے جن کے لکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دعاؤں کی قدیم کتابوں سے لی گئی ہیں؟ آیا مذکورہ دعائیں شرعاً معتبر ہیں؟ اور ان کی طرف رجوع کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مذکورہ دعائیں ائمہ (علیھم السلام )سے منقول اور مروی ہوں یا ان کا محتوا حق ہو تو ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی طرح مشکوک دعاؤں سے اس امید کے ساتھ کہ یہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے ہوں گی طلب برکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤34:آیا استخارے پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج: استخارے پر عمل کرنا شرعاً واجب نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ استخارے کے خلاف عمل نہ کیا جائے۔
س١٤35: یہ جو کہا جاتا ہے کہ عمل خیر کے انجام دینے میں استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکی بنا پر آیا انکے انجام دینے کی کیفیت یا دوران عمل ممکنہ طور پر پیش آنے والی غیر متوقع مشکلات کے بارے میں استخارہ کرنا جائز ہے؟ اور آیا استخارہ غیب کی معرفت کا ذریعہ ہے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے؟
ج: استخارہ مباح کاموں میں تردد اورحیرت دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چاہے یہ تردد خود عمل میں ہو یا کیفیت عمل میں لہذا اعمال نیک کہ جن میں کوئی تردد نہیں ہے ان میں استخارہ ضروری نہیں ہے اسی طرح استخارہ کسی عمل اور شخص کے مستقبل کو جاننے کیلئے نہیں ہے۔
س١٤36: آیا طلاق کے مطالبے اور طلاق نہ دینے جیسے مواردکے لئے قرآن سے استخارہ کرنا صحیح ہے؟ اور اگر کوئی شخص استخارہ کرے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو کیا حکم ہے؟
ج: قرآن اور تسبیح سے استخارے کا جواز کسی خاص موردسے مختص نہیں ہے بلکہ ہر مباح کام کہ جس میں انسان کو اس طرح تردد اور حیرت ہو کہ اس میں تعمیم نہ کرسکتا ہو اس کیلئے استخارہ کیا جاسکتا ہے اور استخارے پر شرعاً عمل کرنا واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ انسان اس کی مخالفت نہ کرے۔
س١٤٣7: آیا تسبیح اور قرآن کے ذریعہ شادی جیسے زندگی کے بنیادی مسائل کیلئے استخارہ کرنا جائز ہے ؟
ج: بہتر یہ ہے کہ جن مسائل میں انسان کوئی فیصلہ کرنا چاہے سب سے پہلے انکے بارے میں غور و فکر کرے یا پھر تجربہ کاراور بااعتماد افراد سے مشورہ کرے اگر مذکورہ امور سے اسکی حیرت ختم نہ ہو تو استخارہ کرسکتاہے۔
س١٤٣8:آیا ایک کام کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ استخارہ کرنا صحیح ہے؟
ج: استخارہ چونکہ تردد اور حیرت کو برطرف کرنے کے لئے ہے لہذا پہلے استخارے کے ساتھ تردد برطرف ہونے کے بعد دوبارہ استخارے کا کوئی مطلب نہیں ہے مگر یہ کہ موضوع تبدیل ہوجائے۔
س١٤٣9:بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ امام رضا کے معجزات پر مشتمل نوشتہ جات مساجد اور اہلبیت علیھم السلام کے حرموں میں موجود زیارت کی کتابوں کے صفحات کے درمیان رکھ کر لوگوں کے درمیان پھیلائے جاتے ہیں اور ان کے پھیلانے والے نے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اس پر واجب ہے کہ اسے اتنی تعداد میں تحریر کر کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرے تاکہ اس کی حاجت پوری ہوجائے ؟ آیا یہ امر صحیح ہے؟ اور آیا پڑھنے والے پر لکھنے والے کی درخواست پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج: شرعی نقطہ نظر سے ایسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شخص انہیں پڑھتا ہے وہ لکھنے والے کی طرف سے اسے مزید لکھنے کی درخواست پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔
- دینی رسومات کا احیاء
- ذخیرہ اندوزی اور اسراف
ذخیرہ اندوزی اور اسراف
س١٤٦8:کن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شرعاً حرام ہے ؟ اور آیا آپ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر مالی تعزیر (مالی جرمانہ) لگانا جائز ہے؟
ج: ذخیرہ اندوزی کا حرام ہونا اسکے مطابق جو روایات میں وارد ہوا ہے اور مشہور فقہا کی بھی یہی رائے ہے صرف چارغلوں اور سمن و زیت (گھی اور تیل) میں ہے کہ جن کی معاشرے کے مختلف طبقات کو ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی حکومت مفاد عامہ کے تحت لوگوں کی تمام ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے سکتی ہے، اور اگر حاکم شرع مناسب سمجھے تو ذخیرہ اندوزوں پر مالی تعزیرات لگانے میں اشکال نہیں ہے ۔
س١٤٦9: کہا جاتاہے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کی خاطر بجلی استعمال کرنا اسراف کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا کیا یہ بات درست ہے؟
ج: بلا شک ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور خرچ کرنا حتی بجلی اور بلب کی روشنی اسراف شمار کیا جاتا ہے جو صحیح ہے وہ رسول اللہؐ سے منقول یہ کلام ہے کہ "لاسرف فی خیر " کار خیر میں اسراف نہیں ہے۔
- تجارت و معاملات
- سود کے احکام
سود کے احکام
س١٦١9:ایک ڈرائیور نے ٹرک خریدنے کے ارادے سے ا یک دوسرے شخص سے پیسے لئے تا کہ اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کے لئے ٹرک خریدے اور پھر پیسے دینے والا شخص وہی ٹرک ڈرائیور کو قسطوں پر فروخت کردے اس معاملہ کا کیا حکم ہے؟
ج: اگرڈرائیور صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اس معاملے کو انجام دے اور پھر وہ خود اسے ڈرائیور کو قسطوں پر بیچ دے تو اگر اس کام سے ان کا قصد سود سے بچنے کیلئے حیلہ کرنا نہ ہو اور دونوں معاملوں میں خرید و فروخت کا واقعی قصد رکھتے ہوں تو اشکال نہیں ہے۔
س١٦20:قرض والاسود کیا ہے اور آیا وہ چند فیصد مقدار جو بینک سے اپنی رقم کے منافع کے عنوان سے لی جاتی ہے سود شمار کی جائے گی؟
ج: قرض والا سود قرض کی رقم پر وہ اضافی مقدار ہے جو قرض لینے والا قرض دینے والے کو دیتا ہے لیکن جو رقم بینک میں اس غرض سے رکھی جاتی ہے کہ صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اسے کسی صحیح شرعی معاملے میں استعمال کیا جائے تو اسکے استعمال سے حاصل ہونے والا نفع سود نہیں ہے اور اس میں اشکال نہیں ہے۔
س١٦21:سودی معاملے کا معیار کیاہے؟ اورکیا یہ صحیح ہے کہ سود فقط قرض میں ہوتا ہے نہ کسی اورمورد میں؟
ج: سود جیسے قرض میں ہوسکتا ہے اسی طرح معاملے میں بھی ہوسکتا ہے اور معاملے میں سود سے مراد ہے وزن یا پیمانے والی شے کو اسکی ہم جنس کے بدلے میں زیادہ مقدار کے ساتھ بیچنا۔
س١٦22: اگر بھوک کی وجہ سے انسان کی جان خطرے میں ہو اور اس کے پاس مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو کہ جسے کھا کر وہ جان بچا سکے تو جس طرح اس کیلئے ایسی مجبوری کے وقت مردار کھانا جائز ہوتا ہے ؟اسی طرح کیا مجبوری کی حالت میں ایسے شخص کیلئے سود کھانا جائز ہے کہ جو کام نہیں کرسکتا لیکن اسکے پاس تھوڑا سا سرمایہ ہے اور ناچار ہے کہ اسے سودی معاملات میں استعمال کرے تا کہ اسکے منافع سے اپنی گزر بسر کرے۔
ج: سود حرام ہے اوراسے اضطرار کی حالت میں مردار کھانے کے ساتھ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔اس لئے کہ مردار کھانے پر مجبور شخص کے پاس مردار کے علاوہ کوئی شے نہیں ہے کہ جس سے وہ اپنی جان بچا سکے لیکن جو شخص کام نہیں کرسکتا وہ اپنے سرمایہ کو مضاربہ جیسے کسی اسلامی معاملہ کے ضمن میں کام میں لاسکتا ہے۔
س١٦23:بعض اوقات تجارتی معاملات میں ڈاک کے ٹکٹ معین شدہ قیمت سے زیادہ قیمت میں فروخت کئے جاتے ہیں۔مثلاً ایک ٹکٹ جس کی قیمت بیس ریال ہے اسے پچیس ریال میں فروخت کیا جاتا ہے آیایہ معاملہ صحیح ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے اضافے کوسود شمارنہیں کیا جاتا۔ کیونکہ سودی معاملہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں پیمانے یا وزن کے ساتھ بکنے والی دو ہم جنس چیزوں کا آپس میں معاملہ کیا جائے اور ایک دوسری سے زیادہ ہو اور ایسا معاملہ باطل ہوتا ہے ۔
س١٦24:آیا سود کا حرام ہونا تمام حقیقی اور حقوقی افراد کے لئے ایک جیسا ہے یا بعض خاص موارد میں استثنا بھی پایا جاتا ہے؟
ج: سود کلی طور پر حرام ہے سوائے اس سود کے جو باپ اور اولاد اورمیاں بیوی کے درمیان اور اسی طرح سوائے اس سود کے جو مسلمان کافر غیر ذمی سے لیتا ہے۔
س١٦25:اگرکسی معاملے میں خرید و فروخت معین قیمت پر انجام پا جائے لیکن دونوں طرف اس پر اتفاق کریں کہ اگر خریدار نے قیمت کے عنوان سے مدت والاچیک دیا تو خریدار معین قیمت کے علاوہ کچھ مزید رقم فروخت کرنے والے کو ادا کرے گا۔ آیا ان کے لئے ایسا کرناجائز ہے؟
ج: اگرمعاملہ معین قیمت پرانجام پایاہو اور اضافی قیمت اصلی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہو تو یہ وہی سود ہے جو شرعاً حرام ہے اور دونوں کے اضافی مقدار کے ادا کرنے پر توافق کر لینے سے وہ پیسہ حلال نہیں ہوگا۔
س١٦26:اگر کسی شخص کوکچھ رقم کی ضرورت ہو اور کوئی اسے قرض حسنہ دینے والا نہ ہو تو کیا وہ مندرجہ ذیل طریقے سے اس رقم کو حاصل کر سکتا ہے کہ کسی چیز کوادھار پر اس کی واقعی قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے اور پھر اسی جگہ پر وہی چیزفروخت کرنے والے کو کم قیمت پر فروخت کر دے مثلاً ایک کلو زعفران ایک سال کے ادھار پر ایک معین قیمت کے ساتھ خریدے اور اسی وقت اسی فروخت کرنے والے کو کم قیمت پر مثلا قیمت خرید کے ۶۶ فیصد کے ساتھ بطور نقد فروخت کر دے؟
ج: ایسا معاملہ کہ جو در حقیقت قرض والے سود سے فرار کیلئے ایک حیلہ ہے شرعاً حرام اور باطل ہے۔
س١٦٢7:میں نے منافع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل معاملہ انجام دیا-:
میں نے ایک گھر پانچ لاکھ تومان کا خریدا جبکہ اس کی قیمت اس سے زیادہ تھی اور معاملے کے دوران ہم نے یہ شرط لگائی کہ فروخت کرنے والے کو پانچ مہینے تک معاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگا لیکن اس شرط پر کہ فسخ کرنے کی صورت میں وہ لی ہوئی قیمت واپس کردیگا ۔ معاملے کے انجام پانے کے بعد میں نے وہی گھر فروخت کرنیوالے کو پندرہ ہزار تومان ماہانہ کرایہ پر دے دیا۔ اب معاملہ کرنے سے چار مہینے گذرنے کے بعد مجھے حضرت امام خمینی کا یہ فتویٰ معلوم ہوا کہ سود سے فرار کرنے کے لئے حیلہ کرنا جائز نہیں ہے۔آپ کی نظر میں مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ج: اگر یہ معاملہ حقیقی قصد کے ساتھ انجام نہیں پایا بلکہ صرف ظاہری اور بناوٹی تھا اور مقصد یہ تھا کہ فروخت کرنے والے کو قرض مل جائے اور خریدار کو نفع تو ایسا معاملہ سود والے قرض سے بچنے کا ایک حیلہ ہے کہ جو حرام اور باطل ہے۔ایسے معاملات میں خریدار کو صرف وہ رقم واپس لینے کا حق ہے جو اس نے فروخت کرنے والے کو گھر کی قیمت کے طور پر دی تھی۔
س١6٢8:سود سے بچنے کے لئے کسی شے کا مال کے ساتھ ضمیمہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس کا م کا سودی قرض کے جائز ہونے میں کوئی اثر نہیں ہے اور کسی شے کے ضم کرنے سے مال حلال نہیں ہوتا۔
س١٦٢9:ملازم اپنی نوکری کے دوران ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پنشن اکاؤنٹ میں ڈالتا ہے تاکہ بڑھاپے میں اسکے کام آئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے اس میں کچھ اضافی رقم ڈال دی جاتی ہے کیا اس کا لینا جائز ہے ؟
ج: اصل رقم لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اضافی رقم جو اسکی ہر ماہ کاٹی گئی رقم کے علاوہ حکومت اسے دیتی ہے وہ اسکی رقم کا منافع نہیں ہوتا اور سود شمار نہیں ہوگا۔
س١٦30:بعض بینک رجسٹری والے گھر کی تعمیر کیلئے جعالہ کے عنوان سے قرض دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اپنے قرض کو چند فیصد اضافے کے ساتھ معین مدت میں قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا کیا اس صورت میں قرض لینا جائزہے؟ اوراس میں جعالہ کیسے متصور ہوگا؟
ج: اگر یہ رقم گھر کے مالک کو گھر کی تعمیر کیلئے قرض کے عنوان سے دی گئی ہے تو اس کا جعالہ ہونا بے معنی ہے اور قرض میں زائد رقم کی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اصل قرض بہرحال صحیح ہے لیکن کوئی مانع نہیں ہے کہ گھر کا مالک گھر کی تعمیر میں بینک کیلئے انعام ( عوض) قرار دے اور اس صورت میں انعام ( عوض) صرف وہ نہیں ہوگا جو بینک نے گھر کی تعمیر میں خرچ کیا ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے کہ جس کا بینک گھر کی تعمیر کے مقابلے میں مطالبہ کرر ہا ہے۔
س١٦31: آیا کوئی شے نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر بطور ادھار خریدنا جائز ہے ؟ اور آیا یہ سود کہلائے گا ؟
ج: کسی شے کا بطورادھارنقد قیمت سے زیادہ قیمت پر خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور نقد و ادھار کے درمیان تفاوت سود شمار نہیں ہوگا۔
س١٦32: ایک شخص نے اپنا گھر خیار والے معاملے کے تحت فروخت کیا لیکن وہ مقررہ وقت پر خریدار کو قیمت واپس نہ کرسکا لذا ایک تیسرے شخص نے خریدار کو معاملے والی قیمت ادا کردی تاکہ فروخت کرنے والا معاملہ فسح کر سکے البتہ اس شرط پر کہ اپنی رقم لینے کے علاوہ کچھ رقم اپنے کام کی مزدوری کے طور پر لے گا اس مسئلہ کا شرعاً کیا حکم ہے؟
ج: اگر وہ تیسرا شخص بیچنے والے کی طرف سے قیمت واپس کرنے اور فسخ کرنے کیلئے وکیل ہو اس طرح کہ پہلے فروخت کرنے والے کووہ رقم قرض دے اور پھر اسکی وکالت کے طور پر وہ رقم خریدار کو ادا کرے اور اسکے بعد معاملے کو فسخ کردے تو اس کا یہ کام اور وکالت کی اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس نے خریدارکو جو قیمت ادا کی ہے وہ فروخت کرنے والے کیلئے بعنوان قرض ہو تو اس صورت میں اسے فروخت کرنے والے سے فقط اس رقم کے مطالبے کا حق ہے جو اس نے اسکی طرف سے قیمت کے طور پر ادا کی ہے ۔
- حقِ شفعہ
حقِ شفعہ
س١٦33:کیا دو اشخاص پر وقف شدہ چیز میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے جب ان میں سے ایک اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے البتہ جب اسے اسکے فروخت کرنے کا حق ہو ؟ اسی طرح اگر دو شخص کسی ملک یا موقوفہ جائیداد کو کرایہ پر لیں پھر ان میں سے ایک اپنا حق صلح یا اجارے کے ساتھ تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو کیا کرائے والی جائیداد میں حق شفعہ ثابت ہوگا؟
ج: حق شفعہ وہاں ہوتا ہے جہاں عین کی ملکیت میں شراکت ہو اور دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے۔ لہذا اگر دو اشخاص کیلئے وقف ہو اور ایک شخص اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے جبکہ اس کا فروخت کرنا جائز ہو تو اس صورت میں حق شفعہ نہیں ہے اوراسی طرح کرایہ پر لی ہوئی عین میں اگر ایک شخص اپنا حق کسی تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو بھی شفعہ کا حق نہیں ہے۔
س١٦34:شفعہ کے باب میں فقہی متون کی عبارتوں اور ملکی قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعہ کا حق ہے بنابرایں اگر ایک شریک کسی خریدار کو اس بات پر ابھارے کہ وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے اور یہ کہ وہ اپنا حق شفعہ استعمال نہیں کر ے گا تو کیا یہ عمل حق شفعہ کا اسقاط شمار ہوگا؟
ج: صرف ایک شریک کا کسی تیسرے شخص کو اپنے شریک کا حصہ خریدنے کی تشویق دلانا اس کیلئے حق شفعہ کے ثابت رہنے سے منافات نہیں رکھتا۔بلکہ اگروہ وعدہ کرے کہ اسکے شریک اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہوجانے کی صورت میں وہ حق شفعہ استعمال نہیں کریگا تو اس سے بھی معاملے کے انجام پانے کے بعد حق شفعہ ساقط نہیں ہوتا۔
س١٦35:کیا شریک کے اپنا حصہ فروخت کرنے سے پہلے حق شفعہ کو ساقط کرنا صحیح ہے کیونکہ یہ ایسی چیز کا اسقاط ہے جو ابھی ثابت نہیں ہوئی "استقاط ما لم یجب" ہے۔
ج: جب تک حق شفعہ ثابت نہ ہوجائے اور دو میں سے ایک شریک کے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنے کے ساتھ یہ مرحلہ فعلیت کو نہ پہنچ جائے اسے ساقط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک شریک عقد لازم کے ضمن میں اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنائے کہ اگر اسکے شریک نے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کیا تو وہ شفعہ نہیں کریگا تو اشکال نہیں ہے۔
س١٦36: ایک شخص نے ایک ایسے دو منزلہ گھر کی ایک منزل کرایہ پرلی کہ جس کے مالک دو بھائی ہیں اور وہ کرایہ دار کے مقروض ہیں اور دو سال سے مسلسل اصرار کے باوجود اس کا قرض ادانہیں کر رہے تھے اس طرح کہ یہ عمل کرایہ دار کے لئے حق تقاص کے ثبوت کا باعث بنتا ہے۔ گھر کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے ۔اب اگر وہ اپنے قرض کی مقدار اس گھر کو اپنی ملکیت میں لے لے اور ان کے ساتھ گھر میں شریک ہوجائے تو کیا باقیماندہ مقدار کی نسبت اسے حق شفعہ حاصل ہوگا ؟
ج: سوال کی مفروضہ صورت میں شفعہ کا موضوع نہیں ہے۔ اس لئے کہ حق شفعہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں کسی شریک نے اپنا حصہ ایک تیسرے شخص کو فروخت کیا ہو اورخرید و فروخت سے پہلے شراکت ہونہ اس شخص کو جو دو میں سے ایک کا حصہ خرید کر یا تقاص کی وجہ سے اس کا مالک بن کر دوسرے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ علاوہ از ین اگر ایک شریک اپنا حصہ بیچ دے تو اس صورت میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اس ملک میں صرف دوشخص شریک ہوں نہ زیادہ۔
س١٦٣7: ایک جائیدا د دو افراد کے درمیان مشترک ہے اور ہر ایک آدھے حصے کا مالک ہے اور اسکی رجسٹری بھی دونوں کے نام ہے تقسیم کے ایک سادہ وثیقے کی بنیاد پر کہ جو انکے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے مذکورہ ملک معین حدود کے ساتھ ان کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے تو اگر ایک شریک تقسیم اور اپنا حصہ علیحدہ کر لینے کے بعد اپنا حصہ تیسرے شحص کو فروخت کر دے تو کیادوسرے شریک کوصرف اس بنیاد پر حق شفعہ حاصل ہے کہ اس جائیداد کی رجسٹری ان کے درمیان مشترک ہے۔
ج: فروخت کیا گیا حصہ اگر معاملے کے وقت دوسرے شریک کے حصے سے علیحدہ اور معین حدود کے ساتھ جدا کردیا گیا ہو تو صرف دو زمینوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا یا سابقہ شراکت یا رجسٹری کا مشترک ہونا حق شفعہ کے ثبوت کا باعث نہیں ہوگا۔
- اجارہ
- ضمانت
ضمانت
س ١٦82: جس شخص کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی رقم موجود نہ ہو۔ کیا وہ کسی دوسرے شخص کی ضمانت کے طور پر اپنا چیک دے سکتاہے؟
ج: اس قسم کے امور کا معیار اسلامی جمہوریہ ایران کا قانون ہے۔
س ١٦83: ایک شخص میرا مقروض تھا جو قرضہ ادا کرنے میں پس و پیش کررہا تھا چنانچہ اسکے ایک رشتہ دار نے میرے قرض کی رقم کے برابر معینہ مدت والاایک چیک مجھے دیا اس شرط پر کہ میں مقروض کوکچھ مہلت دوں ۔اس طرح وہ ضامن بن گیا کہ اگر مقروض شخص نے چیک کی مقررہ مدت تک قرض ادا نہ کیا تو وہ ادا کرے گا۔ اسی دوران مقروض کہیں روپوش ہوگیا اور اسوقت مجھے اسکا کوئی پتہ نہیں ہے کیا شرعا جائز ہے کہ میں اپناپورا قرض ضامن سے وصول کروں؟
ج: اگر وہ صحیح اور شرعی طریقے سے ضامن ہوا ہے تو جائز ہے کہ آپ اس سے مقررہ مدت تمام ہونے پر اپنے قرض کا مطالبہ کریں ا ور اپنا تمام قرض اس سے وصول کریں۔
- رہن
رہن
س ١٦84: ایک شخص نے اپنا گھر بینک سے قرض لے کر اسکے پاس گروی رکھاہے پھر وہ اپنا قرض ادا کرنے سے پہلے انتقال کرگیا اور اسکے نابالغ ورثاء پورا قرض ادا نہ کرسکے نتیجہ کے طور پر بینک نے مذکورہ گھر اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ اس گھر کی قیمت قرض والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔گھر کی اضافی رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور نابالغ ورثاء اور انکے حق کے متعلق کیا حکم ہے ؟
ج: جن مقامات میں مرتہن (جسکے پاس وہ چیز گروی رکھی گئی ہے ) کیلئے گروی رکھی ہوئی چیز کو اپنا قرض وصول کرنے کیلئے فروخت کرنا جائز ہے وہاں اس پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے۔ اگر وہ اس شے کو اپنے قرض کی مقدار سے زیادہ پر فروخت کرے تو ضروری ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے بعد باقیماندہ رقم اسکے شرعی مالک کے حوالے کردے لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں اضافی رقم ورثاء کو ملے گی۔
س١٦85: کیا جائز ہے کہ بالغ و عاقل شخص کسی دوسرے سے معین مدت کیلئے کچھ رقم قرض پر لے اور اپنا گھر قرض کے بدلے اسکے پاس گروی رکھ دے اور پھر اسی گھر کومرتہن سے معین رقم کے ساتھ معینہ مدت کیلئے کرایہ پر لے لے؟
ج: اس میں ایک اشکال تو یہ ہے کہ مالک اپنی ہی ملک کو کیسے کرائے پر لے سکتا ہے اسکے علاوہ اس قسم کے معاملات ، سودی قرض حاصل کرنے کیلئے ایک حیلے کے طور پر کئے جاتے ہیں جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے۔
