دریافت:
استفتاآت کے جوابات
- تقلید
- طہا رت
- احکام نماز
- اہمیت اور شرائط نماز
اہمیت اور شرائط نماز
س ٣٣۸: جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والے یا اسے سبک شمار کرنے والے کا کیا حکم ہے؟
ج: نماز پنجگانہ شریعت اسلامیہ کے اہم واجبات میں سے ہیں، بلکہ یہ دین کا ستون ہیں اور ان کا ترک کرنا یا سبک سمجھنا شرعاً حرام اور عذاب کا موجب ہے۔
س ٣٣۹: اگر کسی کو پانی یا ایسی چیز کہ جس پر تیمم صحیح ہے میسر نہ ہو (فاقد الطہورین) تو کیا اس پر نماز واجب ہے؟
ج: بنابر احتیاط وقت میں نماز پڑھے اور وقت کے بعد وضو یا تیمم کے ساتھ قضا کرے۔
س ٣۴۰: آپ کی نظر میں واجب نماز میں کن موقعوں پر عدول کیا جا سکتا ہے؟
ج: مندرجہ ذیل موارد میں عدول کرنا واجب ہے۔
١۔ عصر کی نماز سے ظہر کی طرف، اگر نماز کے درمیان متوجہ ہو کہ اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے۔
٢ ۔ عشاء کی نماز سے مغرب کی نماز کی طرف، اگر نماز عشاء کے اثنا میں متوجہ ہوجائے کہ اس نے نماز مغرب نہیں پڑھی بشرطیکہ اس نے محل عدول سے تجاوز نہ کیا ہو ۔
٣۔ جن دو نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب ضروری ہے ان کی قضا میں بھول کر بعد والی نماز کو پہلے شروع کر دیا ہو۔اور مندرجہ ذیل موقعوں پر عدول کرنا مستحب ہے۔
١۔ ادا نماز سے واجب نماز کی قضا کی طرف، بشرطیکہ ادا نماز کی فضیلت کا وقت فوت نہ ہو جائے۔
٢ ۔ جماعت کا ثواب حاصل کرنے کی غرض سے واجب نماز سے مستحبی نماز کی طرف۔
٣ ۔ جمعہ کے دن نماز ظہر میں سورۂ جمعہ کے بجائے بھول کر دوسرا سورہ شروع کر دیا ہو اور نصف یا اس سے کچھ زائد پڑھ چکا ہو البتہ اس صورت میں اگرچہ سورۂ جمعہ کی قرائت کا ثواب حاصل کرنے کیلئے واجبی نماز سے مستحبی نماز کی طرف عدول کرنا احتیاط استحبابی کے موافق ہے لیکن یہ بھی کرسکتا ہے کہ اس سورہ کو چھوڑ دے اور اس کی جگہ سورہ جمعہ پڑھے۔س ٣۴۱: جمعہ کے دن جو نمازی جمعہ اور ظہر دونوں نمازیں پڑھنا چاہتا ہے، کیا وہ دونوں نمازوں میں صرف "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گا یا ایک میں "واجب قربة ً الی اللہ" اور دوسری میں فقط "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گایا دونوں میں "واجب قربةً الی ﷲ" کی نیت کرے؟
ج: دونوں میں قربت کی نیت کرنا کافی ہے اور کسی میں وجوب کی نیت ضروری نہیں ہے۔
س ٣٤۲: اگر نماز کے اول وقت سے لے کر آخر وقت کے قریب تک منہ یا ناک سے خون جاری رہے تو ایسے میں نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر بدن کے پاک کرنے کا امکان نہ ہو اور وقت نماز کے ختم ہو جانے کا خوف ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھے گا۔
س ٣٤۳: نماز میں مستحبی ذکر پڑھتے وقت کیا بدن کو پوری طرح ساکن رکھنا واجب ہے یا نہیں؟
ج: خواہ ذکر واجب ہو یا مستحب، اثنائے نماز میں دونوں کی قرائت کے وقت جسم کا مکمل سکون و اطمینان کی حالت میں ہونا واجب ہے۔ہاں مطلق ذکر کے قصد سے حرکت کی حالت میں ذکر پڑھنے میں اشکال نہیں ہے ۔
س ٣٤۴: ہسپتالوں میں مریض کو پیشاب کے لئے نلکی لگا دی جاتی ہے جس سے غیر اختیاری طور پر سوتے جاگتے یہاں تک کہ نماز کے دوران بھی مریض کا پیشاب نکلتا رہتا ہے، پس یہ فرمائیں کہ کیا اس پر کسی اور وقت میں دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے یا اسی حالت میں پڑھی جانے والی نماز کافی ہے؟
ج: اگر اس نے اس حال میں اپنی نماز اس وقت کے شرعی فریضہ کے مطابق پڑھی ہو تو صحیح ہے اور اس پر نہ تو اعادہ واجب ہے اور نہ قضا۔
- اوقات نماز
اوقات نماز
س ٣٤۵: مذہب شیعہ پنجگانہ نماز کے وقت کے بارے میں کس دلیل پر اعتماد کرتا ہے؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اہل سنت کے نزدیک وقت عشاء کے داخل ہوتے ہی نماز مغرب قضا ہو جاتی ہے، ظہر و عصر کی نماز کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔ اسی لئے وہ معتقد ہیں کہ جب وقت عشاء داخل ہو جاتا ہے اور پیش نماز، نماز عشاء پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جائے تو ماموم اس کے ساتھ مغرب کی نماز نہیں پڑھ سکتا، تاکہ اس طرح وہ مغرب اور عشاء کو ایک ہی وقت میں پڑھ لے؟
ج: شیعہ کی دلیل، آیات قرآن اور سنت نبویہ کا اطلاق ہے، اس کے علاوہ بہت سی روایات موجود ہیں جو خاص طور سے دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور اہل سنت کے یہاں بھی ایسی احادیث موجود ہیں جو دو نمازوں کو کسی ایک نماز کے وقت میں جمع کر کے ادا کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔
س ٣٤۶: اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ نماز عصر کا آخری وقت مغرب ہے اور نماز ظہر کا آخری وقت مغرب سے اتنا پہلے تک ہے کہ جتنی دیر میں صرف نماز عصر پڑھی جا سکے۔ یہاں میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب سے کیا مراد ہے؟ کیا غروب آفتاب مراد ہے یا اس شہر کے افق کے اعتبار سے اذان مغرب کا شروع ہونا ہے؟
ج: نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے ۔
س ٣٤۷: غروب آفتاب اور اذان مغرب میں کتنے منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے؟
ج: بظاہر یہ فاصلہ موسموں کے اختلاف کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
س ٣٤۸: میں تقریباً گیارہ بجے رات ڈیوٹی سے گھر پلٹتا ہوں اورکام کی خاطر رجوع کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ڈیوٹی کے دوران نمازمغربین نہیں پڑھ سکتا، تو کیا گیارہ بجے رات کے بعد نماز مغربین کا پڑھنا صحیح ہے؟
ج: کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ نصف شب نہ گزرنے پائے لیکن کوشش کیجئے گیارہ بجے رات سے زیادہ تاخیر نہ ہو بلکہ جہاں تک ممکن ہو نماز کو اول وقت میں پڑھیے۔
س ٣٤۹: نماز کی کتنی مقدار اگر وقت ادا میں بجالائی جائے تو نیت اداصحیح ہے ؟ اور اگر شک ہو کہ اتنی مقدار وقت میں پڑھی گئی ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: نماز کی ایک رکعت کا وقت کے اندر انجام پانا نماز کے ادا شمار ہونے کے لئے کافی ہے، اور اگر شک ہو کہ کم از کم ایک رکعت کے لئے وقت کافی ہے یا نہیں، تو پھر ما فی الذمہ کی نیت سے نماز پڑھے ۔
س ٣۵۰: مختلف ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی طرف سے بڑے شہروں اور ممالک کے دار الحکومت کے لئے نماز کے شرعی اوقات کے نقشے شائع ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان نقشوں پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
ج: معیار یہ ہے کہ انسان کو اطمینان حاصل ہو جائے اور اگر اسے ان نقشوں کے واقع کے مطابق ہونے کا اطمینان نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ احتیاط کرے، اور انتظار کرے یہاں تک کہ اسے وقت شرعی کے داخل ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔
س ٣۵۱: صبح صادق اور صبح کاذب کے مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اور اس سلسلہ میں نمازی کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: نماز اور روزے کے وقت کا شرعی معیار، صبح صادق ہے اور اسکی تشخیص خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔
س ٣٥۲: دو شفٹ والے ایک ہائی سکول کے ذمہ دار حضرات ظہرین کی جماعت کو دو بجے ظہر کے بعد اور عصر کی کلاسیں شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے منعقد کراتے ہیں۔ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی شفٹ کے دروس اذان ظہر سے تقریباً پون گھنٹہ پہلے ختم ہو جاتے ہیں اور ظہر شرعی تک طلباء کو ٹھہرانا مشکل ہے، لہذا اول وقت میں نماز ادا کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر نماز کے اول وقت میں طلاب حاضر نہیں ہیں تو نماز گزاروں کی خاطر نماز جماعت کی تاخیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س ٣٥۳: کیا اذان ظہر کے بعد نماز ظہر کا پڑھنا اور وقت نماز عصر کے شروع ہونے کے بعد نماز عصر کا پڑھنا واجب ہے؟ اور اسی طرح کیا نماز مغرب و عشاء کو بھی اپنے اپنے وقت میں پڑھنا واجب ہے؟
ج: دونمازوں کے وقت کے داخل ہونے کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھے یا ہر ایک کو اسکے فضیلت کے وقت میں پڑھے۔
س ٣٥۴: کیا چاندنی راتوں میں نماز صبح کے لئے ١٥ منٹ سے ٢٠ منٹ تک کا انتظار کرنا واجب ہے؟جبکہ آجکل گھڑیوں کی فراوانی کی وجہ سے طلوع فجر کا یقین حاصل کرنا ممکن ہے؟
ج: طلوع فجر جو نماز صبح اورروزہ شروع ہونے کا وقت ہے کے سلسلے میں چاندنی راتوں یا اندھیری راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اگرچہ اس سلسلہ میں احتیاط اچھا ہے۔
س ٣٥۵: صوبوں کے درمیان افق کے اختلاف کی وجہ سے اوقات شرعیہ کی مقدار میں جو اختلاف پیدا ہوتا ہے کیا وہ یومیہ واجب نمازوں کے تین اوقات میں ایک جیسا ہے؟ مثال کے طور پر اگر دو صوبوں میں ظہر کے وقت میں ٢٥ منٹ کا اختلاف ہو تو کیا دوسرے اوقات میں بھی اتنا ہی اور اسی مقدار میں اختلاف ہو گا یا صبح، مغرب اور عشاء میں یہ مختلف ہو گا؟
ج: فقط طلوع فجر، زوال آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت کے فرق کی مقدار کے ایک جیسا ہونے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات میں بھی اتنا ہی فرق اور فاصلہ ہو، بلکہ مختلف شہروں میں غالباً تینوں اوقات کا اختلاف متفاوت ہوتا ہے۔
س ٣٥۶: اہل سنت نماز مغرب کو مغرب شرعی سے پہلے پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ایام حج و غیرہ میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اسی نماز پر اکتفا کر لینا جائز ہے؟
ج: یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی نماز وقت سے پہلے ہوتی ہے، اور ان کی جماعت میں شرکت کرنے اور ان کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ نماز کافی ہے، لیکن وقت نماز کا درک کرنا ضروری ہے، مگر یہ کہ وقت بھی تقیہ کے موارد میں سے ہو۔
س ٣٥۷: گرمیوں میں ڈنمارک اور ناروے میں صبح کے چار بجے سورج نکلتا ہے اور ۲۳ بجے غروب کرتا ہے لذا مشرقی سرخی کے زوال اور طلوع و غروب کی رعایت کرتے ہوئے تقریباً ۲۲ گھنٹے کا روزہ بنتا ہے۔ ایسی صورت میں میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج: نماز پنجگانہ اور روزے کے اوقات کے لحاظ سے انسان کے لئے اسی جگہ کے افق کا خیال رکھنا واجب ہے جہاں وہ رہائش پذیر ہے اور اگر دن کے طولانی ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا غیر مقدور یا حرج پر مشتمل ہو تو اس وقت ادائے روزہ ساقط ہے اور بعد میں اس کی قضا واجب ہے۔
س ٣٥۸: سورج کی شعاعیں تقریباً سات منٹ میں زمین تک پہنچتی ہیں تو کیا نماز صبح کے وقت کے ختم ہونے کا معیار طلوع آفتاب ہے یا اس کی شعاعوں کا زمین تک پہنچنا؟
ج: طلوع آفتاب کا معیار اس کا نمازگزار کے افق میں دیکھا جانا ہے۔
س ٣٥۹: ذرائع ابلاغ ہر روز، آنے والے دن کے شرعی اوقات کا اعلان کرتے ہیں، کیا ان پر اعتماد کرنا جائز ہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے والی اذان کو وقت کے داخل ہوجانے کا معیار بنایا جا سکتا ہے؟
ج: اگر اس سے مکلف کو وقت کے داخل ہوجانے کا اطمینان حاصل ہوجائے تو اعتماد کرسکتاہے ۔
س ٣۶۰: کیا اذان کے شروع ہوتے ہی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے یا اذان کے ختم ہونے کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کے بعد نماز شروع کی جائے اور اسی طرح کیا اذان کے شروع ہوتے ہی روزہ دار کیلئے افطار کرنا جائز ہے یا یہ کہ اس پر اذان کے ختم ہونے تک انتظار کرنا واجب ہے؟
ج: اگر اس بات کا یقین ہو کہ وقت داخل ہو جانے کے بعد اذان شروع ہوئی ہے تو آخر اذان تک انتظار کرنا واجب نہیں ہے۔
س ٣۶۱: کیا اس شخص کی نماز صحیح ہے جس نے دوسری نماز کوپہلی نماز پر مقدم کر دیا ہو، جیسے عشاء کو مغرب پر مقدم کیا ہو۔
ج: اگر غلطی یا غفلت کی وجہ سے نماز کو مقدم کیا ہو اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو تو وہ نماز باطل ہے۔
س ۳۶۲: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔
س٣٦۳: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟ نیز نماز عشاء اور منیٰ میں رات بسر کرنے ( بیتوتہ ) کیلئے شرعی طور پر آدھی رات کو نسا وقت ہے ؟
ج: نماز عصر کا آخری وقت غروب آفتاب تک ہے اور آدھی رات کو معلوم کرنے کیلئے اول غروب سے طلوع فجر تک رات شمار کریں۔
س٣٦۴: جوشخص نمازعصر کے اثناء میں متوجہ ہے کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی تو اسکی شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: اگر اس خیال سے نماز عصر میں مشغول ہو کہ وہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور پھر نماز کے دوران متوجہ ہو کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی اور ہو بھی ظہر و عصرکے مشترکہ وقت میں تو فوراً اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹالے اور نماز کو مکمل کرے اور اسکے بعد نماز عصر پڑھے لیکن اگر یہ نماز ظہر کے مخصوص وقت(1) میں ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹالے اور نماز کو مکمل کرے اور اسکے بعد ظہر و عصر کی دونوں نمازوں کو ترتیب کے ساتھ انجام دے اور نماز مغرب و عشاء کے بارے میں بھی ایسا ہی حکم ہے ۔
1 ۔ ظہر کا مخصوص وقت اول ظہر سے لے کر اتنا وقت ہے کہ جس میں نماز پڑھی جاسکے یعنی جس میں غیر مسافر چار رکعتیں اور مسافر دورکعتیں پڑھ سکے ۔
- قبلہ کے احکام
قبلہ کے احکام
س ٣٦۵: درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔
١ ۔ بعض فقہی کتابوں میں ذکر ہے کہ خرداد کی ساتویں اور تیر کی پچیسویں تاریخ بمطابق ۲۸مئی اور۱۶ جولائی کو سورج عمودی طور پر خانہ کعبہ کے اوپر ہوتا ہے، تو کیا اس صورت میں جس وقت مکہ میں اذان ہوتی ہے اس وقت شاخص نصب کر کے جہت قبلہ کو معین کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر مسجدوں کے محراب کے قبلہ کی جہت، شاخص کے سایہ سے مختلف ہو تو کس کو صحیح سمجھا جائے گا؟
٢۔ کیا قبلہ نما پر اعتماد کرنا صحیح ہے؟ج: شاخص اور قبلہ نما کے ذریعہ اگر مکلف کو جہت قبلہ کا اطمینان حاصل ہو جائے تو اس پر اعتماد کرنا صحیح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے،ور نہ تو جہت قبلہ کے تعین کیلئے مسجدوں کے محراب اور مسلمانوں کی قبروں پر اعتماد کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س ٣٦۶: جب جنگ میں شدید لڑائی جہت قبلہ کی تعیین سے مانع ہو تو کیا کسی بھی طرف رخ کر کے نماز کا پڑھنا صحیح ہے؟
ج: اگر کسی طرف کا گمان نہ ہو اور وقت بھی ہو تو بنا بر احتیاط چاروں طرف نماز پڑھی جائے، ورنہ جتنا وقت ہو اس کے مطابق جس سمت میں قبلہ کا احتمال ہے اسکی طرف نماز پڑھے۔
س٣٦۷: اگر کرۂ زمین کی دوسری سمت میں خانہ کعبہ کابالکل مقابل والا نقطہ دریافت ہو جائے، اس طرح کہ اگر ایک خط مستقیم زمین کعبہ کے وسط سے کرۂ ارض کو چیرتا ہوا مرکز زمین سے گزرے تو دوسری طرف اس نقطہ سے نکل جائے تو اس نقطہ پر قبلہ رخ کیسے کھڑے ہوں گے؟
ج: قبلہ رخ ہونے کا معیار یہ ہے کہ کرۂ زمین کی سطح سے خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرے، یعنی جو شخص روئے زمین پر ہے، وہ اس کعبہ کی طرف رخ کرے جو مکہ مکرمہ میں سطح زمین پر بنا ہوا ہے اس بنا پر اگر وہ زمین کے کسی ایسے نقطے پر کھڑا ہو جہاں سے چاروں سمتوں میں کھینچے جانے والے خطوط مساوی مسافت کے ساتھ کعبہ تک پہنچتے ہوں تو اسے اختیار ہے کہ جس طرف چاہے رخ کر کے نماز پڑھے، لیکن اگرکسی سمت کے خط کی مسافت اتنی کمترہوکہ اسکی بناپر عرفی لحاظ سے قبلہ رخ ہونا مختلف ہوجائے تو انسان پر واجب ہے کہ تھوڑے فاصلے والی سمت کا انتخاب کرے۔
س ٣٦۸: جس جگہ ہم جہت قبلہ کو نہ جانتے ہوں اور کسی جہت کا گمان بھی نہ ہو تو ایسی جگہ پر ہمیں کیا کرنا چاہیے یعنی کس سمت کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ؟
ج: بنابر احتیاط چاروں طرف رخ کر کے نمازپڑھیں اور اگر چار نمازوں کا وقت نہیں ہو تو جتنی نمازوں کا وقت ہے اتنی ہی پڑھیں۔
س٣٦۹: قطب شمالی اور قطب جنوبی میں قبلہ کی سمت کو کس طرح معین کیا جائے گا؟ اور کس طرح نماز پڑھی جائے گی؟
ج: قطب شمالی و جنوبی میں سمت قبلہ معلوم کرنے کا معیار نماز گزار کی جگہ سے کعبہ تک روئے زمین کے اوپر سب سے چھوٹا خط ہے اور اس خط کے معین ہو جانے کے بعد اسی رخ پر نماز پڑھی جائے گی۔
- نماز کی جگہ کے احکام
نماز کی جگہ کے احکام
س ٣۷۰: وہ مقامات جن کو ظالم حکومتوں نے غصب کر لیا ہے، کیا وہاں بیٹھنا، نماز پڑھنا اور گزرنا جائز ہے؟
ج: اگر غصبی ہونے کا علم ہو تو ان مقامات کا حکم، غصبی چیزوں جیسا ہے۔
س ٣۷۱: اس زمین پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو پہلے وقف تھی اور پھر حکومت نے اس پر تصرف کر کے اس میں اسکول بنا دیا ہو؟
ج: اگر اس بات کاقابل اعتنا احتمال ہو کہ اس میں مذکورہ تصرف شرعی لحاظ سے جائز تھا تو اس جگہ نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س ٣۷۲: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔
س ۳۷۳: اگر کوئی شخص ایک مدت تک غیر مخمس جا نماز یا لباس میں نماز پڑھے تو اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟
ج: اب تک اس میں جو نمازیں پڑھی ہیں، وہ صحیح ہیں۔
س ٣۷۴: کیا یہ بات صحیح ہے کہ نماز میں مردوں کا عورتوں سے آگے ہونا واجب ہے؟
ج: احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں مرد اور عورت کے درمیان کم از کم ایک بالشت فاصلہ ہو اور اس صورت میں اگر مرد اور عورت عرض میں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوں یا عورت آگے ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے۔
س٣٧۵: مسجدوں میں امام خمینی اور شہدائے انقلاب کی تصویریں لگانے کا کیا حکم ہے، جبکہ امام خمینی مساجد میں اپنی تصویروں کے لگانے پر راضی نہ تھے، اور اس کی کراہت کے بارے میں بھی کئی مطالب موجود ہیں؟
ج: کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر یہ تصویریں مسجد کے حال کے اندر ہوں تو بہتر ہے کہ نماز کے وقت انہیں کسی طریقے سے ڈھانپ دیا جائے۔
س ٣٧۶: ایک شخص سرکاری مکان میں رہتا ہے، اب اس میں اس کے رہنے کی مدت ختم ہو گئی ہے اور مکان خالی کرنے کیلئے اس کے پاس نوٹس بھیجا گیا ہے، لہذا خالی کرنے کی مقررہ تاریخ کے بعد اس مکان میں اس کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مقررہ تاریخ کے بعد متعلقہ حکام کی طرف سے اس مکان میں رہنے کی اجازت نہ ہو تو اس کے لئے اس میں تصرف کرنا غصب کے حکم میں ہے۔
س ٣٧۷: جس جائے نماز پر تصویریں اور سجدہ گاہ پر نقش و نگار بنے ہوئے ہوں، کیا ان پر نماز پڑھنا مکروہ ہے؟
ج: بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس سے شیعوں پر تہمت لگانے والوں کے لئے بہانہ فراہم ہوتا ہو تو ایسی چیزیں بنانا اور ان پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح اگر اس سے توجہ ہٹ جائے اور نماز میں حضور قلب نہ رہے تو مکروہ ہے۔
س ٣٧۸: اگر نماز پڑھنے کی جگہ پاک نہ ہو، لیکن سجدہ کی جگہ پاک ہو تو کیا نماز صحیح ہے؟
ج: اگر اس جگہ کی نجاست لباس یا بدن میں سرایت نہ کرے اور سجدہ کی جگہ پاک ہو تو ایسی جگہ پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٣٧۹: ہمارے دفتر کی موجودہ عمارت پرانے قبرستان پر بنائی گئی ہے۔ تقریباً چالیس سال سے اس میں مردے دفن کرنا چھوڑ دیا گیا تھا اور تیس سال پہلے اس عمارت کی بنیاد پڑی ہے۔ اب پوری زمین پر دفتر کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور اس وقت قبرستان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ کیا ایسے دفتر میں اس کے ملازمین کی نمازیں شرعی اعتبار سے صحیح ہیں یا نہیں؟
ج: اس میں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ شرعی طریقے سے ثابت ہو جائے کہ یہ جگہ جہاں مذکورہ عمارت بنائی گئی ہے، میت دفن کرنے کے لئے وقف کی گئی تھی اور اس میں غیر شرعی طریقے سے تصرف کر کے عمارت بنائی گئی ہے۔
س ٣۸۰: مؤمن نوجوانوں نے امر بالمعروف کی خاطر ہفتے میں ایک یا دو دن سیر گا ہوں میں نماز قائم کرنے کا پروگرام بنایا ہے، لیکن بعض افراد نے اعتراض کیا ہے کہ سیر گاہوں کی ملکیت واضح نہیں ہے، لہذا ان جگہوں پر نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: موجودہ سیر گاہوں و غیرہ کو نماز قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور غصب کے فقط احتمال کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔
س ۳۸۱: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔
س ٣۸۲: ہمارے شہر میں دو ملی ہوئی مسجدیں تھیں جن کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا، کچھ دنوں پہلے بعض مؤمنین نے دونوں مسجدوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے درمیانی دیوار کے اچھے خاصے حصے کو گرا دیا ہے، یہ اقدام بعض لوگوں کے لئے شک و شبہ کا سبب بن گیا ہے اور اب تک وہ اس بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ فرمائیں اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟
ج: دونوں مسجدوں کے درمیان کی دیوار کو گرانے سے ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔
س ٣۸۳: شاہراہوں پر ہوٹلوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی بھی جگہ ہوتی ہے، پس اگر کوئی شخص اس ہوٹل میں کھانا نہ کھائے تو کیا اس کیلئے وہاں نماز پڑھنا جائز ہے یا اجازت لینا واجب ہے؟
ج: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ نماز کی جگہ ہوٹل والے کی ملکیت ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے نماز پڑھنے کیلئے ہے جو اس ہوٹل میں کھانا کھائیں، تو اجازت لینا واجب ہے۔
س ٣۸۴: جو شخص غصبی زمین میں نماز پڑھے، لیکن اس کی نماز، جائے نماز یا تخت پر ہو تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا صحیح؟
ج: غصبی زمین پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہے خواہ وہ جائے نماز یا تخت پر ہی کیوں نہ پڑھی جائے۔
س٣٨۵: وہ ادارے اور کمپنیاں جو آجکل حکومت کے اختیار میں ہیں ان میں بعض افراد ایسے ہیں جو یہاں پر قائم ہونے والی نماز جماعت میں شرکت نہیں کرتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں ان کے مالکوں سے شرعی عدالت کے فیصلہ پر ضبط کی گئی ہیں۔ براہ مہربانی اس سلسلے میں آپ اپنے فتوے سے مطلع فرمائیں؟
ج: اگر یہ احتمال ہو کہ ضبط کرنے کا حکم ایسے قاضی نے دیا تھا جس کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس نے شرعی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ضبط کرنے کا حکم دیا تھا تو شرعاً اس کا عمل صحیح تھا، لہذا ایسی صورت میں اس جگہ میں تصرف کرنا جائز ہے اور اس پر غصب کا حکم نہیں لگے گا۔
س ٣٨۶: اگر امام بارگاہ کے پڑوس میں مسجد ہو تو کیا امام بارگاہ میں نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے؟ اور کیا دونوں جگہوں کا ثواب مساوی ہے؟
ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے سے زیادہ ہے لیکن امام بارگاہ یا دوسری جگہوں پر نماز جماعت قائم کرنے میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے۔
س ٣٨۷: جس جگہ حرام موسیقی بج رہی ہو کیا وہاں نماز پڑھنا صحیح ہے؟
ج: اگر وہاں نماز پڑھنا حرام موسیقی سننے کا سبب بنے تو اس جگہ ٹھہرنا جائز نہیں ہے، لیکن نماز صحیح ہے اور اگر موسیقی کی آواز نماز سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے تو اس جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
س ٣٨۸: ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے جن کو کشتی کے ذریعہ خاص ڈیوٹی پر بھیجا جاتا ہے اور سفر کے دوران نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور اگر وہ اسی وقت نماز نہ پڑھیں تو پھر وہ وقت کے اندر نماز نہیں پڑھ سکیں گے؟
ج: مذکورہ صورت میں ان پر واجب ہے کہ جس طرح ممکن ہو نماز پڑھیں اگر چہ کشتی میں ہی۔
- مسجد کے احکام
مسجد کے احکام
س ٣٨۹: اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے، کیا اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے شہر کی جامع مسجد جانے میں کوئی اشکال ہے؟
ج: اگر اپنے محلہ کی مسجد چھوڑنا دوسری مسجد میں نماز جماعت میں شرکت کے لئے ہو خصوصاً شہر کی جامع مسجد میں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٣۹۰: اس مسجدمیں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جس کے بانی یہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ہم نے اپنے لئے اور اپنے قبیلہ والوں کے لئے بنائی ہے؟
ج: مسجد جب مسجد کے عنوان سے تعمیر کی جائے تو قوم ، قبیلہ اور اشخاص سے مخصوص نہیں رہتی بلکہ اس سے تمام مسلمان استفادہ کر سکتے ہیں۔
س٣۹۱: عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟
ج: مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت مردوں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔
س ٣۹۲: دور حاضر میں مسجد الحرام اور صفا و مروہ کی سعی والی جگہ کے درمیان تقریباً آدھا میٹر اونچی اور ایک میٹر چوڑی دیوار ہے یہ مسجد اور سعی والی جگہ کے درمیان مشترک دیوار ہے ، کیا وہ عورتیں اس دیوار پر بیٹھ سکتی ہیں جن کے لئے ایام حیض کے دوران مسجد الحرام میں داخل ہونا جائز نہیں ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر جب یقین ہوجائے کہ وہ مسجد کا جز ہے ۔
س ٣۹۳: کیا محلہ کی مسجد میں ورزش کرنا اور سونا جائز ہے ؟ اور اس سلسلہ میں دوسری مساجد کا کیا حکم ہے؟
ج: مسجد ورزش گاہ نہیں ہے اور جو کام مسجد کے شایان شان نہیں ہیں انہیں مسجد میں انجام دینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور مسجد میں سونا مکروہ ہے ۔
س ٣۹۴: کیا مسجد کے ہال سے جوانوں کی فکری ، ثقافتی اور عسکری ( عسکری تعلیم کے ذریعے ) ارتقاء کیلئے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟ اور اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کاموں کے مراکز کم ہیں انہیں مسجد کے ایوان میں انجام دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟
ج: یہ چیزیں مسجد کے صحن اور بر آمدے کے وقف کی کیفیت سے مربوط ہیں ۔ اور اس سلسلہ میں مسجد کے امام جماعت اور انتظامیہ کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے البتہ امام جماعت اور انتظامیہ کے تحت نظر جوانوں کا مساجد میں جمع ہونا اور دینی کلاسیں لگانا مستحسن اور مطلوب فعل ہے ۔
س ٣٩۵: بعض علاقوں ، خصوصاً دیہاتوں میں لوگ مساجد میں شادی کا جشن منعقد کرتے ہیں یعنی وہ رقص اور گانا تو گھروں میں کرتے ہیں لیکن دوپہر یا شام کا کھانا مسجد میں کھلاتے ہیں ۔ شریعت کے لحاظ یہ جائز ہے یا نہیں ؟
ج: مہانوں کو مسجد میں کھانا کھلانے میں فی نفسہ کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س٣٩۶: پرائیوٹ کوآپریٹیو کمپنیاں رہائش کے لئے فلیٹ اور کالونیاں بناتی ہیں ۔ شروع میں اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ ان فلیٹوں میں عمومی مقامات جیسے مسجد و غیرہ ہوں گے لیکن اب جب گھر اس کمپنی کے حصص کے مالکان کو دے دیئے گئے ہیں کیا ان میں سے بعض کے لئے جائز ہے کہ وہ اس معاہدہ کو توڑدیں اور یہ کہہ دیں کہ ہم مسجد کی تعمیر کے لئے راضی نہیں ہیں ؟
