ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

استفتاآت کے جوابات

    • تقلید
    • احکام طهارت
    • احکام نماز
    • احکام روزہ
    • خمس کے احکام
    • جہاد
    • امر بالمعروف و نہی عن المنکر
    • حرام معاملات
    • شطرنج اور آلات قمار
    • موسیقی اور غنا
    • رقص
    • تالی بجانا
    • نامحرم کی تصویر اور فلم
    • ڈش ا نٹینا
    • تھیٹر اور سینما
    • مصوری اور مجسمہ سازی
    • جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا
    • قسمت آزمائی
    • رشوت
    • طبی مسائل
    • تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
    • حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
    • غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
    • ظالم حکومت میں کام کرنا
    • لباس کے احکام
    • مغربی ثقافت کی پیروی
    • جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
    • سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
    • داڑھی مونڈنا
    • محفل گناہ میں شرکت کرنا
    • دعا لکھنا اور استخارہ
    • دینی رسومات کا احیاء
    • ذخیرہ اندوزی اور اسراف
    • تجارت و معاملات
    • سود کے احکام
    • حقِ شفعہ
    • اجارہ
    • ضمانت
    • رہن
    • شراکت
    • ہبہ
    • دین و قرض
    • صلح
      پرنٹ  ;  PDF
       
      صلح
       
      س 1792: ایک شخص نے اپنی تمام جائیدادکہ جس میں مکان ، گاڑی ،قالین اور اس کے گھر کا سارا سامان شامل ہے صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیا ہے اور اسی طرح اسے اپنا وصی اور اپنے نابالغ بچوں کا سرپرست بھی قرار دیا ہے کیا اس کے مرنے کے بعد اس کے ماں باپ، کو اس کے ترکہ سے کسی چیز کے مطالبہ کا حق ہے؟
      ج: اگر ثابت ہوجائے کہ میت نے اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد صلح کے ساتھ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو دے دی تھی اس طرح سے کہ کوئی چیز اپنی وفات تک اپنے لئے باقی نہ چھوڑی ہو ، تو ماں باپ یا دوسرے ورثاء کےلئے اس کا کوئی ترکہ ہی نہیں ہے جو ان کی وراثت ہو لہٰذا انہیں اس مال کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو اس کی زندگی میں اس کی بیوی کی ملکیت بن چکا ہے ۔
       
      س 1793: ایک شخص نے اپنے اموال کا کچھ حصہ صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیا لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد وہی اموال اپنے اسی بیٹے کو فروخت کردیئے اور اس وقت اس کے ورثا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ گھر بیچنے سے کچھ عرصہ پہلے سے لیکر معاملہ انجام دینے تک ان کے باپ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا کیا یہ مال اسے بیچنا کہ جسے یہ بطور صلح پہلے ہی دے چکا ہے اس صلح سے عدول شمار ہوگا اور معاملہ بیع صحیح ہے ؟ اور بالفرض اگر صلح صحت پر باقی ہو تو کیا یہ اس مال کے تیسرے حصے میں صحیح ہے کہ جس پر صلح کی گئی ہے یا پورے مال میں ؟
      ج: پہلی صلح صحیح اور نافذ ہے اور جب تک اس میں صلح کرنے والے ( مصالح ) کےلئے حق فسخ ثابت نہ ہو یہ لازم بھی ہے لہٰذا صلح کرنے والے کا اس مال کو بیچنا صحیح نہیں ہے اگر چہ فروخت کے وقت اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو اور یہ صلح جو صحیح اور لازم ہے اس پورے مال میں نافذ ہے کہ جس پر یہ واقع ہوئی ہے۔
       
      س 1794: ایک شخص اپنے تمام اموال یہاں تک کہ محکمہ صحت میں جو اس کے حقوق ہیں صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیتا ہے لیکن مذکورہ محکمہ اعلان کرتا ہے کہ اس شخص کو ان حقوق پر صلح کرنے کا قانونی حق نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں محکمہ صحت اس کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردیتا ہے خود صلح کرنے والا بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کےلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس صلح کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
      ج: دوسروں کے مال یا ایسے مال پر صلح کہ جس کے ساتھ دوسروں کے حق کا تعلق ہوچکا ہے صلح فضولی ہے اور اس کا انحصار مالک یا صاحب حق کی اجازت پر ہے اور اگر صلح، صلح کرنے والے کی خالص ملکیت پر انجام پائی ہو لیکن اس صلح کا مقصد قرض خواہوں کے قرض کی ادائیگی سے بچنا ہو تو ایسی صلح کا صحیح اور نافذ ہونا محل اشکال ہے بالخصوص جب اسے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کرکے اپنے قرض ادا کرنے کی کوئی امید نہ ہو ۔
       