س ١٦86: ایک شخص نے قرض کے بدلے میں اپنی زمین کا ایک قطعہ دوسرے شخص کے پاس گروی رکھاہے اس بات کو چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ راہن اور مرتہن دونوں انتقال کرگئے اور راہن کے وارثوں نے کئی مرتبہ مرتہن کے وارثوں سے زمین واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن انہوں نے انکے مطالبے کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ زمین انہیں انکے باپ سے وراثت میں ملی ہے ۔کیا راہن کے ورثاء یہ زمین ان سے واپس لے سکتے ہیں؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ مرتہن اس بات کا مجاز تھا کہ وہ اپنا حق وصول کرنے کیلئے زمین کو اپنی ملکیت میں لے لے اور اسکی قیمت بھی قرض کے برابر یا اس سے کمتر ہو اور اس کے مرنے تک زمین اسکے قبضہ میں رہی ہو تو بظاہر اسکی ملکیت ہے اور اسکے انتقال کے بعد اسکا ترکہ شمار ہوگی اور اسکے ورثاء اسکے وارث ہونگے . ورنہ زمین راہن کے ورثا کی میراث ہوگی اور وہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں اورراہن کے ورثاء کیلئے ضروری ہے کہ اسکے ترکہ سے مرتہن کے ورثاء کو اس کا قرض ادا کریں۔
س ١٦87: کیا جائز ہے کہ جس شخص نے مکان کرایہ پر لیا ہے وہ اپنے قرض کے مقابلے میں یہ مکان کسی دوسرے شخص کے پاس گروی رکھ دے یا یہ کہ رہن کے صحیح ہونے میں شرط ہے کہ رہن پر رکھی جانے والی شے راہن کی ملکیت ہو؟
ج: اگر گھر کے مالک کی اجازت ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٦٨8: میں نے ایک شخص سے قرض لے کر ایک سال کیلئے اپنا مکان اسکے پاس گروی رکھ دیااور ہم نے اس سلسلے میں دستاویز بھی لکھ لی لیکن معاملے سے علیحدہ طور پر میں نے اسے وعدہ دیا کہ یہ مکان اسکے پاس تین سال تک رہے گا۔ کیا اب رہن کی وہ مدت معیار ہے جو دستاویز میں لکھی گئی ہے یا وہ مدت کہ جس کا میں نے باتوں میں اسے وعدہ دیا ہے اور رہن کے باطل ہونے کی صورت میں راہن اور مرتہن کیلئے کیا حکم ہے ؟
ج: رہن کی مدت کے سلسلے میں تحریر ی دستاویزیا وعدہ یا اس جیسی کوئی اور چیز معیار نہیں ہے بلکہ اصلی معیار قرض والا معاملہ ہے پس اگر یہ معاملہ معینہ مدت کے ساتھ مشروط ہو تو اس مدت کے ختم ہونے پر یہ بھی ختم ہوجائیگا ورنہ رہن کی صورت میں باقی رہے گایہاں تک کہ قرض ادا کردینے یاقرض خواہ کے اپنے قرض سے چشم پوشی کر لینے کی وجہ سے یہ گھر گروی ہونے سے نکل جائے اور اگر وہ مکان رہن سے آزاد ہوجائے یا یہ پتہ چل جائے کہ رہن ابتدا ہی سے باطل تھا تو راہن اپنے اس مال کا مرتہن سے مطالبہ کرسکتاہے اورمرتہن کو حق نہیں ہے کہ وہ اسکے لوٹانے سے انکار کرے اوراس پر صحیح رہن کے آثار مترتب کرے۔
س ١٦٨9: میرے باپ نے تقریباً دوسال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے، سونے کے کچھ سکے اپنے قرض کے مقابلے میں گروی رکھے تھے اور پھر اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مرتہن کو اجازت دے دی کہ وہ انہیں بیچ دے لیکن اس نے اس بات سے مرتہن کو آگاہ نہیں کیا پھر میں نے اپنے باپ کی رحلت کے بعد اس قرض کے برابر رقم کسی سے قرض لے کر مرتہن کو دے دی لیکن میرا ارادہ باپ کے قرض کو ادا کرنا یا اسے بری الذمہ کرنا نہیں تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ گروی رکھا ہوا مال اس سے لے کر کسی اور کے پاس گروی رکھوں لیکن مرتہن نے اس میں تمام ورثاء کے متفق ہونے کی شرط لگادی اور ان میں سے بعض نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی پس میں نے اسے لینے کیلئے مرتہن سے رجوع کیا لیکن اس نے یہ کہا کہ میں نے اسے اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لیا ہے اور اس طرح اسے تحویل دینے سے انکار کردیا اس مسئلہ کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ کیا جائز ہے کہ مرتہن اپنا قرض وصول کرنے کے بعد گروی رکھا ہوا مال واپس کرنے سے انکار کردے اور باوجود اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں تھا اور جو کچھ میں نے اسے دیا تھا وہ باپ کا قرض ادا کرنے کے عنوان سے نہیں دیا تھا کیا اسے حق ہے کہ وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لے اور واپس نہ لوٹائے؟ اور کیا وہ گروی رکھے ہوئے مال کو واپس لوٹانے میں تمام ورثاء کی موافقت کی شرط لگا سکتاہے؟
ج: اگر وہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے مرتہن کو دی گئی تھی تو اس سے میت بری الذمہ ہوجائے گی اور گروی رکھی ہوئی چیز آزاد ہوکر مرتہن کے پاس امانت بن جائے گی لیکن چونکہ اس کا تعلق تمام ورثاء سے ہے لہذا سب کی رضامندی کے بغیر بعض ورثاء کے حوالے نہیں کر سکتا اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے دی گئی تھی بالخصوص جب مرتہن اسکا اقرار بھی کر رہاہو تو وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں نہیں لے سکتا بلکہ اس پر واجب ہے کہ جس نے اسے یہ رقم دی ہے اسے واپس لوٹادے بالخصوص جب اس کا دینے والا اس کا مطالبہ کررہا ہو اور سونے کے سکے اسکے پاس رہن کے عنوان سے باقی رہیں گے یہاں تک کہ ورثا، میت کاقرض ادا کرکے رہن کو چھڑوا لیں یا مرتہن کو اجازت دے دیں کہ وہ اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کرلے۔
س ١٦90: راہن نے جو مال گروی رکھاہے کیا اسے چھڑانے سے پہلے اپنے قرض کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کے پاس رہن کے طور پر رکھ سکتاہے؟
ج: جب تک پہلا رہن چھڑانہ لیا جائے راہن کی طرف سے مرتہن کی اجازت کے بغیر دوسرا رہن فضولی کے حکم میں ہے اور مرتہن کی اجازت پر موقوف ہے۔
س١٦91: ایک شخص نے اپنی زمین دوسرے کے پاس رہن رکھی تاکہ اس سے کچھ رقم قرض لے سکے لیکن مرتہن نے یہ عذر پیش کیا کہ مذکورہ رقم اسکے پاس نہیں ہے اور اسکے بجائے دس عدد بھیڑیں زمین کے مالک کو دے دیں اور اب دونوں چاہتے ہیں کہ رہن آزاد ہوجائے اور راہن اور مرتہن دونوں اپنا اپنا مال لے لیں لیکن مرتہن اس بات پر مصر ہے کہ وہی دس بھیڑیں اسے واپس دی جائیں کیا شرعاً اسے ایسا کرنے کا حق ہے؟
ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے مقابلے میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں انکے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہیں۔
- شراکت
شراکت
س١٦92: میں نے ایک کمپنی کے مالک کو سرمایہ دیا اور یوں اس کے ساتھ سرمایہ میں اس طرح شریک ہوگیاکہ وہ میرے سرمائے کوکام میں لانے میں میری طرف سے وکیل ہوگا۔ اورہر ماہ حصص کے منافع سے مجھے پانچ ہزار روپے دے گا۔ ایک سال گزرنے کے بعد میں نے اس مال اور منافع کے بدلے میں اس سے زمین کا ایک قطعہ لے لیا مذکورہ زمین کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں شراکت سرمایہ لگانے میں ہے اور کمپنی کے مالک کو اسے کام میں لانے کی اجازت ہے اگر نفع شرعا حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو تو اسکے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٦93: کچھ لوگوں نے مشترکہ طور پر ایک چیز کو اس شرط پر خریدا کہ وہ اپنے درمیان قرعہ ڈالیں گے اور جسکے نام قرعہ نکلے گا یہ چیز اسکی ہوگی اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر قرعہ ڈالنے میں مدنظریہ ہو کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا دیگر شرکاء اپنی مرضی کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اسے ہبہ کردیں گے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اگرمقصود یہ ہو کہ مالِ مشترک قرعہ کے ذریعہ اس شخص کی ملکیت ہوجائے گا کہ جسکے نام قرعہ نکلے گا تو یہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کا اصلی مقصود ہار جیت ہو۔
س١٦94: دو آدمیوں نے مل کر زمین خریدی اور وہ اس میں بیس سال سے مشترکہ طور پر کاشت کاری کررہے ہیں اب ان میں سے ایک نے اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے کیا اسے ایسا کرنے کا حق ہے یا صرف اسکے شریک کو اسکا حصہ خریدنے کا حق ہے ؟ اور اگر وہ اپنے شریک کو زمین بیچنے سے انکار کرے تو کیا اسکا شریک اعتراض کا حق رکھتاہے؟
ج: ایک شریک کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے شریک کو مجبور کرے کہ وہ اپنا حصہ اسے فروخت کرے اور اگر شریک اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردے تو بھی دوسرے شریک کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن معاملہ بیع انجام پانے کے بعد اگر اس مورد میں حق شفعہ کے تمام شرائط موجود ہوں تو وہ شفعہ کر سکتاہے۔
س ١٦95: صنعتی یا تجارتی کمپنیوں یا بعض بینکوں کے حصص کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ۔ ہوتاایسے ہے کہ ایک شخص کچھ حصص میں سے ایک خریدتا ہے اور پھر انہیں بازار حصص میں خرید و فروخت کیلئے پیش کردیتاہے جسکے نتیجے میں اسکی قیمت ، قیمت خرید سے کم یا زیادہ ہوجاتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ خودحصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے نہ سرمایہ کی، اسی طرح اگر مذکورہ کمپنیوں میں سودی کارو بار ہویا اس سلسلے میں ہمیں شک ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر ان کمپنیوں ، کارخانوں اور بینکوں کے حصص کی قیمت خود حصص کے اعتبار سے ہو اور انکی قیمت گزاری ایسے شخص کے ذریعے انجام پائی ہو جو اس کام کیلئے مجاز ہے تو انکے خریدنے اور بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اسی طرح اگر ان حصص کی قیمت خود کارخانے، کمپنی اور بینک کی قیمت یا انکے سرمایہ کے اعتبار سے ہو یعنی اس طرح کہ حصص میں سے ہر ایک اس کی جز کی قیمت کو بیان کر رہا ہو تو بھی ان حصص کی خرید و فروخت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسے کمپنی کے تمام حصص او ر دیگران چیزوں کا علم ہو کہ غررسے بچنے کیلئے جن کا جاننا عرفاً ضروری ہے ۔ نیز اس کمپنی، کارخانے یا بینک کا کاروبار شرعی طور پر حلال ہو۔
س ١٦96: ہم تین آدمی مرغیوں کے ایک ذبح خانہ اور اسکے تحت آنے والی املاک میں باہمی طور پر شریک ہیں اورہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر ہم نے شراکت ختم کرنے اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کا ارادہ کرلیا چنانچہ مذکورہ مذبح اور اسکی املاک کو ہم نے شرکاء کے درمیان نیلامی کیلئے پیش کیا اور ہم میں سے ایک اسے خریدنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اسو قت سے لے کر آج تک اس نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے کیا اس معاملہ نے اپنا اعتبار کھودیا ہے ؟
ج: صرف نیلامی کا اعلان کر نا اور کسی شریک یا دوسرے کی جانب سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرنا معاملہ ہو جانے اور انتقال ملکیت کیلئے کافی نہیں ہے اور جب تک حصص کی فروخت صحیح اور شرعی طور پر انجام نہ پائے شراکت باقی ہے۔ لیکن اگر بیع صحیح صورت میں واقع ہو تو خریدار کے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرنے سے معاملہ باطل نہیں ہوگا۔
س ١٦97:ایک کمپنی کی بنیاد ڈالنے اور رجسٹریشن کرانے کے بعد میں نے اپنا حصہ دوسرے شرکاء کی رضامندی سے ایک اور شخص کو فروخت کردیا اور خریدار نے اسکی قیمت چیک کی صورت میں مجھے ادا کردی لیکن (اکاؤنٹ میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے ) چیک کیش نہیں ہوئے ۔میں خریدار کے پاس گیا تو اس نے وہ چیک مجھ سے لے لئے اور کمپنی کا میرا حصہ مجھے واپس کردیا۔ لیکن اسکی قانونی دستاویزاسی کے نام رہی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے وہ حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے کیا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے یا مجھے اپنے حصے کے مطالبے کا حق ہے؟
ج: اگر آپ کے ساتھ کئے گئے معاملے کے ختم ہونے کے بعد اس نے کسی دوسرے کو بیچنے کا اقدام کیا ہے تو یہ بیع ( خرید و فروخت ) فضولی ہے کہ جسکا صحیح ہونا آپ کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر معاملہ فسخ ہونے سے پہلے اس نے وہ حصہ کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا ہو تووہ معاملہ صحیح ہے۔
س١٦٩8: دو بھائیوں کو اپنے باپ کی میراث سے ایک مکان ملا ہے ان میں سے ایک اس مکان کو تقسیم یا فروخت کرکے دوسرے بھائی سے الگ ہونا چاہتا ہے لیکن دوسرا بھائی اسکی کوئی بات قبول نہیں کرتا نہ وہ مکان کی تقسیم پر راضی ہے نہ بھائی کا حصہ خریدنے پر اور نہ ہی اپنا حصہ اسے بیچنے پر ۔ جسکی وجہ سے پہلے بھائی نے معاملہ عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے بھی مکان کے معاملہ کو اپنے ماہر کی رپورٹ اور تحقیق سے منسلک کردیا عدالت کے ماہرنے رپورٹ پیش کی کہ گھر نا قابل تقسیم ہے اور شراکت ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ یا دو بھائیوں میں سے ایک اپنا حصہ دوسرے کو فروخت کرے یا مکان کسی تیسرے شخص کو فروخت کر کے اسکی قیمت دونوں میں تقسیم کردی جائے ۔ عدالت نے اپنے ماہر کی بات قبول کر لی اور مکان کو نیلامی کیلئے پیش کردیا۔ اور مکان بیچنے کے بعد اسکی رقم دونوں کے حوالے کردی۔ کیا یہ بیع صحیح اور معتبر ہے ؟ اور ان میں سے ہر ایک اپنا حصہ مکان کی قیمت سے وصول کرسکتا ہے؟
ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ١٦٩9:کمپنی کے ایک شریک نے کمپنی کے پیسے سے ایک ملک خریدکر اپنی بیوی کے نام کردی۔ کیا یہ خریدی ہوئی ملک تمام شرکاء سے متعلق ہے اور زمین بھی ان سب کی ہے ؟ اور کیا شرعی طور پر اس شخص کی بیوی اس بات کی پابند ہے کہ وہ مذکورہ ملک کو تمام شرکاء کے نام کردے اگرچہ اسکا شوہر اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دے؟
ج: اگر اس شخص نے مذکورہ ملک کو اپنے لیئے یا اپنی بیوی کیلئے خریدا ہو اور اسکی قیمت کلی در ذمہ کی صورت میں ہو اور پھر اس نے کمپنی کے اموال سے اسکی قیمت ادا کی ہو تو وہ ملک خود اسکی یا اسکی بیوی کی ہے اوروہ صرف دیگرشرکاء کے اموال کی مقدار میں انکا مقروض ہے لیکن اگر اس ملک کو کمپنی کے عین مال سے خریدا ہو تو دوسرے شرکاء کے سہم کی نسبت معاملہ فضولی ہے کہ جسکا صحیح ہونا انکی اجازت پر منحصر ہے۔
س ١700: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء یا انکے وکیل دوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر ملک مشاع میں کوئی تصرف یا معاملہ انجام دیں؟
ج: جائز نہیں ہے کہ شرکاء میں سے کوئی بھی مشترکہ ملکیت میں تصرف کرے مگر یہ کہ اس میں دوسرے شرکاء کا اذن یا اجازت شامل ہو اور اسی طرح مشترکہ ملک میں کوئی معاملہ بھی صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں تمام شرکاء کی اجازت یا اذن ہو۔
س ١701: اگر بعض شرکاء ملک مشاع کو فروخت کردیں یا کوئی دوسرا شخص اسے فروخت کردے اور شرکاء میں سے بعض اس معاملہ کی اجازت دے دیں؟ توکیا دوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر یہ معاملہ ان سب کی طرف سے صحیح اور معتبر ہے یا یہ کہ انکی طرف سے وہ اسی وقت صحیح ہوگا جب ان سب کی رضامندی اور موافقت حاصل ہوجائے؟ اورا گر تمام شرکاء کی رضامندی شرط ہو تو کیا اس میں کوئی فرق ہے کہ اس ملک میں شراکت ایک تجارتی کمپنی کی صورت میں ہو یا غیر تجارتی کمپنی کی صورت میں اس طرح کہ تمام شرکاء کی رضامندی دوسری صورت میں شرط ہو اور پہلی میں شرط نہ ہو۔
ج: یہ معاملہ فقط اس شخص کے اپنے حصے کی نسبت صحیح ہے کہ جو اس نے فروخت کیا ہے اور معاملہ کا دوسرے شرکاء کے حصہ میں صحیح ہونا انکی اجازت پر منحصر ہے ۔اور شراکت چاہے جیسی بھی ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س ١702: ایک شخص نے بینک سے اس بنیاد پر قرضہ لیا کہ وہ اسکے ساتھ مکان بنانے میں شریک ہوگا۔ مکان تعمیر کرنے کے بعد حادثات کے مقابلے میں اسے بینک کے پاس بیمہ کردیا مکان کا ایک حصہ بارش یا کنویں کا پانی آنے کی وجہ سے گر ہوگیا ہے اور اسکی تعمیر کیلئے رقم کی ضرورت ہے لیکن بینک اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کررہا اور بیمہ کمپنی بھی اس نقصان کو اپنی بیمہ پالیسی کے دائرے سے باہر سمجھتی ہے اس سلسلے میں کون اس چیز کا ذمہ دار اور ضامن ہے ؟
ج: بیمہ کمپنی طے شدہ اور قوانین سے باہر کے نقصانات کی ضامن نہیں ہے ۔ عمارت کی تعمیرکے اخراجات اور اسکے وہ نقصانات جنہیں ادا کرنے کا کوئی دوسرا ضامن نہیں بنا وہ مالک کے ذمہ ہیں اور اگر عمارت میں بینک کی شراکت مدنی ہو تو وہ اپنے حصے کی مقدار میں اخراجات ادا کرے مگر یہ کہ وہ نقصان کسی خاص شخص نے کیا ہو۔
س ١703: تین آدمیوں نے مشترکہ طور پر چند تجارتی دوکانیں خریدیں تا کہ باہمی طور پر ان میں تجارت کریں لیکن ان میں سے ایک شریک ان دوکانوں سے استفادہ کرنے حتی انہیں کرایہ پر دینے اور بیچنے پر بھی دوسروں کے ساتھ موافق نہیں ہے۔
سوال یہ ہے :
١ ۔ کیا جائز ہے ایک شریک دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کردے یا کرایہ پر دیدے؟
٢۔کیا جائز ہے کہ وہ دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر ان دوکانوں میں کاروبارشروع کردے؟
٣ ۔ کیا جائزہے کہ ان دوکانوں میں سے ایک کو خود سے مخصوص کرلے اور دیگر دوکانیں دوسرے دو شرکاء کو دیدے۔ج: ١ ۔ شرکاء میں سے ہر ایک اپنے مشترکہ حصے(مشاع) کو بیچ سکتاہے اور اس میں دوسروں کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
٢۔شرکاء میں سے کسی کے لیئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی رضامندی کے بغیر مشترکہ مال میں تصرف کرے۔
٣۔ شرکاء میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کی موافقت کے بغیر مشترکہ مال سے اپنا حصہ جدا کرلے۔س ١704: ایک علاقہ کے بعض لوگ ایسی زمین میں امام بارگاہ بنانا چاہتے ہیں جس میں درخت ہیں لیکن ان میں سے بعض لوگ جو مذکورہ زمین میں حصہ دار ہیں اس کام پر راضی نہیں ہیں لہٰذااس میں امام بارگاہ بنانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ احتمال موجود ہو کہ مذکورہ زمین انفال میں سے یا شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو تو اسکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر وہ زمین علاقہ کے لوگوں کی مشترکہ (ملک مشاع)ہے تو اس میں تصرف کیلئے تمام شرکاء کی رضامندی ضروری ہے لیکن اگر انفال میں سے ہو تو اسکا اختیار حکومت اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ہے اور یہی حکم ہے جب وہ جگہ شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو۔
س١705: اگر ورثاء میں سے کوئی وارث مشترکہ باغ میں سے اپنا حصہ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوتو کیا جائزہے کہ دوسرے شرکاء یا حکومتی اداروں میں سے کوئی ادارہ اسے اس کام پر مجبور کرے؟
ج: اگر اپنے اپنے حصوں کی تقسیم اور انکے الگ الگ کرنے کا امکان موجود ہو تو شرکاء یا دوسرے افراد کیلئے کسی شریک کو اس بات پر مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اپنا حصہ بیچ دے اور اس سلسلے میں ہر شریک کو فقط یہ حق ہے کہ وہ دوسروں سے اپنا حصہ الگ کرنے کا مطالبہ کرے ۔ مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے ایسے باغ کہ جس میں درخت ہیں کی تقسیم اور حصوں کو الگ کرنے کے سلسلے میں خاص قوانین و ضوابط ہوں تواس صورت میں ان قوانین کی پابندی واجب ہے لیکن اگر مشترکہ ملک تقسیم اور جدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں شرکا ء میں سے ہرایک حاکم شرع کے پاس جائے تا کہ وہ دوسرے شریک کو اسکا حصہ خریدنے یا اسے اپنا حصہ بیچنے پر مجبور کرسکے۔
س ١706: چار بھائی اپنے مشترکہ اموال کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہیں چند سال بعد ان میں سے دو بھائی شادی کرلیتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں میں سے ایک ایک کی کفالت کریں گے اور انکی شادی کے اسباب فراہم کریں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنے عہد پر عمل نہیں کیا ۔ جسکے نتیجے میں دونوں چھوٹے بھائیوں نے ان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔اور مشترکہ مال کی تقسیم کا مطالبہ کردیا۔ شرعی لحاظ سے انکا مشترکہ مال ان کے درمیان کس طرح تقسیم ہوگا؟
ج: اگر کسی نے مشترکہ مال میں سے اپنے اوپر خرچ کیا ہے تو وہ اس مقدار میں دوسرے ان شرکا کا مقروض ہے کہ جنہوں نے مشترکہ مال سے اپنے حصے کے بدلے اس مقدار کے برابر اپنے اوپر خرچ نہیں کیا جسکے نتیجے میں انہیں یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اپنے مال سے اس کا عوض ادا کرے اور باقیماندہ مشترکہ مال اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کریں یا پہلے جن شرکاء نے مشترکہ مال سے استفادہ نہیں کیا یا دوسروں سے کم استفادہ کیا ہے تو انہیں اتنی مقدار دیا جائے کہ مشترکہ مال سے استفادہ کرنے میں سب شرکا برابر ہوجائیں اور پھر باقیماندہ مال کو اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرلیں۔
س١707: چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو اپنی کمپنی کے ساتھ شراکت یا اس کا ممبر بننے پر مجبور کرتی ہے کیا مذکورہ کمپنی کیلئے چائے بیچنے والوں کو اپنی شراکت پر مجبورکرنا جائز ہے؟ اور کیا یہ جبری شراکت صحیح ہے؟
ج: جس وقت چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو سہولیات مہیا کرتی ہے۔ اورتقسیم کرنے کیلئے چائے انکی تحویل میں دیتی ہے اورانہیں اس طرح کی خدمات فراہم کرتی ہے اگر انکے ساتھ شرط لگاتی ہے کہ وہ کمپنی میں شراکت اختیار کریں اور فقط اسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو یہ شرط صحیح ہے اور مذکورہ شراکت میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٧٠8:کیا کسی کمپنی کے مینجر کیلئے کمپنی کی آمدنی کو مالکان حصص کی اجازت کے بغیر کار خیر میں خرچ کرنا جائز ہے؟