ج: اگر کمپنی اپنے تمام ممبران کی موافقت سے مسجد کی تعمیر کا اقدام کرے اور مسجد تیار ہوجانے کے بعد وقف ہوجائے تو اپنی پہلی رائے سے بعض ممبران کے پھرجانے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ لیکن اگر مسجد کے شرعی طور پر وقف ہونے سے قبل بعض ممبران اپنی سابقہ موافقت سے پھر جائیں تو ان کے اموال کے ساتھ تمام ممبران کی مشترکہ زمین میں ان کی رضامندی کے بغیر مسجد تعمیر کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کمپنی کے تمام ممبران سے عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط کرلی گئی ہو کہ مشترکہ زمین کا ایک حصہ مسجد کی تعمیر کے لئے مخصوص کیا جائے گا اور تمام ممبران نے اس شرط کو قبول کیا ہو اس صورت میں انہیں اپنی رائے سے پھر نے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ان کے پھرنے سے کوئی اثر پڑسکتا ہے ۔
س ٣٩۷: غیر اسلامی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے مسجد میں ابتدائی اور مڈل کلاسوں کے تیس لڑکوں کو گروہ ترنم کی شکل میں جمع کیا ہے اس گروہ کے افراد کو عمرو فکری استعداد کے مطابق قرآن کریم ،احکام اور اسلامی اخلاق کا درس دیا جاتا ہے ۔ اس کام کاکیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ لوگ آلہ موسیقی جسے "ارگن" کہا جاتا ہے ، استعمال کریں تو اس کا کیاحکم ہے ؟ اور شرعی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں اس کی مشق کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: مسجد میں قرآن کریم ، احکام اور اسلامی اخلاق کی تعلیم دینے اورمذہبی و انقلابی ترانوں کی تمرین کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن بہر حال مسجد کے شان و مقام اور تقدس کی رعایت کرنا واجب ہے اور نمازیوں کیلئے مزاحمت پیدا کرنا جائزنہیں ہے ۔
س٣٩۸: کیا مسجد میں ان لوگوں کو جو قرآن کی تعلیم کے لئے شرکت کرتے ہیں ، ایسی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج ہے جن کو ایران کی وزارت ثقافت نے جاری کیا ہو؟
ج: مسجد کو فلم دکھانے کی جگہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن ضرورت کے وقت اور مسجد کے پیش نماز کی نگرانی میں مفید اور سبق آموزمذہبی اور انقلابی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٣٩۹: کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولادت کے موقع پر مسجد سے فرح بخش موسیقی کے نشر کرنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟
ج: واضح رہے کہ مسجد ایک خاص شرعی مقام رکھتی ہے ، پس اس میں موسیقی نشر کرنا اگر اس کی حرمت کے منافی ہو تو حرام ہے ، اگر چہ موسیقی غیر لہوی ہو۔
س ۴۰۰: مساجد کے لاؤڈاسپیکر ، جس کی آواز مسجد کے باہر سنی جاتی ہے، کا استعمال کب جائز ہے؟ اور اذان سے قبل اس پر تلاوت اور انقلابی ترانے نشر کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: جن اوقات میں محلہ والوں اور ہمسایوں کے لئے تکلیف و اذیت کا سبب نہ ہو ان میں اذان سے قبل چند منٹ تلاوت قرآن نشر کرنے میں اشکال نہیں ہے۔
س ۴۰۱: جامع مسجد کی تعریف کیا ہے؟
ج: وہ مسجد جو شہر میں تمام اہل شہر کے اجتماع کے لئے بنائی جاتی ہے اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوتی ۔
س ۴۰۲: تیس سال سے ایک مسجد کا چھت والا حصہ ویران پڑا تھا اس میں نماز نہیں ہوتی تھی اور وہ کھنڈر بن چکا تھا ، اس کا ایک حصہ سٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے رضا کاروں نے کہ جو تقریبا پندرہ سال سے اس چھت والے حصے میں مستقر ہیں اس میں کچھ تعمیراتی کام کیا ہے کیونکہ اسکی حالت بہت ہی غیر مناسب تھی اور اسکی چھت گرنے کے قریب تھی اور چونکہ یہ لوگ مسجد کے شرعی احکام سے ناواقف تھے اور جو لوگ جانتے تھے انہوں نے بھی ان کی راہنمائی نہیں کی ۔ لہٰذا انہوں نے چھت والے حصے میں چند کمرے تعمیر کرائے کہ جن پر خطیر رقم خرچ ہوئی اب تعمیر کا کام اختتام پر ہے۔ براہ مہربانی درج ذیل موارد میں حکم شرعی سے مطلع فرمائیں:
١۔ فرض کیجئے اس کام کے بانی اور اس پر نگران کمیٹی کے اراکین مسئلہ سے ناواقف تھے تو کیا یہ لوگ بیت المال سے خرچ کئے جانے والی رقم کے ضامن ہیں ؟ اور وہ گناہگار ہیں؟
٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ رقم بیت المال سے خرچ ہوئی ہے ۔ کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ جب تک مسجد کو اس حصہ کی ضرورت نہیں ہے اور اس میں نماز قائم نہیں ہوتی ان کمروں سے مسجد کے شرعی احکام و حدود کی رعایت کرتے ہوئے قرآن و احکام شریعت کی تعلیم اور مسجد کے دیگر امور کے لئے استفادہ کیا جائے یا ان کمروں کو فوراً گرادینا واجب ہے؟ج: مسجد کے چھت والے حصے میں بنے ہوئے کمروں کو منہدم کر کے اس کو سابقہ حالت پر لوٹا نا واجب ہے اور خرچ شدہ رقم کے بارے میں اگر افراط و تفریط نہ ہوئی ہو اور جان بوجھ کر اور کوتا ہی کرتے ہوئے ایسا نہ کیا گیا ہو تو معلوم نہیں ہے کہ اس کا کوئی ضامن ہو اور مسجد کے چھت والے حصے میں قرائت قرآن ، احکام شرعی ، اسلامی معارف کی تعلیم اور دوسرے دینی و مذہبی پروگرام منعقد کرنے میں اگر نماز گزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو اورامام جماعت کی نگرانی میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور امام جماعت ، رضاکاروں اور مسجد کے دوسرے ذمہ دار حضرات کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تا کہ مسجد میں رضا کاروں کا وجود بھی مستمر رہے اور مسجد کے عبادی فرائض جیسے نماز و غیرہ میں بھی خلل واقع نہ ہو۔
س ۴۰۳: ایک سڑک کی توسیع کے منصوبے میں متعدد مساجد آتی ہیں۔ منصوبے کے اعتبار سے بعض مسجدیں پوری منہدم ہوتی ہیں اور بعض کا کچھ حصہ گرایا جائے گا تا کہ ٹریفک کی آمد و رفت میں آسانی ہو براہ مہربانی اس سلسلے میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟
ج: مسجد یا اس کے کسی حصہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے مگر ایسی مصلحت کی بناء پر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہ ہو ۔
س ۴۰۴: کیا مساجد کے وضو کے لئے مخصوص پانی کو مختصر مقدار میں اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے مثلا دوکاندار پینے، چائے بنانے یا موٹر گاڑی میں ڈالنے کے لئے اس سے استفادہ کریں واضح رہے کہ اس مسجد کا واقف کوئی ایک شخص نہیں ہے جو اس سے منع کرے؟
ج: اگر معلوم نہ ہو کہ یہ پانی صرف نماز گزاروں کے وضو کے لئے وقف ہے اور اس محلہ کے عرف میں یہ رائج ہو کہ اس کے ہمسائے اور راہ گیر اس کے پانی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔
س ٤٠۵: قبرستان کے پاس ایک مسجد ہے اور جب بعض مومنین قبور کی زیارت کے لئے آتے ہیں تو وہ اپنے کسی عزیز کی قبر پر پانی چھڑکنے کے لئے اس مسجد سے پانی لیتے ہیں اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ پانی مسجد کے لئے وقف ہے یا عمومی استفادہ کیلئے ہے اور بالفرض اگر یہ مسجد کے لئے وقف نہ ہو تو معلوم نہیں ہے کہ یہ وضو اور طہارت کے ساتھ مخصوص ہے یا نہیں ۔ تو کیا اسے قبر پر چھڑکنا جائز ہے؟
ج: ان قبور پر پانی چھڑکنے کیلئے مسجد کے پانی سے استفادہ کرنا کہ جو اس سے باہر ہیں اگر لوگوں میں رائج ہو اور اس پر کوئی اعتراض نہ کرے اور اس بات پر کوئی دلیل نہ ہو کہ پانی صرف وضو اور طہارت کے لئے وقف ہے تو اس استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤٠۶: اگر مسجد میں تعمیراتی کام کی ضرورت ہو تو کیا حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت ضروری ہے؟
ج: اگر مسجد کی تعمیر اہل خیر افراد کے مال سے کرنا ہو تو اس میں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
س ٤٠۷: کیا میں یہ وصیت کر سکتا ہوں کہ مرنے کے بعد مجھے محلہ کی اس مسجد میں دفن کیا جائے :جس کے لئے میں نے بہت کوششیں کی تھیں کیونکہ میں چاہتا ہوں مجھے اس مسجد کے اندر یا اس کے صحن میں دفن کیا جائے؟
ج: اگر صیغۂ وقف جاری کرتے وقت مسجد میں میت دفن کرنے کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو تو اس میں دفن کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں آپ کی وصیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
س ٤٠۸: ایک مسجد تقریباً بیس سال پہلے بنائی گئی ہے اور اسے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نام مبارک سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ مسجد کا نام صیغہ ٔ وقف میں ذکر کیا گیا ہے یا نہیں تو مسجد کا نام مسجد صاحب زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بجائے بدل کر جامع مسجد رکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: صرف مسجد کا نام بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤٠۹: جن مساجد میں مومنین کے عطیوں اور مساجد کی خاص نذور سے بجلی اور ائرکنڈیشننگ کے سسٹم کا انتظام کیا جا تا ہے جب محلہ والوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو ان میں اس کے فاتحہ کی مجلس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مجلس میں مسجد کی بجلی اور ائرکنڈیشنر و غیرہ کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن مجلس کرنے والے اس کا پیسہ ادا نہیں کرتے شرعی نقطہ نظر سے یہ جائز ہے یا نہیں؟
ج: مسجد کے وسائل سے فاتحہ کی مجلس و غیرہ میں استفادہ کرنا وقف و نذر کی کیفیت پر موقوف ہے۔
س ٤۱۰: گاؤں میں ایک نئی مسجد ہے جو پرانی مسجد کی جگہ بنائی گئی ہے موجودہ مسجد کے ایک کنارے پرکہ جس کی زمین پرانی مسجد کا جزہے ، مسئلہ سے نا واقفیت کی بنا پر چائے و غیرہ بنانے کے لئے ایک کمرہ تعمیر کیا گیا ہے اور اسی طرح مسجد کے نیم چھت جو کہ مسجد کے ہال کے اندر ہے پر ایک لائبریری بنائی گئی ہے، براہ مہربانی اس سلسلہ میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟
ج: سابق مسجد کی جگہ پر چائے خانہ بنانا صحیح نہیں ہے اور اس جگہ کو دوبارہ مسجد کی حالت میں بدلنا واجب ہے اور مسجد کے ہال کے اندر کی نیم چھت بھی مسجد کے حکم میں ہے اور اس پر مسجد کے تمام شرعی احکام و اثرات مترتّب ہوں گے لیکن اس میں کتابوں کی الماریاں نصب کرنا اور مطالعہ کے لئے وہاں جمع ہونے میں ، اگر نمازگزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤۱۱: اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے کہ ایک گاؤں میں ایک مسجد گرنے والی ہے لیکن فی الحال اسے منہدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ راستہ میں رکاوٹ نہیں ہے کیا مکمل طور پر اس مسجد کو منہدم کرنا جائز ہے؟ اس مسجد کا کچھ اثاثہ اور پیسہ بھی ہے یہ چیزیں کس کو دی جائیں ؟
ج: مسجد کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور کلی طور پر مسجدکو گرانے سے وہ مسجد کے حکم کے خارج نہیں ہوگی ، اور مسجد کے اثاثہ و مال کو اگر اسکی خود اس مسجد کو ضرورت نہیں ہے تو استفادہ کے لئے دوسری مسجدوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
س ٤۱۲: کیا مسجد کے صحن کے ایک گوشہ میں مسجد کی عمارت میں کسی تصرف کے بغیر ، میوزیم بنانے میں کوئی شرعی حرج ہے جیسا کہ آج کل مسجد کے اندر لائبریری بنادی جاتی ہے؟
ج: اگر صحنِ مسجد کے گوشہ میں لائبریری یا میوزیم بنانا مسجد کے ہال اور صحن کے وقف کی کیفیت کے منافی یا مسجد کی عمارت میں تغیر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے ۔ مذکورہ غرض کے لئے بہتر ہے کہ مسجد سے متصل کسی جگہ کا انتظام کیا جائے۔
س ٤۱۳: ایک موقوفہ جگہ میں مسجد ، دینی مدرسہ اور پبلک لائبریری بنائی گئی ہے اور یہ سب اس وقت کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت یہ سب بلدیہ کے توسیع والے نقشہ میں آرہے ہیں کہ جن کا انہدام بلدیہ کے لئے ضروری ہے ، ان کے انہدام کے لئے بلدیہ سے کیسے تعاون کیا جائے اور کیسے ان کا معاوضہ لیا جائے تا کہ اس کے عوض نئی اور اچھی عمارت بنائی جاسکے؟
ج: اگر بلدیہ اس کو منہدم کرنے اور معاوضہ دینے کے لئے اقدام کرے اور معاوضہ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی ایسی اہم مصلحت کے بغیر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے موقوفہ مسجد و مدرسہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے۔
س ٤۱۴: مسجد کی توسیع کے لئے اس کے صحن سے چند درختوں کو اکھاڑنا ضروری ہے ۔ کیا ان کو اکھاڑنا جائز ہے ، جبکہ مسجد کا صحن کا فی بڑا ہے اور اس میں اور بھی بہت سے درخت ہیں؟
ج: اگر درخت کاٹنے کو وقف میں تغیر و تبدیلی شمار نہ کیا جاتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤١۵: اس زمین کا کیا حکم ہے جو مسجد کے چھت والے حصے کا جز تھی ، بعد میں بلدیہ کے توسیعی دائرے میں آنے کی وجہ سے مسجد کے اس حصہ کو مجبوراً منہدم کرکے سڑک میں تبدیل کردیا گیا؟
ج: اگر اس کے پہلی حالت کی طرف پلٹنے کا احتمال بعید ہو تو معلوم نہیں ہے اس پر مسجد کے شرعی اثرات مرتّب ہوں۔
س ٤١۶: ایک مسجد منہدم ہوچکی ہے اور اسکے مسجد والے آثار محو ہوچکے ہیں یا اسکی جگہ کوئی اور عمارت بنادی گئی ہے اور اسکی تعمیر نو کی کوئی امید نہیں ہے مثلاً وہاں کی آبادی ویران ہوگئی ہے اور اس نے وہاں سے نقل مکانی کر لی ہے کیا اس ( مسجد والی) جگہ کو نجس کرنا حرام ہے؟اور اسے پاک کرنا واجب ہے؟
ج: مفروضہ صورت میں معلوم نہیں ہے کہ اس کا نجس کرنا حرام ہو اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ اسے نجس نہ کیا جائے۔
س ٤١۷: میں عرصہ سے ایک مسجد میں نماز جماعت پڑھاتا ہوں ، اور مسجد کے وقف کی کیفیت کی مجھے اطلاع نہیں ہے، دوسری طرف مسجد کے اخراجات کے سلسلے میں بھی مشکلات در پیش ہیں کیا مسجد کے سرداب کو مسجد کے شایان شان کسی کام کے لئے کرایہ پر دیا جاسکتا ہے؟
ج: اگر سرداب پر مسجد کا عنوان صادق نہیں آتا ہے اور وہ اس کا ایسا جز بھی نہیں ہے جس کی مسجد کو ضرورت ہو اور اس کا وقف بھی وقف انتفاع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤١۸: مسجد کے پاس کوئی املاک نہیں ہیں کے جن سے اس کے اخراجات پورے کئے جاسکیں اور مسجد کے ٹرسٹ نے اسکے چھت والے حصے کے نیچے مسجد کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ایک تہ خانہ کھود کراس میں ایک چھوٹی سی فیکٹری یا دوسرے عمومی مراکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟
ج: فیکٹری وغیرہ کی تسیس کے لئے مسجد کی زمین کو کھودنا جائز نہیں ہے۔
س ٤١۹: کیا مسلمانوں کی مساجد میں کفّار کا داخل ہونا مطلقاً جائز ہے خواہ وہ تاریخی آثار کو دیکھنے کیلئے ہی ہو؟
ج: مسجد حرام میں داخل ہو نا شرعاً ممنوع ہے اور دیگر مساجد میں داخل ہونا اگر مسجد کی ہتک اور بے حرمتی شمار کی جائے تو جائز نہیں ہے بلکہ دیگر مساجد میں بھی وہ کسی صورت میں داخل نہ ہوں۔
س ٤۲۰: کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے جو کفّار کے توسط سے بنائی گئی ہو؟
ج: کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤۲۱: اگر ایک کافر اپنی خوشی سے مسجد کی تعمیر کے لئے پیسہ دے یا کسی اور طریقہ سے مدد کرے تو کیا اسے قبول کرنا جائز ہے۔
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤۲۲: اگر ایک شخص رات میں مسجد میں آکر سوجائے اور اسے احتلام ہوجائے لیکن جب بیدارہو تو اس کیلئے مسجد سے نکلنا ممکن نہ ہو تو اس کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج: اگر وہ مسجد سے نکلنے اور دوسری جگہ جانے پر قادر نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ فوراً تیمّم کرے تا کہ اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنے کا جواز پیدا ہوجائے۔
- دیگر مذہبی مقامات کے احکام
دیگر مذہبی مقامات کے احکام
س ٤۲۳: کیا شرعی نقطۂ نظر سے امام بارگاہ کو چند معین اشخاص کے نام رجسڑڈ کرانا جائز ہے ؟
ج: دینی مجالس برپا کرنے کے لئے موقوفہ امام بارگاہ کو کسی کی ملکیت کے طور پر رجسٹرڈ کرانا جائز نہیں ہے اور معین اشخاص کے نام وقف کے طور پر رجسٹرڈ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال بعض معین افراد کے نام بطور وقف رجسٹرڈ کرانے کیلئے بہتر ہے کہ ان تمام افراد کی اجازت لی جائے جنہوں نے اس عمارت کے بنانے میں شرکت کی ہے۔
س ٤۲۴: مسائل کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ مجنب شخص اور حائض عورت دونوں کے لئے ائمہ (علیہم السلام) کے حرم میں داخل ہونا جائز نہیں ہے ۔ براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیا صرف قبہ کے نیچے کی جگہ حرم ہے یا اس سے ملحق ساری عمارت حرم ہے؟
ج: حرم سے مراد وہ جگہ ہے جو قبۂ مبارکہ کے نیچے ہے اور عرف عام میں جس کو حرم اور زیارت گاہ کہا جاتا ہے ۔ لیکن ملحقہ عمارت اور ہال حرم کے حکم میں نہیں ہیں لہذا ان میں مجنب و حائض کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ان میں سے کسی کو مسجد بنادیا گیا ہو۔
س٤٢۵: قدیم مسجد کے ساتھ ایک امام بارگاہ بنائی گئی ہے اور آج کل مسجد میں نمازگزاروں کیلئے گنجائش نہیں ہے، کیا مذکورہ امام بارگاہ کو مسجد میں شامل کر کے اس سے مسجد کے عنوان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟
ج: امام بارگاہ میں نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر امام بارگاہ کو شرعاً صحیح طریقہ سے امام بارگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا ہے تو اسے مسجد میں تبدیل کرنا اور اسے ساتھ والی مسجد میں مسجد کے عنوان سے ضم کرنا جائز نہیں ہے۔
س ٤٢۶: کیا اولاد ائمہ میں سے کسی کے مرقد کے لئے نذر میں آئے ہوئے سامان اور فرش کو محلہ کی جامع مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟
ج: اگر یہ چیزیں فرزند امام کے مرقد اور اس کے زائرین کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤٢۷: جو عزا خانے حضرت ابوالفضل العباس اور دیگر شخصیات کے نام پر بنائے جاتے ہیں کیا وہ مسجد کے حکم میں ہیں؟ امید ہے کہ ان کے احکام بیان فرمائیں گے۔
ج: امام بارگاہیں اور عزاخانے مسجد کے حکم میں نہیں ہیں۔
- نماز گزار کالباس
نماز گزار کالباس
س ٤٢۸: جس لباس کی نجاست کے بارے میں شک ہے کیا اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے؟
ج: جس لباس کے نجس ہونے میں شک ہو وہ پاک ہے اور اس میں نماز صحیح ہے۔
س ٤٢۹: میں نے جرمنی میں چمڑے کی ایک بیلٹ خریدی تھی کیا اس کو باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟ اگر مجھے یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا مصنوعی کی اور یہ کہ یہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال کی ہے یا نہیں تو میری ان نمازوں کا کیا حکم ہے جو میں نے اس میں پڑھی ہیں؟
ج: اگر یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا نہیں تو اسے باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر طبیعی کھال ثابت ہونے کے بعد یہ شک ہو کہ وہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال ہے یا نہیں؟ تو وہ نجس نہیں ہے لیکن اس میں نماز صحیح نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں جو اس حکم سے ناواقفیت کی بناپر پڑھی ہیں انکی قضا نہیں ہے۔
س ٤۳۰: اگر نماز گزار کو یہ یقین ہو کہ اس کے لباس و بدن پر نجاست نہیں ہے اور وہ نماز بجالائے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اگر نماز کے دوران میں کوئی نجاست لگ جائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر اسے اپنے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا بالکل علم نہ ہو اور نماز کے بعد متوجہ ہوتو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر اعادہ یا قضاء واجب نہیں ہے لیکن اگر اثنائے نماز میں نجاست عارض ہوجائے اور وہ نجاست کو بغیر ایسا فعل انجام دینے کے جو نماز کے منافی ہے، دور کر سکتا ہو یا نجس لباس کو اتار سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نجاست دور کرے یا نجس لباس اتار دے اور اپنی نماز تمام کرے لیکن اگر نماز کی حالت کو باقی رکھتے ہوئے نجاست دور نہیں کرسکتا اور وقت میں بھی گنجائش ہے تو نماز توڑ کر پاک لباس اور بدن کے ساتھ نماز بجالانا واجب ہے۔
س ٤۳۱: ایک شخص ایک زمانہ تک ایسے حیوان کی کھال۔ جس کا ذبح ہونا مشکوک ہو اور جس میں نماز صحیح نہیں ہوتی ۔ میں نماز پڑھتا رہا تو کیا اس پر اپنی نمازوں کا اعادہ کرنا واجب ہے ؟ کلی طورپر جس حیوان کے ذبح میں شک ہو اس کا حکم کیا ہے؟
ج: جس حیوان کاذبح مشکوک ہو وہ گوشت کھانے کی حرمت اور اسکی کھال میں نماز کے عدم جواز کے لحاظ سے مردار کے حکم میں ہے لیکن نجس نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں اگر اس حکم سے ناواقفیت کی بنا پر پڑھی ہوں توصحیح ہیں۔
س ٤۳۲: ایک عورت نماز کے درمیان متوجہ ہوتی ہے کہ اس کے کچھ بال نظر آ رہے ہیں اور فوراً چھپا لیتی ہے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے یا نہیں؟
ج: جب تک جان بوجھ کر بالوں کو ظاہر نہ کیا ہو اعادہ واجب نہیں ہے۔
س ٤۳۳: ایک شخص پیشاب کے مقام کو مجبوراً کنکری ، لکڑی یا کسی اور چیز سے پاک کرتا ہے اور جب گھر لوٹتا ہے تو اسے پانی سے پاک کر لیتا ہے تو کیا نماز کے لئے اندرونی لباس ( انڈرویئر)کا بدلنا یا پاک کرنا بھی واجب ہے؟
ج: اگر لباس پیشاب کی رطوبت سے نجس نہ ہوا ہو تو اس کا پاک کرناواجب نہیں ہے۔
س ٤۳۴: بیرون ملک سے جو بعض صنعتی مشینیں منگوائی جاتی ہیں وہ ان غیر ملکی ماہرین کے ذریعہ نصب کی جاتی ہیں جو اسلامی فقہ کے اعتبار سے کافر اور نجس ہیں اور یہ معلوم ہے کہ ان مشینوں کی فٹنگ گریس اور دوسرے ایسے مواد کے ذریعے انجام پاتی ہے کہ جسے ہاتھ کے ذریعے ڈالا جاتاہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ مشینیں پاک نہیں رہ سکتیں اور کام کے دوران ان مشینوں سے کاریگروں کا لباس اور بدن مس ہوتا ہے اور نماز کے وقت مکمل طور سے لباس و بدن کوپاک نہیں کرسکتے تو نماز کے سلسلے میں ان کا فریضہ کیا ہے؟
ج: اس احتمال کے پیش نظر کہ مشینوں کو فٹ کرنے والا کافر، اہل کتاب میں سے ہو کہ جنکے پاک ہونے کا حکم لگایا گیاہے یا کام کے وقت وہ دستانے پہنے ہوئے ہو ۔صرف اس بناء پر کہ مشینوں کو کافر نے نصب کیا ہے ان کے نجس ہونے کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر مشینوں کی نجاست اور کام کے دوران میں کاریگر کے بدن یا لباس کے سرایت کرنے والی رطوبت کے ساتھ ان مشینوں کے ساتھ مس ہونے کا یقین ہوجائے تو نماز کے لئے بدن کا پاک کرنا اور لباس کا پاک کرنا یا بدلنا واجب ہے۔
س ٤٣۵: اگر نمازی خون سے نجس رومال یا اس جیسی کوئی نجس چیزا ٹھائے ہوئے ہو یا اسے جیب میں رکھے ہوئے ہو تو اس کی نماز صحیح ہے یا باطل ؟
ج: اگر رومال اتنا چھوٹا ہو جس سے شرم گاہ نہ چھپائی جاسکے تو اس کے نماز کے دوران ہمراہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤٣۶: کیا اس کپڑے میں نماز صحیح ہے جو آج کل کے ایسے پرفیوم سے معطّر کیا گیا ہو جس میں الکحل پایا جاتا ہے؟
ج: جب تک مذکورہ پرفیوم کی نجاست کا علم نہ ہو اس سے معطر کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤٣۷: حالت نماز میں عورت پر بدن کی کتنی مقدار کا چھپانا واجب ہے؟ کیا چھوٹی آستین والے لباس پہننے اور جوراب نہ پہننے میں کوئی حرج ہے؟
ج: عورتوں پر واجب ہے کہ وہ چہرے کی اتنی مقدار جس کا وضو میں دھونا واجب ہے اور کلائی تک دونوں ہاتھوں اور ٹخنوں تک دونوں پیروں کو چھوڑ کر پورے بدن اور بالوں کو ایسے لباس کے ساتھ چھپائیں کہ جو مکمل طور پر بدن کو ڈھانپ لیتا ہے اور اگر کوئی نامحرم ہو تو پیروں کو بھی چھپائیں۔
س ٤٣۸: کیا حالت نماز میں عورتوں پر پاؤں کے اوپر والے حصے کو چھپانا بھی واجب ہے یا نہیں؟
ج: اگر نامحرم نہ ہو تو ٹخنوں تک پاؤں کا چھپانا واجب نہیں ہے۔
س٤٣۹: کیا حجاب پہنتے وقت اورنماز میں ٹھوڑی کو مکمل طور پر چھپانا واجب ہے یا اس کے نچلے حصے ہی کو چھپانا کافی ہے اور کیا ٹھوڑی کا اس لئے چھپانا واجب ہے، کہ وہ چہرے کی اس مقدار کے چھپانے کا مقدمہ ہے جو شرعاً واجب ہے؟
ج: ٹھوڑی کا نچلا حصہ چھپانا واجب ہے نہ کہ ٹھوڑی کا چھپانا کیونکہ وہ چہرے کاجزء ہے۔
س ٤۴۰: کیا ایسی نجس چیز جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے کے ساتھ نماز کے صحیح ہونے کا حکم صرف اس حالت سے مخصوص ہے جب انسان اس کے حکم یا موضوع کے سلسلے میں نسیان یا ناواقفیت کی بنا پر اس میں نماز پڑھ لے یا پھر یہ شبہۂ موضوعیہ اور شبہۂ حکمیہ دونوں کو شامل ہے؟
ج: یہ حکم نسیان یا جہل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ایسی نجس چیز ،کہ جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے، میں علم کی صورت میں بھی نماز صحیح ہے ۔
س ٤۴۱: کیا نمازی کے لباس پر بلّی کے بال یا اس کے لعاب دہن کا وجود نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے؟
ج: جی ہاں نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔
- سونے چاندی کا استعمال
سونے چاندی کا استعمال
س٤۴۲: مردوں کے بارے میں سونے کی انگوٹھی خصوصاً نماز میں پہننے کا کیا حکم ہے ؟
ج: کسی حالت میں مرد کیلئے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بناپر اس میں اس کی نماز بھی باطل ہے۔
س٤۴۳: مردوں کے لئے سفید سونے کی انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے؟
ج: جسے سفید سونا کہا جاتاہے اگر یہ وہی زرد سونا ہو کہ جس میں کوئی مواد ملا کراسکے رنگ کو تبدیل کردیا گیا ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس میں سونے کی مقدار اتنی کم ہو کہ عرف عام میں اسے سونا نہ کہا جائے تو اشکال نہیں ہے اور پلاٹینم کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤۴۴: کیا اس وقت بھی سونا پہننے میں کوئی شرعی اشکال ہے جب وہ زینت کے لئے نہ ہو اور دوسروں کو نظر نہ آئے؟
ج: مردوں کے لئے ہر صورت میں سونا پہننا حرام ہے چاہے وہ انگشتر ہو یا کوی دوسری چیز اور چاہے اسے زینت کے قصد سے نہ پہنا جائے یا دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جائے۔
س ٤٤۵: مردوں کا تھوڑے سے وقت کے لئے سونا پہننا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیونکہ ہم بعض لوگوں کو یہ دعوی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کم مدت کے لیے جیسے عقد کے وقت سونا پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے؟
ج: مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہے، اور تھوڑے یا زیادہ وقت میں کوئی فرق نہیں ہے
س ٤٤۶: نماز گزارکے لباس کے احکام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اس حکم کے پیش نظر کہ مردوں کے لئے سونے سے مزین ہونا حرام ہے، درج ذیل دو سوالوں کے جواب بیان فرمائیں؟
١۔ کیا سونے سے زینت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے لئے مطلق طور پر سونے کا استعمال حرام ہے خواہ وہ ہڈی کے آپریشن اور دانت بنوانے کے لئے ہی کیوں نہ ہو؟
٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے شہر میں رواج ہے کہ نئے شادی شدہ جوان زرد سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور عام لوگوں کی نظر میں یہ چیز انکی زینت میں سے شمار نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس شخص کے لئے ازدواجی زندگی کے آغاز کی علامت سمجھی جاتی ہے، تو اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ج:
١) مردوں کے سونا پہننے کے حرام ہونے کا معیار زینت کا صادق آنا نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی طرح اور کسی بھی قصد سے سونا پہننا حرام ہے، چاہے وہ سونے کی انگوٹھی ہو یا ہار یا زنجیر و غیرہ ہو، لیکن زخم میں بھرنے اور دانت بنوانے میں مردوں کے لئے سونے کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٢) زرد سونے کی انگوٹھی پہننا مردوں کے لئے ہر صورت میں حرام ہے۔س ٤٤۷: سونے کے ان زیورات کو بیچنے اور انہیں بنانے کا کیا حکم ہے جو مردوں سے مخصوص ہیں اور جنہیں عورتیں نہیں پہنتیں؟
ج: سونے کے زیورات بنانا اگر صرف مردوں کے استعمال کے لئے ہو تو حرام ہے اور اسی طرح انہیں اس مقصد کے لئے خریدنا اور بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔
س ٤٤۸: ہم بعض دعوتوں میں دیکھتے ہیں کہ مٹھائی چاندی کے ظروف میں پیش کی جاتی ہے، کیا اس عمل کو چاندی کے ظروف میں کھانے سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟
ج: کھانے کے قصد سے چاندی کے برتن میں سے کھانے و غیرہ کی چیز کا اٹھانا اگرکھانے پینے میں چاندی کے برتنوں کا استعمال شمار کیا جائے تو حرام ہے۔
س ٤٤۹: کیا دانت پر سونے کا خول چڑھوانے میں کوئی اشکال ہے؟ اور دانت پرپلاٹینم کا خول چڑھوانے کا کیا حکم ہے؟
ج: دانت پر سونے یا پلاٹینم کا خول چڑھوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر زینت کی غرض سے سامنے کے دانتوں پر سونے کا خول چڑھوائے تو یہ اشکال سے خالی نہیں ہے۔
- اذان و اقامت
اذان و اقامت
س ٤۵۰: ماہ رمضان المبارک میں ہمارے گاؤں کا مؤذن ہمیشہ صبح کی اذان، وقت سے چند منٹ پہلے ہی دے دیتا ہے تاکہ لوگ اذان کے درمیان یااسکے ختم ہونے تک کھانا پینا جاری رکھ سکیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟
ج: اگر اذان دینا لوگوں کو شبہ میں مبتلا نہ کرے اور وہ طلوع فجر کے اعلان کے عنوان سے نہ ہوتو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٤۵۱: بعض اشخاص وقت نماز کے داخل ہونے کا اعلان کرنے کیلئے اجتماعی صورت میں عام راستوں میں اذان دیتے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ اس اقدام سے علاقے میں کھلم کھلا فسق و فساد روکنے کے سلسلے میں بڑا اثر ہوا ہے اور عام لوگ خصوصاً جوان حضرات اول وقت میں نماز پڑھنے لگے ہیں؟
لیکن ایک صاحب کہتے ہیں : یہ عمل شریعت اسلامی میں وارد نہیں ہوا اور بدعت ہے، ہمیں اس بات سے شبہ پیدا ہو گیا ہے، آپ کی رائے کیا ہے؟ج: یومیہ واجب نمازوں کے اول اوقات میں اعلان کی غرض سے اذان دینا اور سامعین کی طرف سے اسے دہرانا مستحبات مؤکدہ میں سے ہے اور سڑکوں کے کناروں پر اجتماعی صورت میں اذان دینا، اگر راستہ روکنے اور دوسروں کی اذیت کا سبب نہ بنے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٤۵۲: چونکہ بلند آواز سے اذان دینا عبادی، سیاسی عمل ہے اور اس میں عظیم ثواب ہے لہذابعض مؤمنین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر، واجب نماز کے وقت خصوصاً نماز صبح کے لئے اپنے اپنے گھروں کی چھت سے اذان دیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس عمل پر بعض ہمسائے اعتراض کریں تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: متعارف طریقے سے چھت پر اذان دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٤۵۳: ماہ رمضان المبارک میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے سحری کے مخصوص پروگرام نشر کرنے کا کیا حکم ہے تا کہ سب لوگ سن لیں؟
ج: جہاں پر اکثر لوگ، رمضان المبارک کی راتوں میں تلاوت قرآن مجید، دعائیں پڑھنے اور دینی و مذہبی پروگراموں میں شرکت کے لئے بیدار رہتے ہیں، وہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر یہ مسجد کے ہمسایوں کی تکلیف کا موجب ہو تو جائز نہیں ہے۔
س ٤۵۴: کیا مساجد اوردیگر مراکز سے لاؤڈا سپیکر کے ذریعے اتنی بلند آواز میں کہ جو کئی کلومیٹر تک پہنچے، اذان صبح سے قبل قرآنی آیات اور اس کے بعد دعاؤں کا نشر کرنا صحیح ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ سلسلہ کبھی کبھار آدھے گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہتا ہے؟
ج: رائج طریقہ کے مطابق نماز صبح کے وقت کے داخل ہو جانے کے اعلان کیلئے لاؤڈ اسپیکر سے اذان نشر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسجد سے آیات قرآنی اور دعاؤں و غیرہ کا نشر کرنا اگر ہمسایوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو تو اس کے لئے شرعاً کوئی جواز نہیں ہے بلکہ اس میں اشکال ہے۔
س ٤٥۵: کیا نماز میں مرد، عورت کی اذان پر اکتفا کرسکتا ہے؟
ج: مرد کیلئے عورت کی اذان پر اکتفا کرنا محل اشکال ہے۔
س ٤٥۶: واجب نماز کی اذان اور اقامت میں شہادت ثالثہ یعنی سید الاوصیاء (حضرت علی علیہ السلام ) کے امیر و ولی ہونے کی گواہی دینے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ج: " اشہد ان علیا ً ولی اللہ" شرعی لحاظ سے اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے، لیکن اسے مذہب تشیع کے شعار کے عنوان سے کہا جائے تو بہت اچھا اور اہم ہے اور ضروری ہے کہ اسے مطلق قصد قربت کے ساتھ کہا جائے۔
س ٤٥۷:ایک مدت سے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہوں اور بعض اوقات تو اتناشدید ہوجاتا ہے کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس چیز کے پیش نظر اگر اول وقت میں پڑھوں تو حتماً بیٹھ کر پڑھوں گا لیکن اگر صبر کروں تو ہوسکتا ہے آخری وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکوں اس صورتحال میں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: اگر آخر وقت میں کھڑے ہوکر پڑھ سکنے کا احتمال ہو تو احیتاط یہ ہے کہ اس وقت تک صبر کیجئے لیکن اگر اول وقت میں کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ لی اور آخر وقت تک وہ عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز پڑھی ہے وہی صحیح ہے اور اسکے اعادے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اول وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی قدرت نہ تھی اور آپ کو یقین تھا کہ آخر وقت تک یہ ناتوانی برقرار رہے گی پھرآخر وقت سے پہلے وہ عذر زائل ہوجائے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن ہو جائے تو دوبارہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا واجب ہے۔
- قرأت اور اس کے احکام
قرأت اور اس کے احکام
س ٤٥۸: اگر نماز میں قرأت جہری (بلند آواز سے) نہ کی جائے تو ہماری نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: مردوں پر واجب ہے کہ وہ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھیں لیکن اگر بھولے سے یا جہالت کی وجہ سے آہستہ پڑھ لیں تو نماز صحیح ہے اور اگر جان بوجھ کر آہستہ پڑھیں تو نماز باطل ہے۔
س ٤٥۹: اگر ہم صبح کی قضا نماز پڑھنا چاہیں تو کیا اسے بلند آواز سے پڑھیں گے یا آہستہ؟
ج: صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوںمیں چاہے وہ ادا ہوں یا قضا، حمد و سورہ کو ہر صورت میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے چاہے ان کی قضا دن میں ہی پڑھی جائے اور اگر جان بوجھ کر بلند آواز سے نہ پڑھی جائیں تو نماز باطل ہے۔
س ٤۶۰: ہم جانتے ہیں کہ نماز کی ایک رکعت: نیت، تکبیرة الاحرام، حمد و سورہ اور رکوع و سجود پر مشتمل ہوتی ہے، دوسری طرف مغرب کی تیسری رکعت اورظہر و عصر اورعشاء کی آخری دورکعتوں کو آہستہ پڑھنا واجب ہے، لیکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے جو نماز جماعت براہ راست نشر کی جاتی ہے اسکی تیسری رکعت میں امام جماعت رکوع و سجود کے ذکر کو بلند آواز سے پڑھتا ہے جبکہ رکوع و سجود دونوں ہی اس رکعت کے جزء ہیں جس کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں حکم کیا ہے؟
ج: مغرب و عشاء اور صبح کی نماز میں بلند آواز سے اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف حمد و سورہ سے مخصوص ہے، جیسا کہ مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں کے علاوہ باقی رکعتوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف سورہ حمد یا تسبیحات (اربعہ) سے مخصوص ہے، لیکن رکوع و سجود کے ذکر نیز تشہد و سلام اور اسی طرح نماز پنجگانہ کے دیگر واجب اذکار میں مکلف کو اختیار ہے کہ وہ انہیں بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز سے۔
س ٤۶۱: اگر کوئی شخص، روزانہ کی سترہ رکعت نمازوں کے علاوہ، احتیاطاً سترہ رکعت قضا نماز پڑھنا چاہتا ہے تو کیا اس پر صبح اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے یا آہستہ آوازسے بھی پڑھ سکتا ہے؟
ج: نماز پنجگانہ کے اخفات و جہر کے واجب ہونے میں ادا اور قضا نماز کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے، خواہ وہ قضا نماز احتیاطی ہی کیوں نہ ہو۔
س ٤۶۲: ہم جانتے ہیں کہ لفظ " صلوة " کے آخر میں " ت ' ' ہے لیکن اذان میں "حی علی الصلاہ" ، "ھائ" کے ساتھ کہتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟
ج: لفظ "صلوة" کو وقف کی صورت میں "ھا" کے ساتھ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہی متعین ہے۔
س ٤۶۳: تفسیر سورۂ حمد میں امام خمینی کے نظریہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ آپ نے سورۂ حمد کی تفسیر میں لفظ "مَلِکِ" کو "مالکِ" پر ترجیح دی ہے تو کیا واجب و غیر واجب نمازوںمیں اس سورۂ مبارکہ کو احتیاطاً دونوں طریقوں سے پڑھنا صحیح ہے؟
ج: اس مقام میں احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٤۶۴: کیا نماز گزار کے لئے صحیح ہے کہ وہ "غیر المغضوب علیھم"پڑھنے کے بعد فوری عطف کے بغیر وقف کرے اور پھر "ولاالضآلین" پڑھے اور کیا تشہد میں اس جملے "اللھم صل علی محمد" میں "محمد" پر وقف کرنا اور پھر "و آل محمد" پڑھنا صحیح ہے؟
ج: اس حد تک وقف اور فاصلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک وحدت جملہ میں خلل پیدا نہ ہو۔
س ٤٦۵: امام خمینی سے درج ذیل استفتاء کیا گیاہے :
تجوید میں حرف "ضاد" کے تلفظ کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں، آپ کس قول پر عمل کرتے ہیں؟ اس کا جواب امام خمینی نے یوں لکھا : علماء تجوید کے قول کے مطابق حروف کے مخارج کی شناخت واجب نہیں ہے بلکہ ہر حرف کا تلفظ اس طرح ہونا واجب ہے کہ عرب کے عرف کے نزدیک اس حرف کا ادا ہونا صادق آجائے۔ اب سوال یہ ہے:
اولاً۔اس عبارت کے معنی کیا ہیں "عرب کے عرف میں اس حرف کا ادا ہونا صادق آ جائے"۔
ثانیاً۔کیا علم تجوید کے قواعد، عرف عرب اور ان کی لغت سے نہیں بنائے گئے ہیں جیسا کہ صرف و نحو کے قواعد بھی انہیں سے بنائے گئے ہیں؟ پس کس طرح ان دو کے درمیان فرق کا قائل ہونا ممکن ہے؟
ثالثاً ۔ اگر کسی کو معتبر طریقے سے یقین ہوجائے کہ وہ قرأت کے وقت حروف کو صحیح مخارج سے ادا نہیں کرتا یا بطور کلی حروف و کلمات کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا اور اسے سیکھنے کیلئے ہر لحاظ سے موقع فراہم ہے مثلا اسے سیکھنے کیلئے اچھی استعداد یا مناسب فرصت رکھتا ہے تو کیا استعداد کی حد تک صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے کوشش کرنا واجب ہے؟ج: قرأت کے صحیح ہونے میں معیار یہ ہے کہ وہ اہل زبان کہ جن سے تجوید کے قواعد و ضوابط لئے گئے ہیں، انکی قرأت کی کیفیت کے موافق ہو۔ اس بنا پر حروف میں سے کسی حرف کے تلفظ کی کیفیت میں علمائے تجوید کے اقوال میں جو اختلاف ہے اگر یہ اختلاف اہل زبان کے تلفظ کی کیفیت کو سمجھنے میں ہو تو اس کا مرجع خوداہل لغت کا عرف ہے، لیکن اگر اقوال کے اختلاف کا سبب خود انکا تلفظ کی کیفیت میں اختلاف ہو تو مکلف کو اختیار ہے کہ ان اقوال میں سے جس قول کو چاہے اختیار کرے اور جو شخص اپنی قرأت کو صحیح نہیں سمجھتا اس کیلئے امکان کی صورت میں صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے اقدام کرنا ضروری ہے۔
س٤٦۶: جو شخص ابتداء سے یا اپنی عادت کے مطابق(نماز میں) حمد اور سورہ ٔ اخلاص پڑھنے کا قصد رکھتا تھا، اگر وہ" بسم اللہ "پڑھے لیکن بھول کر سورہ کو معین نہ کرے تو کیا اس پر واجب ہے کہ پہلے سورہ معین کرے اس کے بعد دوبارہ بسم اللہ پڑھے؟
ج: اس پر بسم اللہ کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے، بلکہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کیلئے اس بسم اللہ پر اکتفا کرسکتا ہے۔
س ٤٦۷: کیا واجب نمازوں میں عربی الفاظ کو کامل طور پر ادا کرنا واجب ہے؟ اور کیا اس صورت میں بھی نماز صحیح ہوگی جب کلمات کا تلفظ مکمل طور پر صحیح عربی میں نہ کیا جائے؟
ج: نماز کے تمام واجب اذکار جیسے حمد و سورہ کی قرأت و غیرہ کا صحیح طریقہ سے ادا کرنا واجب ہے اور اگر نماز گزار عربی الفاظ کو صحیح طور پر ادا کرنے کی کیفیت کو نہیں جانتا تو اس پر سیکھنا واجب ہے اور اگر وہ سیکھنے سے عاجز ہو تو معذور ہوگا۔
س٤٦۸: نماز میں قلبی قرأت یعنی حروف کو تلفظ کئے بغیر دل میں دہرانے پر قرأت صادق آتی ہے یا نہیں؟
ج: اس پر قرأ ت کا عنوان صادق نہیں آتا اور نماز میں واجب ہے کہ کلمات کو اس طریقے سے ادا کیا جائے کہ اس پر قرأت صادق آئے۔
س٤٦۹: بعض مفسرین کی رائے کے مطابق قرآن مجید کے چند سورے جیسے سورہ فیل و قریش اور انشراح و ضحی کامل سورے نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ان سوروں میں سے کوئی ایک سورہ مثلا سورہ فیل پڑھے تو اس پر اس کے بعد سورہ قریش پڑھنا واجب ہے، اسی طرح سورہ انشراح و ضحی کو بھی ایک ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ پس اگر کوئی شخص مسئلہ سے نا واقف ہونے کی وجہ سے نماز میں فقط سورہ فیل یا سورہ انشراح پڑھے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج: اگر اس نے مسئلہ سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو تو گذشتہ نمازوں کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائیگا۔
س ٤۷۰: اگر اثنائے نمازمیں ایک شخص غافل ہوجائے اور ظہر کی تیسری یا چوتھی رکعت میں حمد و سورہ پڑھ لے اور نماز تمام ہونے کے بعد اسے یاد آئے تو کیا اس پر اعاد ہ واجب ہے؟ اور اگر یاد نہ آئے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟
ج: مفروضہ صورت میں نماز صحیح ہے۔
س ٤۷۱: کیا عورتیں صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں حمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھ سکتی ہیں؟
ج: بلند بھی پڑھ سکتی ہیں اور آہستہ بھی لیکن اگر نامحرم انکی آواز سن رہا ہو تو آہستہ پڑھنا بہتر ہے۔
س٤۷۲: امام خمینی کا نظریہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر میں آہستہ پڑھنے کا معیار، عدم جہر ہے اور یہ بات واضح ہے کہ دس حروف کے علاوہ باقی حروف آواز والے ہیں، لہذا اگر ہم نماز ظہر و عصر کو آہستہ اور بغیر آواز کے (اخفات کی صورت میں ) پڑھیں تو اٹھارہ جہری حروف کا تلفظ کیسے ہوگا؟ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
ج: اخفات کا معیار جوہر صدا کو ترک کرنا(یعنی بالکل بے صدا پڑھنا) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد جوہر صدا کا اظہار نہ کر نا ہے اور جہر کا معیار آواز کے جوہر کا اظہار کرنا ہے۔
س٤۷۳: غیر عرب افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں جو اسلام قبول کر لیتے ہیں لیکن عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے تو وہ اپنے دینی واجبات یعنی نماز وغیرہ کو کس طرح ادا کرسکتے ہیں؟ اور بنیادی طورپرکیا اس سلسلہ میں عربی زبان سیکھنا ضروری ہے یا نہیں؟
ج: نماز میں تکبیرة الاحرام ، حمد و سورہ، تشہد، سلام اور ہر وہ چیز جس کا عربی ہونا شرط ہے اس کا سیکھنا واجب ہے۔
س ٤۷۴: کیا اس بات پر کوئی دلیل ہے کہ جہری نمازوں کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھا جائے اور اسی طرح اخفاتی نمازوں کے نوافل کو آہستہ آواز سے پڑھا جائے، اور اگر جواب مثبت ہو تو کیا جہری نماز کے نوافل کو آہستہ آواز میں اور اخفاتی نماز کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھنا کافی ہے؟
ج: جہری نمازوں کے نوافل میں قرأت کو بلند آواز سے پڑھنا اور آہستہ پڑھی جانے والی نمازوں کے نوافل کو آہستہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر اس کے بر عکس عمل کرے تو بھی کافی ہے۔
س٤٧۵: کیا نماز میں سورہ حمد کے بعد ایک کامل سورہ کی تلاوت کرنا واجب ہے یا قرآن کی تھوڑی سی مقدار کا پڑھنا بھی کافی ہے؟ اور پہلی صورت میں کیاسورہ پڑھنے کے بعد قرآن کی چند آیتیں پڑھنا جائز ہے؟
ج: بنابر احتیاط واجب ضروری ہے کہ روز مرہ کی واجب نمازوں میں حمد کے بعد ایک کامل سورہ پڑھا جائے اور کامل سورہ کے بجائے قرآن کی چند آیات پڑھنا کافی نہیں ہے، لیکن مکمل سورہ پڑھنے کے بعد قرآن کے عنوان سے بعض آیات کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٤٧۶: اگر تساہل کی وجہ سے یا اس لہجہ کے سبب جس میں انسان گفتگو کرتا ہے حمد و سورہ کے پڑھنے یا نماز میں اعراب اور حرکات کلمات کی ادائیگی میں غلطی ہوجائے جیسے لفظ "یولَد"کے بجائے "یولِد"لام کو زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس نمازکا کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ جان بوجھ کر ہو تو نماز باطل ہے اور اگر جاہل مقصر ہو(جو سیکھنے پر قدرت رکھتا ہو) تو بھی بنا بر احتیاط واجب اس کی نماز باطل ہے ورنہ صحیح ہے البتہ جو گذشتہ نمازیں اسی طریقے سے پڑھ چکا ہے اس نظر یے کے ساتھ کہ یہ صحیح ہے انکی قضا کسی صورت میں بھی واجب نہیں ہے۔
س٤٧۷: ایک شخص کی عمر ٣٥ یا ٤٠ سال ہے، بچپنے میں اس کے والدین نے اسے نماز نہیں سکھائی تھی، یہ شخص اَن پڑھ ہے اس نے صحیح طریقہ سے نماز سیکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ نماز کے اذکار اور کلمات کو صحیح طرح ادا کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ بعض کلمات کو تو وہ ادا ہی نہیں کر پاتا تو کیا اس کی نماز صحیح ہے؟
ج: جس کے تلفظ پر قادر ہے اگر اسے انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
س٤٧۸: میں نماز کے کلمات کا ویسے ہی تلفظ کرتا تھا جیسا میں نے اپنے والدین سے سیکھا تھا اور جیسا ہمیں ہائی اسکول میں سکھایا گیا تھا، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میں ان کلمات کو غلط طریقہ سے پڑھتا تھا، کیا مجھ پر۔امام خمینی طاب ثراہ کے فتوے کے مطابق۔ نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے؟ یا وہ تمام نمازیں جو میں نے اس طریقہ سے پڑھی ہیں صحیح ہیں؟
ج: مفروضہ صورت میں گزشتہ تمام نمازوں کی صحت کا حکم لگایا جائیگا نہ ان میں اعادہ ہے اور نہ ہی قضا۔
س٤٧۹: کیا اس شخص کی نماز اشاروں کے ساتھ صحیح ہے جو گونگے پن کی بیماری میں مبتلا ہے اور وہ بولنے پر قادر نہیں ہے، لیکن اس کے حواس سالم ہیں؟
ج: مذکورہ فرض کے مطابق اس کی نماز صحیح اور کافی ہے۔
- ذکرنماز
ذکرنماز
س ٤۸۰: کیا جان بوجھ کر رکوع و سجود کے اذکار کو ایک دوسرے کی جگہ پڑھنے میں کوئی حرج ہے؟
ج: اگر انہیں محض اللہ تعالیٰ کے ذکر کے عنوان سے بجا لائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور رکوع و سجود اور پوری نماز صحیح ہے۔
س٤۸۱: اگر کوئی شخص بھولے سے سجود میں رکوع کا ذکر پڑھے یا اس کے برعکس، رکوع میں سجود کا ذکر پڑھے اور اسی وقت اس کو یاد آجائے اور وہ اس کی اصلاح کر لے تو کیا اس کی نماز باطل ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
س ٤۸۲: اگر نماز گزار کو نماز سے فارغ ہونے کے بعد یا اثنائے نماز میں یاد آجائے کہ اس نے رکوع یا سجود کا ذکر غلط پڑھا تھا تو حکم کیا ہے؟
ج: اگر رکوع و سجود کے بعد متوجہ ہو تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔
س٤۸۳: کیا نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا کافی ہے؟
ج: کافی ہے، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ پڑھے۔
س٤۸۴: نماز میں تین مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا چاہیے لیکن اگر کوئی شخص بھولے سے چار مرتبہ پڑھ لے تو کیا خدا کے نزدیک اسکی نماز قبول ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٤٨۵: اس شخص کا کیا حکم ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس نے نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھی ہیں یا کم یا زیادہ؟
ج: ایک مرتبہ پڑھنا بھی کافی ہے اور وہ بری الذمہ ہے اورجب تک رکوع میں نہیں گیا کم پر بنا رکھتے ہوئے تسبیحات کا تکرار کرسکتا ہے تا کہ اسے تین مرتبہ پڑھنے کا یقین ہوجائے۔
س٤٨۶: کیا نماز میں حرکت کی حالت میں "بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد"کہنا جائز ہے نیزکیا یہ قیام کی حالت میں صحیح ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ا صولی طور پر اسے نماز کی اگلی رکعت کے لئے قیام کی حالت میں کہا جاتا ہے۔
س٤٨۷: ذکر سے کیا مراد ہے؟ کیا اس میں نبی کریمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھی شامل ہے؟
ج: جو عبارت بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل ہو وہ ذکر ہے اور محمد و آل محمدعلیھم السلام پر صلوات بھیجنا بہترین اذکار میں سے ہے۔
س٤٨۸: جب ہم نماز وتر میں کہ جو ایک ہی رکعت ہے، قنوت کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور خداوند متعال سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں تو کیافارسی میں اپنی حاجات طلب کرنے میں کوئی اشکال ہے؟
ج: قنوت میں فارسی میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ قنوت میں ہر دعا کو ہر زبان میں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
- سجدہ اور اس کے احکام
سجدہ اور اس کے احکام
س٤٨۹: سیمنٹ اور پتھر کی ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: ان دونوں پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ ان پر تیمم نہ کیا جائے۔
س ٤۹۰: کیا حالت نماز میں اس ٹائل پر ہاتھ رکھنے میں کوئی اشکال ہے جس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوں؟
ج: کوئی اشکال نہیں ہے۔
س٤۹۱: کیا اس سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال ہے جو چکنی اور کالی ہوگئی ہو اس طرح کہ ایک چکنی تہ نے اس کے اوپر کے حصے کو ڈھانپ رکھا ہو اور وہ پیشانی کے سجدہ گاہ پر لگنے سے مانع ہو؟
ج: اگر سجدہ گاہ پر اس قدرچکنامیل ہو جو پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان حائل ہو تو اس پر سجدہ باطل ہے اورنماز بھی باطل ہے۔
س٤۹۲: ایک عورت سجدہ گاہ پر سجدہ کرتی تھی اور اس کی پیشانی خاص کر سجدہ کی جگہ، حجاب سے ڈھانپی ہوئی ہوتی تھی تو کیا اس پر ان نمازوں کا اعادہ کرنا واجب ہے؟
ج: اگر وہ سجدہ کے وقت اس حائل کی طرف متوجہ نہ تھی تو نمازوں کا اعادہ کرنا واجب نہیں ہے۔
س٤۹۳: ایک عورت سجدہ گا ہ پر اپنا سر رکھتی ہے اور یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کی پیشانی مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہوئی ہے، گویا چادر یا دوپٹہ حائل ہے جو مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہونے دے رہاہے، لہذا و ہ اپنا سر اٹھاتی ہے اور حائل چیز کو ہٹا کر دوبارہ سجدہ گاہ پر اپنا سر رکھ دیتی ہے، اس مسئلہ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس عمل کو مستقل سجدہ فرض کیا جائے تو اس کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا حکم ہے؟
ج: اس پر واجب ہے کہ پیشانی کو زمین سے اٹھائے بغیراس طرح حرکت دے کہ وہ سجدہ گاہ کے ساتھ مس ہوجائے اور اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے زمین سے پیشانی کا اٹھانا لاعلمی یا فراموشی کی وجہ سے ہو اور یہ کام وہ ایک رکعت کے دو سجدوں میں سے ایک میں انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اعادہ واجب نہیں ہے، لیکن اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کیلئے علم کے ساتھ اور جان بوجھ کر سر اٹھائے یاایک ہی رکعت کے دونوں سجدوں میں ایسا کرے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔
س٤۹۴: حالت سجدہ میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھنا واجب ہے لیکن یہ عمل ہمارے لئے مقدور نہیں ہے، کیونکہ ہم ان جنگی زخمیوں میں سے ہیں جو ویلچیئر سے استفادہ کرتے ہیں۔ لہذا نماز کے لئے ہم یا سجدہ گاہ کو پیشانی تک لاتے ہیں یا سجدہ گاہ کو کرسی کے دستہ پر رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں توکیا ہمارا یہ عمل صحیح ہے یا نہیں؟
ج: اگر آپ کرسی کے دستے، اسٹول اور تکیے و غیرہ پر سجدہ گاہ رکھ کر اس پر سجدہ کرسکتے ہیں تو ایسا ہی کریں اور آپ کی نماز صحیح ہے، ورنہ جو طریقہ بھی آپ کیلئے ممکن ہو خواہ اشارہ یا ایماء ہی سے رکوع و سجود کریں تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو مزید توفیق عنایت فرمائے۔
س٤٩۵: مقامات مقدسہ میں زمین پر بچھائے گئے سنگ مرمر پر سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: سنگ مرمر پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٤٩۶: سجدہ کی حالت میں انگوٹھے کے علاوہ پیر کی بعض دیگر انگلیوں کے زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٤٩۷: حال ہی میں نماز کے لئے ایک سجدہ گاہ بنائی گئی ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ نماز گزار کی رکعتوں اور سجدوں کو شمار کرتی ہے اور کسی حد تک شک کو دور کرتی ہے واضح رہے کہ جب اس پر پیشانی رکھی جائے تو وہ نیچے کی طرف حرکت کرتی ہے کیونکہ سجدہ گاہ کے نیچے لوہے کی اسپرنگ لگی ہوئی ہے، کیا ایسی صورت میں اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے؟
ج: اگر پیشانی رکھنے کی جگہ ان چیزوں میں سے ہو کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور پیشانی رکھنے کے بعد وہ ایک جگہ ٹھہر جاتی ہو تو اس پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س٤٩۸: سجدوں کے بعد بیٹھتے وقت ہم کس پیر کو دوسرے پیر کے اوپر رکھیں؟
ج: مستحب ہے کہ بائیں پیر پر بیٹھے اور داہنے پیر کے ظاہری حصہ کو بائیں پیر کے باطنی حصہ پررکھے۔
س٤٩۹: رکوع و سجود میں واجب ذکر پڑھنے کے بعد کون سا ذکر افضل ہے؟
ج: اسی واجب ذکر کا تکرار اور بہتر یہ ہے کہ وہ طاق پر تمام ہواور سجود میں اس کے علاوہ صلوات پڑھنا اور دنیوی و اخروی حاجات کیلئے دعاکرنا بھی مستحب ہے۔
س۵۰۰: اگر ریڈیو ، ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی کے ذریعہ ایسی آیات نشر ہورہی ہوں جن میں سجدہ واجب ہے تو ان کو سننے کے بعد شرعی فریضہ کیا ہے؟
ج: سجدہ کرنا واجب ہے۔
- مبطلات نماز
مبطلات نماز
س۵۰۱: کیا تشہد میں "اشھد انّ امیر المؤمنین علیاً ولی اللہ" کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟
ج: نماز اورتشہد کو اسی طریقے سے پڑھیں جومراجع عظام کی توضیح المسائل میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں کسی چیز کا اضافہ نہ کریں اگر چہ وہ بذات خود حق اور صحیح بھی ہو۔
س۵۰۲: ایک شخص اپنی عبادتوں میں ریا کاری میں مبتلا ہے اور اب وہ اپنے نفس سے جہاد کر رہا ہے تو کیا اسے بھی ریا کاری سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور وہ ریاء سے کس طرح اجتناب کرے؟
ج: قربةً الی اللہ کے قصد سے جو عبادات بجالائی جائیں اور انہیں میں ایک ریا کے مقابلے میں جہاد ہے وہ ریا نہیں ہیں اور ریا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے چاہئے کہ وہ عظمت و شان خدا وندی اور دوسروں کے ضعف اور خدا کی طرف محتاج ہونے کو نظر میں رکھے نیز اپنی اور دیگر انسانوں کی اللہ تعالیٰ کے لئے عبودیت کے بارے میں غور کرے۔