      س 1795:  ایک صلح کی دستاویز میں یوں لکھا ہے کہ باپ نے اپنے کچھ اموال صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیئے ہیں کیا یہ دستاویز قانونی اور شرعی لحاظ سے معتبر ہے ؟
      ج: جب تک دستاویز کے محتوا کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہو اس وقت تک یہ دستاویز ،عقد صلح کے انشاء اور اس کی کیفیت پر شرعی دلیل اور حجت شمار نہیں ہوگی، البتہ اگر مالک کی طرف سے صلح کے ثابت ہونے کے بعد ہمیں اس کے شرعی طور پر صحیح واقع ہونے میں شک ہو تو عقد صلح شرعاً صحیح ہے اور وہ مال اس شخص کی ملکیت ہوگا جس کے ساتھ صلح کی گئی ہے۔
       
      س 1796: میرے سسر نے اپنے بیٹے کے ساتھ میری شادی کے وقت زمین کا ایک قطعہ کچھ رقم کے عوض صلح کے ساتھ مجھے دے دیا اور چند گواہوں کے سامنے اس سے متعلق ایک دستاویز بھی تحریر کردی لیکن اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معاملہ فقط ظاہری اور بناوٹی تھا۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
      ج: مذکورہ صلح شرعی طور پر صحیح ہے اور اس کے ظاہری اور بناوٹی ہونے کا دعویٰ جب تک مدعی کی طرف سے ثابت نہ ہوجائے کوئی اثر نہیں رکھتا ۔
       
      س 1797: میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال صلح کے ساتھ مجھے دے دیئے اس شرط پر کہ ان کی وفات کے بعد میں اپنی بہنوں میں سے ہر ایک کو کچھ رقم ادا کروں ۔میری بہنیں بھی اس چیز پر راضی ہوگئیں اور وصیت والی دستاویز پر دستخط کردیئے، باپ کی وفات کے بعد میں نے ان کا حق ادا کردیا اور باقی اموال خود لے لیئے۔ کیا اس مال میں میرے لیئے تصرف کرنا جائز ہے ؟ اور اگر وہ اس امر پر راضی نہ ہوں تو اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟
      ج: اس صلح میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ صورت میں جس مال پر صلح ہوئی ہے وہ آپ کاہے اور دیگر ورثاء کے راضی نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے ۔
       
      س 1798: اگر ایک شخص اپنے بعض بچوں کی عدم موجودگی میں اور جو موجود ہیں ان کی موافقت کے بغیر صلح کے ساتھ اپنے اموال ایک بیٹے کو دے دیتا ہے تو کیا یہ صلح صحیح ہے؟
      ج: اگر مالک اپنی زندگی میں اپنے اموال صلح کے ساتھ کسی ایک وارث کو دے دے تو اس میں دیگر ورثاء کی موافقت ضروری نہیں ہے اور انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ہاں اگر یہ کام اس کی اولاد کے درمیان فتنہ و فساد اور نزاع کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے ۔
       
      س 1799:اگر ایک شخص صلح کے ساتھ اپنا کچھ مال دوسرے کو اس شرط پر دے کہ فقط وہ خود اس مال سے استفادہ کرے گا تو کیا یہ شخص جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے وہ یہ مال اسی استفادے کےلئے صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر کسی تیسرے شخص کو دے سکتا ہے یا کسی شخص کو صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر استفادہ کرنے میں شریک کر سکتا ہے؟اور صحیح ہونے کی صورت میں کیا صلح کرنے والا اس صلح سے عدول کر سکتا ہے؟
      ج : متصالح (جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے) عقد صلح میں جن شرطوں پر عمل کرنے کا پابند ہوا ہے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا اور اگر وہ ان شروط کی مخالفت کرے تو مصالح (جس نے صلح کے ساتھ مال دیا ہے)عقد صلح کو ختم اور فسخ کرسکتا ہے ۔
       