ج: شرکاء میں سے ہر ایک مشترکہ مال کے منافع سے اپنے حصہ کا مالک و مختار ہے اور اسکے خرچ کرنے کا اختیار خود اسکے ہاتھ میں ہے اوراگر کوئی دوسرا شخص اسکی طرف سے اجازت اور وکالت لیئے بغیر اسے خرچ کرے تو وہ ضامن ہے اگر چہ اس نے کار خیر میں ہی اسے خرچ کیا ہو۔
س ١٧09: تین آدمی ایک تجارتی جگہ میں با ہم شریک ہیں لیکن پہلے شریک نے آدھا سرمایہ اور دوسرے دوشرکاء میں سے ہر ایک نے اسکا ایک چوتھائی سرمایہ دیا ہے اور باہمی طور پر یہ طے کیا ہے کہ اس سے حاصل شدہ منافع اور آمدنی انکے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔ لیکن دوسرا اور تیسرا شریک اس تجارتی جگہ میں مسلسل کام کرتے ہیں جبکہ پہلا شریک بہت کم کام کرتاہے کیا مذکورہ شرط کے ساتھ یہ شراکت صحیح ہے؟
ج: شراکت میں یہ شرط نہیں ہے کہ سرمایہ میں شرکاء میں سے ہرایک کاحصہ مساوی ہو اور شرکاء کے درمیان منافع کے مساوی طورپرتقسیم کرنے کی شرط میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اگر چہ سرمایہ میں ان کے حصے برابر نہ بھی ہوں۔ لیکن اس جگہ میں کام کرنے کے سلسلے میں اگر عقد شراکت میں کوئی چیز ذکر نہ ہوئی ہو تو ان میں سے ہر ایک اپنے کام کی مقدار اجرة المثل کا مستحق ہوگا۔
س ١٧10: ایسی کمپنی جو بعض افراد کے خصوصی سرمائے اور مختلف لوگوں کے عمومی سرمائے سے وجود میں آئی ہے اور مالکان حصص کے نمائندے اسکے امور کی نگرانی کرتے ہیں کیا اس کمپنی کے مینجر حضرات اور دیگر ملازمین کے لیئے اسکے ذرائع حمل و نقل کو متعارف حد تک اپنے ذاتی کاموں کیلئے استعمال کرنا جائز ہے؟
ج: کمپنی کے حمل و نقل اوردیگر وسائل سے ذاتی کاموں میں استفادہ کرنا اسی صورت میں جائز ہے جب مالکان حصص یا ان کے نمائندے اسکی اجازت دیں۔
س ١٧11: کمپنی کے قوانین و ضوابط کے مطابق اختلافات کو حل کرنے کیلئے ہیئت منصفہ کی تشکیل ضروری ہے لیکن مذکورہ ہیئت جب تک ممبران کی طرف سے تشکیل نہ دی جائے اپنے فرائض کو انجام نہیں دے سکتی۔ اور اس وقت چونکہ حصص کے مالکان اور شرکاء میں سے اکاون فیصد نے اپنے حقوق سے صرف نظر کر لیا ہے اسلئے وہ اس ہیئت کی تشکیل کیلئے تیار نہیں ہیں کیا جنہوں نے صرف نظر کر لیا ہے ان پر واجب ہے کہ وہ ان مالکان حصص کے حقوق کی حفاظت کیلئے کہ جنہوں نے اپنے حقوق سے صرف نظر نہیں کیا اس ہیئت کے تشکیل دینے میں شریک ہوں۔
ج: اگر کمپنی کے ممبران نے کمپنی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ عہد کیا ہو کہ وہ ضروری مواقع میں ہیئت منصفہ کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عہد پر عمل کریں اور بعض ممبران کا اپنے حق سے صرف نظر کرلینا اس بات کا جوازفراہم نہیں کرتا کہ وہ ہیئت منصفہ کی تشکیل کے سلسلے میں اپنے عہد کو پورا نہ کریں۔
س ١٧12: دو آدمی مشترکہ سرمایہ کے ساتھ ایسی جگہ تجارت کرتے ہیں جسکی پگڑی میں بھی وہ شریک ہیں اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرکے اپنے درمیان تقسیم کرتے ہیں حال ہی میں ان میں سے ایک نے اپنا روزانہ کا کام چھوڑ کر اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے جبکہ دوسرا شریک بدستور اس جگہ معاملات انجام دے رہاہے اور اسوقت وہ پہلاشریک مدعی ہے کہ وہ خاص معاملات جو اسکے شریک نے اپنے لیئے انجام دیئے ہیں ان میں وہ بھی شریک ہے اس مسئلہ کاکیا حکم ہے ؟
ج: صرف کسی ملک یا تجارتی جگہ کی پگڑی میں شراکت تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں شراکت کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اسکا معیار تجارتی سرمایہ میں اشتراک ہے۔ لہذا جب دونوں شرکاء نے مشترکہ سرمایہ کو صحیح طور پر تقسیم کرلیا ہے اور ان میں سے ایک نے اپنا حصہ واپس لے لیاہے اور دوسرا شریک اس جگہ تجارت کررہاہے تو جس شخص نے اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے اسکا دوسرے شخص کی تجارت میں کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ صرف اس جگہ سے اپنے حصے کے کرائے یا اجرة المثل کا مطالبہ کرسکتاہے۔ لیکن اگر اس کی تجارت کو وہاں جاری رکھنا مشترکہ سرمایہ کی تقسیم سے پہلے ہو تو دوسرا شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے پہلے شریک کی تجارت میں حق رکھتاہے۔
س ١٧13: اس بات کے پیش نظر کہ ممکن ہے میری بہن اپنے مال کو غلط اور منحرف افکار کی نشر و اشاعت میں خرچ کرے ، کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اسے اس کے مال تک رسائی حاصل نہ کرنے دوں اور کمپنی سے اسکا حصہ الگ کرنے اور اسے ادا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کروں؟
ج: شرکاء میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر دوسرا شریک الگ ہونا چاہے تو وہ اسکے لیئے رکاوٹ پیدا کرے اور اس خوف کے پیش نظر کہ وہ اپنے مال کو غلط اور گمراہی کے راستوں میں خرچ کریگا اسکے مال کو روک نہیں سکتا بلکہ واجب ہے کہ اس سلسلے میں اس کا مطالبہ پورا کیا جائے اگر چہ جس طرح خود اس پر اپنے مال کو حرام کاموں میں استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح دوسروں پر بھی واجب ہے کہ اگر وہ اپنے مال کو غلط راستے میں استعمال کرے تو وہ اسے نہی عن المنکر کریں اور اسے ایسا کرنے سے منع کریں۔
س ۱۷۱۴: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔
- دین و قرض
دین و قرض
س١٧58:ایک کارخانہ کے مالک نے خام مال خریدنے کیلئے مجھ سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی اور کچھ عرصہ کے بعد اضافی رقم کے ساتھ اس نے مجھے وہ رقم واپس کردی، اور اس نے وہ اضافی رقم پوری طرح اپنی رضامندی کے ساتھ مجھے دی ہے اور اس میں نہ تو پہلے کسی قسم کی کوئی شرط طے پائی تھی اور نہ ہی مجھے اسکی توقع تھی کیا میرے لئے اس اضافی رقم کالینا جائز ہے ؟
ج: مذکورہ سوال کی روشنی میں چونکہ قرض ادا کرنے میں اضافی رقم لینے کی شرط طے نہیں ہوئی اور وہ اضافی رقم قرض لینے والے نے اپنی خوشی سے دی ہے لہذآپ اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔
س ١٧٥9:اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کردے اور قرض خواہ چیک کی رقم وصول کرنے کیلئے اسکے خلاف عدالت میں شکایت کردے اور اسکی وجہ سے وہ شخص اس بات پر مجبور ہوجائے کہ اصل قرض کے علاوہ عدالتی فیصلہ کے اجراکے سلسلے میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرے تو کیا قرض دینے والا شرعاًاس کا ذمہ دار ہے؟
ج: جو مقروض اپنا قرض اداکرنے میں کوتاہی کرتاہے اگر اجراء حکم کے سلسلے میں اس پر حکومت کو ٹیکس ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس میں قرض دینے والے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
س ١٧60: میرے بھائی کے ذمہ میرا کچھ قرضہ ہے جب میں نے گھر خریدا تو اس نے مجھے ایک قالین دیا جس کے بارے میں میں نے یہ تصور کیا کہ یہ ہدیہ ہے لیکن بعد میں جب میں نے اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا وہ قالین میں نے قرض کی جگہ دیاہے اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس نے اس سلسلے میں مجھ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی کیا اسکے لیئے صحیح ہے کہ وہ اس قالین کو قرض ادا کرنے کے عنوان سے حساب کرلے؟ اور اگر میں قرض کی ادائیگی کے عنوان سے اسے قبول نہ کروں تو کیا وہ قالین میں اسے واپس کردوں؟ اور پیسے کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے کیا میں اصل قرض کے علاوہ اضافی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں کیونکہ اس زمانے میں اس پیسے کی قیمت اب سے کہیں زیادہ تھی؟
ج: قالین یا اسکے علاوہ ایسی چیزوں کا قرض کے عوض میں دینا جوجنس قرض سے نہیں ہیں قرض خواہ کی موافقت کے بغیر کافی نہیں ہے اور اگر آپ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اسے واپس کر دیجئے کیونکہ اس صورت میں وہ قالین ابھی اسی کی ملکیت ہے اور پیسے کی قیمت مختلف ہو جانے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ آ پس میں صلح کرلیں۔
س ١٧61: حرام مال کے ذریعہ قرض ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: دوسرے کے مال سے قرض ادا کرنے سے قرض ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی مقروض اس سے بری الذمہ ہوسکتاہے۔
س ١٧62: ایک عورت مکان خریدنا چاہتی تھی اور اس مکان کی قیمت کاتیسرا حصہ اس نے قرض لیا اور اس نے قرض دینے والے سے یہ طے کیا کہ مالی حالت بہتر ہونے کے بعد وہ مال اسے لوٹا دے گی اور اسی وقت اس کے بیٹے نے قرض کی رقم کے مساوی ایک چیک ضمانت کے طور پر اسے دے دیا اب جبکہ طرفین کو فوت ہوئے چار سال گذر چکے ہیں اور انکے ورثاء اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کیا اس عورت کے ورثاء گھرکا تیسرا حصہ جو قرض کی رقم سے خریدا گیا ہے اس شخص کے ورثاء کو دیں یا اسی چیک کی رقم کو ادا کردیناکافی ہے؟
ج: قرض خواہ کے ورثاء گھر سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے وہ صرف اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو اس عورت نے قرض دینے والے سے مکان خریدنے کیلئے بطور قرض لی تھی اور اس میں یہ شرط ہے کہ جو مال اس نے میراث کے طور پر چھوڑا ہے وہ اسکا قرض ادا کرنے کیلئے کافی ہو اور احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے تفاوت کی صورت میں باہمی طور پر مصالحت کریں۔
س ١٧63: ہم نے ایک شخص سے کچھ رقم ادھارلی کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص غائب ہوگیا اور اب وہ نہیں مل رہا اسکے قرض کے متعلق ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: آپ پر واجب ہے کہ اس کا انتظار کریں اور اپنا قرض ادا کرنے کیلئے اسے تلاش کریں تا کہ وہ رقم اسے یا اس کے ورثاء کو واپس کر سکیں۔ اور اگر اس کے ملنے کی امید نہ ہو تو آپ اس سلسلے میں حاکم شرعی کی طرف رجوع کریں یا مالک کی طرف سے صدقہ دے دیں۔
س ١٧64: قرض خواہ عدالت میں اپنا قرض ثابت کرنے کیلئے جو اخراجات برداشت کرتاہے کیا مقروض سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
ج: شرعی طور پر مقروض وہ اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے جو قرض خواہ نے عدالت میں کئے ہیں ۔ بہرحال ایسے امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی پابندی ضروری ہے۔
س١٧65:اگر مقروض اپنا قرض ادا نہ کرے یا اسکے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو کیا قرض خواہ اسکا مال بطور تقاص لے سکتا ہے مثلا اپنا حق مخفی طور پر یا کسی دوسرے طریقے سے اس کے مال سے وصول کرلے؟
ج: اگرمقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کرے یا بغیر کسی عذر کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو قرض خواہ اسکے مال سے تقاص لے سکتا ہے لیکن اگر وہ شخص خود کو مقروض نہیں سمجھتا یا وہ نہیں جانتا کہ واقعا قرض خواہ کا کوئی حق اس کے ذمے ہے یا نہیں تو اس صورت میں قرض خواہ کا اس سے تقاص لینا محل اشکال ہے بلکہ جائز نہیں ہے۔
س ١٧66: کیا میت کا قرض حق الناس میں سے ہے کہ اسکے ورثاء پر اسکی میراث سے اسکا ادا کرنا واجب ہو؟
ج: کلی طور پر قرض چاہے کسی شخص کا ہو یا کسی ادارے و غیرہ سے لیا گیا ہو حق الناس میں سے ہے اور مقروض کے ورثاء پر واجب ہے کہ میت کی میراث سے اس کا قرض خود قرض خواہ یا اسکے ورثاء کو ادا کریں اور جب تک اسکا قرض ادا نہ کردیں انہیں اسکے ترکہ میں تصرف کا حق نہیں ہے۔
س ١٧67: ایک شخص کی زمین ہے لیکن اس میں موجود عمارت کسی دوسرے شخص کی ہے زمین کا مالک دو افراد کا مقروض ہے کیا قرض دینے والوں کیلئے جائز ہے کہ وہ اس زمین اور اس میں موجود عمارت کو اپنا قرض وصول کرنے کیلئے قرقی کردیں یا انہیں صرف زمین کے متعلق ایسا کرنے کا حق ہے؟
ج: انہیں اس چیز کے قرقی کرنے کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو مقروض کی ملکیت نہیں ہے۔
س ١٧68:کیا وہ مکان کہ جس کی مقروض اور اسکے اہل و عیال کو رہائش کیلئے ضرورت ہے وہ مقروض کے اموال کی قرقی سے مستثنی ہے؟
ج: مقروض اپنی زندگی کو جاری رکھنے کیلئے جن چیزوں کی طرف محتاج ہے جیسے گھر اور اسکا سامان،گاڑی ،ٹیلیفون اور تمام وہ چیزیں جو اسکی زندگی کا جزء اور اسکی شان کے مناسب شمار ہوتی ہیں وہ بیچنے کے ضروری ہونے کے حکم سے مستثنا ہیں۔
س ١٧69: اگر ایک تاجر اپنے قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ ہوجائے اور ایک عمارت کے علاوہ اسکے پاس کوئی اور چیز نہ ہو اور اسے بھی اس نے بیچنے کیلئے پیش کردیا ہو لیکن اسکے بیچنے سے صرف آدھا قرض ادا ہوسکتاہو اور وہ اپنا باقی قرض ادا نہ کرسکتاہو توکیا قرض خواہوں کیلئے جائز ہے کہ اسے عمارت بیچنے پر مجبور کریں یا یہ کہ وہ اسے مہلت دیں تا کہ وہ اپنا قرض بتدریج ادا کرے؟
ج: اگر وہ عمارت اسکا اور اسکے اہل و عیال کا رہائشی گھر نہیں ہے تو قرض ادا کرنے کیلئے اسے اس کے بیچنے پر مجبور کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ وہ تمام قرض ادا کرنے کیلئے کافی نہ ہو اور واجب نہیں ہے کہ قرض خواہ اسے اس کیلئے مہلت دیں ، بلکہ باقی قرض کیلئے صبر کریں تاکہ وہ اسکے ادا کرنے کی قدرت حاصل کرلے۔
س١٧70:کیا اس رقم کا ادا کرنا واجب ہے جو ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے بطور قرض لیتا ہے ؟
ج : اس قرض کے ادا کرنے کا وجوب بھی دیگر قرضوں کی طرح ہے ۔
س ١٧71: اگر کوئی شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے توکیا مقروض پر واجب ہے کہ وہ قرض ادا کرنے والے کو اسکا عوض دے؟
ج: جو شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اسکا قرض ادا کردے اسے اس کاعوض طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور مقروض پر واجب نہیں ہے کہ وہ اسکی ادا کردہ رقم اسے دے۔
س ١٧72: اگر مقروض قرض کو مقررہ وقت پر ادا کرنے میں تاخیر کرے تو کیا قرض خواہ قرض کی مقدار سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے ؟
ج: قرض خواہ شرعی طور پر قرض کی رقم سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔
س ١٧73: میرے والد صاحب نے ایک بناوٹی معاملہ کی شکل میں کہ جو در حقیقت قرض تھاایک شخص کو کچھ رقم دی اور مقروض بھی ہر ماہ کچھ رقم اسکے نفع کے طور پر ادا کرتارہا اورقرض خواہ (میرے والد) کی وفات کے بعد بھی مقروض نفع کی رقم ادا کرتارہا یہاں تک کہ اسکا بھی انتقال ہوگیا کیا وہ رقم جو نفع کے عنوان سے ادا کی گئی ہے سود شمار ہوگی اورقرض خواہ کے ورثاء پر واجب ہے کہ وہ رقم مقروض کے ورثاء کو واپس کریں؟
ج: اس چیز کے پیش نظر کہ وہ رقم اس کو قرض کے عنوان سے دی گئی تھی لہٰذا جو پیسہ اصل رقم کے نفع کے طور پر ادا کیا گیا ہے وہ سود شمار ہوگا اور شرعی طور پر حرام ہے لہذا وہی رقم یا اس کا بدل قرض خواہ کی میراث میں سے خود مقروض یا اسکے ورثاء کو ادا کرنا ضروری ہے۔
س ١٧74: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنا مال دوسرے کے پاس بطور امانت رکھے اور ہر ماہ اس سے نفع دریافت کرے؟
ج: اگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے مال کسی دوسرے کو سپرد کرنا کسی صحیح عقد کے ذ ریعہ انجام پائے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والے نفع میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر قرض کے عنوان سے ہو تو اگر چہ اصل قرض صحیح ہے لیکن اس میں نفع کی شرط لگانا شرعی طور پر باطل ہے اور اس سے لیا جانے والا نفع ، سود اور حرام ہے۔
س ١٧75: ایک شخص نے ایک اقتصادی منصوبے کیلئے کچھ رقم قرض پرلی اگر وہ منصوبہ اسکے لیئے نفع بخش ہوتو کیا اسکے لیئے جائز ہے کہ اس منافع سے کچھ رقم اس قرض خواہ کو دے دے ؟ اور کیا جائز ہے کہ قرض خواہ اسکا مطالبہ کرے ؟
ج: قرض خواہ کا اس منافع میں کوئی حق نہیں ہے جو مقروض نے قرض والے مال کے ساتھ تجارت کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور نہ وہ اسکا مطالبہ کرسکتا ہے لیکن اگر مقروض پہلے سے طے کئے بغیر اپنی مرضی سے اصل قرض کے علاوہ کچھ اضافی رقم قرض خواہ کو دے کر اسکے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ یہ مستحب ہے ۔
س ١٧76: ایک شخص نے تین مہینے کیلئے کچھ سامان ادھار پر لیا ہے اور مقررہ وقت پہنچنے پر اس نے بیچنے والے سے درخواست کی کہ وہ اسے تین مہینے کی مزید مہلت اس شرط پر دے دے کہ وہ سامان کی قیمت سے زائد رقم اسے ادا کریگا کیا ان دونوں کیلئے یہ جائز ہے ؟
ج: یہ زائدرقم سود اور حرام ہے ۔
س ١٧77: اگر زید نے خالد سے سود پر قرض لیا ہو اور ایک تیسرا شخص قرض کی دستاویز اور اسکی شرائط کو انکے لیئے تحریر کرے اور چوتھا شخص جو دفتر میں منشی اور اکاؤنٹنٹ ہے اور جسکا کام معاملات کا اندراج کرنا ہے وہ انکے اس معاملہ کو حساب کے رجسٹرمیں اندراج کرے تو کیا اکاؤنٹنٹ بھی انکے اس سودی معاملے میں شریک ہے اور اس سلسلے میں اسکا کام اور اجرت لینا بھی حرام ہے ؟ پانچواں شخص بھی ہے جسکی ذمہ داری آڈٹ کرنا ہے وہ رجسٹر میں کچھ لکھے بغیر صرف اسکی چھان بین کرتا ہے کہ کیا سودی معاملات کے حساب میں کسی قسم کی غلطی تو نہیں ہوئی اور پھر وہ اکاؤنٹنٹ کو اسکے نتیجے کی اطلاع دیتا ہے کیا اسکا کام بھی حرام ہے ؟
ج: ہر کام جو سودی قرض کے معاملے یا اسکی انجام دہی یا تکمیل یامقروض سے سود کی وصولی میں دخالت رکھتاہو شرعاً حرام ہے اور اس کا انجام دینے والا اجرت کا حقدار نہیں ہے ۔
س ١٧78 : بعض مسلمان سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سے سرمایہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس پر انہیں سود دینا پڑتا ہے کیا کفار یا غیر اسلامی حکومتوں کے بینکوں سے سودی قرض لینا جائز ہے؟
ج: سودی قرض حکم تکلیفی کے اعتبار سے بطور مطلق حرام ہے اگرچہ غیر مسلم سے لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص ایسا قرض لے لے تو اصل قرض صحیح ہے ۔
س١٧٧9: ایک شخص نے کچھ رقم تھوڑے عرصہ کیلئے اس شرط پر بطور قرض لی کہ وہ قرض خواہ کے حج و غیرہ جیسے سفر کے اخراجات بھی ادا کریگا کیا ان کے لیئے یہ کام جائز ہے ؟
ج: عقد قرض کے ضمن میں قرض خواہ کے سفرکے اخراجات کی ادائیگی یا اس جیسی کوئی اور شرط لگانا درحقیقت وہی قرض پر منافع وصول کرنے کی شرط ہے جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے لیکن اصل قرض صحیح ہے ۔
س ١٧80: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دیتے وقت شرط لگاتے ہیں کہ اگر مقروض نے دو یا زیادہ اقساط مقررہ وقت پر ادا نہ کیں تو ادارے کو حق ہوگا کہ اس شخص سے پورا قرض ایک ہی مرتبہ وصول کرے کیا اس شرط پر قرض دینا جائز ہے ؟
ج: کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٧81: ایک کو آپریٹوکمپنی کے ممبران کمپنی کو کچھ رقم سرمایہ کے عنوان سے دیتے ہیں اور وہ کمپنی اپنے ممبران کو قرض دیتی ہے اور ان سے کسی قسم کا منافع یا اجرت وصول نہیں کرتی بلکہ اسکا مقصد مدد فراہم کرنا ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے جسے ممبران نیک ارادے اور صلہ رحمی کی غرض سے انجام دیتے ہیں ؟
ج: مومنین کو قرض فراہم کرنے کیلئے با ہمی تعاون اور ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچانے کے جواز بلکہ رجحان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اگر چہ یہ اسی صورت میں انجام پائے جسکی سوال میں وضاحت کی گئی ہے لیکن اگر کمپنی میں رقم جمع کرانا قرض کے عنوان سے ہو کہ جس میں شرط لگائی گئی ہو کہ رقم جمع کرانے والے کو آئندہ قرض دیا جائے گا تو یہ کام شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ اصل قرض حکمِ وضعی کے لحاظ سے صحیح ہے ۔
س ١٧82: قرض دینے والے بعض ادارے ان پیسوں سے جائدادیں اور دوسری چیزیں خریدتے ہیں جو لوگوں نے ان کے پاس امانت کے طور پر جمع کئے ہوتے ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ جبکہ پیسہ جمع کرانے والے بعض لوگ ان کاموں کے ساتھ موافق نہیں ہیں ، کیا ادارے کے ذمہ دار کو یہ حق ہے کہ وہ ان اموال میں تصرف کرے مثلاً ان کے ساتھ خرید وفروخت کا کام انجام دے؟ کیا یہ کام شرعی طور پر جائز ہے ؟
ج: اگر لوگوں کی جمع کرائی ہوئی رقوم بطور امانت ادارے کے پاس اسلئے ہیں کہ ادارہ جسے چاہے گا قرض دے دیگا تو اس صورت میں جائداد یا دوسری چیزیں خریدنے میں ان کا استعمال کرنا فضولی اور ان کے مالکوں کی اجازت پرمنحصر ہے لیکن اگر جمع کرائی ہوئی رقم اس ادارے کو قرض الحسنہ کے عنوان سے دی گئی ہو چنانچہ اسکے ذمہ دار افراد ان اختیارات کی بنیاد پر جو انہیں دئیے گئے ہیں جائداد اور دوسری چیزیں خریدنے کا اقدام کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س١٧83:بعض لوگ دوسروں سے کچھ مقدار پیسے لیتے ہیں اور اس کے عوض ہر مہینے ان کو منافع ادا کرتے ہیں اوریہ کام کسی شرعی عقد کے تحت انجام نہیں دیتے بلکہ یہ کام صرف دوطرفہ توافق کی بنیاد پر انجام پاتا ہے ، اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اس قسم کے معاملات سودی قرض شمار ہوتے ہیں اورقرض میں نفع کی شرط لگانا باطل ہے اوریہ اضافی رقم سود اور شرعاً حرام ہے اور اسکا لینا جائز نہیں ہے ۔
س ١٧84: جس شخص نے قرض الحسنہ دینے والے ادارے سے قرض لیا ہے اگر وہ قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بغیر کسی سابقہ شرط کے اصل قرض سے کچھ زیادہ رقم ادا کرتا ہے توکیا اس اضافی رقم کا لینا اور اسے تعمیراتی کاموں میں خرچ کرنا جائز ہے ؟