س ۵۰۳: برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت، امام جماعت کے سورۂ حمد پڑھنے کے بعداجتماعی صورت میں بلند آواز سے لفظ "آمین" کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: اگرتقیہ "آمین" کہنے کا اقتضا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔
س ۵۰۴: اگر ہم واجب نماز کے اثناء میں بچے کو کوئی خطرناک کام کرتے ہوئے دیکھیں تو کیا سورۂ حمد یا دوسرے سورہ یا بعض اذکار کے کچھ کلمات کو بلند آواز سے پڑھنا ہمارے لئے جائز ہے تا کہ بچہ متنبہ ہو جائے، یا اس بارے میں موجود کسی اور شخص کو متوجہ کریں تا کہ خطرہ دور ہو جائے؟ نیز اثنائے نماز میں ہاتھ کو حرکت دے کر یا بھنووں کے ذریعہ، کسی شخص کو کوئی کام سمجھانے یا اس کے کسی سوال کے جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر آیات و اذکار پڑھتے وقت، دوسروں کو خبردار کرنے کے لئے آواز بلند کرنا نماز کو اپنی ہیئت (حالت) سے خارج نہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ قرأت اور ذکر کو، قرأت و ذکر ہی کی نیت سے انجام دیا جائے۔ حالت نماز میں ہاتھ ، آنکھ یا ابرو کو حرکت دینا اگر مختصر ہو اور سکون و اطمینان یا نماز کی شکل کے منافی نہ ہو تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
س٥٠۵: اگر اثنائے نماز میں کوئی شخص کسی مضحکہ خیز بات کے یاد آنے یا کسی ہنسانے والے سبب کے پیش آنے سے ہنس پڑے توکیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟
ج: اگر ہنسی جان بوجھ کر اور آواز کے ساتھ یعنی قہقہہ ہو تو نماز باطل ہے۔
س ٥٠۶: کیا قنوت کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے؟ اور اگر یہ باطل ہونے کا باعث ہے تو کیا اسے معصیت و گناہ بھی شمار کیا جائے گا؟
ج: مکروہ ہے لیکن نماز کے باطل ہونے کا باعث نہیں ہے۔
س ٥٠۷: کیا حالت نماز میں دونوں آنکھوں کا بند کرنا جائز ہے، کیونکہ آنکھیں کھلی رکھنے سے انسان کی فکر نماز سے ہٹ جاتی ہے؟
ج: حالت نماز میں آنکھوں کو بند کرنے میں شرعی ممانعت نہیں ہے اگرچہ رکوع کے غیر میں مکروہ ہے ۔
س ٥٠۸: میں بعض اوقات اثنائے نماز میں ان ایمانی لمحات اور معنوی حالات کو یاد کرتا ہوں جو میں ایران و عراق جنگ کے دوران رکھتا تھا اس سے نماز میں میرے خشوع میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیا اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟
ج: اس سے نماز کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
س٥٠۹: اگر دو اشخاص کے درمیان تین دن تک دشمنی اور جدائی باقی رہے تو کیا اس سے ان کا نماز روزہ باطل ہو جاتا ہے؟
ج: دو اشخاص کے درمیان دشمنی اور جدائی پیدا ہونے سے نماز روزہ باطل نہیں ہوتا اگر چہ یہ کام شرعاً مذموم ہے ۔
- جواب سلام کے احکام
جواب سلام کے احکام
س٥۱۰: جو تحیت (مثلا آداب وغیرہ) سلام کے صیغہ کی صورت میں نہ ہو تو اس کا جواب دینے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ج: اگر انسان نماز میں ہے تواس کا جواب دینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر حالت نماز میں نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کلام ہو جسے عرف میں سلام شمار کیا جاتا ہوتو جواب دے۔
س٥۱۱: کیا بچوں اور بچیوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
ج: لڑکے اور لڑکیوں میں سے ممیز بچوں کے سلام کا جواب دینا اسی طرح واجب ہے جیسے مردوں اور عورتوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے۔
س٥۱۲: اگر کسی شخص نے سلام سنا اور غفلت یا کسی دوسری وجہ سے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ تھوڑا فاصلہ ہوگیا تو کیا اس کے بعد سلام کا جواب واجب ہے؟
ج: اگر اتنی تاخیر ہوجائے کہ اس کو سلام کا جواب نہ کہا جائے تو جواب دینا واجب نہیں ہے۔
س٥۱۳: اگر ایک شخص چند لوگوں پر اس طرح سلام کرے :"السلام علیکم جمیعا"اور ان میں سے ایک نماز پڑھ رہا ہو توکیا نماز پڑھنے والے پر سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ اگرچہ حاضرین سلام کا جواب دے دیں۔
ج: اگر کوئی دوسرا جواب دے دے تو نمازی جواب نہ دے۔
س٥۱۴: اگر ایک شخص ایک ہی وقت میں کئی بار سلام کرے یا متعدد اشخاص سلام کریں تو کیا سب کا ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے؟
ج: پہلی صورت میں ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے اور دوسری صورت میں ایسے صیغہ کے ذریعہ جواب دینا جو سب کو شامل ہو اور سب کے سلام کا جواب دینے کی غرض سے ہو تو کافی ہے۔
س٥١۵: ایک شخص "سلام علیکم"کے بجائے صرف "سلام"کہتاہے۔ کیا اس کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
ج: اگر عرف میں اسے سلام و تحیت کہا جاتا ہو تو اس کا جواب دینا واجب ہے۔
- شکیات نماز
شکیات نماز
س٥١۶: جو شخص نماز کی تیسری رکعت میں ہو اور اسے یہ شک ہو کہ قنوت پڑھا ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ اپنی نماز کو تمام کرے یا شک پیدا ہوتے ہی اسے توڑ دے؟
ج: مذکورہ شک کی پروا نہیں کی جائے گی اور نماز صحیح ہے اور اس سلسلہ میں مکلف کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔
س ٥١۷: کیا نافلہ نمازوں میں رکعات کے علاوہ کسی اور چیز میں شک کی پروا کی جائیگی؟ مثلاً یہ شک کرے کہ ایک سجدہ بجا لایا ہے یا د و؟
ج: نافلہ کے اقوال و افعال میں شک کی پروا کرنے کا وہی حکم ہے جو واجب نمازوں کے اقوال و افعال میں شک کا ہے، یعنی اگر انسان محل شک سے نہ گزرا ہوتو شک کی اعتناء کرے اور محل شک کے گزر جانے کے بعد شک کی پروانہ کرے۔
س٥١۸: کثیرالشک اپنے شک کی پروا نہیں کرے گا، لیکن اگر نماز میں وہ شک کرے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج: اس کا فریضہ یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں شک ہو اس کے بجا لانے پر بنا رکھے، مگر یہ کہ اس کا بجالانا نماز کے بطلان کا سبب ہو تو اس صورت میں اسے بجانہ لانے پر بنا رکھے اس سلسلہ میں رکعات، افعال اور اقوال کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
س ٥١۹: اگر کوئی شخص چند سال کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ اس کی عبادتیں باطل تھیں یا وہ ان میں شک کرے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج: عمل کے بعد شک کی پروا نہیں کی جاتی اور باطل ہونے کے علم کی صورت میں قابل تدارک عبادتوں کی قضاء واجب ہے۔
س ٥۲۰: اگر بھول کر نماز کے بعض اجزاء کو دوسرے اجزاء کی جگہ بجا لائے یا اثنائے نماز میں اس کی نظر کسی چیز پر پڑ جائے یا بھولے سے کچھ کہہ دے تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اس پر کیا واجب ہے؟
ج: نماز میں بھولے سے جو اعمال سرزد ہو جاتے ہیں وہ باطل ہونے کا سبب نہیں ہیں؟ ہاں بعض موقعوں پر سجدہ سہو کا موجب بنتے ہیں، لیکن اگر کسی رکن میں کمی یا زیادتی ہو جائے تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
س ٥۲۱: اگر کوئی شخص اپنی نماز کی ایک رکعت بھول جائے اور پھر آخری رکعت میں اسے یاد آجائے مثلاً پہلی رکعت کو دوسری رکعت خیال کرے اور اس کے بعد تیسری اور چوتھی رکعت بجا لائے، لیکن آخری رکعت میں وہ اس بات کی طرف متوجہ ہو جائے کہ یہ تیسری رکعت ہے تو اس کا شرعی فریضہ کیا ہے؟
ج: سلام سے قبل اس پر اپنی نماز کی چھوٹی ہوئی رکعت کو بجا لانا واجب ہے، اس کے بعد سلام پھیرے، اور اس صورت میں چونکہ واجب تشہد کو اس کے مقام پر بجا نہیں لایا لذا واجب ہے کہ بھولے ہوئے تشہد کی خاطر دوسجدے سہو کے انجام دے اور احتیاط یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے بھولے ہوئے تشہد کی قضا کرے۔
س ٥۲۲: کسی شخص کے لئے نماز احتیاط کی رکعات کی تعداد کا جاننا کیسے ممکن ہے کہ یہ ایک رکعت ہے یا دو رکعت؟
ج: نماز احتیاط کی رکعتوں کی مقدار اتنی ہی ہو گی جتنی احتمالی طور پر نماز میں چھوٹ گئی ہیں۔ پس اگر دو اور چار کے درمیان شک ہو تو دو رکعت نماز احتیاط واجب ہے اور اگر تین اور چار کے درمیان شک ہو تو ایک رکعت کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط واجب ہے۔
س٥۲۳: اگر کوئی شخص بھولے سے یا غلطی سے اذکار نماز، آیات قرآن یا دعائے قنوت کا کوئی لفظ غلط پڑھے تو کیا اس پر سجدۂ سہو واجب ہے؟
ج: واجب نہیں ہے۔
- قضا نماز
قضا نماز
س ٥۲۴: میں سترہ سال کی عمر تک احتلام اور غسل و غیرہ کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور ان امور کے متعلق کسی سے بھی کوئی بات نہیں سنی تھی، خود بھی جنابت اور غسل واجب ہونے کے معنی نہیں سمجھتا تھا، لہذا کیا اس عمر تک میرے روزے اور نمازوں میں اشکال ہے، آپ مجھے اس فریضہ سے مطلع فرمائیں جس کا انجام دینا میرے اوپر واجب ہے؟
ج: ان تمام نمازوں کی قضا واجب ہے جو آپ نے جنابت کی حالت میں پڑھی ہیں، لیکن اصل جنابت کا علم نہ ہونے کی صورت میں آپ نے جو روزے جنابت کی حالت میں رکھے ہیں وہ صحیح اور کافی ہیں اور ان کی قضا واجب نہیں ہے۔
س ٥٢۵: افسوس کہ میں جہالت اور ضعیف الارادہ ہونے کی وجہ سے استمناء کیا کرتا تھا جس کے باعث بعض اوقات نماز نہیں پڑھتا تھا، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنی مدت تک نماز ترک کی ہے،میرا نماز نہ پڑھنا مسلسل نہیں تھا بلکہ صرف ان اوقات میں نماز نہیں پڑھتا تھا جن میں مجنب ہوتا تھا اور غسل نہیں کر پاتا تھا میرے خیال میں تقریبا چھ ماہ کی نماز چھوٹی ہوگی اور میں نے اس مدت کی قضا نمازوں کو بجا لانے کا ارادہ کر لیا ہے، کیا ان نمازوں کی قضا واجب ہے یا نہیں؟
ج: جتنی پنجگانہ نمازوں کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ ادا نہیں کی ہیں یا حالت جنابت میں پڑھی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔
س ٥٢۶: جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں یا نہیں اگر بالفرض اس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں تو کیا اس کی مستحب اور نافلہ کے طور پر پڑھی ہوئی نمازیں، قضا نمازیں شمار ہو جائیں گی؟
ج: نوافل اور مستحب نمازیں، قضا نمازیں شمار نہیں ہوں گے، اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں تو ان کو قضا کی نیت سے پڑھنا واجب ہے۔
س٥٢۷: میں تقریباً چھ ماہ قبل بالغ ہوا ہوں اور بالغ ہونے سے چند ہفتے پہلے تک میں یہ سمجھتا تھا کہ بلوغ کی علامت، صرف قمری حساب سے پندرہ سال کا مکمل ہونا ہے۔ مگر میں نے اب ایک کتاب کا مطالعہ کیا ہے جس میں لڑکوں کے بلوغ کی دیگر علامات بیان ہوئی ہیں،جو مجھ میں پائی جاتی تھیں، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ علامتیں کب سے شروع ہوئی ہیں، کیا اب میرے ذمہ نماز و روزہ کی قضا ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ میں کبھی کبھی نماز پڑھتا تھا اور گزشتہ سال ماہ رمضان کے مکمل روزے میں نے رکھے ہیں لہذا میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: ان تمام روزوں اور نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے شرعی طور پر بالغ ہونے کے بعد، چھوٹ جانے کا یقین ہو۔
س٥٢۸: اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں تین غسل جنابت انجام دے، مثلاً ایک غسل بیس تاریخ کو، دوسرا پچیس تاریخ کو اور تیسرا ستائیس تاریخ کو انجام دے، اور اسے یہ یقین ہو جائے کہ ان میں سے ایک غسل باطل تھا، تو اس شخص کے نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟
ج: روزے صحیح ہیں، لیکن احتیاط کی بنا پر نماز کی قضا اس طرح واجب ہے کہ اسے بری الذمہ ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔
س ٥٢۹: ایک شخص نے ایک عرصہ تک حکم شرعی سے لاعلمی کی بنا پر غسل جنابت میں ترتیب کی رعایت نہیں کی تو اس کی نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر غسل اس طرح انجام دیا ہو جو شرعاً باطل ہو تو جو نمازیں اس نے حدث اکبر کی حالت میں پڑھی ہیں ان کی قضا واجب ہے، لیکن اس کے روزوں کی صحت کا حکم لگایا جائیگا اگر وہ اس وقت اپنے غسل کو صحیح سمجھتا تھا ۔
س ٥۳۰: جو شخص ایک سال کی قضا نماز یں پڑھنا چاہتا ہے اسے کس طرح قضا کرنی چاہیے؟
ج: وہ کسی ایک نماز کو شروع کرے اور پھر انہیں نماز پنجگانہ کی ترتیب سے پڑھتا رہے؟
س٥۳۱: اگر کسی شخص پر کافی عرصے کی قضا نمازیں واجب ہوں توکیا وہ درج ذیل ترتیب کے مطابق ان کی قضا کر سکتا ہے؟
١) صبح کی مثلا بیس نمازیں پڑھے۔
٢) ظہر و عصر میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے۔
٣) مغرب و عشاء میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے اور سال بھر اسی طریقہ پر عمل پیرا رہے۔ج: مذکورہ طریقہ سے قضا نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٥۳۲: ایک شخص کا سر زخمی ہو گیا ہے اور یہ زخم اس کے دماغ تک جا پہنچا ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ، بایاں پیر اور زبان شل ہو گئی ہے چنانچہ وہ نماز کا طریقہ بھول گیا ہے اور وہ اسے دوبارہ سیکھ بھی نہیں سکتا ہے، لیکن کتاب سے پڑھ کر یا کیسٹ سے سن کر نماز کے مختلف اجزاء کو سمجھ سکتا ہے، اس وقت نماز کے سلسلہ میں اس کے سامنے دومشکلیں ہیں:
١) وہ پیشاب کے بعد طہارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی وضو کر سکتا ہے۔
٢) نماز میں قرأت اس کے لئے مشکل ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح تقریبا چھ ماہ سے اس کی جو نماز یں چھوٹ گئی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ج: اگر وضو یا تیمم کر سکتا ہوخواہ دوسروں کی مدد سے ہی تو واجب ہے کہ وہ جس طرح نماز پڑھ سکے، نماز پڑھے، چاہے کیسٹ سن کر یا کتاب میں دیکھ کر یاکسی اور طریقہ سے۔ اور اگر بدن کا پاک کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے حتی کہ کسی دوسرے کی مدد سے بھی تو اسی نجس بدن کے ساتھ نماز پڑھے اور اسکی نماز صحیح ہے اور گزشتہ فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا واجب ہے، مگر جس نماز کے پورے وقت میں وہ بے ہوش رہا ہو تو اس کی قضا واجب نہیں ہے۔
س٥۳۳: جوانی کے زمانہ میں مغرب و عشاء اور صبح کی نماز سے زیادہ میں نے ظہر و عصر کی نمازیں قضا کی ہیں، لیکن نہ میں ان کے تسلسل کو جانتا ہوں نہ ترتیب کو اور نہ ان کی تعداد کو، کیا اس موقع پر اسے نماز "دور" پڑھنا ہوگی؟ اور نماز "دور" کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
ج: قضا نمازوں میں ترتیب کی رعایت کرنا واجب نہیں ہے سوائے ایک دن کی ظہر و عصر اور مغرب و عشا کے اور جتنی نمازوں کے فوت ہونے کا آپ کو یقین ہو انہی کی قضا بجا لانا کافی ہے اور ترتیب کے حصول کے لئے آپ پر دوریعنی اس طرح نمازوں کا تکرار کرنا کہ انکے در میا ن ترتیب کا علم ہوجائے واجب نہیں ہے۔
س ٥۳۴: شادی کے بعد کبھی کبھی مجھ سے ایک قسم کا بہنے والا مادہ نکلتا تھا، جسے میں نجس سمجھتا تھا۔ اس لئے غسل جنابت کی نیت سے غسل کرتا اور پھر وضو کے بغیر نماز پڑھتا تھا، توضیح المسائل میں اس بہنے والے مادہ کو "مذی" کا نام دیا گیا ہے، اب یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ جو نمازیں میں نے مجنب ہوئے بغیر غسل جنابت کر کے بغیر وضو کے پڑھی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
ج: وہ تمام نمازیں جو آپ نے بہنے والے مادہ کے نکلنے کے بعد غسل جنابت کر کے وضو کئے بغیر ادا کی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔
س ٥٣۵: کافر اگر بالغ ہونے کے کچھ عرصہ بعد اسلام لائے تو کیا اس پر ان نمازوں اور روزوں کی قضا واجب ہے؟ جو اس نے ادا نہیں کیے ہیں؟
ج: واجب نہیں ہے۔
س ٥٣۶: بعض اشخاص نے کمیونسٹوں کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کے زیر اثر کئی سال تک اپنی نماز اور دیگر واجبات ترک کر دئیے تھے، لیکن امام خمینی کی طرف سے سابق سوویت یونین کے حکمرانوں کے نام تاریخی پیغام کے آنے کے بعد انہوں نے خدا سے توبہ کر لی ہے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ چھوٹ جانے والے تمام واجبات کی قضا نہیں کر سکتے، ان کا کیا فریضہ ہے؟
ج: جتنی مقدار میں بھی ممکن ہو ان پر چھوٹ جانے والی نماز اور روزوں کی قضا کرنا واجب ہے اور جس مقدار پر قادر نہیں ہیں اسکی وصیت کرنا ضروری ہے۔
س٥٣۷: ایک شخص فوت ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ رمضان المبارک کے روزے اور قضا نمازیں ہیں اور اس کا کوئی بیٹا بھی نہیں ہے لیکن اس نے کچھ مال چھوڑا ہے کہ جو نماز اور روزوں میں سے صرف ایک کی قضا کیلئے کافی ہے تو اس صورت میں کس کو مقدم کیا جائے؟
ج: نماز اور روزہ میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں ہے،اور وارثوں پر واجب نہیں ہے کہ اسکے ترکہ کو اسکی نماز اور روزوں کی قضا کے لئے خرچ کریں مگر یہ کہ اس نے اسکی وصیت کی ہو تو اسکے ایک تہائی تر کہ سے اسکی جتنی نمازوں اور روزوں کی قضا کیلئے کسی کو اجیر بنانا ممکن ہے اجیر بنائیں۔
س ٥٣۸: میں زیادہ تر نمازیں پڑھتا رہا ہوں اورچھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا کرتا رہا ہوں۔ یہ چھوٹ جانے والی نمازیں وہ ہیں جن کے اوقات میں، میں سو رہا تھا یا اسوقت میرا بدن و لباس نجس تھا کہ جن کا پاک کرنا دشوار تھا، لہذا نماز پنجگانہ، نماز قصر اور نماز آیات میں سے اپنے ذمے میں موجود نمازوں کا حساب کیسے لگاؤں؟
ج: جتنی نمازوں کے چھوٹ جانے کا یقین ہو انہی کی قضا بجالاناکافی ہے اور ان میں سے جتنی مقدار کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ وہ قصر ہیں یا نماز آیات، تو انہیں اپنے یقین کے مطابق بجا لائیے اور باقی کو نماز پنجگانہ کے طور پر پڑھیے اس سے زیادہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔
- ماں باپ کی قضا نمازیں
ماں باپ کی قضا نمازیں
س ٥٣۹: میرے والد فالج (برین ہیمبرج) کا شکار ہوئے اور اس کے بعد دو سال تک مریض رہے، اس مرض کی بنا پر وہ اچھے برے میں تمیز نہیں کر پاتے تھے یعنی ان سے سوچنے سمجھنے کی قوت ہی سلب ہو گئی تھی، چنانچہ دو برسوں کے دوران انہوں نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی نماز ادا کی۔ میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، لہذا کیا مجھ پر ان کے روزہ اور نماز کی قضا واجب ہے؟. جبکہ میں جانتا ہوں کہ اگر وہ مذکورہ مرض میں مبتلا نہ ہوتے تو ان کی قضا مجھ پر واجب تھی۔ اس مسئلہ میں آپ میری راہنمائی فرمائیں۔
ج: اگر ان کی قوت عاقلہ اتنی زیادہ کمزور نہیں ہوئی تھی کہ جس پر جنون کا عنوان صادق آ سکے اور نماز کے پورے اوقات میں وہ بے ہوش بھی نہیں رہتے تھے تو ان کی چھوٹ جانے والی نمازوںاور روزوں کی قضا واجب ہے ورنہ اس سلسلے میں آپ پر کچھ واجب نہیں ہے۔
س ٥۴۰: اگر ایک شخص مر جائے تو اس کے روزہ کا کفارہ دینا کس پر واجب ہے؟ کیا اس کے بیٹوں اور بیٹیوں پر یہ کفارہ دینا واجب ہے؟ یا کوئی اور شخص بھی دے سکتا ہے؟
ج: جو کفارہ باپ پر واجب تھا اگر وہ کفارۂ مخیرہ تھا یعنی وہ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے پر قدرت رکھتا تھا تو اگر اسکے ترکہ میں سے کفارہ کا دینا ممکن ہو تو اس میں سے نکالا جائے، ورنہ واجب یہ ہے کہ بڑا بیٹا روزے رکھے۔
س ٥۴۱: ایک سن رسیدہ آدمی بعض معلوم اسباب کی بناپر اپنے گھروالوں سے الگ ہوجاتا ہے اور اس کیلئے ان سے رابطہ رکھنا مقدور نہیں ہے اور یہی اپنے باپ کا سب سے بڑا بیٹا بھی ہے، اسی زمانے میں اس کے والد کا انتقال ہو جاتاہے اور وہ باپ کی قضا نمازوںو غیرہ کی مقدار نہیں جانتا ہے اور اس کے پاس اتنا مال بھی نہیں ہے کہ وہ باپ کی نماز اجارہ پرپڑھوائے۔ نیز بڑھاپے کی وجہ سے خود بھی باپ کی قضا نمازیں بجا نہیں لا سکتا اسکی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: باپ کی صرف انہی نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے چھوٹ جانے کا بڑے بیٹے کو یقین ہو اور جس طریقے سے بھی ممکن ہو بڑے بیٹے پر باپ کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔ ہاں اگر وہ انہیں ادا نہ کر سکتا ہوحتی کہ کسی کو اجیر بنا کر بھی تو وہ معذور ہے۔
س٥۴۲: اگر کسی شخص کی اولاد میں سے سب سے بڑی بیٹی ہو اور دوسرے نمبر پر بیٹا ہو تو کیا ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے اس بیٹے پر واجب ہیں؟
ج: معیار یہ ہے کہ بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا ہو اگر اس کے والدکے اور بیٹے بھی ہوں لہذا مذکورہ سوال میں باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا اس بیٹے پر واجب ہے جو باپ کی اولاد میں سے دوسرے نمبر پرہے اور ماں کی چھوٹی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا بھی بنا بر احتیاط واجب ہے۔
س ٥۴۳: اگر بڑے بیٹے کا باپ سے پہلے انتقال ہو جائے ۔خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ۔ تو کیا باقی اولاد سے باپ کی نمازوں کی قضا ساقط ہو جائے گی یا نہیں؟
ج: باپ کے روزہ اور نماز کی قضا اس بڑے بیٹے پر واجب ہے، جو باپ کی وفات کے وقت زندہ ہو خواہ وہ باپ کی پہلی اولاد یا پہلا بیٹا نہ بھی ہو۔
س ٥۴۴: میں اپنے باپ کی اولاد میں بڑا بیٹا ہوں، کیا مجھ پر واجب ہے کہ باپ کی قضا نمازوں کی ادائیگی کی غرض سے ان کی زندگی میں ان سے تحقیق کروں یا ان پر واجب ہے کہ وہ مجھے ان کی مقدار سے با خبر کریں، پس اگر وہ با خبر نہ کریں تو میرا کیا فریضہ ہے؟
ج: آپ پر تحقیق اور سوال کرنا واجب نہیں ہے، لیکن اس سلسلہ میں باپ پر واجب ہے کہ جب تک اسکے پاس فرصت ہے خود پڑھے اور اگرنہ پڑھ سکے تو وصیت کرے بہر حال بڑے بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کے ان روزوں اور نمازوں کی قضا کرے کہ جن کے چھوٹ جانے کا اسے یقین ہے۔
س ٥٤۵: ایک شخص کا انتقال ہوا ہے، اور اس کا کل اثاثہ وہ گھر ہے جس میں اس کی اولاد رہتی ہے، اور اس کے ذمہ روزے اور نمازیں باقی رہ گئے ہیں اور بڑا بیٹا اپنی روزمرہ مصروفیات کی بنا پر انہیں ادا نہیں کر سکتا، پس کیا ان پر واجب ہے کہ وہ اس گھر کو فروخت کر کے باپ کے روزے اور نمازیں قضاکروائیں؟
ج: مذکورہ فرض میں گھر بیچنا واجب نہیں ہے لیکن باپ کی نمازوں اور روزوں کی قضا بہر صورت اس کے بڑے بیٹے پر ہے، لیکن اگر مرنے والا یہ وصیت کر جائے کہ اس کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے اجرت پر نماز اور روزہ کی قضا کرائیں اورایک تہائی ترکہ بھی اس کی تمام نمازوں اور روزوں کی قضا کے لئے کافی ہو تو ترکہ میں سے ایک تہائی مال اس کام میں صرف کرنا واجب ہے۔
س ٥٤۶: اگر بڑا بیٹا جس پر باپ کی قضا نماز یںواجب تھیں، مر جائے تو کیا اس قضا کو بڑے بیٹے کے وارث ادا کریں گے یا یہ قضا اسکے دوسرے بڑے بیٹے پر واجب ہو گی؟
ج: باپ کی جو قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب تھے، باپ کے فوت ہوجانے کے بعد اس بڑے بیٹے کے فوت ہوجانے کی صورت میں اسکے بیٹے یابھائی پر واجب نہیں ہیں۔
س ٥٤۷: اگر باپ نے کوئی نماز نہ پڑھی ہو تو کیا اس کی ساری نمازیں قضا ہیں اور بڑے بیٹے پر ان کا بجا لانا واجب ہے؟
ج: بنا بر احتیاط اس کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔
س ٥٤۸: جس باپ نے جان بوجھ کر اپنے تمام عبادی اعمال کو ترک کر دیا ہو تو کیا بڑے بیٹے پر اسکی تمام نمازوں اور روزوں کا ادا کرنا واجب ہے کہ جن کی مقدار پچاس سال تک پہنچتی ہے؟
ج: اس صورت میں بھی احتیاط ان کی قضا کرنے میں ہے۔
س ٥٤۹: جب بڑے بیٹے پر خود اس کی نماز اور روزوں کی بھی قضا ہو اور باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا بھی ہو تو اس وقت دونوں میں سے کس کو مقدم کرے گا؟
ج: اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ جس کو بھی پہلے شروع کرے صحیح ہے۔
س ٥۵۰: میرے والد کے ذمہ کچھ قضا نمازیں ہیں لیکن انہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہیں ہے اور میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، کیا یہ جائز ہے کہ میں ان کی چھوٹ جانے والی نمازیں بجا لاؤں یا کسی شخص کو اس کا م کے لئے اجیر کروں جبکہ وہ ابھی زندہ ہیں؟
ج: زندہ شخص کی قضا نمازوں اور روزوں کی نیابت صحیح نہیں ہے۔
- نماز جماعت
نماز جماعت
س ٥۵۱: امام جماعت نماز میں کیا نیت کرے؟ جماعت کی نیت کرے یا فرادیٰ کی؟
ج: اگر جماعت کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے تو واجب ہے کہ امامت و جماعت کا قصد کرے اور اگر امامت کے قصد کے بغیر نماز شروع کر دے تو اس کی نماز میں اور دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٥۵۲: فوجی مراکز میں نماز جماعت کے وقت۔کہ جو دفتری کام کے اوقات میں قائم ہوتی ہے۔ بعض کارکن کام کی وجہ سے نماز جماعت میں شریک نہیں ہو پاتے، حالانکہ وہ اس کام کو دفتری اوقات کے بعد یا دوسرے دن بھی انجام دے سکتے ہیں تو کیا اس عمل کو نماز کو اہمیت نہ دینا شمار کیا جائے گا؟
ج: اول وقت اور جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ دفتری امور کو اس طرح منظم کریں جس سے وہ لوگ اس الٰہی فریضہ کو کم سے کم وقت میں جماعت کے ساتھ انجام دے سکیں۔
س ٥۵۳: ان مستحب اعمال، جیسے مستحب نماز یا دعائے توسل اور دوسری دعاؤں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو سرکاری اداروں میں نماز سے پہلے یا بعد میں یا اثنائے نماز میں پڑھی جاتی ہیں کہ جن میں نماز جماعت سے بھی زیادہ وقت صرف ہوتا ہے؟
ج: وہ مستحب اعمال اور دعائیں جو نماز جماعت کہ جو الہی فریضہ اور اسلامی شعائر میں سے ہے، کے ساتھ انجام پاتے ہیں، اگر دفتری وقت کے ضائع ہونے اور واجب کاموں کی انجام دہی میںتاخیر کا باعث ہوں تو ان میں اشکال ہے۔
س ٥۵۴: کیا اس جگہ دوسری نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے جہاں سے قریب ہی نماز گزاروں کی بڑی تعداد کے ساتھ ایک اور نماز جماعت بر پا ہو رہی ہو اس طرح کہ اس کی اذان اور اقامت کی آواز بھی سنائی دے؟
ج: دوسری جماعت کے قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن مؤمنین کے شایان شان یہ ہے کہ وہ ایک ہی جگہ جمع ہوں اور ایک ہی جماعت میں شریک ہوں تاکہ نماز جماعت کی عظمت کوچار چاند لگ جائیں۔
س ٥٥۵: جب مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے تو اس وقت بعض افراد فرادیٰ نماز پڑھتے ہیں، اس عمل کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ عمل نماز جماعت کو کمزور کرنا اور اس امام جماعت کی اہانت اور بے عزتی شمار کیا جائے کہ جس کے عادل ہونے پر لوگ اعتماد کرتے ہیں تو جائز نہیں ہے۔
س ٥٥۶: ایک محلہ میں متعدد مساجد ہیں اور سب میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور ایک مکان دو مسجدوں کے درمیان واقع ہے اس طرح کہ ایک مسجد اس سے دس گھروں کے فاصلہ پر واقع ہے اور دوسری دو گھروں کے بعد ہے اور اس گھر میں بھی نماز جماعت بر پا ہوتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
ج: سزاوار ہے کہ نماز جماعت کو اتحاد و الفت کے لئے قائم کیا جائے نہ کہ اختلاف و افتراق کی فضا پھیلانے کا ذریعہ بنایا جائے اور مسجد کے پڑوس میں واقع گھر میں نماز جماعت قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ اختلاف و پراگندگی کا سبب نہ ہو۔
س ٥٥۷: کیا کسی شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ مسجد کے مستقل امام ـکہ جس کو امور مساجد کے مرکز کی تائید حاصل ہے۔ کی اجازت کے بغیر اس مسجد میں نماز جماعت قائم کرے؟