      س 1800:کیا عقد صلح ہو جانے کے بعدمُصالح اس سے عدول کرسکتا ہے اور پہلے متصالح کو بتائے بغیر وہی مال دوبارہ صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟
      ج : اگر صلح صحیح طور پرمنعقد ہوئی ہو، تو یہ مُصالح کی نسبت لازم ہے اور جب تک اس نے اپنے لئے حق فسخ قرار نہیں دیا اسے عدول کرنے کا حق نہیں ہے لہذا اگر وہ وہی مال صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے دے تو یہ صلح فضولی ہوگی جس کا صحیح ہونا پہلے متصالح کی اجازت پرموقوف ہے ۔
       
      س 1801: ماں کی جائیداد اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے ،قانونی مراحل طے کرنے ، حصر وراثت (یعنی یہ کہ ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے) کا سرٹیفکیٹ لینے اور ورثاء میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا حصہ لے لینے کے بہت عرصے کے بعد اس کی ایک بیٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی ماں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اموال صلح کے ساتھ اسے دے دیئے تھے اور اس سلسلے میں ایک معمولی دستاویز بھی ہے کہ جس پر اس کے اور اس کے شوہر کے دستخط موجود ہیں اور اس پر انگوٹھے کا نشان بھی ہے جو اس کی ماں کی طرف منسوب ہے اور وہ بیٹی اس وقت ماں کا پورا ترکہ لینا چاہتی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
      ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ ماں نے اپنی زندگی میں اپنا مال صلح کے ساتھ اس بیٹی کو دے دیا تھا اسے اس چیز کے بارے میں کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ دعوی کرتی ہے اور صرف صلح کی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک واقع کے ساتھ اس کی مطابقت ثابت نہ ہوجائے ۔
       
      س 1802: ایک باپ نے اپنی جائیداد صلح کے ساتھ اپنی اولاد کو اس شرط پردی کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے اس میں تصرف کا اختیار ہو گا اس چیز کے پیش نظر مندرجہ ذیل موارد کے بارے میں کیا حکم ہے؟
      الف : کیا یہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ؟
      ب: صحیح اور نافذ ہونے کی صورت میں کیا جائز ہے کہ مُصالح اس صلح سے عدول کرے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس مال کا کچھ حصہ بیچ دے کہ جس پر صلح ہوئی تھی توکیا اسکا یہ کام صلح سے عدول شمار کیا جائے گا ؟ اور اگر بالفرض یہ صلح سے عدول ہے تو کیا تمام اموال کی نسبت عدول سمجھا جائے گا یا صرف بیچے گئے مال کی نسبت؟
      ج : یہ عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " جو صلح کی دستاویز میں بیان ہوئی ہے کیا حق فسخ کے معنیٰ میں ہے یا کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کے حق کے معنیٰ میں یا اپنی زندگی میں ان اموال میں حق تصرف و استعمال کے معنیٰ میں؟
      ج:
      الف: مذکورہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ۔
      ب: عقد صلح ، عقود لازم میں سے ہے لہذا جب تک صلح کے ساتھ دینے والا اس میں حق فسخ نہ رکھتا ہو اسے فسخ اور ختم نہیں کر سکتا لذا اگر صلح کرنے کے بعد اوراس میں حق فسخ کے بغیر اس مال کا کچھ حصہ ان میں سے کسی کو فروخت کردے کہ جن کے ساتھ صلح کی گئی تھی، تو یہ معاملہ خریدار کے اپنے حصے میں باطل ہے اور دوسروں کے حصوں کی نسبت فضولی ہے جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر موقوف ہے۔
      ج: ظاہری طور پر اس عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " سے مقصود حق تصرف و استعمال ہے نہ حق فسخ اور نہ کسی دوسرے کو اموال منتقل کرنے کا حق۔
    • وکالت
    • صدقہ
    • عاریہ اور ودیعہ
    • وصیّت
    • غصب کے احکام
    • بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
    • مضاربہ کے احکام
    • بینک
    • بیمہ (انشورنس)
    • سرکاری اموال
    • وقف
    • قبرستان کے احکام
700 /