ج : اگر قرضہ لینے والا وہ اضافی رقم اپنی مرضی سے اوراس عنوان سے دے کہ قرضہ ادا کرتے وقت یہ کام مستحب ہے تو اسکے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن ادارے کے ذمہ دار افراد کا اسے تعمیراتی یا دوسرے کاموں میں خرچ کرنا اس سلسلے میں انکے اختیارات کی حدودکے تابع ہے ۔
س ١٧85: قرض الحسنہ دینے والے ایک ادارے کے ملازمین نے اس رقم سے جو ایک شخص سے قرض لی گئی تھی ایک عمارت خرید لی اور ایک مہینے کے بعد اس شخص کی رقم لوگوں کی جمع کرائی گئی رقم سے انکی مرضی کے بغیر واپس کردی ، کیا یہ معاملہ شرعی ہے ؟ اور اس عمارت کا مالک کون ہے؟
ج: ادارے کیلئے اس رقم سے عمارت خرید نا جو اسے قرض دی گئی ہے اگرادارے کے ملازمین کی صلاحیت اور اختیارات کے مطابق انجام پائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور خریدی گئی عمارت ادارہ اور ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کا اس ادارے میں پیسہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ معاملہ فضولی اور اس رقم کے مالکان کی اجازت پر موقوف ہے ۔
س ١٧86: بینک سے قرض لیتے وقت اسے اجرت ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر مذکورہ اجرت قرض کے امور انجام دینے کے سلسلے میں ہو جیسے رجسٹر میں درج کرنا ، دستاویز تیار کرنا یا ادارے کے دیگر اخراجات جیسے پانی بجلی وغیرہ اوراسکی بازگشت قرض کے نفع کی طرف نہ ہو تو اسکے لینے اور دینے اور اسی طرح قرض لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٧87: ایک رفاہی ادارہ اپنے ممبران کوقرض دیتا ہے لیکن قرض دینے کیلئے شرط لگا تا ہے کہ قرض لینے والا تین یا چھ مہینے تک کیلئے اس میں رقم جمع کرائے اور یہ مدت گزرنے کے بعد اس نے جتنی رقم جمع کرائی ہے اس کے دو برابر اسے قرض ملے گااور جب قرض کی تمام قسطیں ادا ہوجاتی ہیں تو وہ رقم جو قرض لینے والے نے ابتدا میں جمع کرائی تھی اسے لوٹا دی جاتی ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگرادارہ میں رقم جمع کرانا اس عنوان سے ہو کہ وہ رقم ایک مدت تک ادارہ کے پاس قرض کے عنوان سے اس شرط کے ساتھ رہے گی کہ ادارہ اس مدت کے ختم ہونے پر اسے قرض دیگا یا ادارے کا قرض دینا اس شرط کے ساتھ ہو کہ وہ شخص پہلے کچھ رقم ادارے میں جمع کرائے تویہ شرط سود کے حکم میں ہے جو حرام اور باطل ہے البتہ اصل قرضہ دونوں طرف کیلئے صحیح ہے۔
س ١٧88: قرض الحسنہ دینے الے ادارے قرض دینے کیلئے بعض امور کی شرط لگاتے ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اس ادارے کا ممبر ہو اور اسکی کچھ رقم ادارے میں موجود ہو یا یہ کہ قرض لینے والا اسی محلے کا رہنے والا ہوکہ جس میں یہ ادارہ قائم ہے اور بعض دیگر شرائط کیا یہ شرائط سود کے حکم میں ہیں؟
ج: ممبر ہونے یا محلہ میں سکونت یا اس طرح کی دیگر شرطیں اگر محدود پیمانے پر افراد کو قرض دینے کیلئے ہوں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ادارے میں اکاؤنٹ کھلانے کی شرط کا مقصد بھی اگر یہ ہو کہ قرض صرف انہیں افراد کو دیا جائے تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اسکا مقصد یہ ہو کہ مستقبل میں قرض لینا اس کے ساتھ مشروط ہو کہ قرض لینے والا کچھ رقم بینک میں جمع کرائے تو یہ شرط قرض میں منفعتِ حکمی ہے کہ جو باطل ہے ۔
س ١٧٨9: کیا بینک کے معاملات میں سود سے بچنے کیلئے کوئی راستہ ہے ؟
ج: اس کا راہ حل یہ ہے کہ اس سلسلے میں شرعی عقود سے انکی شرائط کی مکمل مراعات کے ساتھ استفادہ کیا جائے ۔
س ١٧90: وہ قرض جو بینک کسی خاص کام پر خرچ کرنے کیلئے مختلف افراد کو دیتاہے کیا اسے کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز ہے؟
ج: بینک افراد کو جو پیسہ دیتا ہے اگر وہ واقعاً قرض ہو اور بینک شرط کرے کہ اسے حتمی طور پر خاص مورد میں استعمال کیا جائے تو اس شرط کی مخالفت جائز نہیں ہے اور اسی طرح وہ رقم جو بینک سے شراکت یا مضاربہ و غیرہ کے سرمایہ کے طور پر لیتا ہے اسے بھی اس کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے ۔
س ١٧91: اگر دفاع مقدس کے مجروحین میں سے کوئی شخص قرضہ لینے کیلئے بینک سے رجوع کرے ، اور اپنے بارے میں مجاہد فاؤنڈیشن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی بینک کو پیش کردے تا کہ اسطرح وہ اس کے ذریعے مسلط کردہ جنگ کے مجروحین کیلئے مخصوص ان سہولیات اور قرضوں سے استفادہ کر سکے جو مجروحین کے کام سے معذور ہونے کے مختلف درجوں کے مطابق انہیں دیئے جاتے ہیں اور وہ خود جانتا ہے کہ اس کا درجہ اس سے کم تر ہے جو اس سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اس کے بارے میں ڈاکٹروں اور ماہرین کی تشخیص درست نہیں ہے کیا وہ ان کے دیئے ہوئے سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک کی خصوصی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟
ج: اگر اس کے درجے کا تعین ان ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ ہوا ہو جو ڈاکٹری معائنات اپنی تشخیص و رائے کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں اور سہولیات دینے کیلئے قانونی لحاظ سے بینک کے نزدیک انکی رائے معیار ہے تو اس مجاہد کیلئے اس درجے کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں کہ جس کا سرٹیفکیٹ اسے ان ڈاکٹروں نے دیا ہے کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ خود اسکی نظر میں اس کا درجہ کمتر ہو ۔
- صلح
صلح
س ١٧92: ایک شخص نے اپنی تمام جائدادکہ جس میں مکان ، گاڑی ،قالین اور اس کے گھر کا سارا سامان شامل ہے صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو د ے دیا ہے اور اسی طرح اسے اپنا وصی اور اپنے نابالغ بچوں کا سرپرست بھی قرار دیا ہے کیا اسکے مرنے کے بعد اسکے ماں باپ، کواس کے ترکہ سے کسی چیز کے مطالبہ کا حق ہے؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ میت نے اپنی زندگی میں تمام جائداد صلح کے ساتھ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو دے دی تھی اس طرح کہ کوئی چیز اپنی وفات تک اپنے لئے باقی نہ چھوڑی ہو ، تو ماں باپ یا دوسرے ورثاء کیلئے اس کا کوئی ترکہ ہی نہیں ہے جو انکی وراثت ہو لہٰذا انہیں اس مال کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو اسکی زندگی میں اسکی بیوی کی ملکیت بن چکا ہے ۔
س ١٧93: ایک شخص نے اپنے اموال کا کچھ حصہ صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیا لیکن چند سال گزرنے کے بعد وہی اموال اپنے اسی بیٹے کو فروخت کردیئے اور اسوقت اسکے ورثا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ گھر بیچنے سے کچھ عرصہ پہلے سے لیکر معاملہ انجام دینے تک ان کے باپ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا کیا یہ مال اسے بیچنا کہ جسے یہ بطور صلح پہلے ہی دے چکا ہے اس صلح سے عدول شمار ہوگا اور معاملہ بیع صحیح ہے ؟ اور بالفرض اگر صلح صحت پر باقی ہو تو کیا یہ اس مال کے تیسرے حصے میں صحیح ہے کہ جس پر صلح کی گئی ہے یا پورے مال میں ؟
ج: پہلی صلح صحیح اور نافذ ہے اور جب تک اس میں صلح کرنے والے ( مصالح ) کیلئے حق فسخ ثابت نہ ہو یہ لازم بھی ہے لہٰذا صلح کرنے والے کا اس مال کو بیچنا صحیح نہیں ہے اگر چہ فروخت کے وقت اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو اور یہ صلح جو صحیح اور لازم ہے اس پورے مال میں نافذ ہے کہ جس پر یہ واقع ہوئی ہے۔
س ١٧94: ایک شخص اپنے تمام اموال یہاں تک کہ محکمہ صحت میں جو اسکے حقوق ہیں صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیتا ہے لیکن مذکورہ محکمہ اعلان کرتا ہے کہ اس شخص کو ان حقوق پر صلح کرنے کا قانونی حق نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں محکمہ صحت اسکے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردیتا ہے خود صلح کرنے والا بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کیلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس صلح کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: دوسروں کے مال یا ایسے مال پر صلح کہ جسکے ساتھ دوسروں کے حق کا تعلق ہوچکا ہے صلح فضولی ہے اور اسکا انحصار مالک یا صاحب حق کی اجازت پر ہے اور اگر صلح ، صلح کرنے والے کی خالص ملکیت پر انجام پائی ہو لیکن اس صلح کا مقصد قرض خواہوں کے قرض کی ادائیگی سے بچنا ہو تو ایسی صلح کا صحیح اور نافذ ہونا محل اشکال ہے بالخصوص جب اسے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کرکے اپنے قرض ادا کرنے کی کوئی امید نہ ہو ۔
س ١٧95: صلح کی ایک دستاویز میں یوں لکھا ہے کہ باپ نے اپنے کچھ اموال صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیئے ہیں کیا یہ دستاویز قانونی اور شرعی لحاظ سے معتبر ہے ؟
ج: جب تک دستاویز کے محتوا کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہوفقط یہ دستاویز ،عقد صلح کے انشاء اور اسکی کیفیت پر شرعی دلیل اور حجت شمار نہیں ہوگی البتہ اگر مالک کی طرف سے صلح کے ثابت ہونے کے بعد ہمیں اسکے شرعی طورپر صحیح واقع ہونے میں شک ہو تو عقد صلح شرعاً صحیح ہے اور وہ مال اس شخص کی ملکیت ہوگا جس کے ساتھ صلح کی گئی ہے۔
س ١٧96: میرے سسرنے اپنے بیٹے کے ساتھ میری شادی کے وقت زمین کا ایک قطعہ کچھ رقم کے عوض صلح کے ساتھ مجھے دے دیا اور چند گواہوں کے سامنے اس سے متعلق ایک دستاویز بھی تحریر کردی لیکن اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معاملہ فقط ظاہری اور بناوٹی تھا۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: مذکورہ صلح شرعی طور پر صحیح ہے اور اسکے ظاہری اور بناوٹی ہونے کا دعویٰ جب تک مدعی کی طرف سے ثابت نہ ہوجائے کوئی اثر نہیں رکھتا ۔
س ١٧97: میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال صلح کے ساتھ مجھے دے دیئے اس شرط پر کہ انکی وفات کے بعد میں اپنی بہنوں میں سے ہر ایک کو کچھ رقم ادا کروں ۔میری بہنیں بھی اس چیز پر راضی ہوگئیں اور وصیت والی دستاویزپر دستخط کردیئے ، باپ کی وفات کے بعد میں نے ان کا حق ادا کردیا اور باقی اموال خود لے لئے۔ کیا اس مال میں میرے لیئے تصرف کرنا جائز ہے ؟ اور اگر وہ اس امر پر راضی نہ ہوں تو اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟
ج: اس صلح میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ صورت میں جس مال پر صلح ہوئی ہے وہ آپ کاہے اور دیگر ورثاء کے راضی نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے ۔
س ١٧98: اگر ایک شخص اپنے بعض بچوں کی عدم موجودگی میں اور جو موجود ہیں ان کی موافقت کے بغیر صلح کے ساتھ اپنے اموال ایک بیٹے کو دے دیتا ہے تو کیا یہ صلح صحیح ہے؟
ج: اگر مالک اپنی زندگی میں اپنے اموال صلح کے ساتھ کسی ایک وارث کو دے دے تو اس میں دیگر ورثاء کی موافقت ضروری نہیں ہے اور انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ہاں اگر یہ کام اسکی اولاد کے درمیان فتنہ و فساداورنزاع کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے ۔
س ١٧٩9:اگر ایک شخص صلح کے ساتھ اپنا کچھ مال دوسرے کو اس شرط پر دے کہ فقط وہ خود اس مال سے استفادہ کرے گا تو کیا یہ شخص جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے یہ مال اسی استفادے کیلئے صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر کسی تیسرے شخص کو دے سکتا ہے یا استفادہ میں اسے اپنے ساتھ شریک کر سکتا ہے؟اور صحیح ہونے کی صورت میں کیا صلح کرنے والا اس صلح سے عدول کر سکتا ہے؟
ج : متصالح (جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے) عقد صلح میں جن شرطوں پر عمل کرنے کا پابند ہوا ہے ان کی مخالفت نہیں کر سکتااور اگر وہ ان شروط کی مخالفت کرے تو مصالح (جس نے صلح کے ساتھ مال دیا ہے)عقد صلح کو ختم اور فسخ کرسکتا ہے ۔
س ١800:کیا عقد صلح ہو جانے کے بعدمُصالح اس سے عدول کرسکتا ہے اور پہلے متصالح کو بتائے بغیروہی مال دوبارہ صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟
ج : اگر صلح صحیح طور پرمنعقد ہوئی ہو، تو یہ مُصالح کی نسبت لازم ہے اور جب تک اس نے اپنے لیئے حق فسخ قرار نہیں دیا اسے عدول کرنے کا حق نہیں ہے لہذا اگر وہ وہی مال صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے دے تو یہ صلح فضولی ہوگی جسکا صحیح ہونا پہلے متصالح کی اجازت پرموقوف ہے ۔
س ١801: ماں کی جائداد اسکے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے ،قانونی مراحل طے کرنے ، حصر وراثت (یعنی یہ کہ ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے) کا سرٹیفکیٹ لینے اور ورثاء میں سے ہر ایک کے اپنا اپنا حصہ لے لینے کے بہت عرصے کے بعد اسکی ایک بیٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ اسکی ماں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اموال صلح کے ساتھ اسے دے دیئے تھے اور اس سلسلے میں ایک معمولی دستاویز بھی ہے کہ جس پر اسکے اور اسکے شوہر کے دستخط موجود ہیں اور اس پر انگوٹھے کا نشان بھی ہے جو اسکی ماں کی طرف منسوب ہے اور وہ بیٹی ماں کاپورا ترکہ لینا چاہتی ہے اسکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ ماں نے اپنی حیات میں اپنا مال صلح کے ساتھ اس بیٹی کو دے دیا تھا اسے اس چیز کے بارے میں کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ دعوی کرتی ہے اور فقط صلح کی دستاویز معتبر نہیں ہے جب تک واقع کے ساتھ اسکی مطابقت ثابت نہ ہوجائے ۔
س ١802: ایک باپ نے اپنی جائداد صلح کے ساتھ اپنی اولادکو اس شرط پردی کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے اس میں تصرف کا اختیار ہو گا اس چیزکے پیش نظر مندرجہ ذیل موارد کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الف : کیا یہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ؟
ب: صحیح اور نافذ ہونے کی صورت میں کیا جائز ہے کہ مُصالح اس صلح سے عدول کرے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگراس مال کا کچھ حصہ بیچ دے کہ جس پر صلح ہوئی تھی توکیا اسکا یہ کام صلح سے عدول شمار کیا جائیگا ؟ اور اگر یہ عدول ہے تو کیا تمام اموال کی نسبت عدول سمجھا جائیگا یا صرف بیچے گئے مال کی نسبت؟
ج : یہ عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " جو صلح کی دستاویز میں بیان ہوئی ہے کیا حق فسخ کے معنیٰ میں ہے یا کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کے حق کے معنیٰ میں یا اپنی زندگی میں ان اموال میں حق تصرف و استعمال کے معنیٰ میں؟ج :
الف: مذکورہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ۔
ب: عقد صلح ، عقود لازم میں سے ہے لہذا جب تک صلح کے ساتھ دینے والا اس میں حق فسخ نہ رکھتا ہو اسے فسخ اور ختم نہیں کر سکتا لذا اگر صلح کرنے کے بعد اوراس میں حق فسخ کے بغیر اس مال کا کچھ حصہ ان میں سے کسی کو فروخت کردے کہ جن کے ساتھ صلح کی گئی تھی، تو یہ معاملہ خریدار کے اپنے حصے میں باطل ہے اور دوسروں کے حصوں کی نسبت فضولی ہے جسکا صحیح ہونا انکی اجازت پر موقوف ہے۔
ج: ظاہری طور پر اس عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " سے مقصود حق تصرف و استعمال ہے نہ حق فسخ اورنہ کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کا حق۔ - وکالت
- صدقہ
صدقہ
س ١٨2٠: امام خمینی ویلفیئرٹرسٹ (کمیتہ امداد امام خمینی)نے صدقات اور خیرات جمع کرنے کیلئے جو مخصوص ڈبے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں یا سڑکوں اورشہر و دیہات کے عمومی مقاما ت پر نصب کر رکھے ہیں تا کہ ان میں جمع ہونے والی رقم فقرا اور مستحقین تک پہنچاسکیں کیا جائز ہے کہ ا س ٹرسٹ کے ملازمین کواس ماہانہ تنخواہ اور سہولیات کے علاوہ جو انہیں ٹرسٹ کی طرف سے ملتی ہیں ان ڈبوں سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ فیصد اجرت کے طور پر دیا جائے ؟اور کیا جائز ہے کہ اس سے کچھ مقدار رقم ان لوگوں کو دی جائے جو اس رقم کو جمع کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن وہ ٹرسٹ کے ملازم نہیں ہیں ؟
ج :ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ کے علاوہ جو وہ لیتے ہیں صدقات کے ڈبوں سے کچھ مقدار رقم اجرت کے طور پر دینے میں اشکال ہے ۔ بلکہ جب تک صاحبان مال کی رضامندی ثابت نہ ہوجائے جائز نہیں ہے لیکن اس میں سے کچھ رقم ان لوگوں کو اجرة المثل (مناسب اجرت)کے عنوان سے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جو ڈبوں کی رقم جمع کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں البتہ اگر صدقات جمع کرنے اور مستحق تک پہنچانے میں انکی ضرورت ہو، بالخصوص اگر ظاہری علامات صاحبان اموال کے اس کام پر راضی ہونے پر دلالت کریں ۔
س ١٨2١: کیا ان گدا گروں کوجو گھروں پر آتے ہیں یا سڑکوں کے کنارے بیٹھتے ہیں صدقہ دینا جائز ہے یا یتیموں اور مسکینوں کو دینا بہتر ہے یا صدقات کے ڈبوں میں ڈالے جائیں تا کہ وہ رقم ویلفیئرٹرسٹ کے پاس پہنچ جائے ؟
ج: بہتر یہ ہے کہ مستحبی صدقات دیندار اور پاکدامن فقراء کو دیئے جائیں ، اسی طرح انہیں ویلفیئر ٹرسٹ کو دینے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ یہ صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے کی صورت میں ہو ، لیکن واجب صدقات میں ضروری ہے کہ انہیں انسان خود یا اس کا وکیل مستحق فقرا تک پہنچائے اور اگر انسان کو علم ہو کہ ویلفیئر ٹرسٹ کے ملازمین ڈبوں سے جمع ہونے والی رقم مستحق فقیروں تک پہنچاتے ہیں تو صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٨2٢: ان گداگروں کے بارے میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں او رگدائی کے ذریعہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو بدنما بناتے ہیں خصوصاً اب جبکہ حکومت نے ان سب کو پکڑنے کا اقدام کیا ہے ؟ کیا ان کی مدد کرنا جائز ہے ؟
ج: کوشش کریں کہ صدقات متدین اور پاکدامن فقرا کو دیں ۔
س ١٨2٣:میں مسجد کاخادم ہوں اور میرا کام رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ ہوجاتا ہے اسی وجہ سے بعض نیک اورمخیر لوگ مجھے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتے ہیں کیا میرے لیئے اسکا لینا جائز ہے ؟
ج : جو کچھ وہ لوگ آپ کو دیتے ہیں وہ انکی طرف سے آپ کے ساتھ ایک نیکی ہے پس آپکے لیئے حلال ہے اور اسکے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
- عاریہ اور ودیعہ
عاریہ اور ودیعہ
س ١٨2٤: ایک کارخانہ اپنے تمام وسائل و آلات ، خام مال اور ان چیزوں سمیت جو بعض افراد نے امانت کے طور پر اسکے سپرد کر رکھی تھیں جَل گیا ہے کیا کارخانے کا مالک انکا ضامن ہے یا مینیجر ؟
ج : اگر آگ لگنے میں کوئی شخص ملوث نہ ہو اور کسی نے ان چیزوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کی ہو تو کوئی شخص ان کا ضامن نہیں ہے ۔
س ١٨2٥: ایک شخص نے اپنا تحریری وصیت نامہ کسی دوسرے کے حوالے کیا تا کہ اسکی وفات کے بعد اسکے بڑے بیٹے کی تحویل میں دیدے لیکن وہ اسے بڑے بیٹے کی تحویل میں دینے سے انکار کرتا ہے کیا اسکا یہ کام امانت میں خیانت شمار ہوگا ؟
ج: امانت رکھنے والے کی طرف سے معین کردہ شخص کو امانت واپس نہ کرنا ایک قسم کی خیانت ہے ۔
س ١٨2٦: فوجی ٹریننگ کی مدت کے دوران میں نے فوج سے اپنے ذاتی استفادے کیلئے کچھ اشیاء لیں لیکن ٹریننگ کی مدت ختم ہونے کے بعد میں نے وہ چیزیں واپس نہیں کیں، اس وقت ان کے سلسلے میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ کیا انکی قیمت مرکزی بینک کے عمومی خزانے میں جمع کرادینا کافی ہے ؟
ج : وہ اشیا جو آپ نے فوج سے لی تھیں اگر بطور عاریہ تھیں تو اگر وہ موجود ہوں خود انکا فوج کے اسی مرکز میں لوٹانا واجب ہے اور اگر نگہداشت و حفاظت میں کوتاہی اگرچہ وہ واپس کرنے میں تاخیر کی صورت میں ہوگی کی بناپر و ہ تلف ہوگئی ہوں تو فوج کو انکی قیمت یا مثل ادا کرناضروری ہے ورنہ آپکے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے ۔
س ١٨2٧: ایک امین شخص کو ایک شہر سے دوسرے میں منتقل کرنے کیلئے کچھ رقم دی گئی لیکن وہ راستے میں چوری ہوگئی کیا وہ شخص اس رقم کا ضامن ہے ؟
ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ اس شخص نے مال کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی اس وقت تک وہ ضامن نہیں۔
س ١٨2٨: میں نے اہل محلہ کی طرف سے مسجد کیلئے دی گئی رقومات میں سے مسجد کی تعمیر اور اسکے لئے بعض وسائل جیسے لوہا و غیرہ ،خریدنے کی خاطر مسجد کے ٹرسٹ سے کچھ رقم لی لیکن راستے میں وہ میری ذاتی چیزوں سمیت گم ہوگئی اب میری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج : اگر آپ نے اسکی حفاظت او رنگہداشت میں افراط و تفریط اور کوتاہی نہ کی ہو تو آپ ضامن نہیں ہیں۔
- وصیّت
وصیّت
س ١٨2٩: بعض شہداء نے یہ وصیت کی ہے کہ انکے ترکہ میں سے ایک تہائی دفاع مقدس کے محاذوں کی تقویت کیلئے خرچ کیا جائے اب جب ان وصیتوں کا موضوع ہی ختم ہوچکا ہے انکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر وصیت کے عمل کا مورد ختم ہوجائے تو وہ مال انکے ورثاء کی میراث قرار پائے گا اور احوط یہ ہے کہ ورثاء کی اجازت سے اسے کارخیر میں خرچ کیا جائے ۔