ج: نماز جماعت قائم کرنا امام راتب کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب نماز جماعت قائم کرنے کے لئے امام راتب مسجد میں موجود ہو تو اس کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کی جائے، بلکہ اگر یہ مزاحمت فتنہ و شر کے بھڑک اٹھنے کا سبب ہو تو حرام ہے۔
س ٥٥۸: اگر امام جماعت کبھی غیر شائستہ انداز سے بات کرے یا ایسا مذاق کرے جو عالم دین کے شایان شان نہ ہو تو کیا اس سے عدالت ساقط ہو جاتی ہے؟
ج: اگر یہ شریعت کے مخالف نہ ہوتو اس سے عدالت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
س ٥٥۹: کیا امام جماعت کی کما حقہ پہنچاں نہ ہونے کے با وجود اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے؟
ج: اگر ماموم کے نزدیک کسی بھی طریقہ سے امام کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی اقتداء جائز ہے اور جماعت صحیح ہے۔
س ٥۶۰: اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو عادل و متقی سمجھتا ہو اور اسی لمحہ اس بات کا بھی معتقد ہو کہ اس نے بعض موقعوں پراس پر ظلم کیا ہے تو کیا وہ اسے کلی طور پر عادل سمجھ سکتا ہے؟
ج: جب تک اس شخص کے بارے میں ۔جس کو اس نے ظالم سمجھا ہے۔ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے وہ کام علم و اختیار سے اور کسی شرعی جواز کے بغیر انجام دیا ہے تو اس وقت تک وہ اس کے فاسق ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا۔
س ٥۶۱: کیا ایسے امام جماعت کی اقتداء کرنا جائز ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی قدرت رکھتا ہے، لیکن نہیں کرتا؟
ج: صرف امر بالمعروف نہ کرنا جو ممکن ہے مکلف کی نظر میں کسی قابل قبول عذر کی بنا پر ہو، عدالت کو نقصان نہیں پہنچاتا اور نہ ہی اس کی اقتداء کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
س٥۶۲: آپ کے نزدیک عدالت کے کیا معنی ہیں؟
ج: یہ ایک نفسانی حالت ہے جو باعث ہوتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایسا تقوا رکھتا ہو جو اسے واجبات کے ترک اور شرعی محرمات کے ارتکاب سے روکے اور اس کے اثبات کے لئے ا س شخص کے ظاہر کا اچھا ہونا ہی کافی ہے۔
س٥۶۳: ہم چند جوانوں کا ایک گروہ عزاخانوں اور امام بارگاہوں میں ایک جگہ جمع ہوتا ہے، جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو اپنے درمیان میں سے کسی ایک عادل شخص کو نماز جماعت کے لئے آگے بڑھا دیتے ہیں، لیکن بعض برادران اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام خمینی نے غیر عالم دین کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیا ہے، لہذا ہمارا فریضہ کیا ہے؟
ج: اگر عالم دین تک دسترسی ہو تو غیر عالم دین کی اقتدا نہ کریں۔
س٥۶۴: کیا دو اشخاص نماز جماعت قائم کرسکتے ہیں؟
ج: اگر مراداس طرح نمازجماعت کی تشکیل ہے کہ ایک امام ہو اور دوسرا ماموم تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س٥٦۵: اگر مأموم ظہر و عصر کی نماز باجماعت پڑھتے ہوئے اپنے ذہن کو متمرکز رکھنے کیلئے حمد و سورہ خود پڑھے جب کہ حمد وسورہ پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: ظہر و عصر جیسی اخفاتی نمازوں میں، اس کیلئے قرأت جائز نہیں ہے چاہے اپنے ذہن کو متمرکز کرنے کی غرض ہی سے ہو۔
س٥٦۶: اگر کوئی امام جماعت ٹریفک کے تمام قوانین کی رعایت کرتے ہوئے سائیکل کے ذریعہ نماز جماعت پڑھانے جاتا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اس سے عدالت اور امامت کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔
س٥٦۷: جب ہم نماز جماعت سے نہیں مل پاتے اور ثواب جماعت حاصل کرنے کی غرض سے تکبیرة الاحرام کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں اور امام کے ساتھ تشہد پڑھتے ہیں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور پہلی رکعت پڑھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت کے تشہد میں ایسا کرنا جائز ہے؟
ج: مذکورہ طریقہ، امام جماعت کی نماز کے آخری تشہد سے مخصوص ہے تا کہ جماعت کا ثواب حاصل کیا جا سکے۔
س ٥٦۸: کیا امام جماعت کے لئے نماز کے مقدمات کی اجرت لینا جائز ہے؟
ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٥٦۹: کیا امام جماعت کے لئے عید یا کوئی سی بھی دو نمازوں کی ایک وقت میں امامت کرانا جائز ہے؟
ج: نماز پنجگانہ میں دوسرے مامومین کی خاطرنماز جماعت کو ایک بار تکرار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز عید کا تکرار کرنے میں اشکال ہے۔
س ٥۷۰: جب امام نمازعشاء کی تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور ماموم دوسری رکعت میں ہو تو کیا ماموم پر واجب ہے کہ حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھے؟
ج: واجب ہے کہ دونوں کو آہستہ آواز سے پڑھے۔
س ٥۷۱: نماز جماعت کے سلام کے بعد نبی اکرمؐ پر صلوات کی آیت (ان اللہ و ملائکتہ…) پڑھی جاتی ہے۔ پھر نمازگزار محمد و آل محمد(علیہم السلام) پر تین مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور اس کے بعد تین مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اور اس کے بعد سیاسی نعرے لگاتے ہیں۔ یعنی دعا اور برائت کے جملے کہے جاتے ہیں جنہیں مؤمنین بلند آواز سے دہراتے ہیں کیا اس میں کوئی حرج ہے؟
ج: آیت صلوات پڑھنے اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ مطلوب ہے اور اس میں ثواب ہے اور اسی طرح اسلامی نعرے اور اسلامی انقلاب کے نعرے، (تکبیر اور اس کے ملحقات)کہ جو اسلامی انقلاب کے عظیم پیغام و مقاصد کی یاد تازہ کرتے ہیں، بھی مطلوب ہیں۔
س٥۷۲: اگر ایک شخص مسجد میں نماز جماعت کی دوسری رکعت میں پہنچے اور مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے بعد والی رکعت میں تشہد و قنوت کہ جن کا بجا لانا واجب تھا نہ بجا لائے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟
ج: نماز صحیح ہے لیکن بنابر احتیاط تشہد کی قضا اور تشہد چھوڑنے کی وجہ سے دو سجدۂ سہو بجا لانا واجب ہے۔
س ٥۷۳: نماز میں جس کی اقتداء کی جا رہی ہے کیا اس کی رضامندی شرط ہے؟ اور کیا ماموم کی اقتداء کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
ج: اقتداء کے صحیح ہونے میں امام جماعت کی رضا مندی شرط نہیں ہے اور ماموم جب تک اقتدا کر رہا ہے اسکی اقتدا نہیں کی جاسکتی۔
س ٥۷۴: دو اشخاص، ایک امام اور دوسرا ماموم جماعت قائم کرتے ہیں، تیسرا شخص آتا ہے وہ دوسرے (یعنی ماموم) کو امام سمجھتا ہے اور اس کی اقتداء کرتا ہے اور نماز سے فراغت کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام نہیں بلکہ ماموم تھا پس اس تیسرے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: ماموم کی اقتداء صحیح نہیں ہے، لیکن جب وہ نہ جانتا ہو اور اس کی اقتداء کر لے تو اگر وہ رکوع و سجود میں اپنے انفرادی فریضہ پر عمل کرے یعنی عمداً اور سہواً کسی رکن کی کمی اور زیادتی نہ کرے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
س ٥٧۵: جو شخص نماز عشاء پڑھنا چاہتا ہے، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ نماز مغرب کی جماعت میں شریک ہو؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ٥٧۶: مامومین سے امام کی نماز کے مقام کے بلند ہونے کی رعایت نہ کرنے سے، کیا ان کی نماز باطل ہوجاتی ہے؟
ج: اگر امام کی جگہ، مامومین کی جگہ سے اس حد سے زیادہ بلند ہو کہ جس کی شرعاًاجازت ہے تو ان کی جماعت کے باطل ہونے کا سبب ہوگی۔
س٥٧۷: اگر نماز جماعت کی ایک صف میں تمام وہ لوگ نماز پڑھیں کہ جن کی نماز قصر ہے اور اس کے بعد والی صف ان لوگوں کی ہو جن کی نماز پوری ہے تو اس صورت میں اگر اگلی صف والے دو رکعت نماز تمام کرنے کے فوراً بعد اگلی دو رکعت کی اقتداء کیلئے کھڑے ہو جائیں تو کیا بعد کی صف والوں کی آخری دو رکعت کی جماعت باقی رہے گی یا ان کی نماز فرادیٰ ہو جائے گی؟
ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں وہ فوراً اقتدا کر لیتے ہیں تو جماعت باقی رہے گی۔
س٥٧۸: کیاوہ ماموم جو نماز کی پہلی صف کے آخری سرے پر کھڑا ہو ان مامومین سے پہلے نماز میں شامل ہو سکتا ہے جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں؟
ج: جب وہ مامومین کہ جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں، امام جماعت کے جماعت شروع کرنے کے بعد، نمازمیں اقتدا کے لئے مکمل طور پر تیار ہوں تو وہ جماعت کی نیت سے نماز میں شامل ہوسکتا ہے۔
س٥٧۹: جو شخص یہ سمجھ کر کہ امام کی پہلی رکعت ہے اس کی تیسری رکعت میں شریک ہو جائے اور کچھ نہ پڑھے تو کیا اس پر اعادہ واجب ہے؟
ج: اگر وہ رکوع میں جانے سے پہلے ہی اس کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس پر قرأت واجب ہے اور اگر رکوع کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے، اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ سہواًقرأت ترک کرنے کے سبب دو سجدہ سہو بجا لائے۔
س٥۸۰:سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں نماز جماعت قائم کرنے کیلئے امام جماعت کی اشد ضرورت ہے اور چونکہ میرے علاوہ اس علاقہ میں کوئی عالم دین نہیں ہے، اس لئے میں مجبوراً مختلف مقامات پر ایک واجب نماز کی تین یا چار مرتبہ امامت کراتا ہوں۔ دوسری مرتبہ نماز پڑھانے کے لئے تو سارے مراجع نے اجازت دی ہے، لیکن کیا اس سے زائد کو احتیاطاً قضا کی نیت سے پڑھایا جا سکتا ہے؟
ج: احتیاطاً قضا پڑھی جانے والی نماز کے ساتھ امامت صحیح نہیں ہے۔
س٥۸۱: ایک یونیورسٹی نے اپنے اسٹاف کے لئے یونیورسٹی کی ایسی عمارت میں نماز جماعت قائم کی ہے جوشہر کی ایک مسجد کے نزدیک ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ عین اسی وقت مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے، یونیورسٹی کی جماعت میں شریک ہونے کا کیا حکم ہے؟
ج: ایسی نماز جماعت میں شرکت کرنے میں کہ جس میں ماموم کی نظر میں اقتداء اور جماعت کے صحیح ہونے کے شرائط پائے جاتے ہوں، کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ جماعت اس مسجد سے قریب ہی ہورہی ہو جس میں عین اسی وقت نماز جماعت قائم ہوتی ہے۔
س٥۸۲: کیا اس امام کے پیچھے نماز صحیح ہے جو قاضی ہے لیکن مجتہد نہیں ہے؟
ج: اس کا تقرر اگر ایسے شخص نے کیا ہے جس کو اس کا حق ہے تو اس کی اقتداء کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
س٥۸۳: جو شخص نماز مسافر میں امام خمینی کا مقلد ہے، کیا ایک ایسے امام جماعت کی اقتداء کرسکتا ہے جو اس مسئلہ میں کسی اور مرجع کا مقلد ہو خصوصاً جبکہ اقتداء نماز جمعہ میں ہو؟
ج: تقلید کا اختلاف اقتداء کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے، لیکن اس نماز کی اقتداء صحیح نہیں ہے جو ماموم کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق قصر ہو اور امام جماعت کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق کامل ہو یا اسکے برعکس ہو۔
س٥۸۴: اگر امام جماعت تکبیرة الاحرام کے بعد بھولے سے رکوع میں چلا جائے تو ماموم کا کیا فریضہ ہے؟
ج: اگر ماموم نماز جماعت میں شامل ہونے کے بعداور رکوع میں جانے سے پہلے اس طرف متوجہ ہوجائے تو اس پر فرادیٰ کی نیت کر لینا اور حمد و سورہ پڑھنا واجب ہے۔
س٥٨۵: اگر نماز جماعت کی تیسری یا چوتھی صف کے بعد اسکولوں کے نابالغ بچے نماز کیلئے کھڑے ہوں اور ان کے پیچھے بالغ اشخاص کھڑے ہوں تو اس حالت میں نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: مذکورہ فرض میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س٥٨۶: اگر امام جماعت نے معذور ہونے کے سبب غسل کے بدلے تیمم کیا ہو توکیایہ نماز جماعت پڑھانے کیلئے کافی ہے یا نہیں؟
ج: اگر وہ شرعی اعتبار سے معذور ہو تو غسل جنابت کے بدلے تیمم کرکے امامت کرا سکتا ہے اور اس کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
- اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے
اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے
س٥٨۷: کیا قرأت صحیح ہونے کے مسئلہ میں فرادیٰ نماز نیز ماموم یا امام کی نمازکے درمیان کوئی فرق ہے؟ یا قرأت کے صحیح ہونے کا مسئلہ ہر حال میں ایک ہی ہے؟
ج: اگر مکلف کی قرأت صحیح نہ ہو اور وہ سیکھنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اسکی نماز صحیح ہے، لیکن دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔
س٥٨۸: حروف کے مخارج کے اعتبار سے، بعض ائمہ جماعت کی قرأت صحیح نہیں ہے توکیا انکی اقتداء ایسے لوگ کرسکتے ہیں جو حروف کو صحیح طریقہ سے ان کے مخارج سے ادا کرتے ہوں؟ بعض لوگ کہتے ہیں تم جماعت سے نمازپڑھ سکتے ہو لیکن اس کے بعد نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، لیکن میرے پاس اعادہ کرنے کا وقت نہیں ہے، تو میرا کیا فریضہ ہے؟ اور کیا میرے لئے یہ ممکن ہے کہ جماعت میں شریک تو ہوجاؤں لیکن آہستہ طریقے سے حمد و سورہ پڑھوں؟
ج: جب ماموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو تو اس کی اقتداء اور نماز جماعت باطل ہے اور اگر وہ اعادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اقتداء نہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، لیکن جہری نماز میں آہستہ سے حمد وسورہ پڑھنا کہ جو امام جماعت کی اقتداء کے ظاہر کرنے کیلئے ہو صحیح اور کافی نہیں ہے۔
س٥٨۹: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چند ایک ائمہ جمعہ کی قرأت صحیح نہیں ہے، یا تو وہ حروف کو اس طرح ادا نہیں کرتے جس طرح وہ ہیں یا وہ حرکت کو اس طرح بدل دیتے ہیں کہ جس سے وہ حرف نہیں رہتاکیا ان کے پیچھے پڑھی جانے والی نمازوں کے اعادہ کے بغیر ان کی اقتداء صحیح ہے؟
ج: قرأت کے صحیح ہونے کا معیار، عربی زبان کے قواعد کی رعایت اور حروف کو ان کے مخارج سے اس طرح ادا کرنا ہے کہ اہل زبان یہ کہیں کہ وہی حرف ادا ہوا ہے نہ کوئی دوسرا حرف۔ تو اگر ماموم، امام کی قرأت کو قواعد کے مطابق نہ پائے اور اس کی قرأت کو صحیح نہ سمجھتا ہو تو اس کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے اور اس صورت میں اگر وہ اس کی اقتداء کرے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے اور دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
س٥۹۰: اگر امام جماعت کو اثنائے نمازمیں کسی لفظ کو ادا کرنے کے بعداس کے تلفظ کی کیفیت میں شک ہوجائے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد متوجہ ہوکہ اس نے اس لفظ کے تلفظ میں غلطی کی تھی تو اس کی اور مامومین کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: نماز صحیح ہے۔
س٥۹۱: اس شخص اور خاص کر قرآن کے مدرس کا شرعی حکم کیا ہے جو تجوید کے اعتبار سے امام جماعت کی نماز کو یقین کے ساتھ غلط سمجھتا ہے، جبکہ اگر وہ جماعت میں شرکت نہ کرے تو اس پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں؟
ج: علم تجوید کے خوبصورت قرأت کے معیارات کی رعایت ضروری نہیں ہے لیکن اگر مموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو اور نتیجةً اس کی نظر میں اس کی نماز بھی صحیح نہیں ہے، ایسی صور ت میں وہ اس کی اقتداء نہیں کرسکتا، لیکن عقلائی مقصد کے لیے نماز جماعت میں ظاہری طور پر شرکت کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
- معذور کی امامت
معذور کی امامت
س٥۹۲: اُن معذور افراد کی اقتدا کرنے کا کیا حکم ہے کہ جن کا ہاتھ یا پاؤں مفلوج ہوچکا ہو؟
ج: احتیاط اس کے ترک کرنے میں ہے۔
س٥۹۳: میں ایک دینی طالب علم ہوں، آپریشن کی وجہ سے میرا دایاں ہاتھ کٹ چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے یہ معلوم ہو اکہ امام خمینی کامل کے لئے ناقص کی امامت کو جائز نہیں سمجھتے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ ان مامومین کی نماز کا حکم بیان فرمائیں جن کو ابھی تک میں نے امامت کرائی ہے؟
ج: مأمومین کی گزشتہ نمازیں کہ جنہوں نے حکم شرعی سے ناواقفیت کی بنا پر آپ کی اقتداء کی ہے، صحیح ہیں۔ ان پر نہ قضا واجب ہے اور نہ اعادہ۔
س ٥۹۴: میں دینی طالب علم ہوں اور اسلامی جمہوریہ ایران پر مسلط کردہ جنگ میں میرا پیر زخمی ہوا اور میرا انگوٹھا کٹ گیا اور اس وقت میں ایک امام بارگاہ میں امام جماعت ہوں۔ کیا اس میں کوئی شرعی اشکال ہے یا نہیں؟
ج: امام میں اس قدر نقص امامت کیلئے مضر نہیں ہے ہاں اگر پورا ہاتھ یا پیر کٹا ہوا ہو تو امامت میں اشکال ہے۔
- نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت
نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت
س ٥٩۵: کیا شارع مقدس نے عورتوں کو بھی مسجدوں میں نماز جماعت یا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی اسی طرح ترغیب دلائی ہے جس طرح مردوں کو دلائی ہے، یا عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے؟
ج: عورتوں کے جمعہ و جماعت میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور ان کو جماعت کا ثواب ملے گا۔
س ٥٩۶: عورت کب امام جماعت بن سکتی ہے؟
ج: عورت کا فقط عورتوں کی نماز جماعت کے لئے امام بننا جائز ہے۔
س ٥٩۷: استحباب و کراہت کے لحاظ سے مردوں کی طرح عورتوں کی نماز جماعت میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو اس وقت ان کا کیا حکم ہے؟ کیا جب وہ مردوں کے پیچھے نماز جماعت کے لئے کھڑی ہوں تو کسی حائل یا پردے کی ضرورت ہے؟ اور اگر نماز میں وہ مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو حائل کے لحاظ سے کیا حکم ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جماعت ، تقاریر اور دیگر پروگراموں کے دوران عورتوں کا پردے کے پیچھے ہونا ان کی توہین اور شان گھٹانے کا موجب ہے؟
ج: عورتوں کے نماز جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو پردے اور حائل کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو نماز میں مرد کے برابر عورتوں کے کھڑے ہونے کی کراہت کو دور کرنے کے لئے سزاوار ہے کہ ان کے درمیان حائل ہو یہ توہم کہ حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کے درمیان حائل لگانا عورت کی شان گھٹانے اور اس کی عظمت کو کم کرنے کا موجب ہے محض ایک خیال ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، مزید یہ کہ فقہ میں اپنی ذاتی رائے کو دخل دینا صحیح نہیں ہے۔
س ٥٩۸: حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان پردے اور حائل کے بغیر اتصال اور عدم اتصال کی کیا کیفیت ہونی چاہیے؟
ج: عورتیں فاصلہ کے بغیر مردوں کے پیچھے کھڑی ہوسکتی ہیں۔
- اہل سنت کی اقتداء
اہل سنت کی اقتدا
س ٥٩۹: کیا اہل سنت کی اقتدا میں نماز جائز ہے؟
ج: وحدت اسلامی کے تحفظ کے لئے ان کے پیچھے نماز جماعت پڑھنا جائز اور صحیح ہے۔
س ۶۰۰: میں کُردوں کے علاقہ میں ملازمت کرتا ہوں، وہاں ائمہ جمعہ و جماعات کی اکثریت اہل سنت کی ہے ان کی اقتداء کے سلسلے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا ان کی غیبت کرنا جائز ہے؟
ج: وحدت اسلامی کے تحفظ کیلئے ان کے ساتھ ان کی جماعت اور جمعہ کی نمازوں میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور غیبت سے پرہیز کرنا لازم ہے۔
س ۶۰۱: اہل سنت کے ساتھ معاشرت اور ان کے ساتھ میل جول کی بنا پر نماز پنجگانہ میں شرکت کے دوران بعض موقعوں پر ہم بھی ان ہی کی طرح عمل کرتے ہیں مثلاً ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا، وقت کی رعایت و پابندی نہ کرنا اور جائے نماز پر سجدہ کرنا، تو کیا ایسی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے؟
ج: اگر اسلامی اتحاد ان تمام چیزوں کا تقاضا کرے تو ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے یہاں تک کہ جائے نماز پر سجدہ و غیرہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔
س۶۰۲: ہم مکہ اور مدینہ میں، اہل سنت کے ساتھ نماز جماعت پڑھتے ہیں اور ایسا کام ہم امام خمینی کے فتوے کی وجہ سے کرتے ہیں اور بعض اوقات مسجد میں نماز کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے ظہر و مغرب کی نماز کے بعد، عصر و عشاء کی نمازیں بھی ہم اہل سنت کی مساجد میں سجدہ گاہ کے بغیر فرادیٰ پڑھتے ہیں، ان نمازوں کا کیا حکم ہے؟
ج: مذکورہ فرض میں اگر تقیہ کے خلاف نہ ہو تو ایسی چیز پر سجدہ کرے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔
س ۶۰۳: ہم شیعوں کیلئے دوسرے ممالک کی مساجد میں اہل سنت کی نماز میں شرکت کرنا کیسا ہے؟جبکہ وہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں؟ اور کیا ان کی طرح ہاتھ باندھنا ہمارے اوپر واجب ہے یا ہم ہاتھ باندھے بغیر نماز پڑھیں؟
ج: اگر اسلامی اتحاد کی رعایت مقصود ہو تو اہل سنت کی اقتداء جائز ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا واجب نہیں ہے بلکہ جائز ہی نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔
س۶۰۴: اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت قیام کی حالت میں دونوں طرف کھڑے ہوئے اشخاص کے پیروں کی چھوٹی انگلی سے انگلی ملانے کا کیا حکم ہے جیسا کہ اہل سنت اس کے پابند ہیں؟
ج: یہ واجب نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس سے نماز کا صحیح ہونا متاثر نہیں ہوتا۔
س ٦٠۵: حج کے زمانہ میں یا اس کے علاوہ برادران اہل سنت اذان مغرب سے قبل مغرب کی نماز پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ان کی اقتداء کرنا اور اس نماز پر اکتفاء کرنا صحیح ہے؟
ج: یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت سے پہلے نماز پڑھتے ہیں، لیکن اگر مکلف کے لئے وقت کا داخل ہونا ثابت نہ ہوا ہو تو اس کا نماز میں شامل ہونا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر اسلامی اتحاد اس کا تقاضاکرے تو اس وقت ان کے ساتھ نماز پڑھنے اور اسی نماز پر اکتفا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
- نماز جمعہ
نماز جمعہ
س ٦٠۶: نماز جمعہ میں شریک ہونے کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ جبکہ ہم حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں، اور اگر بعض اشخاص امام جمعہ کو عادل نہ مانتے ہوں تو کیا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی ذمہ داری ان سے ساقط ہے یا نہیں؟
ج: نماز جمعہ اگرچہ دور حاضر میں واجب تخییری ہے اور اس میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے، لیکن نماز جمعہ میں شرکت کے فوائد و اہمیت کے پیش نظر، صرف امام جمعہ کی عدالت میں شک یا دیگر کمزوربہانوں کی بنا پر مؤمنین خود کو ایسی نماز کی برکتوں سے محروم نہ کریں۔
س ٦٠۷: نماز جمعہ میں واجب تخییری کے کیا معنی ہیں؟
ج: اس کے معنی یہ ہیں کہ جمعہ کے دن مکلف کو اختیار ہے کہ وہ نماز جمعہ پڑھے یا نماز ظہر۔
س ٦٠۸: نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟
ج: عبادی و سیاسی پہلو رکھنے والی نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعی لحاظ سے مذموم ہے۔
س ٦٠۹: کچھ لوگ کمزوراور عبث بہانوں کی بنا پر نماز جمعہ میں شریک نہیں ہوتے اور بعض اوقات نظریاتی اختلاف کے باعث شرکت نہیں کرتے، اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟
ج: نماز جمعہ اگرچہ واجب تخییری ہے، لیکن اس میں مستقل طور پر شرکت نہ کرنا شرعی طریقہ نہیں ہے۔
س ٦۱۰: نماز ظہر کا عین اس وقت جماعت سے منعقد کرنا، جب نماز جمعہ تھوڑے سے فاصلہ پر ایک اور مقام پر برپا ہو رہی ہو، جائز ہے یا نہیں؟
ج: بذات خود اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور اس سے مکلف جمعہ کے دن کے فریضہ سے بری الذمہ ہو جائے گا، کیونکہ دور حاضر میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے، لیکن چونکہ جمعہ کے دن، نماز جمعہ کے مقام سے قریب با جماعت نماز ظہر قائم کرنے کا لازمی نتیجہ مؤمنین کی تفریق و تقسیم ہے اور شاید اسے عوام کی نظر میں امام جمعہ کی توہین اور بے حرمتی شمار کیا جائے اور اس سے نماز جمعہ سے لاپروائی کا اظہار ہو تو اس لئے با جماعت نماز ظہر قائم کرنا مؤمنین کے لئے مناسب نہیں ہے، بلکہ اگر اس سے مفاسد اور حرام نتائج بر آمد ہوتے ہوں تو اس سے اجتناب واجب ہے۔
س ٦۱۱: کیا نماز جمعہ و عصر کے درمیانی وقفہ میں نماز ظہر پڑھنا جائز ہے؟ اور اگر امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور شخص نماز عصر پڑھائے تو کیا عصر کی نماز میں اس کی اقتداء کرنا جائز ہے؟
ج: نماز جمعہ، نماز ظہر سے بے نیاز کر دیتی ہے، لیکن نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھ کر نماز عصر کو جماعت سے پڑھنا مقصود ہو تو کامل احتیاط یہ ہے کہ نماز عصر اس شخص کی اقتداء میں ادا کرے جس نے نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر بھی پڑھی ہو۔
س ٦۱۲: اگر نماز جمعہ کے بعد امام جماعت نماز ظہر نہ پڑھے تو کیا ماموم احتیاطاً نماز ظہر پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
ج: اس کے لئے نماز ظہر پڑھنا جائز ہے۔
س ٦۱۳: کیا امام جمعہ کیلئے واجب ہے کہ وہ حاکم شرع سے اجازت حاصل کرے؟ اور حاکم شرع سے کیا مراد ہے؟ اور کیا یہی حکم دور دراز کے شہروں کے لئے بھی ہے؟
ج: نماز جمعہ کی امامت کا اصل جواز اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن امامت جمعہ کے لئے امام کے نصب کے احکام کا مترتب ہونا ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے پر موقوف ہے۔ اور یہ حکم ہر اس سرزمین اور شہر کے لئے عمومیت رکھتا ہے کہ جس میں ولی فقیہ کی اطاعت کی جاتی ہو اور وہ اس میں حاکم ہو۔
س ٦۱۴: کیا منصوب شدہ امام جمعہ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بغیر کسی مانع اور معارض کے اس جگہ نماز جمعہ قائم کرے جہاں اسے منصوب نہ کیا گیا ہو؟
ج: بذات خود نماز جمعہ قائم کرنا اس کے لئے جائز ہے، لیکن اس پر جمعہ کی امامت کے لئے نصب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
س ٦١۵:کیا موقت اور عارضی ائمہ جمعہ کے انتخاب کے لئے واجب ہے کہ انہیں ولی فقیہ منتخب کرے یا خود ائمہ جمعہ کو اتنا اختیار ہے کہ وہ امام موقت کے عنوان سے افراد کو منتخب کریں؟
ج: منصوب شدہ امام جمعہ کسی کو اپنا وقتی اور عارضی نائب بنا سکتا ہے۔ لیکن نائب کی امامت پر ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
س ٦١۶: اگر انسان منصوب شدہ امام جمعہ کو عادل نہ سمجھتا ہو یا اس کی عدالت میں شک کرتا ہو تو کیا مسلمین کی وحدت کے تحفظ کی خاطر اس کی اقتدا جائز ہے؟ اور جو شخص خود نماز جمعہ میں نہیں آتا، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ و ہ دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دے؟
ج: اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے جس کو وہ عادل نہ سمجھتا ہو یا جس کی عدالت میں شک کرتا ہو اور نہ ہی اس کی نمازجماعت صحیح ہے، لیکن وحدت کے تحفظ کی خاطر جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ بہر حال اسے دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت سے روکنے اور دوسروں کو اس کے خلاف بھڑکانے کا حق نہیں ہے۔
س ٦١۷: اس نماز جمعہ میں شریک نہ ہونے کا کیا حکم ہے کہ جس کے امام جمعہ کا جھوٹ مکلف پر ثابت ہو گیا ہو؟
ج: جو بات امام جمعہ نے کہی ہے اس کے بر خلاف انکشاف ہونا اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے غلطی یا توریہ کے طور پر یہ بات کہی ہو، لہذا صرف اس خیال اور توہم سے کہ امام جمعہ کی عدالت ساقط ہو گئی ہے خود کو نماز جمعہ کی برکتوں سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