س ١٨3٠: میرے بھائی نے وصیت کی کہ اسکے مال کا ایک تہائی حصہ ایک خاص شہر کے جنگی مہاجرین کیلئے خرچ کیا جائے لیکن اس وقت مذکورہ شہر میں کوئی بھی جنگی مہاجر موجود نہیں ہے اسکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر ثابت ہوجائے کہ جنگی مہاجرین سے موصی(وصیت کرنے والا) کی مرادوہ لوگ ہیں جو اس وقت اس شہر میں زندگی بسرکررہے ہیں تو اس صورت میں چونکہ اس وقت اس شہر میں کوئی مہاجر نہیں ہے اسکا مال ورثاء کو ملے گا ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ضروری ہے کہ وہ رقم ان جنگی مہاجرین کو دی جائے جو اس شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اگر چہ اس وقت وہ وہاں سے جاچکے ہوں ۔
س ١٨3١: کیا کسی شخص کیلئے یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ اسکے مرنے کے بعد اس کا آدھا مال اس کے ایصال ثواب کی مجلس میں خرچ کیا جائے یا یہ کہ اس مقدار کا معین کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اسلام نے ان موارد کیلئے خاص حدود کو معین کردیا ہے ؟
ج: وصیت کرنے والے کا اپنے اموال اپنے لئے ایصال ثواب کے کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی طور پر اسکے لیئے کوئی خاص حد معین نہیں ہے لیکن میت کی وصیت صرف اسکے ترکہ کے ایک تہائی حصے میں نافذ ہے اور اس سے زیادہ میں تصرف کرنا ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے۔
س ١٨3٢: کیا وصیت کرنا واجب ہے یعنی اگر انسان اسے ترک کرے تو گنا ہ کا مرتکب ہوگا ؟
ج : اگر اسکے پاس دوسروں کی امانتیں ہوں اور اسکے ذمے حقوق العباداورحقوق اللہ ہوں اور اپنی زندگی کے دوران انہیں ادا کرنے کی توانائی نہ رکھتا ہو تو انکے متعلق وصیت کرنا واجب ہے ورنہ واجب نہیں ہے ۔
س ١٨3٣: ایک شخص نے اپنے اموال میں سے ایک تہائی سے کم حصہ اپنی بیوی کو دینے کیلئے وصیت کی اور اپنے بڑے بیٹے کو اپنا وصی قرار دیا لیکن دیگر ورثا اس وصیت پر معترض ہیں اس صورت میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج : اگر وصیت اموال کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہوتو ورثاء کا اعتراض صحیح نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں ۔
س ١٨3٤: اگر ورثاء ، وصیت کا بالکل انکار کردیں تو اس صورت میں ذمہ داری کیا ہے ؟
ج : وصیت کے مدعی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے شرعی طریقے سے ثابت کرے اور ثابت کردینے کی صورت میں اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہو تو اسکے مطابق عمل کرنا واجب ہے اور ورثاء کا انکار اور اعتراض کوئی اثر نہیں رکھتا۔
س ١٨3٥: ایک شخص نے اپنے قابل اطمینان افراد کہ جن میں سے ایک خود اس کا بیٹا ہے کے سامنے وصیت کی کہ اسکے ذمہ جو شرعی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة ، کفارات اور اسی طرح اسکے ذمے جو بدنی واجبات ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ انہیں ادا کرنے کیلئے اسکی بعض املاک اسکے ترکہ سے نکال لی جائیں لیکن اسکے بعض ورثاء اسے قبول نہیں کرتے بلکہ وہ بغیر کسی استثناء کے تمام املاک ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟
ج :اگر دلیل شرعی یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ وصیت ثابت ہوجائے تو وہ ملک جسکی وصیت کی گئی ہے اگر پورے ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو انہیں اسکی تقسیم کے مطالبہ کا حق نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں اور میت کے ذمہ جومالی حقوق اور دیگر بدنی واجبات ہیں کہ جنکی میت نے وصیت کی ہے انکے ادا کرنے کیلئے خرچ کریں بلکہ اگر شرعی طریقہ سے یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ میت لوگوں کی مقروض ہے یا اسکے ذمہ خدا تعالیٰ کے مالی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة، کفارات یا اسکے ذمہ مالی و بدنی حقوق ہیں جیسے حج تو بھی ان پر واجب ہے کہ وہ اس کا پورا دین اسکے اصل ترکہ سے ادا کریں اور پھر باقیماندہ ترکہ اپنے درمیان تقسیم کریں اگر چہ انکے متعلق کوئی وصیت نہ بھی کی ہو ۔
س ١٨3٦: ایک شخص جو ایک زرعی زمین کا مالک ہے نے وصیت کی ہے کہ اس زمین کو مسجد کی تعمیر کیلئے خرچ کیا جائے لیکن اسکے ورثاء نے اسے فروخت کردیا ہے کیا متوفیٰ کی وصیت نافذ ہے ؟ اور کیا ورثاء اس ملک کو بیچنے کا حق رکھتے ہیں ؟
ج: اگر وصیّت کا محتوا یہ ہو کہ زرعی زمین کو بیچ کر اسکی قیمت مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت بھی ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو وصیت نافذ ہے اور زمین فروخت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت کرنے والے کی مراد یہ ہو کہ زمین کی آمدنی مسجد کی تعمیر کیلئے خرچ کی جائے تو اس صورت میں ورثاء کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س ١٨3٧: ایک شخص نے وصیت کی کہ اسکی اراضی میں سے ایک قطعہ اس کی طرف سے نماز و روزہ اور دوسرے نیک کام انجام دینے کیلئے خرچ کیا جائے کیا اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے یا اسے وقف شمار کیا جائے گا ؟
ج: جب تک قرائن و شواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہو کہ اسکی مراد یہ تھی کہ زمین اپنی حالت پر باقی رہے تا کہ اسکی آمدنی ان کاموں کیلئے خرچ کی جائے بلکہ فقط یہ وصیت کی ہو کہ زمین کو خود اسکے لیئے خرچ کیا جائے تو یہ وصیت زمین کے وقف کے حکم میں نہیں ہے ، پس اگر اسکی قیمت ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو اسکا فروخت کرنا اور اسکی قیمت کو خود اس کیلئے خرچ کرنے میں اشکال نہیں ہے ۔
س ١٨3٨: کیا جائز ہے کہ کچھ مال ترکہ کے ایک تہائی حصہ کے عنوان سے علیحدہ کر دیا جائے یا کسی شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تا کہ اسکی وفات کے بعد اسے اپنے مصرف میں خرچ کیا جائے ؟
ج : اس کام میں اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اسکی وفات کے بعد اسکے ورثاء کیلئے اسکے دوبرابر مال باقی رہے۔
س ١٨3٩: ایک شخص نے اپنے باپ کو وصیّت کی کہ کچھ مہینوں کی قضا نمازیں اور روزے اس کے ذمہ ہیں لہذا کسی کو اجیر بنا کر انکی قضا کرادینا اس وقت خود وہ شخص لاپتہ ہوگیا ہے کیا اسکے باپ پر واجب ہے کہ وہ اسکی قضا نما زوں اور روزوں کیلئے کسی کو اجیر بنائے؟
ج: جب تک وصیت کرنے والے کی موت ،شرعی دلیل یا وصی کے علم کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے اسکی طرف سے اسکی قضا نماز وں اورروزوں کوبجالانے کیلئے کسی کو اجیر بنانا صحیح نہیں ہے ۔
س ١٨4٠: میرے باپ نے اپنی زمین کے ایک تہائی حصے میں مسجد بنانے کی وصیت کی ہے لیکن اس زمین کے پڑوس میں دو مسجدیں موجود ہیں اور وہاں سکول کی سخت ضرورت ہے کیا جائز ہے کہ ہم مسجد کی جگہ وہاں سکول قائم کردیں؟
ج: مسجد کی جگہ سکول بنا کر وصیت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصود خود اس زمین میں مسجد بنانا نہ ہو تو اسے فروخت کرکے اسکی رقم سے کسی ایسی جگہ مسجد بنانے میں حرج نہیں ہے کہ جہاں مسجد کی ضرورت ہے۔
س ١٨4١: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ اسکی وفات کے بعد اس کا جسم میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دیا جائے تا کہ اسے چیر کر اس سے تعلیم و تعلم کیلئے استفادہ کیا جائے یا چونکہ یہ کام مسلمان میت کے جسم کو مُثلہ کرنے کا موجب بنتا ہے لہذا حرام ہے؟
ج : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مُثلہ اوراس جیسے دیگر امور کی حرمت پر جو دلیلیں ہیں وہ کسی اور چیز کی طرف ناظر ہیں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا گیا ہے اس جیسے امور کہ جن میں میت کے بدن کو چیرنے میں اہم مصلحت موجود ہے سے، منصرف ہیں اور اگر مسلمان میت کے احترام کی شرط کہ جو اس جیسے مسائل میں اصل مسلّم ہے حاصل ہو تو ظاہراً بدن کے چیرنے میں اشکال نہیں ہے۔
س ١٨4٢: اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اسکے مرنے کے بعد اسکے بدن کے بعض اعضاء کسی ہسپتال یا کسی دوسرے شخص کو ہدیے کے طور پردے دیئے جائیں تو کیا یہ وصیت صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج : اس قسم کی وصیتوں کا ان اعضاء کے متعلق صحیح اور نافذ ہونا بعید نہیں ہے کہ جنہیں بدن سے جدا کرنا بے احترامی نہ سمجھا جاتا ہو اور ایسے موارد میں وصیت پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
س ١٨4٣: اگر ورثاء ،وصیت کرنے والے کی حیات کے دوران ، ایک تہائی سے زیادہ میں اس کی وصیت کی اجازت دے دیں تو کیا یہ اس کے نافذ ہونے کیلئے کافی ہے؟ اور کافی ہونے کی صورت میں ، کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والے کے مرنے کے بعد ورثاء اپنی اجازت سے عدول کرلیں؟
ج :وصیت کرنے والے کی حیات کے دوران ورثاء کا ایک تہائی سے زیادہ کی نسبت اجازت دینا وصیت کے نافذ اور صحیح ہونے کیلئے کافی ہے اور اس کی وفات کے بعد انہیں اس سے عدول کرنے کاحق نہیں ہے اور ان کے عدول کا کوئی اثر نہیں ہے۔
س ١٨4٤: ایک شہید نے اپنی قضا نمازوں اور روزوں کے بارے میں وصیت کی لیکن اسکا کوئی ترکہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف گھر اور گھریلو سامان کہ جنہیں فروخت کرنے کی صورت میں اسکے نابالغ بچوں کیلئے عسر و حرج لازم آتا ہے۔ اس وصیت کے بارے میں اسکے ورثاء کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج: اگر اس شہید کا ترکہ اور میراث نہیں ہے تو اسکی وصیت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ، لیکن اسکے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجالائے لیکن اگر اسکا ترکہ موجود ہے تو واجب ہے کہ اسکا تیسرا حصہ اسکی وصیت کے سلسلے میں خرچ کیا جائے اور فقط ورثاء کا ضرورت مند اور صغیر ہونا وصیت پر عمل نہ کرنے کا عذر شرعی نہیں بن سکتا ۔
س ١٨4٥: کیا مال کے بارے میں وصیت کے صحیح اور نافذ ہونے کیلئے موصیٰ لہ(جسکے لئے وصیت کی گئی ہے) کا وصیت کے وقت موجود ہونا شرط ہے؟
ج : کسی شے کی تملیک کی وصیت میں موصیٰ لہ کاوصیت کے وقت وجود شرط ہے اگر چہ وہ جنین کی صورت میں ماں کے رحم میں ہو حتی اگر اس جنین میں ابھی روح پھونکی نہ گئی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ وہ زندہ دنیا میں آئے۔
س١٨4٦: وصیت کرنے والے نے اپنی وصیتوں کو عملی جامہ پہنا نے کیلئے اپنی تحریری وصیت میں وصی منصوب کرنے کے علاوہ ایک شخص کو ناظر کے عنوان سے منتخب کیا ہے لیکن اسکے اختیارات کے سلسلے میں وضاحت نہیں کی یعنی معلوم نہیں ہے کہ اسکی نظارت سے مراد صرف وصی کے کاموں سے مطلع ہونا ہے تا کہ وہ وصیت کرنے والے کے مقرر کردہ طریقہ کے خلاف عمل نہ کرے یا یہ کہ وہ وصیت کرنے والے کے کاموں کے سلسلے میں نگران ہے اور وصی کے کاموں کا اس ناظر کی رائے اور صوابدید کے مطابق انجام پا ناضروری ہے اس صورت میں ناظر کے اختیارات کیا ہیں؟
ج : اگر وصیت مطلق ہے تو وصی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اسکے امور میں ناظر کے ساتھ مشورہ کرے ، اگرچہ احوط یہی ہے اور ناظر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وصی کے کاموں سے مطلع ہونے کیلئے نظارت کرے۔
س ١٨4٧: ایک شخص اپنے بڑے بیٹے کو وصی اور مجھے اس پر ناظر بناکر فوت ہو گیا پھر اسکا بیٹا بھی وفات پاگیا اور میں اسکی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اکیلا رہ گیا ہوں لیکن اسوقت اپنے خاص حالات کی وجہ سے میرے لئے اسکے وصیت کردہ بعض امور کو انجام دینا مشکل ہوگیا ہے کیا میرے لئے مورد وصیت کو تبدیل کرنا جائز ہے کہ میں اسکے ترکہ کے تیسرے حصے سے حاصل ہونے والی آمدنی محکمہ حفظان صحت کو دے دوں تا کہ وہ اسے بھلائی کے کاموں اور اپنے زیر کفالت ضرورتمند افراد پر کہ جو مدد اور تعاون کے مستحق ہیں خرچ کر دے۔
ج : ناظر بطور مستقل میت کی وصیتوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا حتی کہ وصی کی موت کے بعدبھی مگر یہ کہ وصیت کرنے والے نے وصی کی موت کے بعد ناظر کووصی قرار دیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وصی کی موت کے بعد ضروری ہے کہ وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اسکی جگہ مقرر کرے بہرحال میت کی وصیت سے تجاوز اور اس میں رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ۔
س ١٨4٨: اگر ایک شخص وصیت کرے کہ اسکے اموال کا کچھ حصہ نجف اشرف میں تلاوت قرآن کی غرض سے خرچ کیا جائے یا وہ اپنا کچھ مال اس کام کیلئے وقف کردے اور وصی یا وقف کے متولی کیلئے نجف اشرف میں کسی کو تلاوت قرآن کیلئے اجیر بناکر وہاں مال بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس سلسلے میں اسکی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: اگر مستقبل میں بھی اس مال کا نجف اشرف میں تلاوت قرآن کیلئے خرچ کرنا ممکن ہو توواجب ہے کہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔
س ١٨4٩: میری والدہ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میں اس کا سونا جمعہ کی راتوں میں نیک کاموں کیلئے خرچ کروں اور میں اب تک اس کام کو انجام دیتا رہاہوں لیکن دوسرے ممالک کے سفر کے دوران کہ جنکے باشندوں کے بارے میں زیادہ احتمال یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ خرچ کرنے سے اسکی مراد مسلم اور غیر مسلم دونوں پر خرچ کرنا تھا توواجب ہے کہ وہ مال صرف مسلمانوں کیلئے بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جائے اگر چہ اس کیلئے یہ مال کسی اسلامی سرزمین میں ایک امین شخص کے پاس رکھناپڑے جو اسے مسلمانوں پر خرچ کرے۔
س ١٨5٠: ایک شخص نے وصیت کی کہ اسکی کچھ زمین بیچ کر اسکی رقم عزاداری اورنیکی کے کاموں میں خرچ کی جائے لیکن ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو بیچنا ورثا کیلئے مشکل اور زحمت کا سبب بنے گاکیونکہ مذکورہ زمین اور دوسری زمینوں کو علیحدہ کرنے میں بہت سی مشکلات ہیں کیا جائز ہے کہ خود ورثاء اس زمین کو قسطوں پر خریدلیں اور ہر سال اسکی کچھ قیمت ادا کرتے رہیں تاکہ اسے وصی اور ناظر کی نگرانی میں وصیت کے مورد میں خرچ کیا جائے۔
ج: ورثاء کیلئے وہ زمین اپنے لیئے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اوراسے قسطوں پر اور عادلانہ قیمت کے ساتھ خرید نے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ بات ثابت نہ ہوکہ وصیت کرنے والے کی مراد یہ تھی کہ اسکی زمین کو نقد بیچ کر اسی سال اسکی قیمت مورد وصیت میں خرچ کی جائے نیز اس کی شرط یہ ہے کہ وصی اور ناظر بھی اس کام میں مصلحت سمجھتے ہوں اور قسطیں بھی اسطرح نہ ہوں کہ وصیت نظر انداز ہوجائے اور اس پرعمل نہ ہو پائے۔
س١٨5١: ایک شخص نے جان لیوا بیماری کی حالت میں دو آدمیوں میں سے ایک کو وصی اور دوسرے کو نائب وصی کے طور پر مقرر کیا لیکن بعد میں اپنی رائے میں تبدیلی کی وجہ سے وصیت کو باطل کرکے وصی اور اسکے نائب کو اس سے آگاہ کردیا اور ایک دوسرا وصیت نامہ لکھا کہ جس میں اپنے ایک ایسے رشتہ دار کو اپنا وصی قرار دیا جو غائب ہے ، کیا اس عدول اور تبدیلی کے بعد بھی پہلی وصیت اپنی حالت پر باقی اور معتبر ہے؟ اور اگر دوسری وصیت صحیح ہے اور وہ غائب شخص وصی ہے تو اگر معزول وصی اور اسکا نائب وصیت کرنے والے کی باطل کردہ وصیت کا سہارا لیکر اس پر عمل کریں تو کیا انکا یہ عمل اور تصرف ظالمانہ شمار ہوگا اور کیا ان پر واجب ہے کہ جو کچھ انہوں نے میت کے مال سے خرچ کیا ہے وہ دوسرے وصی کو لوٹائیں؟
ج: اگر میت نے اپنی زندگی میں پہلی وصیت سے عدول کر لیا ہو اور اس نے پہلے وصی کو بھی معزول کردیا ہو تو معزول ہونے والا وصی اپنے معزول ہونے سے آگاہ ہونے کے بعد پہلی وصیت کا سہارا لیکر اس پر عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا لہذا وصیت سے متعلق مال کے سلسلے میں اسکے تصرفات فضولی شمار ہونگے اور وصی کی اجازت پر موقوف ہونگے اور اگر وصی انکی اجازت نہ دے تو معزول ہونے والا وصی ان اموال کا ضامن ہوگا جو اس نے خرچ کئے ہیں۔
س١٨5٢: ایک شخص نے وصیت کی ہے کہ اسکی املاک میں سے ایک ملک اسکے بیٹے کی ہے پھر دوسال کے بعد اس نے اپنی وصیت کو مکمل طور پر بدل دیا کیا اسکا پہلی وصیت سے دوسری وصیت کی طرف عدول کرنا شرعی طور پر صحیح ہے؟ جبکہ یہ شخص مریض ہے اور اسکی خدمت ونگہداری کی سخت ضرورت ہے ، کیا یہ ذمہ داری اسکے مقرر کردہ وصی یعنی اسکے بڑے بیٹے کی ہے یا یہ کہ اسکی ساری اولاد مساوی طور پر اسکی ذمہ دار ہے؟
ج: جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اور اس کا ذہنی توازن صحیح و سالم ہے تو شرعی طور پر اس کیلئے اپنی وصیت سے عدول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور شرعی لحاظ سے صحیح اورمعتبر بعد والی وصیت ہوگی اور اگر بیمار اپنی خدمت کیلئے کوئی نوکر رکھنے پر قادر نہ ہو تو مریض کی خدمت اور اسکی دیکھ بھال کی ذمہ داری اسکی تمام اس اولاد پر بطور مساوی ہے جو اسکی نگہداری کی قدرت رکھتی ہے اوریہ صرف وصی کی ذمہ داری نہیں ہے۔
س١٨5٣:ایک باپ نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لیئے وصیت کی ہے اور مجھے اپنا وصی بنایا ہے، میراث تقسیم کرنے کے بعد ایک تہائی مال الگ رکھ دیا ہے کیا میں اسکی وصیت کو پورا کرنے کیلئے ایک تہائی مال سے کچھ مقدار کو بیچ سکتا ہوں؟
ج: اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کا ایک تہائی مال اسکی وصیت کو پورا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے تو ترکہ سے جدا کرنے کے بعد اس کے بیچنے اور وصیت نامہ میں ذکر کئے گئے موارد میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت یہ کی ہو کہ ایک تہائی اموال سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعہ اسکی وصیت کو پورا کیا جائے تو اس صورت میں خود ایک تہائی مال کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ یہ وصیت کے موارد میں خرچ کیلئے ہو۔
س ١٨5٤: اگر وصیت کرنے والا، وصی اور ناظر کو معین کرے ، لیکن انکے اختیارات اور فرائض کو ذکر نہ کرے اور اسی طرح اپنے ایک تہائی اموال اور انکے مصارف کا بھی ذکر نہ کرے ، اس صورت میں وصی کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا جائز ہے کہ وصی اسکے ترکہ سے ایک تہائی اموال الگ کرکے نیکی کے کاموں میں خرچ کردے؟ کیا صرف وصیت کرنے اور وصی کے معین کرنے سے وصی کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ وصیت کرنے والے کے ترکہ سے ایک تہائی اموال کو جدا کرے تا کہ اس پر ایک تہائی اموال الگ کر کے انہیں وصیت کرنے والے کیلئے خرچ کرنا واجب ہو؟
ج: اگر قرائن و شواہد یا وہاں کے مقامی عرف کے ذریعہ وصیت کرنے والے کا مقصود معلوم ہوجائے تو واجب ہے کہ وصی وصیت کے مورد کی تشخیص اور وصیت کرنے والے کے مقصود کہ جسے وہ ان ذرائع سے سمجھا ہے کے مطابق عمل کرے ورنہ وصیت مبہم اور متعلقِ وصیت کے ذکر نہ کرنے کی بناپر باطل اور لغو قرار پائے گی۔
س ١٨5٥: ایک شخص نے اس طرح وصیت کی ہے کہ : " تمام سلے اور ان سلے کپڑے و غیرہ میری بیوی کے ہیں" کیا کلمہ ' 'و غیرہ " سے مراد اسکے منقولہ اموال ہیں یا وہ چیزیں مراد ہیں جو لباس اور کپڑے سے کمتر ہیں جیسے جوتا اور اسکی مانند؟
ج: جب تک وصیت نامہ میں مذکور کلمہ " وغیرہ " سے اسکی مراد معلوم نہ ہوجائے اورکسی دوسرے قرینے سے بھی وصیت کرنے والے کی مراد اس سے سمجھ میں نہ آئے تو وصیت نامہ کا یہ جملہ مبہم ہونے کی بنا پر قابل عمل نہیں ہے اور سوال میں بیان کئے گئے احتمالات پر اسکی تطبیق کرنا ورثاء کی رضامندی اور موافقت پر موقوف ہے۔
س١٨5٦: ایک عورت نے وصیت کی کہ اسکے ترکے کے ایک تہائی مال سے اسکی آٹھ سال کی قضا نمازیں پڑھائی جائیں اور باقی مال رد مظالم ، خمس اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔ اور چونکہ اس وصیت پر عمل کرنے کا زمانہ دفاع مقدس کا زمانہ تھا کہ جس میں محاذ جنگ پر مدد پہنچانا بہت ضروری تھا اور وصی کو یہ یقین ہے کہ عورت کے ذمہ ایک بھی قضا نماز نہیں ہے لیکن پھر بھی اس نے اسکی دو سال کی نمازوں کیلئے ایک شخص کو اجیر بنایا اور ایک تہائی مال کا کچھ حصہ محاذجنگ پر مدد کیلئے بھیج دیا اور باقی مال خمس ادا کرنے اور رد مظالم میں خرچ کردیا ۔کیا وصیت پر عمل کرنے کے سلسلے میں وصی کے ذمہ کوئی چیز باقی ہے؟
ج: وصیت پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جس طرح میت نے کی ہے۔اور کسی ایک مورد میں بھی وصی کیلئے وصیت پر عمل کو ترک کرنا جائز نہیں ہے لہذا اگر کچھ مال وصیت کے علاوہ کسی اور جگہ میں خرچ کیا ہو تو وہ اس مقدار کاضامن ہے ۔
س ١٨5٧: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصیت کی کہ اسکی وفات کے بعد وصیت نامہ میں مذکور مطالب کے مطابق عمل کریں اور وصیت نامہ کی تیسری شق میں یوں لکھاہے کہ وصیت کرنے والے کا تمام ترکہ ۔چاہے وہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ، نقد رقم ہو یا لوگوں کے پاس قرض کی صورت میں ۔ جمع کیا جائے اور اس کا قرض اسکے اصل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ، اسکا ایک تہائی حصہ جدا کرکے وصیت نامہ کی شق نمبر٤، ٥اور٦ کے مطابق خرچ کیا جائے ، اور سترہ سال کے بعد اس ایک تہائی حصے کاباقی ماندہ اسکے فقیر ورثاء پر خرچ کیا جائے لیکن وصیت کرنے والے کے دونوں وصی اسکی وفات سے لیکر اس مدت کے ختم ہونے تک اسکے مال کا ایک تہائی حصہ جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کیلئے مذکورہ شقوق پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ورثاء مدعی ہیں کہ مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد وصیت نامہ باطل ہوچکاہے اور اب وہ دونوں و صی وصیت کرنے والے کے اموال میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتے اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟ اور ان دونوں وصیوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج : وصیت پر عمل کرنے میں تاخیر سے وصیت اور وصی کی وصایت ( وصی کا وصی ہونا) باطل نہیں ہوتا بلکہ ان دو وصیوں پر واجب ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اگر چہ اسکی مدت طولانی ہوجائے اور جب تک انکی وصایت ایسی خاص مدت تک نہ ہو جو ختم ہوگئی ہو اس وقت تک ورثاء کو حق نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کیلئے وصیت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنیں۔
س ١٨5٨: میت کے ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم ہونے اور انکے نام ملکیت کی دستاویزجاری ہونے کے چھ سال گزرنے کے بعد ورثاء میں سے ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ متوفیٰ نے زبانی طور پر اسے وصیت کی تھی کہ گھر کا کچھ حصہ اسکے ایک بیٹے کو دیا جائے اور بعض عورتیں بھی اس امر کی گواہی دیتی ہیں کیا مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اسکا یہ دعویٰ قابل قبول ہے ؟
ج: اگر شرعی دلیل سے وصیت ثابت ہوجائے توزمانے کے گزرنے اور ترکہ کی تقسیم کے قانونی مراحل طے ہوجانے سے وصیت کے قابل قبول ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔نتیجةً اگر مدعی اپنے دعوے کو شرعی طریقے سے ثابت کردے تو سب پر واجب ہے کہ اسکے مطابق عمل کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو جس شخص نے اسکے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اسکے محتوا کے مطابق اور ترکہ میں سے اپنے حصے کی مقدار میں اس پر عمل کرے ۔
س ١٨5٩ : ایک شخص نے دوآدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک قطعہ فروخت کرکے اسکی طرف سے حج بجالائیں اور اپنے وصیت نامہ میں اس نے ان میں سے ایک کو اپنا وصی اور دوسرے کو اس پر ناظر مقرر کیا ہے ایک تیسرا شخص ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وصی اور ناظر کی اجازت کے بغیر اسکی طرف سے حج انجام دے دیا ہے اب وصی فوت ہوچکا ہے اور ناظر زندہ ہے کیا ناظر کیلئے ضروری ہے کہ وہ زمین کی رقم سے میت کی طرف سے دوبارہ فریضہ حج بجا لائے؟ یا اس پر واجب ہے کہ زمین کی رقم اس شخص کو دے دے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے میت کی طرف سے فریضۂ حج ادا کردیا ہے یا اس سلسلے میں اس پر کچھ واجب نہیں ہے ؟
ج: اگرمیت پر حج واجب ہو او روہ وصیت کے ذریعہ نائب کے توسط سے اسے ادا کرانا چاہتا ہو تو اگر تیسرا شخص میت کی طرف سے حج بجالائے تو اس کیلئے کافی ہے لیکن اس شخص کو کسی سے اجرت طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ناظر اور وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اور زمین کی رقم سے اس کی طرف سے فریضۂ حج کو بجالائیں اور اگر وصی، وصیت پر عمل کرنے سے پہلے مرجائے تو ناظر پر واجب ہے کہ وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم شرع کی طرف رجوع کرے ۔
س ١٨6٠: کیا ورثاء ، وصی کو میت کی قضا نمازوں اور روزوں کے ادا کرنے کیلئے معین رقم خرچ کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور اس سلسلے میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج: میت کی وصیت پر عمل کرنے کی ذمہ داری وصی کی ہے اور اس کیلئے اپنے تشخیص کردہ مصالح پر عمل کرنا ضروری ہے اور ورثاء کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س ١٨6١:تیل کے ذخائر پربمباری کے موقع پر وصیت کرنے والے کی شہادت ہوجاتی ہے اور تحریری وصیت جو اسکے ہمراہ تھی وہ بھی اس حادثے میں جل جاتی ہے یا گم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی اسکے متن اور محتوا سے آگاہ نہیں ہے اس وقت وصی نہیں جانتا کہ کیا وہ اکیلا اس کا وصی ہے یا کوئی دوسرا شخص بھی ہے ، اس صورت میں اسکی ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: اصل وصیت کے ثابت ہونے کے بعد ، وصی پر واجب ہے کہ جن موارد میں اسے تبدیلی کا یقین نہیں ہے ان میں وصیت کے مطابق عمل کرے اور اس احتمال کی پروا نہ کرے کہ ممکن ہے کوئی دوسرا وصی بھی ہو ۔
س ١٨6٢: کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والا اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنے وصی کے طور پر منتخب کرے؟ اور کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسکے اس کام کی مخالفت کرے ؟
ج : وصیت کرنے والا جن افراد کو اس کام کے لائق سمجھتاہے ان میں سے وصی کا انتخاب اور اس کا مقرر کرنا خود اس کے ہاتھ میں ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا وصی بنائے اور اسکے ورثاء کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س ١٨6٣: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء دوسروں کے ساتھ مشورہ کئے بغیر یا وصی کی موافقت حاصل کرنے کیلئے میت کے اموال سے وصی کی دعوت کے عنوان سے اسکے لیئے انفاق کریں ؟
ج: اگر اس کام سے انکی نیت وصیت پر عمل کرنا ہے تو اسکا انجام دینا میت کے وصی کے ذمہ ہے اور انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وصی کی موافقت کے بغیر اپنے طور پر یہ کام کریں اور اگر انکا ارادہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء کی میراث میں سے خرچ کریں تو اسکے لیئے بھی تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو دوسرے ورثاء کے حصے کی نسبت یہ کام غصب کے حکم میں ہے۔
س ١٨6٤: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں ذکر کیا ہے کہ فلاں شخص اسکا پہلا وصی ، زید دوسرا وصی اور خالد تیسرا وصی ہے کیا تینوں اشخاص باہمی طور پراسکے وصی ہیں یا یہ کہ صرف پہلا شخص اسکا وصی ہے؟
ج: یہ چیز وصیت کرنے والے کی نظر اور اسکے قصد کے تابع ہے اورجب تک قرائن وشواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہوجائے کہ اسکی مراد تین اشخاص کی اجتماعی وصایت ہے یا ترتیبی وصایت ، ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر اجتماعی طور پر عمل کریں ۔
س ١٨6٥: اگر وصیت کرنے والا تین افراد کو اجتماعی طور پر اپنا وصی مقرر کرے لیکن وہ لوگ وصیت پر عمل کرنے کی روش پر متفق نہ ہوں تو ان کے درمیان اس اختلاف کو کیسے حل کیا جائے ؟
ج : اگر وصی متعدد ہوں اور وصیت پر عمل کرنے کے طریقے میں اختلاف ہوجائے تو ان پر واجب ہے کہ حاکم شرع کی طرف رجوع کریں ۔
س ١٨6٦: میں اپنے باپ کا بڑا بیٹاہوں اور شرعی طور پر اسکی قضا نمازوں اور روزوں کو بجا لانے کا ذمہ دار ہوں اگر میرے باپ کے ذمہ کئی سال کی قضا نمازیں اور روزے ہوں لیکن اس نے وصیت کی ہو کہ اسکے لیے صرف ایک سال کی قضا نمازیں اور روزے ادا کئے جائیں تواس صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ اسکی قضا نمازوں اور روزوں کی اجرت اسکے ایک تہائی ترکہ سے ادا کی جائے تو ایک تہائی ترکہ سے کسی شخص کو اسکی نمازوں اور روزوں کیلئے اجیر بناناجائز ہے اور اگر اسکے ذمہ قضا نمازیں اور روزے اس مقدار سے زیادہ ہوں کہ جسکی اس نے وصیت کی ہے تو آپ پر انکا بجالانا واجب ہے اگر چہ اس کیلئے آپ اپنے اموال سے کسی کو اجیر بنائیں۔
س ١٨6٧: ایک شخص نے اپنے بڑے بیٹے کو وصیت کی ہے کہ اسکی اراضی میں سے ایک معین قطعہ فروخت کر کے اسکی رقم سے اسکی طرف سے حج بجالائے اور اس نے بھی یہ عہد کیا کہ باپ کی طرف سے حج بجالائے گا لیکن ادارہ حج و زیارات کی طرف سے اسے سفرِ حج کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ حج انجام نہیں دے سکا اور اس وقت چونکہ حج کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لئے اس زمین کی رقم سے حج پر جانا ممکن نہیں ہے لہذا باپ کی وصیت پر بڑے بیٹے کا عمل کرنا اسوقت ناممکن ہوگیا ہے او روہ کسی دوسرے کو حج انجام دینے کیلئے نائب بنا نے پر مجبور ہے لیکن زمین کی رقم نیابت کی اجرت کیلئے کافی نہیں ہے کیا باقی ورثاء پر واجب ہے کہ باپ کی وصیت پر عمل کرنے کیلئے اسکے ساتھ تعاون کریں یا یہ کہ صرف بڑے بیٹے پر اسکا انجام دینا واجب ہے کیوں کہ بہرحال بڑے بیٹے کیلئے باپ کی طرف سے فریضہ حج کو انجام دینا ضروری ہے؟
ج : سوال کی روشنی میں حج کے اخراجات دیگرورثاء پر واجب نہیں ہیں لیکن اگر وصیت کرنے والے کے ذمے میں حج مستقر ہوچکاہے اور زمین کی وہ رقم جو نیابتی حج انجام دینے کیلئے معین کی گئی ہے وہ میقات سے نیابتی حج کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہ ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ حج میقاتی کے اخراجات اصل ترکے سے پورے کئے جائیں ۔
س ١٨6٨: اگر ایسی رسید موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ میت نے اپنے شرعی حقوق ادا کئے ہیں یا کچھ لوگ گواہی دیں کہ وہ اپنے حقوق ادا کرتا تھا تو کیا ورثاء پر اسکے ترکہ سے اسکے شرعی حقوق ادا کرنا واجب ہے ؟
ج : محض رسید کا موجود ہونا اور گواہوں کا گواہی دینا کہ وہ اپنے حقوقِ شرعی ادا کرتا تھا میت کے بری الذمہ ہونے پر حجت شرعی نہیں ہے اور اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوگا کہ اسکے مال میں حقوق شرعی نہیں تھے لذا اگر اس نے اپنی حیات کے دوران یا وصیت نامہ میں اس بات کا اعتراف کیا ہو کہ وہ کچھ مقدار حقوق شرعی کا مقروض ہے یا اسکے ترکہ میں حقوق شرعی موجود ہیں یا ورثاء کو اس کا یقین حاصل ہوجائے تو ان پرواجب ہے کہ جس مقدار کا میت نے اقرار کیا ہے یا جس مقدار کا انہیں یقین حاصل ہوگیا ہے اسے میت کے اصل ترکہ سے ادا کریں ورنہ ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔
س ١٨6٩: ایک شخص نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لیئے وصیت کی اور اپنے وصیت نامہ کے حاشیہ پر قید لگادی کہ باغ میں جو گھر ہے وہ ایک تہائی حصہ کے مصارف کیلئے ہے اور اسکی وفات کے بیس سال گزرنے کے بعد وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے بیچ کراسکی رقم اسکے لیئے خرچ کرے کیا ایک تہائی حصہ اسکے پورے ترکہ یعنی گھر اور اسکے دیگر اموال سے حساب کیا جائیگا تاکہ اگر گھر کی قیمت ایک تہائی مقدار سے کمتر ہو تو اسے اسکے دیگر اموال سے پورا کیا جائے یا یہ کہ ایک تہائی حصہ صرف اس کا گھر ہے اور ورثاء سے تہائی حصہ کے عنوان سے دوسرے اموال نہیں لیئے جائیں گے ؟
ج : جو کچھ میت نے وصیت نامے اور اسکے حاشیہ میں ذکر کیا ہے اگر اس سے اس کا مقصود صرف اپنے گھر کو ایک تہائی کے عنوان سے اپنے لئے معین کرنا ہو اور وہ گھر بھی میت کا قرض ادا کرنے کے بعد اسکے مجموعی ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف گھر ایک تہائی ہے اور وہ میت سے مختص ہے اور یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب ا س نے اپنے لیئے ترکہ کے ایک تہائی کی وصیت کے بعد گھر کو اس کے مصارف کیلئے معین کیا ہو اور اس گھر کی قیمت میت کے قرض کو ادا کرنے کے بعد باقی بچنے والے ترکہ کا ایک تہائی ہواوراگر ایسا نہ ہو تو ضروری ہے کہ ترکے کے دوسرے اموال میں سے اتنی مقدار گھر کی قیمت کے ساتھ ملائی جائے کہ انکی مجموعی مقدار ترکے کے ایک تہائی کے برابر ہوجائے؟
س ١٨7٠: ترکہ کو تقسیم کئے ہوئے بیس سال گزر گئے ہیں اور چار سال پہلے میت کی بیٹی اپنا حصہ فروخت کرچکی ہے اب ماں نے ایک وصیت نامہ ظاہر کیا ہے جسکی بنیاد پر شوہر کے تمام اموال اسکی بیوی کے متعلق ہیں اور اسی طرح اس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ وصیت نامہ اسکے شوہر کی وفات کے وقت سے اسکے پاس تھا لیکن اس نے ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا کیا اسکی بناپر میراث کی تقسیم اور میت کی بیٹی کا اپنے حصے کو فروخت کرنا باطل ہوجائے گا ؟ اور باطل ہونے کی صورت میں ، کیا اس ملک کی قانونی دستاویز کوجسے تیسرے شخص نے میت کی بیٹی سے خریدا ہے ، میت کی بیٹی اور اسکی ماں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے باطل کرنا صحیح ہے ؟
ج: مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے اور دلیل معتبر کے ذریعہ اسکے ثابت ہونے کی صورت میں، چونکہ ماں کو اپنے شوہر کی وفات سے لیکر ترکہ کی تقسیم تک اس وصیت کے بارے میں علم تھا اوربیٹی کو اسکا حصہ دیتے وقت اور اسکا اپنے حصے کو کسی دوسرے کے پاس فروخت کے وقت ، وصیت نامہ ماں کے پاس تھا لیکن اسکے باوجود اس نے وصیت کے بارے میں خاموشی اختیار کی اور بیٹی کو اس کا حصہ دینے پرکوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ اعتراض کر سکتی تھی اور اعتراض کرنے سے کوئی چیز مانع بھی نہ تھی اور اسی طرح جب بیٹی نے اپنا حصہ فروخت کیا تب بھی اس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماں لڑکی کے میراث کا حصہ لینے اور پھر اسکے فروخت کرنے پر راضی تھی ۔اسکے بعد ماں کو حق حاصل نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے لڑکی کو دیا ہے اسکا مطالبہ کرے اسی طرح و ہ خریدار سے بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور اسکی لڑکی نے جو معاملہ کیا ہے وہ صحیح ہے اور بیچی گئی چیز بھی خریدار کی ملکیت ہے۔
س ١٨7١: ایک شہید نے اپنے باپ کو وصیت کی کہ اگر اسکا قرض ادا کرنا اسکا مکان فروخت کئے بغیر ممکن نہ ہو تو اسکا مکان بیچ دے اور اسکی رقم سے اسکا قرض ادا کرے اسی طرح اس نے یہ بھی وصیت کی کہ کچھ رقم نیک کاموں میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت اسکے ماموں کو دی جائے اور اسکی ماں کو حج پربھیجے او رکچھ سالوں کی قضا نمازیں اور روزے اسکی طرف سے بجالائے جائیں پھر اسکے بعد اسکے بھائی نے اسکی بیوی سے شادی کرلی اور اس بات سے آگاہ ہونے کے ساتھ کہ گھر کا ایک حصہ شہید کی بیوی نے خرید لیا ہے وہ اس گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور اس نے مکان کی تعمیر کیلئے کچھ رقم بھی خرچ کردی اور شہید کے بیٹے سے سونے کا ایک سکہ بھی لے لیا تا کہ اسے گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے شہید کے گھر اور اسکے بیٹے کے اموال میں اسکے تصرفات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس امر کے پیش نظر کہ اس نے شہید کے بیٹے کی تربیت کی ہے اور اسکے اخراجات پورے کئے ہیں اسکا اس ماہانہ وظیفہ سے استفادہ کرنا جو شہید کے بیٹے سے مخصوص ہے کیا حکم رکھتاہے؟
ج : واجب ہے کہ اس شہید عزیز کے تمام اموال کا حساب کیا جا ئے اور اس سے اسکے تمام قرضے ادا کرنے کے بعد ، اسکے باقیماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ اسکی وصیت پر عمل کرنے کیلئے خرچ کیا جائے چنانچہ قضا نمازوں اور روزوں کے سلسلے میں اسکی وصیتوں کو پورا کیا جائے ،اسکی ماں کو سفرحج کے لئے اخراجات فراہم کئے جائیں اور اسی طرح دوسرے کام اور پھر دیگر دو حصوں اور مذکورہ ایک تہائی کے باقیماندہ مال کو شہید کے و رثا یعنی باپ ماں اولاد اور اس کی بیوی کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔اور اسکے گھر اور باقی اموال میں ہر قسم کے تصرفات کیلئے شہید کے ورثاء اور اسکے بچے کے شرعی ولی کی اجازت لینا ضروری ہے اور شہید کے بھائی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس نے گھر کی تعمیرکیلئے نابالغ بچے کے ولی کی اجازت کے بغیر جو اخراجات کئے ہیں انہیں وہ نابالغ کے مال سے وصول کرے اور اسی طرح اسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ نابالغ بچے کا سونے کا سکہ اور اس کا ماہانہ وظیفہ گھر کی تعمیر اور اپنے مخارج میں خرچ کرے بلکہ وہ انہیں خود بچے پر بھی خرچ نہیں کرسکتا البتہ اسکے شرعی ولی کی اجاز ت سے ایسا کرسکتا ہے ور نہ وہ اس مال کا ضامن ہوگا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ مال بچے کو واپس لوٹا دے اور اسی طرح ضروری ہے کہ گھر کی خرید بھی بچے کے شرعی ولی کی اجازت سے ہو۔
س١٨7٢: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا ہے کہ اسکے تمام اموال جو تین ایکڑپھلوں کے باغ پر مشتمل ہیں ان میں اس طرح مصالحت ہوئی ہے کہ اسکی وفات کے بعد ان میں سے دو ایکڑ اسکی اولاد میں سے بعض کیلئے ہواور تیسرا ایکڑ خود اس کیلئے رہے تا کہ اسے اسکی وصیت کے مطابق خرچ کیا جائے لیکن اسکی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ اسکے تمام باغات کا رقبہ دوایکڑ سے بھی کم ہے لہذا اولاً تو یہ بتائیے کہ جو کچھ اس نے وصیت نامہ میں لکھا ہے کیا وہ اسکے اموال پر اسی طرح مصالحہ شمار کیاجائے گا جیسے اس نے لکھا ہے یا یہ کہ اسکی وفات کے بعد اسکے اموال کے سلسلے میں وصیت شمار ہوگی ؟ ثانیاً جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسکے باغات کا رقبہ دو ایکڑ سے کمتر ہے تو کیا یہ سب اسکی اولاد سے مخصوص ہوگااورایک ایکڑ جو اس نے اپنے لیئے مخصوص کیاتھا منتفی ہوجائے گا یا یہ کہ کسی اور طرح سے عمل کیا جائے؟
ج : جب تک اس کی طرف سے اسکی زندگی میں صحیح اورشرعی صورت پر صلح کا ہونا ثابت نہ ہوجائے ـکہ جو اس بات پر موقوف ہے کہ جس سے صلح کی گئی ہے (مصالح لہ ) وہ صلح کرنے والے (مصالح) کی زندگی میں صلح کو قبول کرلے۔ اسوقت تک جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اسے وصیت شمار کیا جائے گا چنانچہ اسکی وصیت جو اس نے پھلوں کے باغات کے متعلق اپنی بعض اولاد اور خود اپنے لئے کی ہے وہ اسکے پورے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوگی اور اس سے زائد میں ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ایک تہائی سے زائد حصہ انکی محصے یراث ہے ۔
س ١٨7٣: ایک شخص نے اپنے تمام اموال اس شرط پر اپنے بیٹے کے نام کردیئے کہ باپ کی وفات کے بعد اپنی ہربہن کو میراث سے اسکے حصے کی بجائے نقد رقم کی ایک معین مقدار دے گا لیکن باپ کی وفات کے وقت اسکی بہنوں میں سے ایک بہن موجود نہ تھی جس کے نتیجے میں وہ اپنا حق نہ لے سکی جب وہ اس شہر میں واپس آئی تواس نے بھائی سے اپنا حق طلب کیا لیکن اس کے بھائی نے اس وقت اسے کچھ نہیں دیا اب جب کہ اس واقعہ کوکئی سال گزر چکے ہیں اور جس رقم کی وصیت کی گئی تھی اس کی قیمت کافی کم ہو گئی ہے اس وقت اسکے بھائی نے وصیت شدہ رقم ادا کرنے کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بہن وہ رقم موجودہ قیمت کے مطابق طلب کرتی ہے اور اسکا بھائی اسے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور بہن پر سود مانگنے کا الزام لگاتاہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اورشرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جسکی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو احوط یہ ہے کہ دونوں اس مقدار کے تفاوت کےسلسلے میں با ہمی طور پر مصالحت کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔
س ١٨7٤: میرے ماں باپ نے اپنی زندگی میں اپنے سب بچوں کے سامنے اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کے عنوان سے اپنی زرعی زمین کا ایک قطعہ مختص کیا تا کہ انکی وفات کے بعد اس سے کفن ، دفن اور قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے اخراجات میں استفادہ کیا جائے چونکہ میں انکا تنہا بیٹاہوں لہذا اس کے متعلق انہوں نے مجھے وصیت کی اورچونکہ انکی وفات کے بعدانکے پاس نقد رقم نہیں تھی لذا ان تمام امور کو انجام دینے کیلئے میں نے اپنی طرف سے رقم خرچ کی کیا اب میں وہ رقم مذکورہ ایک تہائی حصے سے لے سکتا ہوں۔
ج: جو کچھ آپ نے میت کیلئے خرچ کیا ہے اگر وہ اس نیت سے خرچ کیا ہو کہ اسے وصیت نامہ کے مطابق اسکے ایک تہائی اموال سے لے لوں گا تو آپ لے سکتے ہیں ورنہ جائز نہیں ہے۔
س ١٨7٥: ایک شخص نے وصیت کی کہ اگر اسکی بیوی اسکے مرنے کے بعد شادی نہ کرے تو جس گھر میں وہ رہتی ہے اسکا تیسرا حصہ اسکی ملکیت ہے اور اس بات کے پیش نظر کہ اسکی عدت کی مدت گزر گئی ہے اور اس نے شادی نہیں کی اور مستقبل میں بھی اسکے شادی کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تو وصیت کرنے والے کی وصیت پر عمل کے سلسلے میں وصی اوردیگر ورثا کی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: ان پر واجب ہے کہ فی الحال جسکی وصیت کی گئی ہے وہ ملک اسکی بیوی کو دے دیں لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے چنانچہ اگر بعد میں وہ شادی کرلے تو ورثاء کو فسخ کرنے اور ملک واپس لینے کا حق ہوگا۔
س ١٨7٦: جب ہم نے باپ کی وہ میراث تقسیم کرنے کاارادہ کیا جو اسے اپنے باپ سے ملی تھی اور جو ہمارے ،ہمارے چچا اور ہماری دادی کے درمیان مشترک تھی اور انہیں بھی وہ مال ہمارے دادا کی طرف سے وراثت میں ملاتھا تو انھوں نے دادا کا تیس سال پرانا وصیت نامہ پیش کیا جس میں دادی اور چچا میں سے ہر ایک کو میراث سے انکے حصے کے علاوہ ، معین مقدار میں نقد رقم کی بھی وصیت کی گئی تھی لیکن ان دونوں نے مذکورہ رقم کو اسکی موجودہ قیمت میں تبدیل کرکے مشترکہ اموال سے وصیت شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اپنے لیئے مخصوص کرلیا ہے کیا انکا یہ کام شرعی طور پر صحیح ہے؟
ج: احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے تفاوت کے متعلق با ہمی طور پر مصالحت کریں۔
س ١٨7٧: ایک شہید عزیز نے وصیت کی ہے کہ جو قالین اس نے اپنے گھر کیلئے خریدا ہے اسے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حرم کو ہدیہ کردیا جائے ، اسوقت اگر اسکی وصیت پر عمل کے امکان تک اس قالین کو ہم اپنے گھر میں رکھیں تو اسکے ضائع ہونے کا خوف ہے ۔ کیا نقصان سے بچنے کیلئے اس سے محلہ کی مسجد یا امام بارگاہ میں استفادہ کر سکتے ہیں؟