س ٦١۸: جو امام جمعہ، امام خمینی یا عادل ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہو، کیا ماموم کیلئے اس کی عدالت کا اثبات و تحقیق ضروری ہے، یا امامت جمعہ کیلئے اس کا منصوب ہونا ہی اس کی عدالت کے ثبوت کے لئے کافی ہے؟
ج: امام جمعہ کے عنوان سے اس کے منصوب ہونے سے اگر ماموم کواس کی عدالت کاوثوق و اطمینان حاصل ہوجائے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہے۔
س ٦١۹: کیا مساجد کے ائمہ جماعت کا ثقہ علماء کی طرف سے معین کیا جانا یا ولی فقیہ کی جانب سے ائمہ جمعہ کا معین کیا جانا اس بات کی گواہی ہے کہ وہ عادل ہیں یا ان کی عدالت کے بارے میں تحقیق واجب ہے؟
ج: اگر امام جمعہ یا جماعت کے طور پر منصوب کئے جانے سے ماموم کو ان کی عدالت کا اطمینان و وثوق حاصل ہو جاتا ہو تو ان کی اقتداء کرنا جائز ہے۔
س٦۲۰: اگر امام جمعہ کی عدالت میں شک ہو یا خدا نخواستہ اس کے عادل نہ ہونے کا یقین ہو تو کیا اس کی اقتداء میںپڑھی جانے والی نمازوں کا اعادہ واجب ہے ؟
ج: اگر اس کی عدالت میں شک یاعدم عدالت کا یقین نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہو تو جو نمازیں آپ نے پڑھ لی ہیں وہ صحیح ہیں اور ان کا اعادہ واجب نہیں ہے۔
س ٦۲۱: اس نماز جمعہ میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جو یورپی ممالک و غیرہ میں وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اسلامی ممالک کے طلباء قائم کرتے ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے اکثر افراد اور امام جمعہ بھی اہل سنت ہوتے ہیں؟ کیا اس صورت میں نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا ضروری ہے؟
ج: مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی خاطر اس میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نماز ظہر پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔
س ٦۲۲: پاکستان کے ایک شہر میں چالیس سال سے ایک جگہ نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہے اور اب ایک شخص نے دو جمعوں کے درمیان شرعی مسافت کی رعایت کئے بغیر دوسری نماز جمعہ قائم کر دی ہے جس سے نماز گزاروں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ شرعاً اس عمل کا کیا حکم ہے؟
ج: کسی ایسے عمل کے اسباب فراہم کرنا جائز نہیں ہے جس سے مؤمنین کے درمیان اختلاف اور ان کی صفوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے، بالخصوص نماز جمعہ کہ جو شعائر اسلامی اور مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔
س ٦۲۳: راولپنڈی کی جامع مسجد جعفریہ کے خطیب نے اعلان کیا کہ تعمیری کام کی بنا پر مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ نہیں ہوگی، جب مسجد کی تعمیر کا کام ختم ہوا تو ہمارے سامنے یہ مشکل کھڑی ہو گئی کہ یہاں سے چار کلو میٹر کے فاصلہ پر دوسری مسجد میں نماز جمعہ قائم ہونے لگی، مذکورہ مسافت کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟
ج: دو نماز جمعہ کے درمیان اگر ایک شرعی فرسخ کا فاصلہ نہ ہو تو بعد میں قائم ہونے والی نماز جمعہ باطل ہے اور اگر ایک ہی وقت میں دونوں کو اکٹھا قائم کیا جائے تو دونوں باطل ہیں
س ٦۲۴: کیا نماز جمعہ، جو جماعت کے ساتھ قائم کی جاتی ہے، کو فرادیٰ پڑھنا صحیح ہے؟ اس طرح کہ کوئی شخص نماز جمعہ کو ان لوگوں کے ساتھ فرادیٰ پڑھے جو اسے جماعت سے پڑھ رہے ہوں؟
ج: نماز جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جماعت سے پڑھا جائے، لہذا فرادیٰ صورت میں جمعہ صحیح نہیں ہے۔
س ٦٢۵: جس شخص کی نماز قصر ہے کیا وہ امام جمعہ کے پیچھے نماز جمعہ پڑھ سکتا ہے ؟
ج: مسافرماموم کی نماز جمعہ صحیح ہے اور اسے ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
س ٦٢۶: کیا دوسرے خطبہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کا اسم گرامی مسلمانوں کے ایک امام کے عنوان سے لینا واجب ہے یاآپ کا نام لینے میں استحباب کی نیت ضروری ہے؟
ج: ائمہ مسلمین کا عنوان حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیھا کو شامل نہیں ہے اور خطبۂ جمعہ میں آپکا اسم گرامی لینا واجب نہیں ہے، لیکن برکت کے طور پر آپ کے نام مبارک کو ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ پسندیدہ امر ہے اور موجب ثواب ہے
س ٦٢۷: کیا ماموم، امام جمعہ کی اقتداء کرتے ہوئے جبکہ وہ نماز جمعہ پڑھ رہا ہو کوئی دوسری واجب نماز پڑھ سکتا ہے؟
ج: اس کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔
س ٦٢۸: کیا ظہر کے شرعی وقت سے پہلے نماز جمعہ کے خطبے دینا صحیح ہے؟
ج: زوال سے پہلے جائز ہے لیکناحتیاط یہ ہے کہ ان کا کچھ حصہ وقت ظہر میں واقع ہو۔
س ٦٢۹: اگر ماموم دونوں خطبوں میں سے کچھ بھی نہ سنے بلکہ اثنائے نماز جمعہ میں پہنچے اور امام کی اقتداء کرے تو کیا اس کی نماز صحیح اور کافی ہے؟
ج: اس کی نماز صحیح اور کافی ہے، خواہ اس نے نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے رکوع میں ہی شرکت کر لی ہو۔
س ٦۳۰: ہمارے شہر میں اذان ظہر کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز جمعہ قائم ہوتی ہے تو کیا یہ نماز، نماز ظہر سے کافی ہے یا نماز ظہر کا اعادہ ضروری ہے؟
ج: زوال آفتاب کے ساتھ ہی نماز جمعہ کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ زوال عرفی سے تقریباً ایک ، دو گھنٹہ سے زیادہ تاخیر نہ کرے۔
س ٦۳۱: ایک شخص نماز جمعہ میں جانے کی طاقت نہیں رکھتا تو کیا وہ اوائل وقت میں نماز ظہر و عصر پڑھ سکتا ہے؟ یا نماز جمعہ ختم ہونے کا انتظار کرے اور اس کے بعد نماز ظہر و عصر پڑھے؟
ج: اس پر انتظار واجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اول وقت میں نماز ظہرین پڑھنا جائز ہے۔
س ٦۳۲: اگر منصوب امام جمعہ صحیح و سالم ہو اور وہاں پر حاضر بھی ہو تو کیا وہ عارضی امام جمعہ کو نماز جمعہ پڑھانے کے لئے کہہ سکتا ہے؟ اور کیا وہ عارضی امام جمعہ کی اقتداء کر سکتا ہے؟
ج: منصوب امام جمعہ کے نائب کی امامت میں نماز جمعہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی منصوب امام کے لئے اپنے نائب کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال ہے۔
- نماز عیدین
نماز عیدین
س ٦۳۳: آپ کی نظر میں نماز عیدین اور جمعہ، واجبات کی کونسی قسم میں سے ہیں؟
ج: عصر حاضر میں نماز عیدین واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔
س ٦۳۴: کیا نماز عیدین کے قنوت میں کمی اور زیادتی اس کے باطل ہونے کا سبب بنتی ہے؟
ج: اگر اس سے مراد قنوت کو لمبا یا مختصر پڑھنا ہو تو اس سے نماز عید باطل نہیں ہوتی لیکن اگر مراد انکی تعداد میں کمی بیشی کرنا ہو تو ضروری ہے کہ نماز عید اسی طرح پڑھے جیسے فقہی کتب میں مذکور ہے۔
س ٦٣۵: ماضی میں رواج یہ تھا کہ امام جماعت ہی مسجد میں عیدالفطر کی نماز پڑھایا کرتا تھا۔ کیا اب بھی ائمۂ جماعت کے لئے نماز عیدین پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟
ج: ولی فقیہ کے وہ نمائندے جن کو ولی فقیہ کی طرف سے نماز عید قائم کرنے کی اجازت ہو نماز عید پڑھا سکتے ہیں اسی طرح وہ ائمہ جمعہ بھی دور حاضر میں نماز عید، جماعت سے پڑھا سکتے ہیں جن کو ولی فقیہ کی طرف سے منصوب کیا گیا ہے، لیکن ان کے علاوہ باقی افراد کے لئے احوط یہ ہے کہ نماز عید فرادیٰ پڑھیں، اور رجاء کی نیت سے جماعت کے ساتھ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ورود(یعنی اس نیت سے کہ اس کا حکم شریعت میں آیا ہے) کے قصد سے نہیں۔ ہاں اگر مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ شہر میں ایک ہی نماز عید قائم کی جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے ولی فقیہ کے منصوب کردہ امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور نہ پڑھائے۔
س ٦٣۶: کیا نماز عید فطر کی قضا کی جا سکتی ہے؟
ج: اس کی قضا نہیں ہے۔
س ٦٣۷: کیا نماز عید فطر میں اقامت ہے؟
ج: اس میں اقامت نہیں ہے۔
س ٦٣۸: اگر نماز عید فطر کیلئے اما م جماعت، اقامت کہے تو اس کی اور دیگر نماز گزاروں کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اس سے امام جماعت اور دیگر مامومین کی نماز کے صحیح ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
- نماز مسافر
نماز مسافر
س ٦٣۹: مسافر کے لئے ہر نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے یا بعض نمازوں کو؟
ج: قصر کا وجوب پنجگانہ نمازوں کی صرف چار رکعتی یعنی "ظہر و عصر اور عشائ" کی نمازوں سے مخصوص ہے، صبح اور مغرب کی نماز قصر نہیں ہوتی۔
س ٦۴۰: مسافر پر چار رکعتی نمازوں میں وجوب قصر کے شرائط کیا ہیں؟
ج: یہ آٹھ شرطیں ہیں:
١۔ سفر کی مسافت آٹھ شرعی فرسخ ہو یعنی صرف جانے کا فاصلہ یاصرف آنے کا فاصلہ یا دونوں طرف کا مجموعی فاصلہ آٹھ شرعی فرسخ ہو، بشرطیکہ صرف جانے کی مسافت چار فرسخ سے کم نہ ہو۔
٢۔ سفر پر نکلتے وقت آٹھ فرسخ کی مسافت کو طے کرنے کا قصد رکھتا ہو۔ لہذا اگرابتدا سے اس مسافت کا قصد نہ کرے یا اس سے کم کا قصد کرے اور منزل پر پہنچ کر دوسری جگہ کا قصد کر لے اور اس دوسری جگہ اور پچھلی منزل کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر نہ ہو، لیکن جہاں سے پہلے چلا تھا وہاں سے شرعی مسافت ہو تو نماز پوری پڑھے۔
٣۔ سفر کے دوران شرعی مسافت طے کرنے کے ارادے سے پلٹ جائے، لہذا اگر چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے ارادہ بدل دے یا اس سفر کو جاری رکھنے میں متردد ہو جائے تو اس کے بعد اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا، اگر چہ ارادہ بدلنے سے قبل اس نے جو نمازیں قصر پڑھی ہیں وہ صحیح ہیں۔
٤۔شرعی مسافت کو طے کرنے کے دوران اپنے سفر کو اپنے وطن سے گزرنے یا ایسی جگہ سے گزرنے کے ذریعے کہ جہاں دس روز یا اس سے زیادہ ٹھہرنا چاہتاہے قطع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
٥۔ شرعی اعتبار سے اس کا سفر جائز ہو، لہذا اگر سفر معصیت کاہو، خواہ وہ سفر خود ہی معصیت و حرام ہو جیسے جنگ سے فرار کرنا یا غرضِ سفر حرام ہو جیسے ڈاکہ ڈالنے کے لئے سفر کرنا، تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا اور نماز پوری ہوگی۔
٦۔ مسافر، ان خانہ بدوشوں میں سے نہ ہو کہ جن کا کوئی معین مقام (وطن) نہیں ہوتا بلکہ وہ صحراؤں میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں انہیں پانی، گھاس اور چراگاہیں مل جائیں وہیں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔
٧۔ سفر اس کا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور اور ملاح و غیرہ اور یہ حکم ان لوگوں کا بھی ہے جن کا شغل سفر میں ہو۔
٨۔ حد ترخص تک پہنچ جائے اور حد ترخص سے مراد وہ جگہ ہے کہ جہاں پر شہر کی اذان نہ سنی جا سکے۔ - جس شخص کا پيشہ يا پينشے کا مقدمہ سفر ہو
جس شخص کا پیشہ یا پیشے کا مقدمہ سفر ہو
س ٦۴۱: جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، کیا وہ سفر میں پوری نماز پڑھے گااور اس کا روزہ بھی صحیح ہے ، یا یہ (پوری نماز پڑھنا) اس شخص سے مخصوص ہے جس کا خود پیشہ سفر ہو اور مرجع دینی، امام خمینی کے اس قول کے کیا معنی ہیں"جس کا پیشہ سفر ہو" کیا کوئی شخص ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کا پیشہ سفر ہو؟ اس لئے کہ چرواہے، ڈرائیور اور ملاح و غیرہ کا پیشہ بھی چرانا، ڈرائیونگ کرنا اور کشتی چلانا ہے، اور بنیادی طور پر ایسا کوئی شخص نہیں پایا جاتا کہ جس نے سفر کو پیشے کے طور پر اختیار کیا ہو؟
ج: جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، اگر وہ ہر دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ کام کیلئے اپنے کام کی جگہ پر جاتا ہے تو وہ وہاں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے اور فقہاء (رضوان اللہ علیھم) کے کلام "جس کا شغل سفر ہو" سے مراد وہ شخص ہے جس کے کام کا دارومدار سفر پر ہو جیسے وہ مشاغل جو آپ نے سوال میں ذکر کئے ہیں۔
س٦۴۲: ان لوگوں کے روزے اور نماز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو ایک شہر میں کام کرنے کے لئے ایک سال سے زائد مدت تک قیام کرتے ہیں یا وہ رضاکار جو کسی شہر میں فوجی خدمت انجام دینے کے لئے ایک یا دو سال قیام کرتے ہیں، کیا ان پرہر سفر کے بعد دس روزکے قیام کی نیت کرنا واجب ہے تاکہ وہ روزہ رکھ سکیں اور پوری نماز پڑھ سکیں یا نہیں؟ اور اگر وہ دس روز سے کم قیام کی نیت کریں تو ان کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: مفروضہ صورت میں اس شہر میں نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔
س٦۴۳: جنگی طیاروں کے پائلٹ، جو اکثر ایام میں فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں اور شرعی مسافت سے کہیں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس آتے ہیں، ان کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے۔
ج: اس سلسلہ میں ان کا حکم وہی ہے جو ڈرائیوروں، کشتیوں کے ملاحوں اور جہازوں کے پائلٹوں کا ہے یعنی سفر میں انکی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س٦۴۴: وہ قبائلی جو تین یا چار ماہ کیلئے گرم علاقے سے سرد علاقے کی طرف یا برعکس نقل مکانی کرتے ہیں لیکن سال کا باقی حصہ اپنے ہی علاقے میں گزارتے ہیں تو کیا انکے دو وطن شمار ہوں گے ؟ نیز ان میں سے ایک مقام پر رہائش کے دوران میں جو دوسرے مقام کی طرف سفر کرتے ہیں اس میں انکی نماز کا قصر یا تمام ہونے کے لحاظ سے کیا حکم ہے ؟
ج: اگر وہ ہمیشہ گرم سے سرد علاقہ اور سرد سے گرم علاقہ کی طرف نقل مکانی کا قصد رکھتے ہوں تاکہ اپنے سال کے بعض ایام ایک جگہ گزاریں اور بعض ایام دوسری جگہ گزاریں اور انہوں نے دونوں جگہوں کو اپنی دائمی زندگی کے لئے اختیار کر رکھا ہو تو دونوں جگہیں ان کیلئے وطن شمار ہوں گی اور دونوں پر وطن کا حکم عائد ہوگا۔ اور اگر دونوں وطنوں کے درمیان کا فاصلہ، شرعی مسافت کے برابر ہو تو ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف سفر کے راستے میں ان کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔
س٦٤۵: میں ایک شہر (سمنان)میں سرکاری ملازم ہوں اورمیری ملازمت کی جگہ اور گھر کے درمیان تقریبا ٣٥ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور روزانہ اس مسافت کو اپنی ملازمت کی جگہ پہنچنے کے لئے طے کرتا ہوں۔ پس اگر کسی کام سے میں اس شہر میں چند راتیں ٹھہرنے کا ارادہ کرلوں تو میں اپنی نماز کیسے پڑھوں گا؟ کیا مجھ پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر اگر میں جمعہ کو اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے سمنان جاؤں تو کیا مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا نہیں؟
ج: اگر آپ کا سفر آپ کی اس ملازمت کیلئے نہیں ہے جس کے لئے آپ روزانہ جاتے ہیں تو اس پر شغل والے سفر کا حکم عائد نہیں ہوگا، لیکن اگر سفر خود اسی ملازمت کیلئے ہو لیکن اسکے ضمن میں دیگرکا موں، جیسے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات و غیرہ کو بھی انجام دیں اور بعض اوقات وہاں پر ایک رات یا چند راتیں ٹھہر جائیں تو کام کے لئے سفر کا حکم ان اسباب کی وجہ سے نہیں بدلے گا، بلکہ آپ کو پوری نماز پڑھنا ہوگی اور روزہ رکھنا ہوگا۔
س٦٤۶: اگر ملازمت کی جگہ پر کہ جس کیلئے میں نے سفر کیا ہے، دفتری اوقات کے بعد ذاتی کام انجام دوں، مثلاً صبح سات بجے سے دو بجے تک دفتری کام انجام دوں اور دو بجے کے بعد ذاتی کام انجام دوں تو میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج: دفتری کام کو انجام دینے کے بعد ذاتی کاموں کو انجام دینا " کام کیلئے سفرکرنے" کے حکم کو تبدیل نہیں کرتا۔
س٦٤۷: ان رضاکاروں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو یہ جانتے ہیں کہ وہ دس دن سے زائد ایک جگہ قیام کریں گے، لیکن اس کا اختیار خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہے؟ امید ہے امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں گے؟
ج: مفروضہ سوال میں اگر انہیں دس دن یا اس سے زائد ایک جگہ رہنے کا اطمینان ہوتو ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے، اور یہی فتوی امام خمینی کا بھی ہے۔
س٦٤۸: ان سپاہیوں کے روزے اور نمازکا کیا حکم ہے جو فوج یا پاسداران انقلاب میں شامل ہیں اور دس دن سے زیادہ چھاؤنیوں میں اور دس دن سے زیادہ سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں؟ براہ مہربانی امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں؟
ج: اگر وہ دس دن یا اس سے زیادہ ایک جگہ قیام کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں یا وہ جانتے ہوں کہ دس دن یا اس سے زیادہ وہاں رہنا ہوگا تو وہاں پر انکی نماز پوری ہوگی اور انہیں روزہ بھی رکھنا ہوگا اور امام خمینی کا فتوی بھی یہی ہے۔
س ٦٤۹: امام خمینی کی توضیح المسائل کے باب "نماز مسافر" ،"ساتویں شرط" میں آیا ہے: "ڈرائیور پر واجب ہے کہ پہلے سفر کے بعد پوری نماز پڑھے، لیکن پہلے سفر میں اس کی نماز قصر ہے خواہ سفر طویل ہی کیوں نہ ہو" تو کیا پہلے سفر سے مراد وطن سے چلنا اور لوٹ کر وطن واپس آنا ہے یا نہیں بلکہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جانے سے پہلا سفر مکمل ہوجائیگا؟
ج: اگر اسکی آمد و رفت عرف عام میں ایک سفر شمار ہوتی ہے جیسے استاد جو پڑھانے کیلئے اپنے وطن سے کسی شہر کی طرف سفر کرتاہے اور پھر شام کو یا اگلے دن اپنے گھر واپس آجاتاہے تو اس صورت میں اسکی رفت و آمد کو پہلا سفر شمار کیا جائے گا اور اگر عرف عام میں ایک سفر شمار نہ کیا جائے جیسے ڈرائیور جو سامان اٹھانے کیلئے ایک منزل کی طرف سفر کرتاہے اور پھر وہاں سے مسافروں کو سوار کرنے یا دوسرا سامان اٹھانے کیلئے سفر کرتاہے اور اسکے بعد اپنے وطن کی طرف پلٹ آتاہے تو اس صورت میں اپنی پہلی منزل مقصود تک پہنچ کر اسکا پہلا سفر مکمل ہوجائیگا۔
س ٦۵۰: وہ شخص جس کا مستقل پیشہ ڈرائیونگ نہ ہو، بلکہ مختصر مدت کے لئے ڈرائیونگ کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہو، جیسے چھاؤنیوں و غیرہ میں فوجیوں پر موٹرگاڑی چلانے کی ذمہ داری عائد کر دی جاتی ہے، کیا ایسا شخص مسافر کے حکم میں ہے یا اس پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے؟
ج: اگر عرف عام میں گاڑی کی ڈرائیونگ کو اس مدت میں ان کا پیشہ سمجھا جائے تو اس مدت میں ان کا وہی حکم ہے جو تمام ڈرائیوروں کا ہے۔
س ٦۵۱: جب کسی ڈرائیور کی گاڑی میں کوئی نقص پیدا ہو جائے اور وہ اس کے پرزے خریدنے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے دوسرے شہر جائے تو کیا اس طرح کے سفر میں وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر، جبکہ اس سفر میں اس کی گاڑی اس کے ساتھ نہیں ہے؟
ج: مذکورہ صورت میں بھی اس کا سفر شغل والا ہے اور نماز پوری ہے۔
- طلبہ کا حکم
طلبہ کے احکام
س ٦۵۲: یونیورسٹیوں کے ان طلبہ کا کیا حکم ہے جو ہفتہ میں کم از کم دو دن تحصیل علم کیلئے سفر کرتے ہیں یا ان ملازمین کا کیا حکم ہے جو ہر ہفتہ اپنے کام کے لئے سفر کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ وہ ہر ہفتہ سفر کرتے ہیں لیکن کبھی یونیورسٹی یا کام کی جگہ میں چھٹی ہوجانے کی وجہ سے وہ ایک ماہ تک اپنے اصلی وطن میں رہتے ہیں اور اس ایک ماہ کی مدت میں سفر نہیں کرتے تو جب وہ ایک ماہ کے بعد پھر سے سفر کا آغاز کریں گے تو کیا اس پہلے سفر میں انکی نماز قاعدے کے مطابق قصر ہو گی اور اس کے بعد وہ پوری نماز پڑھیں گے اور اگر اس کام والے سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو حکم کیا ہوگا؟
ج: تحصیل علم کیلئے سفر میں نماز اور روزے کا حکم احتیاط پر مبنی ہے(1)، خواہ ان کا سفر ہفتہ وار ہو یا روزانہ ہو، لیکن جو شخص کام کے لئے سفر کرتا ہے خواہ وہ مستقل کام کرتا ہو یا کسی دفتر میں اگر وہ دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے کام کرنے کی جگہ اور اپنے وطن یا اپنی رہائشگاہ کے درمیان رفت و آمد کرتا ہو تو وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ رکھنا بھی صحیح ہو گا اور جب وہ کام والے دو سفروں کے درمیان اپنے وطن میں یا کسی اور جگہ پر دس دن کا قیام کرے تو ان دس دنوں کے بعد کام کے لئے کئے جانے والے پہلے سفر میں نماز قصر پڑھے گا اور روزہ نہیں رکھے گا لیکن اگر اپنے کام والے اس سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو اس ذاتی سفر کے دوران نماز قصر اور اس کے بعد کام والے سفر کے درمیان پوری ہوگی لیکن بہرحال اس کام والے سفر کے دوران یہ احتیاط "کہ نماز پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے" ترک نہ کیا جائے۔
س ٦۵۳: میں رفسنجان کے قریب سکول میں ٹیچر ہوں لیکن یونیورسٹی میں داخلہ ہوجانے کی وجہ سے اس میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے پر بھی مامور ہوں چنانچہ ہفتے کے پہلے تین دن کرمان میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوتا ہوں اور باقی دن اپنے شہر میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتاہوں میری نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے کیا مجھ پر طالب علم و الا حکم عائد ہوگا یا نہیں ؟
ج: اگر آپ تعلیم حاصل کرنے پر مأ مور ہیں تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ بھی صحیح ہے ۔
س ٦۵۴: اگر دینی طالب علم یہ نیت کرے کہ وہ تبلیغ کو اپنا مشغلہ بنائے گا تو مذکورہ فرض کے مطابق وہ سفر میں پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور روزہ بھی رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اس شخص کا سفر تبلیغ، ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے نہ ہو بلکہ کسی اور کام کے لئے سفر کرے تو اس کے روزے نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تبلیغ و ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو عرف عام میں اس کا شغل اور کام کہا جاتا ہو تو ان چیزوں کے لئے اس کے سفر کا حکم وہی ہے جو شغل کے لئے سفر کرنے والوں کا ہے اور اگر کبھی ان کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے سفر کرے تو دیگر تمام مسافروں کی طرح نماز قصر پڑھے اور اس کا روزہ صحیح نہیں ہے ۔
س ٦٥۵: جو لوگ غیر معینہ مدت کے لئے سفر کرتے ہیں جیسے حوزہ علمیہ کے طالب علم یا حکومت کے وہ ملازمین جو کسی شہر میں غیر معینہ مدت کے لئے مامور کئے جاتے ہیں، ان کے روزوں اور نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: مذکورہ صورت میں اگر وہاں ایک دو سال ٹھہرنے کا ا رادہ ہو تو نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س ٦٥۶: اگر دینی طالب علم اس شہر میں رہتا ہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور وہاں دس روز قیام کی نیت کرنے سے قبل وہ جانتا تھا یا یہ قصد رکھتا تھا کہ شہر سے باہر واقع مسجد میں ہر ہفتے جائے گا۔ آیا وہ دس دن کے قیام کی نیت کر سکتا ہے یا نہیں؟
ج: قصد اقامت کے دوران شرعی مسافت سے کم اتنی مقدار باہر جانے کا ارادہ کہ جسے عرف میں ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کے ساتھ منافی شمار نہیں کیا جاتا، قصد اقامت کو ختم نہیں کرتا مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران تین دفعہ اور ہر دفعہ تقریباً پانچ گھنٹے شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا۔
1 ۔ایسی صورت حال رکھنے والے افراد شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی دوسرے مجتہد کے فتوا کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور اگر رجوع نہ کریں تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نماز پوری بھی پڑھیں اور قصر بھی اور ماہ رمضان میں ضروری ہے کہ احتیاطاً روزہ رکھیں اور بعد میں اس کی قضا بھی کریں۔
- قصد مسافرت اور دس دن کی نیت
قصد اقامت اورمسافتِ شرعی
س ٦٥۷: میں جس جگہ ملازمت کرتا ہوں وہ قریبی شہر سے شرعی مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے اور چونکہ دونوں جگہ میرا وطن نہیں ہے، لہذا میں اپنی ملازمت کی جگہ دس روز ٹھہرنے کا قصد کرتا ہوں تا کہ پوری نماز پڑھ سکوں اور روزہ رکھ سکوں اور جب میں اپنے کام کی جگہ پر دس روز قیام کرنے کا قصد کرتا ہوں تو دس روز کے دوران میں یا اس کے بعد قریبی شہر میں جانے کا قصد نہیں کرتا، پس درج ذیل حالات میں شرعی حکم کیا ہے؟
١۔ جب میں اچانک یا کسی کام سے دس دن کامل ہونے سے پہلے اس شہر میں جاؤں اور تقریباً دو گھنٹے وہاں ٹھہرنے کے بعد اپنے کام کی جگہ واپس آ جاؤں۔
٢۔ جب میں دس روز کامل ہونے کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلے میں جاؤں اور میرے وہاں تک جانے کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ نہ ہو اورایک رات ، وہاں قیام کر کے میں اپنی قیامگاہ کی طرف واپس آجاؤں۔
٣۔ جب میں دس روز قیام کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلہ کے قصد سے نکلوں، لیکن اس محلہ میں پہنچنے کے بعد میرا ارادہ بدل جائے اور میں ایک اور محلے میں جانے کی نیت کر لوں جو میری قیامگاہ سے شرعی مسافت سے زیادہ دور ہے؟ج:
١۔٢۔ قیام گاہ پر پوری نمازوالے حکم کے ثابت ہوجانے کے بعد خواہ وہ قیام گاہ میں کم از کم ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کی وجہ سے ہی ہو شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک دن جائے یا کئی دن اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی قیامگاہ سے دس دن کامل ہونے کے بعد نکلے یا دس دن کامل ہونے سے قبل، بلکہ نئے سفر سے پہلے تک پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔
٣۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شرعی سفر واقع ہی نہیں ہوا اس لیے قصد اقامت ختم نہیں ہوگا۔س ٦٥۸: مسافر اپنے وطن سے نکلنے کے بعد اگر اس راستے سے گزرے جہاں سے اس کے اصلی وطن کی اذان کی آوازسنائی دے، یا اس کے وطن کے گھروں کی دیواریں دکھائی دیں تو کیا اس سے مسافت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟
ج: اگر اپنے وطن سے نہ گزرے تو اس سے شرعی مسافت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس سے سفر کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، لیکن جب تک وہ اپنے وطن اور حد ترخص کے درمیان والے مقام میں ہے اس پر مسافر والا حکم جاری نہیں ہوگا۔
س ٦٥۹: جہاں میں ملازم ہوں اور فی الحال جہاں میرا قیام ہے، وہ میرا اصلی وطن نہیں ہے اور اس جگہ اور میرے وطن کے درمیان شرعی مسافت سے زیادہ فاصلہ ہے۔ ملازمت کی جگہ کو میں نے اپنا اصلی وطن نہیں بنایا ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہاں فقط چند سال رہوں، میں بعض اوقات وہاں سے دفتری کاموں کے لئے مہینے بھر میں دو یا تین دن کے سفر پر جاتا ہوں لہذا جب میں اس شہر سے نکل کر جس میں، میں رہائش پذیر ہوں مسافت شرعی سے زیادہ دور جاؤں اور پھر وہیں لوٹ آؤں تو کیا مجھ پر واجب ہے کہ دس دن کے قیام کی نیت کروں یا اس کی ضرورت نہیں ہے؟ اور اگر دس دن کے قیام کی نیت واجب ہے تو شہر کے اطراف میں کتنی مسافت تک میں جا سکتا ہوں؟