ج: اگر وصیت پر عمل کرنے کا امکان پیدا ہونے تک قالین کی حفاظت اس بات پر موقوف ہو کہ اسے وقتی طور پر مسجد یا امام بارگاہ میں استعمال کیا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے۔
س ١٨7٨: ایک شخص نے وصیت کی کہ اسکی بعض املاک کی آمدنی کی ایک مقدار مسجد ، امام بارگاہ ، دینی مجالس اور نیکی کے دیگر کاموں میں خرچ کی جائے لیکن اسکی مذکورہ ملک اور دوسری املاک غصب ہوگئی ہیں اور انکے غاصب سے واپس لینے کیلئے خرچ کرنے کی ضرورت ہے کیا ان اخراجات کااسکی وصیت کردہ مقدار سے وصول کرنا جائز ہے؟ اور کیاصرف ملک کے غصب سے آزاد ہونے کا امکان وصیت کے صحیح ہونے کیلئے کافی ہے؟
ج: غاصب کے قبضہ سے املاک واپس لینے کے اخراجات وصیت شدہ ملک سے وصول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کسی ملک کے بارے میں وصیت کے صحیح ہونے کیلئے اس کا وصیت کے مورد میں قابل استفادہ ہونا کافی ہے اگر چہ یہ غاصب کے ہاتھ سے مال واپس لینے اور اس کیلئے خرچ کرنے کے بعد ہی ممکن ہو۔
س ١٨7٩: ایک شخص نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال کی اپنے بیٹے کیلئے وصیت کی اور یوں اس نے چھ بیٹیوں کو میراث سے محروم کردیا کیا یہ وصیت نافذ اور قابل عمل ہے؟ اور اگر قابل عمل نہیں ہے تو ان اموال کو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے؟
ج: اجمالی طور پر مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ میراث کے صرف تیسرے حصے میں نافذ ہے اور اس سے زائد مقدار میں تمام ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے ۔ نتیجتاً اگر بیٹیاں اسکی اجازت سے انکار کریں تو ان میں سے ہر ایک ترکہ کے باقیماندہ دو تہائی میں سے اپنا حصہ لے گی لہذا اس صورت میں باپ کا مال چو بیس حصوں میں تقسیم ہوگا اور اس میں سے بیٹے کا حصہ وصیت شدہ مال کے ایک تہائی کے عنوان سے ٢٤/٨اور باقی ماندہ دو تہائی (٢٤/١٦)میں سے بیٹے کا حصہ ٢٤/٤ہوگا اور بیٹیوں میں سے ہرایک کا حصہ ٢٤/٢ ہوگا اور باالفاظ دیگر پورے ترکے کا آدھا حصہ بیٹے کا ہے اور دوسرا آدھا حصہ چھ بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔
- غصب
غصب کے احکام
س ١٨8٠: ایک شخص نے زمین کا ایک قطعہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر خرید کر ایک معمولی دستاویز اسکے نام پر یوں مرتب کی:" فروخت کرنے والا فلاں شخص ہے اور خریدنے والا بھی اسکا فلاں بیٹا ہے" بچے نے بالغ ہونے کے بعد وہ زمین دوسرے شخص کو فروخت کردی لیکن باپ کے ورثاء دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انکے باپ کی میراث ہے اور باوجود اس کے کہ انکے باپ کا اس دستاویز میں نام ہی نہیں ہے انہوں نے اس زمین پر قبضہ کر لیا ہے ۔ کیا اس صورت میں ورثادوسرے خریدارکیلئے مزاحمت پیدا کرسکتے ہیں؟
ج: صرف معاملہ کی دستاویز میں نابالغ بچے کا نام خریدار کے طور پر ذکر ہونا اسکی ملکیت کی دلیل نہیں ہے البتہ اگر ثابت ہو جائے کہ باپ نے جو زمین اپنے پیسے سے خریدی ہے اسے اپنے بیٹے کو ہبہ کردیا ہے یا اسکے ساتھ صلح کرلی ہے تو اس صورت میں زمین بیٹے کی ملکیت ہے اور بالغ ہونے کے بعد اگروہ زمین صحیح شرعی طور پر دوسرے خریدار کو فروخت کردے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسکے لیئے رکاوٹ پیداکرے یا اس سے زمین چھینے۔
س ١٨8١: زمین کا ایک قطعہ جسے چندخریداروں نے خریدا اور بیچا ہے میں نے اسے خرید کر اس میں مکان بنالیاہے اب ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک وہ ہے اور اسکی رجسٹری بھی انقلاب اسلامی سے پہلے قانونی طور پر اسکے نام ثبت ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے اس نے میرے اور میرے بعض پڑوسیوں کے خلاف عدالت میں شکایت کی ہے کیا اسکے دعویٰ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس زمین میں میرے تصرفات غصب شمار ہونگے؟
ج: پہلے جس شخص کے قبضے میں یہ زمین تھی اسے اس سے خرید نا ظاہر شریعت کے مطابق صحیح ہے اور زمین خریدار کی ملکیت ہے اور جب تک وہ شخص جو زمین کی پہلی ملکیت کا مدعی ہے عدالت میں اپنی شرعی ملکیت ثابت نہ کردے اسے موجودہ مالک اورتصرف کرنے والے کیلئے رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں ہے۔
س ١٨8٢: ایک زمین ایک معمولی دستاویز میں باپ کے نام ہے اور کچھ عرصے کے بعد اسکی قانونی دستاویز اسکے نابالغ بچے کے نام صادر ہوتی ہے لیکن ابھی زمین باپ کے قبضے میں ہے اب بچہ بالغ ہوگیا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین اسکی ملکیت ہے کیونکہ سرکاری رجسٹری اسکے نام ہے لیکن اسکا باپ یہ کہتا ہے کہ اس نے یہ زمین اپنی رقم سے خود اپنے لیئے خریدی ہے اور صرف ٹیکس سے بچنے کیلئے اسے اپنے بیٹے کے نام کیا ہے کیا اگر اسکا بیٹا اس زمین میں اپنے باپ کی مرضی کے خلاف تصرف کرے تو وہ غاصب شمار ہوگا؟
ج: اگر باپ نے وہ زمین اپنی رقم سے خریدکی ہے اوربیٹے کے بالغ ہونے کے بعد تک اس میں تصرف کررہا تھا توجب تک بیٹا یہ ثابت نہ کردے کہ باپ نے وہ زمین اسے ہبہ کی ہے اور اسکی ملکیت اسے منتقل کردی ہے اس وقت تک اسے حق نہیں ہے کہ وہ صرف رجسٹری اپنے نام ہونے کی بنا پر باپ کو زمین میں تصرف کرنے سے منع کرے اور اسکے لیئے رکاوٹ پیدا کرے۔
س١٨8٣: ایک شخص نے پچاس سال پہلے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اب وہ ایک اونچے پہاڑ کے نام کا سہارا لیکر کہ جسکا ذکر رجسٹری میں زمین کی حدود کے طور پر آیا ہے ،دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دسیوں لاکھ میٹر عمومی زمین اوران دسیوں پرانے گھروں کا مالک ہے جو اسکی خریدی ہوئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان واقع ہیں اسی طرح وہ اس بات کا بھی مدعی ہے کہ اس علاقہ کے لوگوں کی ان گھروں اور مذکورہ زمینوں میں نماز غصب کی بناپر باطل ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دور میں ان زمینوں اور پرانے مکانوں میں اس نے کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جو اس جگہ واقع ہیں اور ایسے دلائل بھی موجود نہیں ہیں جو اس زمین کی سینکڑوں سالہ پرانی صورت حال کو واضح کریں اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟
ج: جو زمین خریدی گئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان ہے کہ جو اسکی حدود کے طور پر اسکی دستاویز میں مذکور ہے اگر وہ غیر آباد زمین ہو کہ جو پہلے کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں تھی یا ان زمینوں میں سے ہو کہ جو گذشتہ لوگوں کے تصرف میں تھیں اور اب ان سے منتقل ہو کر دوسروں کے تصرف میں آگئی ہیں تو اس صورت میں جس شخص کے پاس جتنی مقدارزمین یا مکان ہے اوروہ اسکے مالکانہ تصرف میں ہے شرعی طور پر وہ اس کا مالک ہے اور جب تک مدعی اپنی مالکیت کو شرعی طور پر عدالت میں ثابت نہ کردے اس وقت تک اس ملک میں ان کے تصرفات مباح اور حلال ہیں۔
س ١٨8٤: قاضی نے جس زمین کے ضبط کرنے کا حکم دیا ہوکیا اس میں اسکے پچھلے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا جائز ہے؟ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا جائز ہے؟
ج : اگر مذکورہ زمین حاکم شرع کے حکم سے یا حکومت اسلامی کے موجودہ قانون کی بناپر پہلے مالک سے ضبط کی گئی ہو یا اس کی ملکیت کے مدعی کیلئے شرعی ملکیت ثابت نہ ہوتو اس کی ملکیت کے مدعی یا پہلے مالک کی اجازت لازمی نہیں ہے پس اس میں مسجد بنانا ، نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا اشکال نہیں رکھتا۔
س ١٨8٥: ایک زمین نسل بہ نسل میراث کے ذریعہ ورثاء تک پہنچی پھر ایک غاصب نے اسے غصب کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کے قائم ہونے کے بعد ورثا نے غاصب سے اس زمین کو واپس لینے کا اقدام کیا ۔ کیا شرعی طور پر یہ ورثاء کی ملکیت ہے یا انہیں صرف اسکے حکومت سے خریدنے میں حق تقدم حاصل ہے؟
ج: ارث کے ذریعہ فقط گذشتہ تصرفات کا لازمہ اسکی ملکیت یا اسکے خریدنے میں حق تقدم نہیں ہے لیکن جب تک اسکے برخلاف ثابت نہ ہو جائے تب تک شرعی طور پر ملکیت ثابت ہے لہذا اگر ثابت ہوجائے کہ ورثاء زمین کے مالک نہیں ہیں یا زمین پر کسی اور کی ملکیت ثابت ہوجائے تو ورثاء کو زمین یا اسکے عوض کے مطالبہ کا حق نہیں ہے ورنہ ذو الید (قبضے والا) ہونے کے اعتبارسے انہیں اصل زمین یا اسکے عوض کے مطالبہ کا حق ہے۔
- بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
س ١٨8٦:ایک شخص کی ایک بیٹی اور ایک بالغ سفیہ بیٹا ہے جو اسکے زیر سرپرستی ہے ، کیا باپ کے مرنے کے بعد جائز ہے کہ بہن اپنے سفیہ بھائی کے اموال میں ولایت اورسرپرستی کے عنوان سے تصرف کرے؟
ج: بھائی اور بہن کو اپنے سفیہ بھائی پر ولایت حاصل نہیں ہے اوراگر اس کا دادا موجود نہ ہو اور باپ نے بھی اس پر ولایت اور سرپرستی کے سلسلے میں کسی کو وصیت نہ کی ہو تو سفیہ بھائی اور اسکے اموال پر حاکم شرع کو ولایت حاصل ہو گی۔
س ١٨8٧: کیا لڑکے اور لڑکی کے سن بلوغ میں شمسی سال معیار ہے یا قمری ؟
ج : قمری سال معیار ہے۔
س ١٨8٨: اس امر کو تشخیص دینے کیلئے کہ ایک شخص بالغ ہونے کے سن کو پہنچا ہے یا نہیں کس طرح قمری سال کی بنیاد پر اسکی تاریخ ولادت کو سال اور مہینے کے اعتبار سے حاصل کرسکتے ہیں؟
ج: اگر شمسی سال کی بنیاد پر اسکی ولادت کی تاریخ معلوم ہو تو اسے قمری اور شمسی سال کے درمیان فرق کا حساب کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
س ١٨8٩: جو لڑکا پندرہ سال سے پہلے محتلم ہوجائے کیا اسے بالغ سمجھا جائیگا؟
ج: احتلام ہو جانے سے وہ بالغ سمجھا جائے گا کیونکہ شرعی طورپر احتلام بلوغ کی علامات میں سے ہے۔
س١٨9٠: اگر دس فیصد احتمال ہوکہ بلوغ کی دوسری دو علامتیں ( مکلف ہونے کے سن کے علاوہ) جلدی ظاہر ہوگئی ہیں تو اس صورت میں حکم کیا ہے؟
ج: محض یہ احتمال دینا کہ وہ دو علامتیں جلدی ظاہر ہوگئی ہیں بلوغ کا حکم ثابت ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔
س ١٨9١: کیا جماع کرنا بالغ ہونے کی علامات میں سے شمار ہو تا ہے اور اسکے انجام دینے سے شرعی فرائض واجب ہوجاتے ہیں؟اور اگر کوئی شخص اسکے حکم سے واقفیت نہ رکھتا ہو اور اسطرح کئی سال گزر جائیں تو کیا اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے؟ اور وہ اعمال جن میں طہارت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اگر انہیں غسل جنابت کرنے سے پہلے انجام دے تو کیا وہ باطل ہیں؟ اور انکی قضا واجب ہے؟
ج: انزال اور منی خارج ہوئے بغیر صرف جماع ، بالغ ہونے کی علامت نہیں ہے لیکن یہ جنابت کا باعث بن جاتاہے لہذابلوغ کے وقت غسل کرنا واجب ہوگا اور جب تک بلوغ کی کوئی علامت انسان میں نہ پائی جائے شرعی طور پر وہ بالغ نہیں ہے اور اس کیلئے احکام شرعی کا بجالانا ضروری نہیں ہے اور جو شخص بچپن میں جماع کی وجہ سے مجنب ہوا ہو اور بالغ ہونے کے بعد غسل جنابت انجام دیئے بغیر اس نے نمازیں پڑھی اور روزے رکھے ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کرے لیکن اگر وہ جنابت کے بارے میں جاہل تھا تو اس پر روزوں کی قضا بجالانا واجب نہیں ہے۔
س ١٨9٢: ہمارے سکول کے بعض طالب علم لڑکے اور لڑکیاں اپنی ولادت کی تاریخ کے اعتبار سے بالغ ہوگئے ہیں لیکن انکے حافظہ میں خلل اور کمزوری کی وجہ سے انکا طبّی معائنہ کیا گیا تا کہ انکی ذہنی صلاحیت اور حافظہ چیک کیا جائے معائنہ کے نتیجے میں ثابت ہوا کہ وہ گذشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے ذہنی طور پر پسماندہ ہیں لیکن ان میں سے بعض کو پاگل شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ دینی اور معاشرتی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیا اس مرکز کی تشخیص ڈاکٹروں کی تشخیص کی طرح معتبر ہے اور ان طالب علموں کیلئے ایک معیار ہے؟
ج : انسان پر شرعی ذمہ داریاں عائد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ شرعی طور پر بالغ ہو اور عرف کے اعتبار سے عاقل ہو لیکن ہوش و فہم کے درجات معتبر نہیں ہیں اور اس میں انکا کوئی اثر نہیں ہے۔
س ١٨9٣: بعض احکام میں خاص طورپر ممیّز بچے کے سلسلے میں آیا ہے :" جو بچہ خوب اور بد کوپہچانتا ہو " خوب اور بد سے کیا مراد ہے؟ اور تمیز کا سن کونسا سن ہے؟
ج: خوب و بد سے مراد وہ چیز ہے جسے عرف خوب اور بد سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں بچے کی زندگی کے حالات ، عادات و آداب اورمقامی رسم و رواج کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور سن تمیز ، افراد کی استعداد اور درک و فہم کے اختلاف کی بنیاد پر مختلف ہے۔
س ١٨9٤: کیا لڑکی کیلئے نوسال پورے ہونے سے پہلے ایسے خون کا دیکھنا جس میں حیض کی نشانیاں موجود ہوں ، اسکے بالغ ہونے کی علامت ہے؟
ج: یہ خون لڑکی کے بالغ ہونے کی شرعی علامت نہیں ہے اور حیض کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ اس میں حیض کی علامات موجود ہوں۔
س ١٨9٥: جو شخص کسی وجہ سے عدالت کی طرف سے اپنے مال میں تصرف کرنے سے ممنوع ہوجائے اگر وہ اپنی وفات سے پہلے اپنے اموال میں سے کچھ مقدار اپنے بھتیجے کی خدمت کے شکریے اور قدردانی کے عنوان سے اسے دے اوروہ بھتیجا اپنے چچاکی وفات کے بعد مذکورہ اموال اسکی تجہیز و تکفین اور دوسری خاص ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کردے ، تو کیاعدالت اس سے اس مال کا مطالبہ کرسکتی ہے؟
ج: اگر وہ مال جو اس نے اپنے بھتیجے کو دیا ہے حجر کے دائرے میں ہو یا کسی دوسرے کی ملک ہو تو شرعی طور پراسے حق نہیں ہے کہ وہ مال بھتیجے کو دے اور اسکا بھتیجا بھی اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اور عدالت کیلئے جائز ہے کہ وہ اس مال کااس سے مطالبہ کرے ورنہ کسی کو وہ مال واپس لینے کا حق نہیں ہے ۔
- مضاربہ
مضاربہ کے احکام
س ١٨9٦: کیا سونے اور چاندی کے غیرکے ساتھ مضاربہ جائز ہے ؟
ج : جو کرنسی آج کل رائج ہے اسکے ساتھ مضاربہ میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اجناس اور سامان کے ساتھ مضاربہ جائز نہیں ہے ۔
س ١٨9٧: کیا تجارت ، سپلائی ، سرویس فراہم کرنے اور پیداوار کے سلسلے میں عقد مضاربہ سے استفادہ کرنا صحیح ہے ؟ اور کیا وہ عقود جومضاربہ کے عنوان سے غیر تجارتی کاموں میں آج کل متعارف ہوگئے ہیں شرعی طور پر صحیح ہیں یا نہیں؟
ج : عقد مضاربہ صرف خرید و فروش کے ذریعہ تجارت میں سرمایہ کاری کرنے سے مخصوص ہے اور اس سے سپلائی ،سرویس فراہم کرنے ،پیداواری کاموں اور اس جیسے دیگر امور میں استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن ان امور کو دیگر شرعی عقود کے ساتھ انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے جعالہ ، صلح و غیرہ ۔
س ١٨9٨: میں نے اپنے دوست سے مضاربہ کے عنوان سے ایک مقدار رقم اس شرط پر لی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ اسے واپس لوٹا دوں گا اور میں نے رقم میں سے کچھ مقدار اپنے ایک ضرورتمند دوست کو دے دی اور یہ طے پایا کہ منافع کا ایک تہائی وہ ادا کرے گاکیا یہ کام صحیح ہے ؟
ج : اس شرط پر کسی سے رقم لینا کہ کچھ عرصے کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کرے گا مضاربہ نہیں ہے بلکہ سودی قرض ہے جو کہ حرام ہے اور اس رقم کا مضاربہ کے عنوان سے لینا ، اس کی جانب سے قرض شمار نہیں ہوگا لہٰذا یہ رقم لینے والے کی ملک قرار نہیں پائے گی بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت پر باقی ہے اور رقم لینے والے اور عامل کو صرف اس سے تجارت کرنے کا حق ہے اور دونوں نے باہمی طور پرجو توافق کیا ہے اسکی روشنی میں یہ اسکے منافع میں شریک ہیں اور عامل کو حق نہیں ہے کہ وہ مال کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں سے کچھ رقم کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے یامضاربہ کے عنوان سے کسی دوسرے کے اختیار میں قرار دے ۔
س ١٨9٩:ان لوگوں سے مضاربہ کے نام پر رقم قرض لینا ۔ جو مضاربہ کے عنوان سے رقم دیتے ہیں تاکہ طے شدہ معاملہ کے مطابق ہر مہینہ ایک لاکھ تومان کے عوض تقریباً چار یا پانچ ہزار تومان منافع حاصل کریں ۔کیا حکم رکھتاہے ؟
ج : مذکورہ صورت میں قرض لینا مضاربہ نہیں ہے بلکہ یہ وہی سودی قرض ہے جو حکم تکلیفی کے لحاظ سے حرام ہے اور عنوان میں ظاہری تبدیلی لانے سے حلال نہیں ہوگا ۔ اگرچہ اصل قرض صحیح ہے اور قرض لینے والا مال کا مالک بن جاتا ہے ۔
س900 ١: ایک شخص نے کچھ رقم دوسرے کو دی تا کہ وہ اس سے تجارت کرے اور ہر مہینہ کچھ رقم منافع کے طور پر اسے ادا کرے اور اسکے تمام نقصانات بھی اسی کے ذمہ ہوں کیا یہ معاملہ صحیح ہے ؟
ج: اگریوں طے کریں کہ اسکے مال کے ساتھ صحیح شرعی طور پر مضاربہ عمل میں آئے اور عامل پر شرط لگائے کہ ہر مہینہ اسکے منافع میں سے اسکے حصے سے کچھ مقدار اسے دیتا رہے اور اگر سرمایہ میں کوئی خسارہ ہوا تو عامل اس کا ضامن ہے تو ایسا معاملہ صحیح ہے۔
س ١90١: میں نے ایک شخص کو وسائل حمل و نقل کے خریدنے ، ان کے درآمد کرنے اور پھر بیچنے کیلئے کچھ رقم دی اور اس میں یہ شرط لگائی کہ ان کو فروخت کرنے سے جو منافع حاصل ہوگا وہ ہمارے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگا اور اس نے ایک مدت گزرنے کے بعد کچھ رقم مجھے دی اور کہا : یہ تمہارا منافع ہے کیا وہ رقم میرے لیئے جائز ہے ؟
ج: اگرآپ نے سرمایہ مضاربہ کے عنوان سے اسے دیا ہے اور اس نے بھی اس سے وسائل حمل و نقل کو خریدا اور بیچاہو اور پھر اسکے منافع سے آپ کا حصہ دے تو وہ منافع آپ کے لیئے حلال ہے۔
س ١90٢: ایک شخص نے دوسرے کے پاس کچھ رقم تجارت کیلئے رکھی ہے اور ہر مہینہ اس سے اندازے کے ساتھ کچھ رقم لیتا ہے اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرتے ہیں اگر رقم کا مالک اور وہ شخص با ہمی رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے کو نفع و نقصان بخش دیں تو کیا ان کیلئے اس کام کا انجام دینا صحیح ہے؟
ج: اگر یہ مال صحیح طور پر مضاربہ انجام دینے کے عنوان سے اسے دیا ہے تو مال کے مالک کیلئے ہر مہینہ عامل سے منافع کی رقم کی کچھ مقدارلینے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسی طرح ان دونوں کیلئے ان چیزوں کی نسبت مصالحت کرنا بھی صحیح ہے جو شرعی طور پر وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں لیکن اگر وہ مال قرض کے طور پر ہو اور اس میں یہ شرط طے پائی ہو کہ مقروض قرض خواہ کوہر مہینہ کچھ منافع ادا کرے اور پھر سال کے آخر میں جو مال وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں اس کے بارے میں صلح کرلیں تو یہ وہی سودی قرض ہے جو حرام ہے اوراسکے ضمن میں شرط کرنا بھی باطل ہے اگر چہ اصل قرض صحیح ہے اور یہ کام محض دونوں کے ایک دوسرے کو نفع و نقصان ھبہ کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا لہذا قرض خواہ کسی قسم کا منافع نہیں لے سکتا جیسا کہ وہ کسی قسم کے نقصان کا بھی ضامن نہیں ہے ۔
س ١90٣: ایک شخص نے مضاربہ کے عنوان سے دوسرے سے مال لیا اور اس میں یہ شرط لگائی کہ اس کے منافع کا دو تہائی حصہ اس کا ہوگا اور ایک تہائی مالک کا ہوگا اس مال سے اس نے کچھ سامان خرید کر اپنے شہر کی طرف بھیجا جو راستے میں چوری ہوگیا یہ نقصان کس کے ذمہ ہے ؟
ج: تجارت کے مال یا سرمایہ کے تمام یا بعض حصے کا تلف اور ضائع ہوجانا اگر عامل یا کسی دوسرے شخص کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو تو سرمایہ لگانے والے کے ذمہ ہے اور مال کے منافع سے اس نقصان کو پورا کیا جائیگا مگر یہ کہ اس میں شرط ہو کہ سرمایہ لگانے والے کانقصان عامل کے ذمہ ہوگا ۔
س ١90٤: کیاجائز ہے کہ جو مال کاروبار یا تجارت کیلئے کسی کو دیا جائے یا کسی سے لیا جائے اس میں یہ شرط لگائیں کہ اس سے حاصل شدہ منافع بغیر اسکے کہ یہ سود ہو ان دونوں کے درمیان انکی رضامندی سے تقسیم کیاجائے ؟
ج: اگر تجارت کیلئے مال کا دینا یا لینا قرض کے عنوان سے ہو تو اسکا تمام منافع قرض لینے والے کا ہے جس طرح کہ اگر مال تلف ہوجائے تو وہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور مال کا مالک مقروض سے صرف اس مال کا عوض لینے کا مستحق ہے اور جائز نہیں ہے کہ وہ اس سے کسی قسم کا منافع وصول کرے اور اگر مضاربہ کے عنوان سے ہو تو اسکے نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عقد مضاربہ انکے درمیان صحیح طور پر منعقد ہواہو اور اسی طرح ان شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جو اسکے صحیح ہونے کیلئے لازمی ہیں اوران میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ دونوں منافع سے اپنا اپنا حصہ کسر مشاع کی صورت میں معین کریں ورنہ وہ مال اور اس سے حاصل شدہ تمام آمدنی مالک کی ہوگی اور عامل صرف اپنے کام کی اجرة المثل (مناسب اجرت) لینے کا مستحق ہوگا۔
س ١90٥: اس امر کے پیش نظر کہ بینک کے معاملات واقعی مضاربہ نہیں ہیں کیونکہ بینک کسی قسم کے نقصان کو اپنے ذمہ نہیں لیتا کیا وہ رقم جو پیسہ جمع کرانے والے ہر مہینہ بینک سے منافع کے طور پر لیتے ہیں حلال ہے؟