ج: مذکورہ صورت میں اس جگہ آپ مسافر کا حکم نہیں رکھتے اور آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س ٦۶۰: ایک شخص چند سال سے اپنے وطن سے چار کلومیٹر دور رہتا ہے اور ہر ہفتہ گھر جاتا ہے لہذا اگر یہ شخص اس مقام کی طرف سفر کرے کہ جس کا اس کے وطن سے ٢٥ کلو میٹر کا فاصلہ ہے، لیکن جس جگہ وہ چند سال تعلیم حاصل کرتا رہاہے وہاں سے اس کا فاصلہ ٢٢ کلومیٹر ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر وطن سے اس جگہ تک سفر کرے تو اسکی نماز قصر ہے ۔
س ٦۶۱: ایک مسافر نے تین فرسخ تک جانے کا قصدکیا، لیکن ابتداء ہی سے اس کا ارادہ تھا کہ وہ اس سفر کے دوران ایک خاص کام کی انجام دہی کیلئے ایک چھوٹے راستے سے ایک فرسخ تک جائے گا پھر اصلی راستہ پر آجائے گا اور اپنے سفر کو جاری رکھے گا تو اس مسافر کے روزہ اور نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اس پر مسافر کا حکم جاری نہیں ہو گا اور مسافت شرعی کو پورا کرنے کیلئے اصلی راستہ سے نکل کر دوبارہ اس پر لوٹ آنے کا شرعی مسافت کی تکمیل کیلئے اضافہ کرنا کافی نہیں ہے۔
س ٦۶۲: امام خمینی کے (اس) فتویٰ کے پیش نظر کہ جب آٹھ فرسخ کا سفر کرے تو نماز قصر پڑھے اور روزہ نہ رکھنا واجب ہے، اگر جانے کا راستہ چار فرسخ سے کم ہو لیکن واپسی پر سواری نہ ملنے یا راستے کی مشکلات کے پیش نظر ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جو چھ فرسخ سے زیادہ ہو تو اس صورت میں نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر جانا چار فرسخ سے کم ہو اور فقط واپسی کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو نماز پوری پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔
س ٦۶۳: جو شخص اپنی قیام گاہ سے ایسی جگہ جائے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو اور ہفتہ بھر میں اس جگہ سے متعدد بار دوسری جگہوں کا سفر کرے، اس طرح کہ کل مسافت آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو جائے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج: اگر وہ گھر سے نکلتے وقت شرعی مسافت کا قصد نہیں رکھتا تھا اور اس کی پہلی منزل اور ان دوسری جگہوں کے درمیان کا فاصلہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ تھا تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا۔
س ٦۶۴: اگر ایک شخص اپنے شہر سے کسی خاص جگہ کے قصد سے نکلے اور پھر اس جگہ اِدھر اُدھر گھومتا رہے تو کیا اس کا یہ اِدھر اُدھر گھومنا اس مسافت میں شمار ہو گا جو اس نے اپنے گھر سے طے کی ہے؟
ج: منزل مقصود پر ادھر ادھر گھومنا مسافت میں شمار نہیں ہو گا۔
س ٦٦۵: کیا قصد اقامت کے وقت قیام گاہ سے چار فرسخ سے کم فاصلے پر جانے کی نیت کی جاسکتی ہے؟
ج: اقامت گاہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے کا قصد اگر دس دن کے قیام کے صادق آنے کو ضرر نہ پہنچائے جیسے کہ اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران تین دفعہ اور ہر بار تقریباً پانچ گھنٹے شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا تو ایسی نیت قصد اقامت کے صحیح ہونے کے لئے مضر نہیں ہے۔
س ٦٦۶: اس بات کے پیش نظر کہ اپنی قیامگاہ سے اپنی جائے ملازمت تک آنا جانا کہ جن کے درمیان ٢٤کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے پوری نماز پڑھنے کا موجب ہے، اگر میں اپنی ملازمت کے شہر کے حدود سے باہر نکلوں یا کسی دوسرے شہر کی طرف جاؤں کہ جس کا فاصلہ میرے کام کرنے کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ہے اور ظہر سے قبل یا بعد اپنی ملازمت کی جگہ واپس آجاؤں تو کیا میری نماز پھر بھی پوری ہوگی؟
ج: ملازمت کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے سے اگرچہ اس کا آپ کے کام کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، جائے ملازمت پر آپ کے روزہ اورنماز کا حکم نہیں بدلے گا، اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آپ اپنی ملازمت کی جگہ پر ظہر سے قبل واپس آئیں یا اسکے بعد۔
س667: ایک شخص اپنے وطن سے کسی دوسرے شہر کی طرف سفر کرتا ہے جس کی ابتدا تک شرعی مسافت نہیں بنتی لیکن اس مقام تک جو اس کی منزل ہے شرعی مسافت بنتی ہے تو کیا شرعی مسافت کا حساب لگانے کے لئے شہر کی ابتداء معیار ہوگی یا وہ مقام جو اس شہر میں اس کی منزل ہے؟
جواب: شرعی مسافت کے تعین کے لئے جس شہر سے سفر کا آغاز کیا جائے اس کے آخری مقام سے منزل مقصود والے شہر کی ابتدا تک کا حساب کیا جائے گا، مگر یہ کہ منزل مقصود والے شہر کے کسی مخصوص اور مستقل بیرونی ملحقہ مقام (یعنی وہ جگہ جو شہر کی حدود کے کنارے واقع ہو) تک جانے کا ارادہ رکھتا ہواس طرح سے کہ عرف میں شہر میں پہنچنے کو منزل مقصود تک پہنچنا شمار نہ کیا جاتا ہو اور شہر وہاں تک پہنچنے کا صرف راستہ ہو، جیسے کہ بعض وہ یونیورسٹیاں یا فوجی چھاونیاں یا ہسپتال جو شہر کے بیرونی ملحقہ مقامات پر ہوتے ہیں تو اس صورت میں مسافت کا حساب لگانے میں اسی مخصوص مقام کو نظر میں رکھا جائے گا۔
س٦٦۸: میں ہر ہفتہ حضرت سیدہ معصومہ "علیہا السلام "کے مرقد کی زیارت اور مسجد جمکران کے اعمال بجالانے کی غرض سے قم جاتا ہوں، اس سفر میں مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا قصر؟
ج: اس سفر میں آپ کا حکم وہی ہے جوتما م مسافروں کا ہے اور آپ کی نماز قصر ہے ۔
س٦٦۹: شہر"کا شمر" میری جائے ولادت ہے اور١٩٦٦(١٣٤٥ ہجری شمسی)سے ١٩٩٠ (١٣٦٩ ہجری شمسی) تک میں تہران میں مقیم رہاہوں اور اسے میں نے اپنا وطن بنا رکھا تھا اور اب تین سال سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ادارے کی طرف سے بندر عباس میں تعینات ہوں اور ایک سال کے اندر پھر اپنے وطن تہران لوٹ جاؤں گا، اس بات کے پیش نظر کہ میں جب تک بندر عباس میں ہوں ہر لحظے امکان ہے کہ مجھے بندرعباس کے ساتھ ملحق شہروں میں ڈیوٹی کیلئے جانا پڑے اورکچھ مدت مجھے وہاں ٹھہرنا پڑے اور ادارے کی طرف سے میری جو ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اسکے وقت کا بھی پہلے سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ براہ مہربانی سب سے پہلے میرے روزہ و نماز کا حکم بیان فرمائیں؟
دوسرے یہ کہ میری زوجہ کی نماز و روزہ کا کیا حکم ہے، جبکہ وہ خانہ دار ہے، اسکی جائے پیدائش تہران ہے اور وہ میری وجہ سے بندر عباس میں رہتی ہے؟ج: مذکورہ صورت میں آپ اُس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتے اور آپ اور آپ کی بیوی کی نماز وہاں پوری ہے اور روزہ صحیح ہے۔
س٦۷۰: ایک شخص نے ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا ہے، کیونکہ اسے علم تھا کہ وہاں دس دن ٹھہرے گا یا اس نے اس امر کا عزم کررکھا تھا، پھر اس نے ایک چار رکعتی نماز پوری پڑھ لی جس سے اس پر پوری نماز پڑھنے کا حکم لاگو ہوگیا۔ اب اسے ایک غیر ضروری سفر پیش آگیا ہے تو کیا اس کے لئے یہ سفر جائز ہے؟
ج: اس کے سفر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے خواہ سفر غیر ضروری ہو۔
س٦۷۱: اگر کوئی شخص امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے سفر کرے اور یہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز سے کم قیام کرے گا، لیکن نماز پوری پڑھنے کی غرض سے دس روز ٹھہرنے کی نیت کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر وہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز قیام نہیں کرے گا تو اس کا دس دن ٹھہرنے کی نیت کرنا بے معنی ہے اور اس کی نیت کا کوئی اثر نہیں ہے بلکہ وہاں نماز قصر پڑھے گا۔
س٦۷۲: غیر مقامی ملازم پیشہ لوگ جو اپنے کام والے شہر میں کبھی بھی دس روز قیام نہیں کرتے اور ان کا سفر بھی شرعی مسافت سے کم ہوتا ہے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا کیا حکم ہے قصر پڑھیں یا پوری؟
ج: مفروضہ صورت میں اگر ملازمت کی جگہ میں دس دن قیام نہ کرے تو اس کا سفر شغل والا سفر شمار ہوگا اور رہائش گاہ، ملازمت کی جگہ اور ان دو کے درمیان نماز پوری ہوگی۔
س٦۷۳: اگر کوئی شخص کسی جگہ سفر کرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ وہاں کتنے دن قیام کرنا ہے، دس روز یا اس سے کم تو وہ کس طرح نماز پڑھے؟
ج: مردد شخص کی ذمہ داری یہ ہے کہ تیس دن تک نماز قصر پڑھے اور اسکے بعد پوری پڑھے اگرچہ اسے اسی دن واپس پلٹنا ہو۔
س٦۷۴: جو شخص دومقامات پر تبلیغ کرتا ہے اور اس علاقہ میں دس روز قیام کا قصد بھی رکھتا ہے تو اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر عرف عام میں یہ دو علاقے شمار ہوں تو وہ نہ دونوں مقامات میں قصد اقامت کرسکتا ہے اور نہ ہی ایک مقام پر، جبکہ وہ دس روز کے اندر دوسرے مقام تک رفت و آمد کا قصد رکھتا ہو۔
- حد ترخص
حد ترخص
س٦٧۵: جرمنی اور یورپ کے بعض شہروں کا درمیانی فاصلہ (یعنی ایک شہر سے نکلنے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کے سائن بورڈ کی مسافت) ایک سو میٹر سے زیادہ نہیں ہوتا حتی کہ دو شہروں کے بعض مکانات اور سڑکیں تو ایک دوسرے سے متصل ہوتی ہیں، ایسے موارد میں حد ترخص کیسے ہوگی؟
ج: جہاں دو شہر ایک دوسرے سے اس طرح متصل ہوں جیساکہ مذکورہ سوال میں ہے تو ایسے دو شہر، ایک شہر کے دو محلوں کے حکم میں ہیں یعنی ایک شہر سے خارج ہونے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کو سفر شمار نہیں کیا جائے گا تاکہ اسکے لئے حد ترخص معین کی جائے۔
س ٦٧۶: حد ترخص کا معیار شہر کی اذان سننا اور شہر کی دیواروں کو دیکھنا ہے، کیا (حد ترخص میں) ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے یا دونوں میں سے ایک کافی ہے؟
ج: احتیاط یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی رعایت کی جائے اگرچہ بعید نہیں ہے کہ حد ترخص کی تعیین کے لئے اذان کا نہ سنائی دینا ہی کافی ہو۔
س ٦٧۷: کیا حد ترخص میں شہر کے ان گھروں ۔ کہ جہاں سے مسافر شہر سے خارج ہوتاہے یا اس میں داخل ہوتا ہے۔ کی اذان کا سنائی دینا معیار ہے یا شہر کے وسط کی اذان کا سنائی دینا؟
ج: شہر کے اس آخری حصے کی اذان سننا معیارہے کہ جہاں سے مسافر شہر سے نکلتا ہے یا اس میں داخل ہو تا ہے۔
س ٦٧۸: ہمارے یہاں ایک علاقہ کے لوگوں کے درمیان شرعی مسافت کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں شہر کے آخری گھروں کی وہ دیواریں معیار ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ شہر کے گھروں کے بعد جو کارخانے اور متفرق آبادیاں ہیں، ان سے مسافت کا حساب کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ شہر کا آخر اس کا کون سا حصہ ہے؟
ج: شہر کی آخری حدود کی تعیین عرف عام پر موقوف ہے اگر عرف عام میں کارخانوں اور متفرق آبادیوں کو شہر کا حصہ شمار نہ کیا جائے تو مسافت کا حساب شہر کے آخری گھروں سے کیا جائیگا۔
- سفر معصیت
سفر معصیت
س ٦٧۹: جب انسان یہ جانتا ہو کہ وہ جس سفر پر جا رہا ہے، اس میں وہ گناہ اور حرام میں مبتلا ہو گا تو کیا اس کی نماز قصر ہے یا پوری؟
ج: جب تک اس کا سفر ترک واجب یا فعل حرام کیلئے نہ ہو تو اسکی نماز دیگر مسافروں کی طرح قصر ہے۔
س ٦۸۰: جس شخص نے گناہ کی غرض سے سفر نہیں کیا، لیکن راستے میں اس نے معصیت کی غرض سے اپنے سفر کو تمام کرنے کی نیت کی ہے، توکیا اس شخص پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے یا قصر؟ اور اثنائے سفر میں جو قصر نمازیں پڑھ چکا ہے کیا وہ صحیح ہیں یا نہیں؟
ج: جس وقت سے اس نے اپنے سفر کو گناہ و معصیت کی غرض سے جاری رکھنے کی نیت کی ہے اس وقت سے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے اور معصیت کی نیت کے بعد جو نمازیں اس نے قصر پڑھی ہیں ان کو دوبارہ پوری پڑھنا واجب ہے۔
س ٦۸۱: اس سفر کا کیا حکم ہے جو تفریح یا ضروریات زندگی کے خریدنے کے لئے کیا جائے اور اس سفر میں نماز اور اس کے مقدمات کے لئے جگہ میسر نہ ہو؟
ج: اگر وہ جانتا ہے کہ اس سفر میں اس سے بعض وہ چیزیں چھوٹ جائیں گی جو نماز میں واجب ہیں تو احوط یہ ہے کہ ایسے سفر پر نہ جائے مگر یہ کہ سفر ترک کرنے میں اس کیلئے ضرر یا حرج ہو۔ بہر حال کسی بھی صورت میں نماز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
- احکام وطن
احکام وطن
س ٦۸۲: میری جائے پیدائش تہران ہے، جبکہ میرے والدین کا وطن "مہدی شہر" ہے، لہذا وہ سال میں متعدد بار "مہدی شہر" جاتے ہیں، ان کے ساتھ میں بھی جاتا ہوں، لہذا میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میں " مہدی شہر"کو رہائش کے لئے اپنا وطن نہیں بنانا چاہتا، بلکہ میرا ارادہ تہران ہی میں رہنے کا ہے؟
ج: مذکورہ فرض میں آپ کے والدین کے اصلی وطن میں آپ کے روزہ و نماز کا حکم وہی ہے جودیگر مسافروں کے روزہ و نماز کا ہوتاہے۔
س ٦۸۳: میں ہر سال چھ ماہ ایک شہر میں اور چھ ماہ دوسرے شہر میں رہتا ہوں جو کہ میری جائے پیدائش ہے اور یہی شہر میرا اور میرے گھر والوں کا مسکن بھی ہے، لیکن پہلے شہر میں بطور مستمر نہیں ٹھہرتا، مثلاً دو ہفتے، دس روز یا اس سے کم وہاں رہتا ہوں پھر اس کے بعد اپنی جائے پیدائش اور اپنے گھر والوں کی رہائش گاہ میں لوٹ آتا ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں پہلے شہر میں دس روز سے کم ٹھہرنے کی نیت کروں تو کیا میرا حکم مسافر کا ہے یا نہیں؟
ج: اگر آپ اُس شہر میں اتنا رہتے ہیں کہ عرف میں مسافر شمار نہیں ہوتے تو اس جگہ آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔
س ٦۸۴: جو شخص محدود تک کسی جگہ رہنا چاہتا ہے کتنی مدت تک وہاں رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہوگا؟
ج: اگر کسی جگہ کم از کم ایک دو سال رہنے کا ارادہ رکھتاہو تو اُس جگہ اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س ٦٨۵: ایک شخص کا وطن تہران ہے اور اب وہ تہران کے قریب ایک دوسرے شہر کو اپنے لئے وطن بنانا چاہتا ہے، اور چونکہ اس کا روزانہ کا کسب و کار تہران میں ہے، لہذا وہ دس روز بھی اس شہر میں نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ چھ ماہ تک رہے بلکہ وہ روزانہ اپنے کام پر جاتا ہے اور رات کو اس شہر میں لوٹ آتا ہے۔ اس شہر میں اس کے نمازو روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج: نئے شہر کو وطن بنانے کی یہ شرط نہیں ہے کہ انسان اسے وطن بنانے کا ارادہ کرنے اور اس میں سکونت اختیار کرنے کے بعد مسلسل کچھ مدت اس جگہ رہے، بلکہ جب اسے نئے وطن کے طور پر انتخاب کرلے اور اس قصد کے ساتھ کچھ مدت "اگر چہ صرف راتیں" وہاں رہائش رکھے تو وہ اس کا وطن شمار ہوگا اسی طرح اگر ایسے کام انجام دے کہ جنہیں عام طور پر انسان کسی جگہ کو وطن بنانے کیلئے انجام دیتا ہے جیسے گھر تیار کرنا، کاروبار کی جگہ کا انتخاب کرنا "اگرچہ وہاں رہا نہ بھی ہو" تو وطن بن جائے گا۔
س ٦٨۶: میری اور میری زوجہ کی جائے پیدائش "کاشمر" ہے، لیکن جب سے میں سرکاری ملازم ہوا ہوں اس وقت سے میں نیشاپور منتقل ہو گیا ہوں اگر چہ ماں باپ اب بھی کاشمر میں ہی رہتے ہیں۔ نیشاپور کی طرف ہجرت کے آغاز میں ہی ہم نے اصلی وطن (کاشمر) سے اعراض کر لیا تھا، مگر ١٥ سال گزر جانے کے بعداب ہم نے اپنا ارادہ پھر بدل لیا ہے۔
مہربانی فرماکر درج ذیل سوالات کے جواب بیان فرمائیں:
١۔ جب ہم اپنے والدین کے گھر جاتے ہیں اور چند روز ان کے پاس قیام کرتے ہیں تو میری اور میری زوجہ کی نماز کا حکم کیا ہے؟
٢۔ ہمارے والدین کے وطن (کاشمر) میں جاکر وہاں چند روز قیام کے دوران، ہمارے ان بچوں کا کیا فریضہ ہے جو ہماری موجودہ رہائش گاہ نیشاپور میں پیدا ہوئے اور اب بالغ ہو چکے ہیں؟ج: جب آپ نے اپنے اصلی وطن "کاشمر" سے اعراض کر لیا تو اب وہاں آپ دونوں کیلئے وطن کا حکم جاری نہیں ہو گا، مگر یہ کہ آپ زندگی گزارنے کیلئے دوبارہ وہاں لوٹ جائیں اور کچھ مدت تک وہاں اس نیت سے رہیں، اسی طرح یہ شہر آپ کی اولاد کا وطن بھی نہیں ہے، بلکہ اس شہر میں آپ سب لوگ مسافر کے حکم میں ہیں۔
س ٦٨۷: ایک شخص کے دو وطن ہیں اوردونوں میں وہ پوری نماز پڑھتا ہے اور روزہ رکھتا ہے توکیا اس کے بیوی بچوں پر کہ جن کی وہ دیکھ بھال اور کفالت کرتا ہے، اس مسئلہ میں اپنے ولی اور سرپرست کا اتباع واجب ہے؟ یا اس سلسلہ میں وہ اپنا مستقل عمل کر سکتے ہیں؟
ج: زوجہ یہ کرسکتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے نئے وطن کو اپنا وطن نہ بنائے، لیکن بچے جب تک چھوٹے ہیں اور اپنی کمائی اور ارادے میں مستقل نہیں ہیں یا اس مسئلہ میں باپ کے ارادہ کے تابع ہیں تو باپ کا نیا وطن ان کے لئے بھی وطن شمار ہو گا۔
س ٦٨۸: اگر ولادت کا ہسپتال (زچہ خانہ) باپ کے وطن سے باہر ہو اور وضع حمل کی خاطر ماں کو چند روز اس ہسپتال میں داخل ہونا پڑے اور بچے کی ولادت کے بعد وہ پھر اپنے گھر لوٹ آئے تو اس پیدا ہونے والے بچے کا وطن کو نسا ہو گا؟
ج: صرف کسی شہر میں پیدا ہونے سے وہ شہر اس بچے کا وطن نہیں بن جاتا، بلکہ اس کا وطن وہی ہے جو اس کے والدین کا ہے کہ جہاں بچہ ولادت کے بعد منتقل ہوتا ہے اور جس میں ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔
س ٦٨۹: ایک شخص چند سال سے اہواز شہر میں رہتا ہے، لیکن اسے اپنے لئے وطن ثانی نہیں بنایا ہے، تو اگر وہ اس شہر سے شرعی مسافت سے کم یا زیادہ فاصلہ پر جائے اور دوبارہ اس شہر میں واپس آجائے تو وہاں واپس آنے کے بعد اس کے نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟
ج: مذکورہ صورت میں چونکہ اُس جگہ عرفاً مسافر شمار نہیں ہوتا اس لیے اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س ٦۹۰: میں عراقی ہوں اور اپنے وطن عراق کو چھوڑنا چاہتا ہوں، کیا میں پورے ایران کو اپنا وطن بنا سکتا ہوں؟ یا صرف اسی جگہ کو اپنا وطن قرار دے سکتا ہوں جہاں میں ساکن ہوں؟ یا اپنے لئے وطن بنانے کے لئے گھر خریدنا ضروری ہے؟
ج: نئے وطن کے لئے شرط ہے کہ کسی مخصوص اور معین شہر کو وطن بنانے کا قصد کیا جائے اور اس میں اتنا عرصہ زندگی بسر کرے کہ عرف عام میں کہا جائے یہ شخص اس شہر کا باشندہ ہے، لیکن اس شہر میں گھر و غیرہ کا مالک ہونا شرط نہیں ہے۔
س٦۹۱: جس شخص نے بلوغ سے قبل اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور وہ ترک وطن کے مسئلہ کو نہیں جانتاتھا اور اب وہ بالغ ہوا ہے تو وہاں اس کے روزہ و نما زکا کیا حکم ہے؟
ج: اگر اس نے باپ کے ساتھ اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور اس شہر میں دوبارہ اس کے باپ کا زندگی بسر کرنے کا ارادہ نہ ہوتو وہ جگہ اس کیلئے وطن نہیں ہوگی۔
س٦۹۲: اگر انسان کا ایک وطن ہو اور وہ فی الحال وہاں نہ رہتا ہو، لیکن کبھی کبھی اپنی زوجہ کے ہمراہ وہاں جاتا ہو تو کیا شوہر کی طرح زوجہ بھی وہاں پوری نماز پڑھے گی یا نہیں؟ اورجب زوجہ اکیلی اس جگہ جائے گی تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: صرف کسی جگہ کا شوہر کا وطن ہونا سبب نہیں ہے کہ وہ زوجہ کا بھی وطن ہو اور وہاں پر اس کے لئے وطن کے احکام جاری ہوں۔
س٦۹۳: کیا جائے ملازمت وطن کے حکم میں ہے؟
ج: کسی جگہ ملازمت کرنے سے وہ جگہ اس کا وطن نہیں بنتی ہے، لیکن اگر وہاں اس کی رہائش ہو اور کم از کم ایک دو سال وہاں رہنے کا ارادہ رکھتاہو تو اس کا حکم مسافر والا نہیں ہوگا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
س٦۹۴: کسی شخص کے اپنے وطن کو چھوڑنے کے کیا معنی ہیں؟ اور کیا عورت کے شادی کر لینے اور شوہر کے ساتھ چلے جانے سے وطن چھوڑنا ثابت ہوجاتا ہے یا نہیں؟
ج: وطن چھوڑنے سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنے وطن سے اس قصد سے نکلے کہ اب دوبارہ اس میں نہیں پلٹے گا اسی طرح اگر اسے اپنے نہ پلٹنے کا علم یا اطمینان ہو، اور عورت کے صرف دوسرے شہر میں شوہر کے گھر جانے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے اصلی وطن سے اعراض کر لیا ہے۔
س٦٩۵: گزارش ہے کہ وطن اصلی او روطن ثانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرمائیں
ج: وطن اصلی : اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان اپنی زندگی کی ابتدا (یعنی بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں)میں نشو و نما پاتا ہے اور بڑا ہوتا ہے۔ وطن ثانی : اس جگہ کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی دائمی سکونت کیلئے منتخب کرے اگر چہ اُسے ہر سال چند ماہ یا طویل مدت مثلاً چالیس پچاس سال تک رہنے کیلئے منتخب کیا ہو۔
س٦٩۶: میرے والدین شہرِ"ساوہ" کے باشندے ہیں، دونوں بچپنے میں تہران آگئے تھے اور وہیں سکونت اختیار کر لی تھی۔ شادی کے بعد شہر چالوس منتقل ہو گئے کیونکہ میرے والد وہاں ملازمت کرتے تھے، لہذا اس وقت میں تہران اورساوہ میں کس طرح نماز پڑھوں؟ واضح رہے میری پیدائش تہران میں ہوئی ہے، لیکن وہاں کبھی نہیں رہا ہوں۔
ج: مذکورہ صو رت میں وہاں آپ کا حکم دیگر مسافروں والا ہے ۔
س٦٩۷: جس شخص نے اپنے وطن سے اعراض نہیں کیا ہے لیکن چھ سال سے کسی اور شہر میں مقیم ہے، لہذا جب وہ اپنے وطن جائے تو کیا وہاں اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے یا قصر؟ واضح رہے کہ وہ امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے۔
ج: اگر اس نے سابق وطن سے اعراض نہیں کیا ہے تو وطن کا حکم اس کے لئے باقی ہے اور وہ وہاں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔
س ٦٩۸: ایک طالب علم نے تبریز شہر کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے تبریز میں چار سال کیلئے کرایہ پر گھر لے رکھا ہے، علاوہ از ایں اب اس کا ارادہ ہے کہ اگر ممکن ہو ا تو وہ دائمی طور پر تبریز ہی میں رہے گا آج کل وہ ماہ رمضان مبارک میں کبھی کبھار اپنے اصلی وطن جاتا ہے تو کیا دونوں جگہوں کو اس کا وطن شمار کیا جائے گا؟
ج: اگر مقام تعلیم کو اس وقت وطن بنانے کا پختہ ارادہ نہیں کیا تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں نہیں ہے لیکن مذکورہ صورت میں اس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے نیز اس کا اصلی وطن، حکم وطن پر باقی ہے جب تک اس سے اعراض نہ کرے۔
س ٦٩۹: میں شہر "کرمانشاہ"میں پیدا ہوا ہوں اور چھ سال سے تہران میں مقیم ہوں، لیکن اپنے اصلی وطن سے اعراض نہیں کیا ہے، اور تہران کو بھی وطن بنانے کا قصد کیا ہے لہذا جب ہم ایک سال یا دو سال کے بعد تہران کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں منتقل ہوتے ہیں تواس میں میرے روزے ونماز کا کیا حکم ہے؟ اور چونکہ ہم چھ ماہ سے زائد عرصہ سے تہران کے نئے علاقے میں رہتے ہیں تو کیا ہمارے لئے یہاں پر وطن کا حکم جاری ہوگا یا نہیں؟ اور جب ہم دن بھر میں تہران کے مختلف علاقوں میں آتے جاتے ہیں تو ہماری نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر آپ نے موجودہ تہران یا اس کے کسی ایک محلہ کو وطن بنانے کا قصد کیا ہو تو پورا تہران آپ کا وطن ہے اور اس میں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے اور تہران کے اندر ادھر ادھر جانے پر سفر کا حکم نہیں لگے گا۔
س۷۰۰: ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے آج کل اس کی ملازمت اور رہائش تہران میں ہے اور اس کے والدین گاؤں میں رہتے ہیں اور وہاں پر انکی زمین و جائداد بھی ہے، وہ شخص ان کی احوال پرسی اور امداد کے لئے وہاں جاتا ہے، لیکن وہاں پر سکونت اختیار کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے واضح رہے کہ وہ گاؤں اس شخص کی جائے پیدائش بھی ہے، لہذا وہاں اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر اس شخص کی اس گاؤں میں زندگی بسر کرنے اور اس میں رہائش رکھنے کی نیت نہ ہوتو وہاں اس پر وطن کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔
س۷۰۱: کیا جائے ولادت کو وطن سمجھا جائے گا خواہ پیدا ہونے والا وہاں نہ رہتا ہو؟
ج: اگر کچھ عرصہ(یعنی بچپن اور لڑکپن کا زمانہ) تک وہاں زندگی گزارے اور وہیں نشوو نما پائے تو جب تک وہ اس جگہ سے اعراض نہیں کرے گا اس وقت تک وہاں اس پر وطن کا حکم جاری ہوگا، ورنہ نہیں۔
س۷۰۲: اس شخص کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے جو ایک سرزمین میں کہ جو اس کا وطن نہیں ہے طویل مدت (٩سال)سے مقیم ہے اور فی الحال اس کا اپنے وطن میں آنا ممنوع ہے، لیکن اسے یہ یقین ہے کہ ایک دن وطن واپس ضرور جائے گا؟
ج: سوال کی مفروضہ صورت میں اس شخص پر مسافر صدق نہیں کرتا اور اُس جگہ اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔
س۷۰۳: میں نے اپنی عمر کے چھ سال گاؤں میں اور آٹھ سال شہر میں گزارے ہیں اورحال ہی میں تعلیم کیلئے مشہد مقدس آیا ہوں، لہذا ان تمام مقامات پر میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟
ج: وہ گاؤں جو آپ کی جائے پیدائش ہے اگر اُسے عرف میں آپ کا وطن شمار کیا جاتا ہے تو آپ کی نماز اُس جگہ پوری اور روزہ صحیح ہے اور اگر وطن کے صدق کرنے میں شک ہو تو محل احتیاط ہے اور اگر وہ گاؤں آپ کی جائے پیدائش نہیں ہے تو اُس پر وطن کے صدق میں شک ہونے کی صورت میں آپ کیلئے وطن کے احکام نہیں رکھتا اور جس شہر میں آپ نے کئی سال گزارے ہیں اگر آپ نے اسے وطن بنایا تھا تو وہ بھی اس وقت تک آپ کے وطن کے حکم میں رہے گا جب تک آپ وہاں سے اعراض نہ کریں لیکن مشہد کو جب تک آپ وطن بنانے کا قصد نہ کریں وہ آپ کا وطن شمار نہیں ہوگا لیکن اگر کم از کم ایک دو سال تک وہاں رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔
- بیوی بچوں کی تابعیت
بیوی بچوں کی تابعیت
س۷۰۴: کیا وطن اور اقامت کے سلسلے میں زوجہ شوہر کے تابع ہے؟
ج: صر ف زوجیت، جبری طورپر شوہر کے تابع ہونے کی موجب نہیں ہے، لہذا زوجہ کو یہ حق حاصل ہے کہ قصد اقامت اور وطن اختیار کرنے میں شوہر کے تابع نہ ہو، ہاں اگر زوجہ اپنا وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں شوہر کے تابع ہو توا اس کے شوہر کا قصد اس کے لئے کافی ہے، پس اس کا شوہر جس شہر میں وطن کی نیت سے دائمی اور مشترکہ زندگی کیلئے منتقل ہوا ہے وہی اس کا بھی وطن شمار ہوگا۔ اسی طرح اگر شوہر اس وطن کو چھوڑدے جس میں وہ دونوں رہتے تھے اور کسی دوسری جگہ چلا جائے تو یہ زوجہ کا بھی اپنے وطن سے اعراض شمار ہوگا اور سفر میں دس دن کے قیام کے سلسلے میں اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شوہر کے قصد اقامت سے آگا ہ ہو بشرطیکہ وہ اپنے شوہر کے ارادہ کے تابع ہو، بلکہ اگر وہ اقامت کے دوران اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتو بھی اس کا یہی حکم ہے ۔
س٧٠۵: ایک جوان نے دوسرے شہر کی لڑکی سے شادی کی ہے، تو جس وقت یہ لڑکی اپنے والدین کے گھر جائے تو پوری نماز پڑھے گی یا قصر؟
ج: جب تک وہ اپنے اصلی وطن سے اعراض نہ کرے اس وقت تک وہاں پوری نماز پڑھے گی۔
س٧٠۶: کیا بیوی یا بچے، امام خمینی کی توضیح المسائل کے مسئلہ "١٢٨٤"کے زمرے میں آتے ہیں؟یعنی کیا انکے سفر کے صدق کرنے کیلئے خود انکا سفر کی نیت کرنا شرط نہیں ہے ؟ نیز کیا باپ کے وطن میں ان سب کی نماز پوری ہوگی جو اسکے تابع ہیں ؟
ج: اگر سفر میں خواہ جبری طور پر ہی سہی وہ باپ کے تابع ہوں تو سفر کے لئے باپ کا قصد ہی کافی ہے، بشرطیکہ انہیں اس کی اطلاع ہو، لیکن وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں اگر وہ اپنے ارادہ اور زندگی میں خود مختار نہ ہوں، یعنی طبیعی اور فطری طورپر۔ باپ کے تابع ہوں تو وطن سے اعراض کرنے اور نیا وطن اختیار کرنے کے سلسلے میں کہ جہاں ان کا باپ دائمی طور پر زندگی گزارنے کیلئے منتقل ہوا ہے، باپ کے تابع ہوں گے۔
- بڑے شہروں کے احکام
بڑے شہروں کے احکام