ج: صرف نقصان کا بینک کی طرف سے قبول نہ کرنا مضاربہ کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا اور اسی طرح یہ چیز اس عقد کے صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مضاربہ ہونے کی بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مالک یا اس کا وکیل عقد مضاربہ کے ضمن میںشرط کرے کہ عامل، سرمایہ کے مالک کے ضرر اور نقصانات کا ضامن ہوگا لہذا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ مضاربہ جو بینک سرمایہ جمع کرانے والوں کے وکیل کے عنوان سے انجام دینے کا مدعی ہے وہ صرف ظاہری ہے اور کسی سبب سے باطل ہے تب تک وہ مضاربہ صحیح ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع جو سرمایہ جمع کرانے والوں کو دیا جاتاہے حلال ہے۔
س١90٦: میں نے رقم کی ایک معین مقدار ایک زرگر کودی تا کہ وہ اسے خرید و فروش کے کام میں لائے اور چونکہ وہ ہمیشہ منافع حاصل کرتاہے اور نقصان نہیں اٹھاتا کیا جائز ہے کہ ہر مہینہ ، میں اسکے منافع سے خاص رقم کا اس سے مطالبہ کروں؟ اگر اس میں کوئی اشکال ہو تو کیا جائز ہے اس مقدار کے بدلے میں سونا چاندی لے لوں؟ اور اگر وہ رقم اس شخص کے ذریعہ جو ہمارے درمیان واسطہ ہے ادا ہوتو کیا اشکال ختم ہوجائے گا؟ اور اگر وہ اس رقم کے عوض کچھ رقم ہدیہ کے عنوان سے مجھے دے دے تو کیا پھر بھی اشکال ہے؟
ج: مضاربہ میں شرط ہے کہ منافع میں سے سرمائے کے مالک اور عامل ہر ایک کا حصہ نصف، تہائی یا چوتھائی و غیرہ کی صورت میں معین ہولہذا کسی خاص رقم کو ماہانہ منافع کے طورپر سرمائے کے مالک کیلئے معین کرنے سے مضاربہ صحیح نہیں ہوگا چاہے وہ ماہانہ منافع جو مقرر ہوا ہے نقد ہو یا سونا چاندی یا کسی سامان کی شکل میں اور چاہے اسے براہ راست وصول کرے یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ سے اور چاہے اسے منافع میں سے اپنے حصہ کے عنوان سے وصول کرے یا عامل وہ رقم اس تجارت کے بدلے میں جو اس نے اسکے پیسے کے ساتھ کی ہے ، ہدیہ کے عنوان سے اسے دے ۔ہاں یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ سرمائے کا مالک اسکے منافع کے حاصل ہونے کے بعد ہر مہینے اندازے کے ساتھ اس سے کچھ مقدار لیتا رہے گا تا کہ عقد مضاربہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کا حساب کرلیں۔
س١90٧:ایک شخص نے کچھ لوگوں سے مضاربہ کے عنوان سے تجارت کیلئے کچھ رقم لی ہے اور اس میں یہ شرط کی ہے کہ اسکا منافع اسکے اور صاحبان اموال کے درمیان انکی رقم کے تناسب سے تقسیم ہو گا اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج : اگر رقم کا باہمی طور پر تجارت کیلئے خرچ کرنا اسکے ما لکان کی اجازت کے ساتھ ہو تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س١90٨: کیا عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط لگانا جائز ہے کہ عامل ہرماہ صاحب سرمایہ کو منافع میں سے اسکے حصہ سے کچھ رقم دیتار ہے اور کمی اور زیادتی کی نسبت مصالحت کرلیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا صحیح ہے کہ عقد لازم کے ضمن میں ایسی شرط لگائیں جو احکام مضاربہ کے خلاف ہو ؟
ج : اگر شرط وہی صلح ہو یعنی صاحب سرمایہ اسکے منافع میں سے اپنے حصے کا کہ جو کسر مشاع کے طور پر معین کیا گیا ہے عامل کی اس رقم ساتھ مصالحت کرے جو وہ اسے ہر مہینہ دے رہا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ منافع میں سے مالک کے حصہ کا تعین اس رقم کی صورت میں ہوگا کہ جو عامل ہر ماہ اسے ادا کریگا تو یہ شرط، عقدِمضاربہ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے پس باطل ہے۔
س١90٩: ایک تاجرنے کسی شخص سے مضاربہ کے سرمایہ کے عنوان سے اس شرط پر کچھ رقم لی کہ تجارت کے منافع سے چند معین فیصد رقم اسے دے گا نتیجہ کے طور رپر اس نے وہ رقم اور اپنا سرمایہ اکٹھا کر کے تجارت میں لگادیا اور دونوں ابتدا ہی سے جانتے تھے کہ اس رقم کے ماہانہ منافع کی مقدار کو تشخیص دینا مشکل ہے اسی بنا پر انھوں نے مصالحت کرنے پراتفاق کرلیا،کیا شرعی طور پر اس صورت میں مضاربہ صحیح ہے ؟
ج : مالک کے سرمایہ کے منافع کی ماہانہ مقدار کی تشخیص کے ممکن نہ ہونے سے عقد مضاربہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔شرط یہ ہے کہ مضاربہ کی صحت کے دیگر شرائط کی رعایت کی گئی ہو پس اگر عقد مضاربہ اسکی شرعی شرائط کی روشنی میں منعقد کریں اور پھر اتفاق کرلیں کہ حاصل ہونے والے منافع کے سلسلے میں مصالحت کریں اس طرح کہ منافع حاصل ہونے کے بعد سرمایہ کا مالک اس میں سے اپنے حصے پر معین رقم کے بدلے میں صلح کرلے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٩1٠: ایک شخص نے کچھ رقم مضاربہ کے طور پر کسی دوسرے کو اس شرط پر دی کہ تیسرا شخص اس مال کی ضمانت اٹھائے اس صورت میں اگر عامل وہ رقم لیکر بھاگ جائے تو کیا پیسے کے مالک کوحق ہے کہ اپنی رقم لینے کیلئے ضامن کے پاس جائے؟
ج :مذکورہ صورت میں مضاربہ والے مال کو ضمانت کی شرط کے ساتھ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے پس وہ رقم جو عامل نے مضاربہ کے طور پر لی تھی اگر اسے لے کر بھاگ جائے یا کوتاہی کرتے ہوئے اسے تلف کردے تو صاحب سرمایہ کو حق ہے کہ وہ اس کا عوض لینے کیلئے ضامن کے پاس جائے ۔
س ١٩1١: اگر عامل مضاربہ کی اس رقم کی کچھ مقدار جو اس نے متعدد افراد سے لے رکھی ہے اسکے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے دے چاہے یہ رقم مجموعی سرمایہ میں سے ہویا کسی خاص شخص کے سرمایہ سے تو کیا اسے (اس کے ید کو) دوسروں کے اموال کی نسبت جوانھوں نے اسکے پاس مضاربہ کے طور پر رکھے ہیں خیانت کار (ید عدوانی) شمار کیا جائے گا ؟
ج: جو مال اس نے مالک کی اجازت کے بغیر قرض کے طور پر کسی دوسرے کو دیا ہے اسکی نسبت اسکی امانتداری (ید امانی) خیانت کاری (ید عدوانی) میں بدل جائے گی۔ نتیجہ کے طور پر وہ اس مال کا ضامن ہے لیکن دیگر اموال کی نسبت جب تک وہ افراط و تفریط نہ کرے امانتدار کے طور پر باقی رہے گا ۔
- بینک
- بیمہ (انشورنس)
بیمہ (انشورنس)
س ١٩5٢:زندگی کے بیمہ ( لائف انشورنس)کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ١٩5٣: کیا علاج معالجے کے بیمہ کارڈ سے اس شخص کیلئے استفادہ کرنا جائز ہے جو صاحب کارڈ کے اہل و عیال میں سے نہیں ہے؟ اور کیا مالک اس کا رڈ کو دوسروں کے اختیار میں دے سکتاہے؟
ج: علاج معالجہ کے بیمہ کارڈ سے صرف وہی شخص استفادہ کرسکتاہے کہ جس کے ساتھ بیمہ کمپنی نے اپنی بیمہ سہولیات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس سے دوسروں کا استفادہ کرنا ضامن ہونے کا موجب ہے۔
س ١٩5٤: زندگی کے بیمہ کی تحریری دستاویز میں بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے سے یہ عہد کرتی ہے کہ اسکی وفات کے بعد وہ کچھ رقم ان لوگوں کو ادا کریگی جنہیں بیمہ کرانے والا معین کرتا ہے اگر یہ شخص مقروض ہو اور اسکا قرض ادا کرنے کیلئے اس کا مال کافی نہ ہو توکیا اس کے قرض خواہوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے قرض اس رقم سے وصول کرلیں جو بیمہ کمپنی ادا کرتی ہے ؟
ج: یہ چیز اس باہمی توافق کے تابع ہے جو بیمہ کی دستاویز میں لکھا گیا ہے اگر اس میں انہوں نے یہ طے کیا ہے کہ بیمہ کرانے والے شخص کی وفات کے بعد بیمہ کمپنی مقررہ رقم اس شخص یا اشخاص کو ادا کرے جنہیں اس نے معین کیا ہے تو اس صورت میں جو چیز کمپنی ادا کرتی ہے وہ میت کے ترکہ کا حکم نہیں رکھتی بلکہ وہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جنہیں متوفی نے وہ رقم وصول کرنے کیلئے معین کیا ہے۔
- سرکاری اموال
- وقف
- قبرستان کے احکام
قبرستان کے احکام
س ٢10١: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کو اپنی ملکیت میں لانے اور اس میں ذاتی عمارتیں بنانے اور اسے بعض اشخاص کے نام پر ملک کے عنوان سے ثبت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور کیا مسلمانوں کا عمومی قبرستان وقف شمار ہوگا؟ اور کیا اس میں ذاتی تصرف کرنا غصب ہے ؟ اور کیا اس میں تصرف کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تصرفات کے سلسلے میں اجرة المثل ادا کریں ؟ اور اجرة المثل کا ضامن ہونے کی صورت میں اس مال کو کس جگہ خرچ کیا جائیگا؟ اور اس میں تعمیر کی گئی عمارتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کی ملکیت کی محض دستاویزاپنے نام کر ا لینا نہ تو اسکی شرعی ملکیت کی حجت ہے اور نہ ہی غصب کرنے کی دلیل جیسا کہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنا بھی اسکے وقف ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ اگر قبرستان عرف کی نظر میں اس شہرکے تابع شمار ہو تاکہ اس شہر کے باشندے اپنے مردوں کو دفن کرنے یا کسی دوسرے کام کیلئے اس سے استفادہ کریں یا کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جس سے ثابت ہو کہ وہ قبرستان مسلمان مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہوا ہے تو ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ قبرستان کی زمین سے ہاتھ اٹھالیں اور اس میں جو عمارتیں و غیرہ تعمیر کی ہیں انہیں گرا کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیں لیکن تصرفات کی اجرة المثل کا ضامن ہونا ثابت نہیں ہے۔
س ٢10٢: ایک ایسا قبرستان ہے جسکی قبروں کو تقریبا پینتیس سال ہوچکے ہیں اور بلدیہ نے اسے عمومی پارک میں تبدیل کردیا ہے اورسابق حکومت کے زمانے میں اسکے بعض حصوں میں کچھ عمارتیں بنائی گئی ہیں کیا متعلقہ ادارہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس زمین میں دوبارہ عمارتیں بناسکتاہے؟
ج: اگر قبرستان کی زمین مسلمان مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہوئی ہو یا اس میں عمارتیں بنانے سے علما، صلحاء اورمؤمنین کی قبروں کی توہین یا ان کے کھودنے کا سبب ہو یا زمین عام شہریوں کے استفادہ کیلئے ہو تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا اور ذاتی تصرفات اور عمارتیں بنانا جائز نہیں ہے ورنہ اس کام میں بذات خود کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س ٢10٣: ایک زمین مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف کی گئی ہے اور اسکے وسط میں ایک امامزادے کی ضریح واقع ہے اور پچھلے چند سالوں میں بعض شہدا کے جنازے بھی وہاں دفن کئے گئے ہیں اور اس بات کے پیش نظر کہ جوانوں کی ورزش اور کھیل کود کیلئے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کیا اس قبرستان میں آداب اسلامی کی رعایت کرتے ہوئے کھیلنا جائز ہے؟
ج: قبرستان کو ورزش اور کھیل کود کی جگہ میں تبدیل کرنا اور موقوفہ زمین میں جہت وقف کے علاوہ تصرف کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح مومنین اور شہداکی قبروں کی توہین کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
س ٢10٤: کیا جائز ہے کہ ایک امامزادے کے زائرین اپنی گاڑیوں کو اس پرانے قبرستان میں پارک کریں کہ جسے تقریبا سو سال ہوچکے ہیں اور معلوم ہے کہ پہلے اس دیہات کے باشندے اسی جگہ مردے دفن کرتے تھے اور اب انھوں نے مردوں کو دفن کرنے کے لیئے دوسری جگہ منتخب کرلی ہے؟
ج: اگر یہ کام عرف میں مسلمانوں کی قبروں کی توہین شمار نہ ہو اور اس کام سے امامزادے کے زائرین کیلئے کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٥: بعض افراد عمومی قبرستان میں بعض قبروں کے پاس مردے دفن کرنے سے منع کرتے ہیں کیا وہاں دفن کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ ہے اور کیا انھیں روکنے اور منع کرنے کا حق ہے ؟
ج: اگر قبرستان وقف ہو یا اس میں ہر شخص کیلئے مردے دفن کرنا مباح ہو تو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ عمومی قبرستان میں اپنی میت کی قبر کے اطراف میں حریم بناکر اس میں مردہ مؤمنین کو دفن کرنے سے منع کرے۔
س ٢10٦: ایک قبرستان کہ جس میں قبروں کی جگہ پر ہوگئی ہے اسکے قریب ایسی زمین ہے جسے عدالت نے اسکے مالک سے ضبط کرکے اس وقت ایک دوسرے شخص کو دے دی ہے کیا اس زمین میں موجودہ مالک کی اجازت سے مردے دفن کرنا جائز ہے؟
ج: اگر اس زمین کا موجودہ مالک اسکا شرعی مالک شمار ہوتاہے تو اس میں اسکی اجازت اور رضامندی سے تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٧: ایک شخص نے مردوں کو دفن کرنے کیلئے زمین وقف کی اور اسے مسلمانوں کیلئے عمومی قبرستان قراردے دیا۔کیا جائز ہے کہ اسکی انتظامیہ ان لوگوں سے پیسے وصول کرے جو اپنے مردوں کو وہاں دفن کرتے ہیں؟
ج: انہیں موقوفہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنے کے عوض کسی چیز کے مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وہ قبرستان میں دوسرے کام انجام دیتے ہوں یا صاحبان اموات کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوں تو ان خدمات کے عوض اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٨: ہم ایک دیہات میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا چاہتے ہیں لہذا ہم نے دیہات کے باشندوں سے کہا کہ وہ اس کام کیلئے ہمیں کوئی زمین دیں ۔اگراس کام کیلئے دیہات کے وسط میں کوئی زمین نہ ملے تو کیا اس ایکسچینج کو قدیمی قبرستان کے متروکہ حصے میں بنانا جائز ہے؟
ج: اگر وہ عمومی قبرستان مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہو یا اس میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانامسلمانوں کی قبریں کھودنے یا انکی توہین کا سبب ہو تو جائز نہیں ہے ورنہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٩: ہم نے دیہات میں مدفون شہداکی قبروں کے پاس اس دیہات کے ان شہیدوں کی یاد میں پتھر نصب کرنے کا عزم کیا ہے جو دوسرے مقامات میں دفن ہوئے ہیں تا کہ مستقبل میں یہ انکا مزار ہو۔کیا یہ کام جائز ہے؟
ج: شہدا کے نام سے قبر کی یادگاربنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ جگہ مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہو تو دوسروں کیلئے مردے دفن کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔
س ٢١10: ہم قبرستان کے قریب ایک بنجر زمین میں مرکز صحت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہاں کے بعض باشندے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے اورذمہ دار افراد کیلئے اسکی تشخیص مشکل ہے کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے یا نہیں اور اس علاقہ کے بعض بوڑھے گواہی دیتے ہیں کہ جس زمین میں بعض لوگ قبر کے وجود کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کوئی قبر موجود نہیں تھی البتہ دونوں گروہ یہ گواہی دیتے ہیں کہ جو زمین مرکز صحت قائم کرنے کیلئے منتخب کی گئی ہے اسکے اطراف میں قبریں موجود ہیں ۔ اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ زمین مسلمان مردوں کے دفن کیلئے وقف ہے اور مذکورہ زمین ان عام جگہوں میں سے بھی نہ ہو جو وہاں کے باشندوں کی ضرورت کیلئے ہیں اور اس میں مرکز صحت قائم کرنے سے قبریں کھودنا لازم نہ آتاہواور مومنین کی قبروں کی اہانت بھی نہ ہوتی ہو تو مذکورہ زمین میں مرکز صحت قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔
س ٢١1١: کیا جائز ہے کہ قبرستان کا ایک حصہ کہ جس میں ابھی کوئی مردہ دفن نہیں ہوا اور وہ قبرستان وسیع و عریض ہے اور اسکے وقف کی کیفیت بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہے اسے رفاہ عامہ جیسے مسجد یا مرکز صحت کی تعمیر میں استفادہ کے لیئے کرایہ پر دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ کی رقم خود قبرستان کے فائدے کیلئے خرچ کی جائے ؟ ( قابل توجہ ہے کہ اس علاقہ میں چونکہ رفاہ عامہ کے مراکز قائم کرنے کیلئے کوئی خالی زمین نہیں ہے لہذا اس علاقے میں ایسے کام کی ضرورت ہے)؟
ج: اگر وہ زمین بالخصوص مردے دفن کرنے کیلئے وقف انتفاع کے طور پر وقف ہوئی ہو تو اسے کرایہ پر دینا یا اس میں مسجد و مرکز صحت و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے لیکن اگر ایسے شواہد موجود نہ ہوں کہ وہ زمین مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہوئی ہے اور علاقہ کے لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے اور اس جیسے دیگر کاموں کی خاطر اس جگہ کی احتیاج نہ ہو اور اس میں قبریں بھی نہ ہوں اور اسکا کوئی خاص مالک بھی نہ ہو تو اس صورت میں اس زمین سے وہاں کے باشندوں کے رفاہ عامہ کیلئے استفادہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢١1٢: بجلی کی وزارت بجلی پیدا کرنے کیلئے کچھ ڈیم بنانا چاہتی ہے ان میں سے ایک ڈیم دریائے کارون کے راستے میں بجلی گھر بنانے کیلئے ہے۔ پروجیکٹ کی ابتدائی تعمیرات اور کام مکمل ہوچکے ہیں اور اس کا بجٹ بھی فراہم کردیا گیا ہے لیکن اس پروجیکٹ والے علاقہ میں ایک قدیمی قبرستان ہے کہ جس میں پرانی اور نئی قبریں موجود ہیں اور اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا ان قبروں کومنہدم کرنے پر موقوف ہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: وہ پرانی قبریں کہ جنکے مردے خاک بن چکے ہیں انکے منہدم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ان قبروں کو منہدم کرنا اور ان کے ان مردوں کو آشکار کرنا کہ جو ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئے جائز نہیں ہے البتہ اگر اس جگہ ان بجلی گھروں کی تعمیر اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ضروری ہو اور اسکے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو اور انہیں اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا قبرستان سے ہٹانا سخت اور مشکل یا طاقت فرساکام ہو تو اس جگہ ڈیم بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن واجب ہے کہ جو قبریں ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئی ہیں انہیں کھودے بغیر کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے اگر چہ اس طرح کہ قبر کے اطراف کو کھودکر پوری قبر کو دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اوراگر اس دوران کوئی بدن ظاہر ہوجائے تو اسے فوراً کسی دوسری جگہ دفن کرنا واجب ہے۔
س ٢١1٣: قبرستان کے قریب ایک زمین ہے کہ جس میں قبر کا کوئی نشان موجود نہیں ہے لیکن یہ احتمال ہے کہ وہ ایک پرانا قبرستان ہوکیا اس زمین میں تصرف کرنا اور اس میں اجتماعی کاموں کیلئے عمارتیں بنانا جائز ہے ؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ وہ زمین اس موقوفہ قبرستان کا حصہ ہے جو مردوں کو دفن کرنے کے لیئے مخصوص ہے یا عرف کی نظر اس کا اطراف (حریم) ہو تو وہ قبرستان کے حکم میں ہے اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
س ٢١1٤: کیا جائز ہے کہ انسان اپنی زندگی کے دوران قبر کو ملکیت کے ارادے سے خریدلے؟
ج: اگر قبر کی جگہ کسی دوسرے کی شرعی ملکیت ہو تو اسکے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ ایسی زمین کا حصہ ہے جو مؤمنین کے دفن کیلئے وقف ہے تو انسان کا اسے خرید کر اپنے لئے محفوظ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اقدام دوسروں کو اس میں مردے دفن کرنے سے روکنے کا موجب بنتاہے۔
س ٢١1٥: اگر ایک سڑک کے ساتھ پیدل چلنے کا راستہ بنانا ان مؤمنین کی بعض قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہو جو بیس سال پہلے اس سڑک کے پاس قبرستان میں دفن ہوئے تھے توکیا یہ کام جائز ہے ؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف نہ ہو تو جب تک یہ کام مسلمان کی قبر کھودنے یا اسکی اہانت کا موجب نہ ہو اس میں پیدل راستہ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢١1٦: شہر کے وسط میں ایک متروکہ قبرستان ہے کہ جسکا وقف ہونا معلوم نہیں ہے کیا اس میں مسجد کا بنانا جائز ہے؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان موقوفہ زمین اور کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو اور اسی طرح مختلف مواقع پر وہاں کے باشندوں کی عام ضرورت کے لیئے بھی نہ ہو اور اس میں مسجد بنانا مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی اورانہیں کھودنے کا سبب بھی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢١1٧: زمین کا ایک حصہ جو تقریبا سو سال سے اب تک عمومی قبرستان ہے اور کچھ سال پہلے کھدائی کے نتیجے میں وہاں پر کچھ قبریں ملی ہیں اس کے کھودنے کا کام مکمل ہونے اور وہاں سے مٹی اٹھانے کے بعد بعض قبریں آشکار اہوگئی ہیں اور ان کے اندر ہڈیاں بھی دیکھی گئی ہیں کیا بلدیہ کیلئے اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے ؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف ہو تو اسکا فروخت کرنا جائز نہیں ہے بہر حال اگر کھدائی قبروں کے کھودنے کا سبب ہو تو وہ بھی حرام ہے۔
س ٢١1٨: وزارت تعلیم نے ایک پرانے قبرستان پر وہاں کے باشندوں کی اجازت حاصل کئے بغیر قبضہ کیا اور وہاں پر ایک سکول بنادیا کہ جس میں طالب علم نماز بھی پڑھتے ہیں اسکے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: جب تک کوئی ایسی معتبر دلیل موجود نہ ہو جس سے یہ ثابت ہوکہ سکول کی زمین مردوں کے دفن کیلئے وقف ہوئی ہے اور ایسی عمومی جگہوں میں سے نہ ہو کہ جسکی شہریوں کو اپنے مردوں کو دفن کرنے یا اس جیسے دیگر کاموں کیلئے ضرورت ہوتی ہے اوریہ کسی کی ذاتی ملکیت بھی نہ ہو تو قوانین و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے اس سے سکول بنانے اور اس میں نماز پڑھنے کیلئے استفادہ کرنے میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