س٧٠۷: بڑے شہروں کو وطن بنانے کے قصد اور ان میں دس دن اقامت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ج: بڑے اور عام شہروں میں، احکام مسافر، وطن اختیار کرنے اوردس روز قیام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ بڑے شہرکواسکے کسی خاص محلہ کو معین کئے بغیر وطن بنانے کا قصد کرنے اور کچھ مدت اس شہر میں زندگی گزارنے سے اس پورے شہرپر وطن کا حکم جاری ہو گا، جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی محلہ کو معین کئے بغیر ایسے شہر میں دس روز قیام کی نیت کرے تویہ اسکے تمام محلوں میں نماز پوری پڑھے گا اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔
س٧٠۸: ایک شخص کوامام خمینی کے اس فتوے کی اطلاع نہیں تھی کہ تہران بڑے شہروں میں سے ہے ، انقلاب کے بعد اسے امام خمینی کے فتوے کا علم ہواہے، لہذا اس کے ان روزوں اور نمازوں کا کیا حکم ہے جو عادی طریقہ سے اس نے انجام دیئے ہیں؟
ج: اگر ابھی تک وہ اس مسئلہ میں امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے تو اس پر ان گزشتہ اعمال کا تدارک واجب ہے جو امام خمینی کے فتوے کے مطابق نہیں تھے چنانچہ جو نمازیں ا س نے قصر کی جگہ پوری پڑھی تھیں ان کو قصر کی صورت میں بجا لائے اور ان روزوں کی قضا کرے جو اس نے مسافرت کی حالت میں رکھے تھے۔
- نماز اجارہ
نماز اجارہ
س٧٠۹: مجھ میں نماز پڑھنے کی طاقت نہیں ہے، کیا میں کسی دوسرے شخص کو نائب بنا کر اس سے اپنی نمازیں پڑھوا سکتا ہوں؟ اور کیا نائب کے اجرت طلب کرنے اور نہ کرنے میں کوئی فرق ہے؟
ج: ہر شخص جب تک زندہ ہے جیسے بھی ممکن ہو اپنی واجب نماز کو خود ادا کرے، نائب کا اس کی طرف سے نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے خواہ وہ اجرت لے یا نہ لے ۔
س٧۱۰: جو شخص اجارہ کی نماز پڑھتا ہے:
١۔ کیا اس پر، اذان و اقامت کہنا، تینوں سلام پڑھنا اور مکمل طور پر تسبیحات اربعہ پڑھنا واجب ہے؟
٢۔ اگر ایک دن ظہر و عصر کی نماز بجا لائے اور دوسرے دن مکمل طور پر پنجگانہ نمازیں پڑھے، توکیا اس میں ترتیب ضروری ہے؟
٣۔ نماز اجارہ میں کیا میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ج: میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری نہیں ہے اورصرف نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کے درمیان ترتیب کی رعایت ضروری ہے اور جب تک عقد اجارہ میں اجیر کے لئے خاص کیفیت کی شرط نہ رکھی گئی ہو اور نہ ہی ذہنوں میں کوئی ایسی خاص کیفیت موجود ہو کہ جس کی طرف مطلق عقد اجارہ کا انصراف ہو تو ایسی صورت میں اس کیلئے ضروری ہے کہ نماز کو متعارف مستحبات کے ساتھ بجا لائے،لیکن ہر نماز کے لئے اذان کہنا واجب نہیں ہے ۔
- نماز آیات
نماز آیات
س٧۱۱: نماز آیات کیا ہے اورشریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب کیا ہیں؟
ج: یہ دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے ہیں، شریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب یہ ہیں :
سورج گہن اور چاندگہن خواہ ان کے معمولی حصے کو ہی لگے، اسی طرح زلزلہ اور ہر وہ غیر معمولی چیز جس سے اکثر لوگ خوفزدہ ہوجائیں، جیسے سرخ، سیاہ یا پیلی آندھیاں کہ جو غیر معمولی ہوں یا شدید تاریکی، یا زمین کا دھنسنا ، پہاڑ کا ٹوٹ کر گرنا،بجلی کی کڑک اور گرج اور وہ آگ جو کبھی آسمان میں نظر آتی ہے۔ سورج گہن ،چاند گہن اور زلزلہ کے علاوہ باقی سب چیزوں میں شرط ہے کہ عا م لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائیں لذا اگر ان میں سے کوئی چیز خوفناک نہ ہو یا اس سے بہت کم لوگ خوف زدہ ہوں تو نماز آیات واجب نہیں ہے ۔س٧۱۲:نماز آیات پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟
ج: اسے بجا لانے کے چند طریقے ہیں :
١۔ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اس کے بعد رکوع سے سر اٹھائے اورحمد و سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر رکوع سے بلند ہوکر حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع بجا لائے، پھر سر اٹھا ئے اور حمد وسورہ پڑھے اور اسی طرح اس رکعت میں پانچ رکوع بجا لائے پھر سجدے میں جائے اور دوسجدے بجا لانے کے بعد کھڑا ہو کر پہلی رکعت کی طرح عمل کرے پھر دو سجدے بجالائے اور اس کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔
٢۔ نیت ا ور تکبیرة الاحرام کے بعد سورہ حمد اور کسی سورہ کی ایک آیت پڑھ کر رکوع میں جائے (البتہ بسم اللہ کو ایک آیت شمار کرنا صحیح نہیں ہے) پھر رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی سورہ کی دوسری آیت پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر سر اٹھاکر اسی سورہ کی تیسری آیت پڑھے ،پانچویں رکوع تک اسی طرح بجا لائے یہاں تک کہ جس سورے کی ایک ایک آیت ہر رکوع سے پہلے پڑھی تھی وہ تمام ہوجائے اس کے بعد پانچواں رکوع اور پھر دو سجدے بجالائے پھر کھڑا ہوجائے اور سورہ حمد اور کسی سورہ کی ایک آیت پڑھ کر رکوع کرے اور دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشہد و سلام پڑھ کر نماز ختم کر دے، چنانچہ اگر ( اس طریقے کے مطابق ) ہر رکوع سے پہلے کسی سورہ کی ایک آیت پر اکتفا کرے تو سورہ حمد کو رکعت کی ابتداء میں ایک مرتبہ سے زیادہ نہ پڑھے البتہ سورہ کے حصے کرنے کی صورت میں ضروری نہیں ہے کہ پوری ایک آیت پڑھے بلکہ ایک آیت (بسم اللہ کے علاوہ)کے بھی دو حصے کر سکتا ہے۔
٣۔ مذکورہ دو طریقوں میں سے ایک رکعت کو ایک طریقہ سے اور دوسری کو دوسرے طریقے سے بجا لائے۔
٤۔ وہ سورہ جس کی ایک آیت پہلے رکوع سے قبل قیام میں پڑھی تھی، اسے دوسرے ، تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے والے قیام میں ختم کردے اس صورت میں واجب ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قیام میں سورہ حمد اور ایک دوسرا سورہ یا اسکی ایک آیت پڑھے اگر تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے ہو اور اس صورت میں واجب ہے کہ اس سورہ کو پانچویں رکوع سے پہلے مکمل کردے ۔س٧۱۳: کیا نما زآیات اسی شخص پر واجب ہے جو اس شہر میں ہے کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے یا ہر اس شخص پر واجب ہے جسے اس کا علم ہوگیا ہو، خواہ وہ اس شہر میں نہ ہو کہ جس میں نہ ہو کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے؟
ج: نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو حادثے والے شہر میں ہو اسی طرح اس شخص پر بھی واجب ہے جو اس سے متصل شہر میں رہتا ہو، اس طرح کہ دونوں کو ایک شہر کہا جاتا ہو۔
س٧۱۴: اگر زلزلہ کے وقت ایک شخص بے ہوش ہو اور زلزلہ ختم ہو جانے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا اس پر بھی نما زآیات واجب ہے؟
ج: اگر اسے زلزلہ واقع ہونے کی خبر نہ ہو یہاں تک کہ وقوع زلزلہ سے متصل وقت گزرجائے تواس پر نماز آیات واجب نہیں ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ نماز کو بجا لائے۔
س٧١۵: کسی علاقہ میں زلزلہ آنے کے بعد مختصر مدت کے درمیان بہت سے چھوٹے چھوٹے زلزلے اور زمینی جھٹکے آتے ہیں، ان موارد میں نماز آیات کا کیا حکم ہے؟
ج: ہر جھٹکا جسے مستقل زلزلہ شمار کیاجائے اسکے لئے علیحدہ نماز آیات واجب ہے خواہ شدید ہو یا خفیف۔
س٧١۶: جب زلزلے درج کرنے والا مرکز اعلان کرے کہ فلاں علاقہ میں جس میں ہم رہتے ہیں زلزلہ کے کئی معمولی جھٹکے آئے ہیں اور جھٹکوں کی تعداد کا بھی ذکر کرے، لیکن ہم نے انہیں بالکل محسوس نہ کیا ہوتو کیا اس صورت میں ہمارے اوپر نماز آیات واجب ہے یا نہیں؟
ج: اگر اس طرح ہو کہ کوئی اُسے محسوس نہ کرے اور صرف مشینوں کے ساتھ قابل ادراک ہو تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔
- نوافل
نوافل
س٧١۷: کیا نافلہ نمازوں کوبلند آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ آواز سے ۔
ج: مستحب ہے کہ دن کی نافلہ نمازوں کو آہستہ اور شب کی نافلہ نمازوں کو بلند آواز سے پڑھا جائے۔
س٧١۸: نماز شب جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے کیا اسے دو مرتبہ چار چار رکعت کر کے، ایک مرتبہ دو رکعت اور ایک مرتبہ ایک رکعت (وتر)پڑھ سکتے ہیں؟
ج: نمازشب کو چار چار رکعت کرکے پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
س٧١۹: جب ہم نماز شب پڑھتے ہیں تو کیا واجب ہے کہ کسی کو اسکی خبر نہ ہو اور واجب ہے کہ ہم تاریکی میں نماز شب پڑھیں؟
ج: تاریکی میں نماز شب پڑھنا اور اسے دوسروں سے چھپا نا شرط نہیں ہے ہاں اس میں ریا جائز نہیں ہے۔
س٧۲۰: نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد اورخود نافلہ کے وقت میں، کیا نافلہ ظہر و عصر قضا کی نیت سے پڑھے جائیں یا کسی اور نیت سے؟
ج: احتیاط یہ ہے کہ اس وقت قربةً الی اللہ کی نیت سے پڑھے جائیں، ادا اور قضا کی نیت نہ کی جائے۔
س٧۲۱: براہ مہربانی ہمیں نماز شب کے طریقہ سے تفصیل کے ساتھ مطلع فرمائیں؟
ج: نماز شب مجموعی طور پر گیا رہ رکعات ہیں، ان میں سے آٹھ رکعتوں کو، جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہیں، نماز شب کہتے ہیں اور انکے بعد دو رکعت کو نماز شفع کہتے ہیں اور یہ نماز صبح کی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی آخری ایک رکعت کو نماز وتر کہتے ہیں اس کے قنوت میں مومنین کے لئے استغفار و دعا کرنا اور خدائے منان سے حاجات طلب کرنا مستحب ہے، اس کی ترتیب دعاؤں کی کتابوں میں مذکور ہے۔
س٧۲۲: نماز شب کا کیا طریقہ ہے؟ یعنی اس میں کونسا سورہ، استغفار اور دعا پڑھی جائے؟
ج: نماز شب میں کوئی سورہ، استغفار اور دعا اسکے جز کے عنوان سے شرط نہیں ہے، بلکہ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد ہر رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اگر چاہے تو اسکے بعد دو سر ا سورہ پڑھے پھر رکوع و سجوداور تشہدو سلام بجالائے۔
- نماز کے متفرقہ احکام
نماز کے متفرقہ احکام
س٧۲۳:وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر والوں کو نماز صبح کیلئے بیدا ر کیا جائے؟
ج: اس سلسلے میں گھر کے افراد کے لئے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔
س ٧۲۴: ان لوگوں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو مختلف پارٹیوں اور گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور بلا سبب ایک دوسرے سے بغض ، حسد اور حتی دشمنی رکھتے ہیں ؟
ج: انسان کیلئے دوسروں کے بارے میں بغض وحسداور عداوت کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے، لیکن یہ روزہ و نماز کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے۔
س٧٢۵: اگر محاذ جنگ پر جہاد کرنے والا شدیدحملوں کی وجہ سے سورہ فاتحہ نہ پڑھ سکے یارکوع و سجود انجام نہ دے سکے تو وہاں پر کیسے نماز پڑھے؟
ج: اس کیلئے جس طرح نماز پڑھنا ممکن ہو پڑھے اور جب رکوع و سجود کرنے پر قادر نہ ہو تو دونوں کو اشاروں سے بجا لائے ۔
س٧٢۶: والدین اولاد کو کس سن میں احکام و عبادات شرعی کی تعلیم دیں؟
ج: ولی کے لئے مستحب ہے کہ جب بچہ سن تمیز (اچھے برے کو پہچاننے کی عمر) کو پہنچ جائے تو اسے شریعت کے احکام و عبادات کی تعلیم دے۔
س٧٢۷: شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے بعض ڈرائیور مسافروں کی نماز کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ان کے کہنے پر بس نہیں روکتے تاکہ وہ لوگ اتر کر نماز پڑھ سکیں، لہذا بسا اوقات ان کی نماز قضا ہو جاتی ہے، اس سلسلہ میں بس ڈرائیور کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور ایسی حالت میں اپنی نماز کے سلسلہ میں سواریوں کا کیا فریضہ ہے؟
ج: سواریوں پر واجب ہے کہ جب انہیں نماز کے قضا ہو جانے کا خوف ہو تو کسی مناسب جگہ پر ڈرائیور سے بس روکنے کا مطالبہ کریں اور ڈرائیور پر واجب ہے کہ وہ مسافروں کے کہنے پر بس روک دے، لیکن اگر وہ کسی معقول عذر کی بنا پر یا بلا سبب گاڑی نہ روکے تو سواریوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر وقت ختم ہو جانے کا خوف ہو تواسی وقت چلتی گاڑی میں نماز پڑھیں اور ممکنہ حد تک قبلہ، قیام اور رکوع و سجود کی رعایت کریں۔
س٧٢۸: یہ جو کہا جاتا ہے "چالیس دن تک شراب خور کا نماز و روزہ نہیں ہے" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت میں اس پر نماز پڑھنا واجب نہیں ہے؟ اور پھر وہ اس مدت کے بعد فوت ہوجانے والی نمازوں کی قضا بجا لائے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر قضا اور ادا دونوں واجب ہیں؟ یا پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ اس پر قضا واجب نہیں ہے، بلکہ ادا ہی کافی ہے، لیکن اس کا ثواب دوسری نمازوں سے کم ہوگا؟
ج: اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب خوری نماز اور روزہ کی قبولیت میں رکاوٹ ہے، نہ کہ اس کی وجہ سے شراب خور سے نماز اور روزہ کا فریضہ ہی ساقط ہوجائے اور انکی قضا واجب ہو یا ادا اور قضا دونوں لازم ہوں۔
س٧٢۹: اس وقت میرا شرعی فریضہ کیا ہے جب میں کسی شخص کو نماز کے کسی فعل کو غلط بجا لاتے ہوئے دیکھوں؟
ج: اس سلسلے میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ مگر یہ کہ جب وہ حکم سے ناواقف ہونے کی بنا پر غلطی کرے تو اس صورت میں اس کی راہنمائی کرنا واجب ہے۔
س٧۳۰: نماز کے بعد نماز گزاروں کے آپس میں مصافحہ کرنے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اس بات کی وضاحت کردینا بھی مناسب ہے کہ بعض بزرگ علماء کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیھم السلام سے کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے، پس مصافحہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن واضح ہے کہ مصافحہ کرنے سے نماز گزاروں کی دوستی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے؟
ج: سلام اور نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کلی طور پر مومنین کا آپس میں مصافحہ کرنا مستحب ہے۔
-
- احکام روزہ
- کتاب خمس
- جہاد
جہاد
س١٠٤۸: امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا حکم کیا ہے؟ اور کیا با اختیار جامع الشرائط فقیہ (ولی فقیہ)کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا حکم دے؟
ج: بعید نہیں ہے کہ جب مصلحت کا تقاضا ہو تو ولی فقیہ کیلئے جہاد ابتدائی کا حکم دینا جائز ہو بلکہ یہی اقویٰ ہے۔
س١٠٤۹: جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟
ج: اسلام اور مسلمانوں کا دفاع واجب ہے اور یہ والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سزاوار ہے کہ جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
س١٠۵۰: کیاان اہل کتاب پر جو اسلامی ملکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں، کافر ذمی کا حکم جاری ہوگا؟
ج: جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں کہ جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور امان کے خلاف کوئی کام بھی نہیں کرتے تو ان کا وہی حکم ہے جو معاہَد کا ہے۔
س١٠۵۱: کیا کوئی مسلمان کسی کافر کو خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب سے، مردوں میں سے ہو یا عورتوں میں سے اور چاہے اسلامی ممالک میں ہو یا غیر اسلامی ممالک میں، اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟
ج: یہ کام جائز نہیں ہے، اور جب کفار اسلامی سرزمین پر حملہ کریں اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو اسراء کی تقدیر کا فیصلہ حاکم اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
س١٠۵۲: اگر فرض کریں کہ حقیقی اسلام محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس شخص کے قتل پر موقوف ہے تو کیا یہ عمل ہمارے لئے جائز ہے؟
ج: نفس محترم کا خون ناحق بہانا شرعی لحاظ سے حرام اور حقیقی اسلام محمدی کے احکام کے خلاف ہے، لہذا یہ بے معنی بات ہے کہ اسلام محمدی کا تحفظ ایک بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ انسان جہادفی سبیل اللہ اور اسلام محمدی سے دفاع کیلئے ان حالات میں قیام کرے کہ جن میں اسے اپنے قتل کا بھی احتمال ہو تو اسکی مختلف صورتیں ہیں، لہذا اگر انسان کی اپنی تشخیص یہ ہو کہ مرکز اسلام خطرے میں ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے قیام کرے، اگرچہ اس میں اسے قتل ہوجانے کا خوف ہی کیوں نہ ہو۔
- امر بالمعروف و نہی عن المنکر
- حرام معاملات
- شطرنج اور آلات قمار
- موسیقی اور غنا
موسیقی اور غنا
س ١١٢۸: حلال اورحرام موسیقی میں فرق کرنے کا معیار کیا ہے ؟ آیا کلاسیکی موسیقی حلال ہے؟ اگر ضابطہ بیان فرمادیں تو بہت اچھا ہوگا۔
ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں لہو و لعب، راہ خدا سے منحرف کرنے والی اور عیاشی اور شراب و کباب کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو وہ حرام ہے اور حرام ہونے کے لحاظ سے کلاسیکی اور غیر کلاسیکی میں کوئی فرق نہیں ہے اور موضوع کی تشخیص کا معیار خود مکلف کی عرفی نظر ہے اور جو موسیقی اس طرح نہ ہو بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١٢۹: ایسی کیسٹوں کے سننے کا حکم کیا ہے جنہیں سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی دوسرے اسلامی ادارے نے مجاز قراردیاہو؟ اور موسیقی کے آلات کے استعمال کا کیا حکم ہے جیسے، سارنگی ، ستار، بانسری وغیرہ؟
ج: کیسٹ کے سننے کا جواز خودمکلف کی تشخیص پر ہے لہذا اگر مکلّف کے نزدیک متعلقہ کیسٹ کے اندر عیاشی اور شراب و کباب کی محافل سے مناسبت رکھنے والی لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی اور غنا نہ ہو اور نہ ہی اسکے اندر باطل مطالب پائے جاتے ہوں تو اسکے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ فقط سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی اور اسلامی ادارے کی جانب سے مجاز قرار دینا اسکے مباح ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔لہو اور گناہ کی محافل سے مناسبت رکھنے والی مطرب اور لہوی موسیقی کے لئے موسیقی کے آلات کا استعمال جائز نہیں ہے البتہ معقول مقاصد کے لئے مذکورہ آلات کا جائز استعمال اشکال نہیں رکھتا۔ اور مصادیق کی تعیین خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔
س ١١۳۰: لہوی موسیقی سے کیا مراد ہے؟ اور لہوی اور غیر لہوی موسیقی کی تشخیص کا راستہ کیا ہے؟
ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی وہ ہے جواپنی خصوصیات کی وجہ سے انسان کو خداوند متعال اور اخلاقی فضائل سے دور کرتی ہے اور اسے گناہ اور بے قید و بند حرکات کی طرف دھکیلتی ہے۔ اورموضوع کی تشخیص کا معیار عرفِ عام ہے۔
س ١١۳۱:کیا آلات موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، بجانے کی جگہ یا اس کا ھدف و مقصد موسیقی کے حکم میں دخالت رکھتا ہے؟
ج: فقط وہ موسیقی حرام ہے جو لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والی اورلہو و گناہ کی محافل سے مناسب ہو البتہ بعض اوقات آلاتِ موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، اسکے ساتھ ترنّم سے پیش کیا جانے والا کلام ، محل یا اس قسم کے دیگر امور ایک موسیقی کے حرام اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی یا کسی اور حرام عنوان کے تحت داخل ہونے میں مؤثر ہیں مثال کے طور پر ان چیزوں کی وجہ سے اس میں کوئی مفسدہ پیدا ہوجائے۔
س ١١۳۲:کیا موسیقی کے حرام ہونے کامعیار فقط لہو ومطرب ہونا ہے یا یہ کہ ہیجان میں لانا بھی اس میں مؤثر ہے؟ اور اگر کوئی ساز،موسیقی سننے والے کے حزن اور گریہ کا باعث بنے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور ان غزلیات کے پڑھنے کا کیا حکم ہے جو راگوں سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔
ج: معیار یہ ہے کہ موسیقی بجانے کی کیفیت اسکی تمام خصوصیات کے ساتھ ملاحظہ کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی اور فسق و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھنے والی موسیقی ہے؟ چنانچہ جو موسیقی طبیعی طور پر لہوی ہو وہ حرام ہے چاہے جوش و ہیجان کا باعث بنے یا نہ ۔ نیز سا معین کے لئے موجب حزن و اندوہ و غیرہ ہو یا نہ ۔ اور موسیقی کے ہمراہ مجالس لہو و لعب کے ساتھ سازگارآواز اور غنا کے ساتھ گائی جانے والی غزلوں کا گانا اور سننا بھی حرام ہے ۔
س١١۳۳:غنا کسے کہتے ہیں اور کیا فقط انسان کی آواز غنا ہے یا آلات موسیقی کے ذریعے حاصل ہونے والی آواز بھی غنا میں شامل ہے؟
ج: غنا انسان کی اس آواز کو کہتے ہیں کہ جسے گلے میں پھیرا جائے اور مجالس لہو و گناہ کے مناسب ہو اس صورت میں گانا اور اس کا سننا حرام ہے۔
س ١١۳۴:کیا عورتوں کے لئے شادی بیاہ کے دوران آلات موسیقی کے علاوہ برتن اور دیگر وسائل بجانا جائز ہے ؟ اگر اسکی آواز محفل سے باہر پہنچ کر مردوں کو سنائی دے رہی ہو تو اسکا کیا حکم ہے ؟
ج: جواز کا دارو مدار کیفیت عمل پر ہے کہ اگر وہ شادیوں میں رائج عام روایتی طریقے کے مطابق ہو ، لہوولعب میں شمار نہ ہوتا ہو اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١۳۵: شادی بیاہ کے اندر عورتوں کے ڈفلی بجانے کا کیا حکم ہے؟
ج: آلاتِ موسیقی کا لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی بجانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
س ١١۳۶:کیا گھر میں غنا کاسننا جائز ہے؟ اور اگر گانے کا انسان پر اثر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: غنا کاسننا مطلقاً حرام ہے چاہے گھر میں تنہا سنے یا لوگوں کے سامنے ،متاثر ہو یا نہ ہو۔
س ١١۳۷:بعض نوجوان جو حال ہی میں بالغ ہوئے ہیں انہوں نے ایسے مجتہد کی تقلید کی ہے جو مطلقاً موسیقی کو حرام سمجھتا ہے چاہے یہ موسیقی اسلامی جمہوری (ایران)کے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے ہی نشر ہوتی ہو۔ مذکورہ مسئلہ کا حکم کیا ہے؟کیا ولی فقیہ کا حلال موسیقی کے سننے کی اجازت دینا حکومتی احکام کے اعتبار سے مذکورہ موسیقی کے جائز ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یا ان پر اپنے مجتہد کے فتوی کے مطابق ہی عمل کرنا ضروری ہے؟
ج: موسیقی سننے کے بارے میں جواز اور عدم جواز کا فتوی حکومتی احکام میں سے نہیں ہے بلکہ یہ فقہی اور شرعی حکم ہے۔ اور ہر مکلف کو مذکورہ مسئلہ میں اپنے مرجع کی نظر کے مطابق عمل کرنا ہوگا ہاں اگر موسیقی ایسی ہو جو کہ لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت نہیں رکھتی اور نہ ہی اس پرمفسدہ مترتب ہو تو ایسی موسیقی کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
س١١٣۸:موسیقی اور غنا سے کیا مراد ہے؟
ج: آ واز کو اس طرح گلے میں گھمانا کہ جو محافل لہو سے مناسبت رکھتا ہے غنا کہلاتا ہے ۔اسکا شمار گناہوں میں ہوتاہے یہ سننے اور گانے والے پر حرام ہے ۔ لیکن موسیقی آلات موسیقی کا بجانا ہے۔ اگر یہ لہو و گناہ کی محافل میں راءج طریقے سے ہو تو بجانے اور سننے والے پر حرام ہے لیکن اگر مذکورہ صفات کے ساتھ نہ ہو تو بذات خود موسیقی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١٣۹:میں ایسی جگہ کام کرتا ہوں جس کا مالک ہمیشہ گانے کے کیسٹ سنتا ہے اور مجھے بھی مجبوراً سننا پڑتے ہیں کیا یہ میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اگر کیسٹوں میں موجودلہوی موسیقی اور غنا لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتے ہوں تو انکا سننا جائز نہیں ہے ہاں اگر آپ مذکورہ جگہ میں حاضر ہونے پر مجبور ہیں تو آپ کے وہاں جانے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن آپ پر واجب ہے کہ گانے کان لگا کر نہ سنیں اگرچہ آواز آپ کے کانوں میں پڑے اور سنائی دے۔
س١١۴۰:وہ موسیقی جو اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ریڈیو اور ٹیلیوژن سے نشر ہوتی ہے کیا حکم رکھتی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ )نے موسیقی کو مطلقاً حلال قرار دیا ہے کیا صحیح ہے؟
ج: حضرت امام خمینی قدس سرہ کی طرف موسیقی کومطلقاً حلال کرنے کی نسبت دینا جھوٹ اور افترا ہے وہ ایسی موسیقی کو حرام سمجھتے تھے جو گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو جیسا کہ ہماری رائے بھی یہی ہے لیکن موضوع کی تشخیص نقطۂ نظر میں اختلاف کا سبب ہے ۔ کیونکہ موضوع کو تشخیص دینا خود مکلف کے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے بعض اوقات بجانے والے کی رائے سننے والے سے مختلف ہوتی ہے لہذا جسے خود مکلف لہوی اور گناہ کی محافل کے مناسب موسیقی سمجھتا ہو اسکا سننا اس پر حرام ہے البتہ جن آوازوں کے بارے میں مکلف کو شک ہو وہ حلال ہیں اورمحض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہو جانا حلال اور مباح ہونے کی شرعی دلیل شمار نہیں ہوتا ۔
س ١١۴۱:ریڈیو اور ٹیلیویژن سے کبھی کبھی ایسی موسیقی نشر ہوتی ہے جو میری نظر میں لہو اور فسق و فجور کی محافل سے مناسبت رکھتی ہے کیا میرے لئے واجب ہے کہ ایسی موسیقی سے اجتناب کروں؟ اور دوسروں کو بھی روکوں؟
ج: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے اور یہ لہوی محافل سے مناسبت رکھتی ہے تو آپ کے لئے سننا جائز نہیں ہے لیکن دوسروں کو نہی عن المنکر کے عنوان سے روکنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ بھی مذکورہ موسیقی کو آپ کی مانند حرام موسیقی سمجھتے ہوں۔
س ١١۴۲:وہ لہوی موسیقی اور غنا کہ جسے مغربی ممالک میں ترتیب دیا جاتا ہے کے سننے اور پھیلانے کا کیا حکم ہے؟
ج: لہوی اور لہو و باطل کی محافل سے مناسبت رکھنے والی موسیقی کے سننے کے جائزنہ ہونے میں زبانوں اور ان ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے جہاں یہ ترتیب دی جاتی ہے لہذا ایسی کیسٹوں کی خرید و فروخت ،انکا سننا اور پھیلانا جائز نہیں ہے جو غنا اور حرام لہوی موسیقی پر مشتمل ہوں۔
س١١۴۳:مرد اورعورت میں سے ہر ایک کے غنا کی صورت میںگانے کا کیا حکم ہے؟ کیسٹ کے ذریعہ ہویا ریڈیو کے ذریعہ؟موسیقی کے ساتھ ہو یا نہ؟
ج: غنا حرام ہے اور غنا کی صورت میں گانا اوراس کا سننا جائز نہیں ہے چاہے مرد گائے یاعورت ، براہ راست ہو یا کیسٹ کے ذریعے چاہے گانے کے ہمراہ آلات لہو استعمال کئے جائیںیا نہ۔
س ١١۴۴: جائز اور معقول مقاصد کے لیئے مسجد جیسے کسی مقدس مقام میں موسیقی بجانے کا کیا حکم ہے؟
ج: لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی جو کہ مجالس لہوو گناہ سے مناسبت رکھتی ہو وہ مطلقاجائز نہیں ہے اگر چہ مسجد سے باہر اور حلال و معقول مقاصد کے لئے ہو۔ البتہ جن مواقع پر انقلابی ترانے پڑھنا مناسب ہے، مقدس مقامات میں موسیقی کے ساتھ انقلابی ترانے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ یہ امر مذکورہ جگہ کے تقدس و احترام کے خلاف نہ ہو اور نہ ہی مسجد میں نمازیوں کے لئے باعث زحمت ہو۔
س ١١۴۵ : آیا موسیقی سیکھنا جائز ہے خصوصاً ستار؟ اوردوسروں کواسکی ترغیب دلانے کا کیا حکم ہے؟
ج: غیر لہوی موسیقی بجانے کیلئے آ لات موسیقی کا استعمال جائز ہے اگر دینی یا انقلابی نغموں کیلئے ہو یا کسی مفیدثقافتی پروگرام کیلئے ہو اور اسی طرح جہاں بھی مباح عقلائی غرض موجود ہو مذکورہ موسیقی جائز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی اورمفسدہ لازم نہ آئے اور اس طرح کی موسیقی کو سیکھنا اور تعلیم دینا بذات ِ خود جائز ہے لیکن موسیقی کو ترویج دینا جمہوری اسلامی ایران کے بلند اہداف کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔
س ١١۴۶: عورت جب خاص لحن کے ساتھ شعر و غیرہ پڑھے تو اس کی آواز سننے کا کیا حکم ہے ؟سننے والا جوان ہو یا نہ ہو ، مرد ہو یا عورت ،اور اگر عورت محارم میں سے ہو تو کیا حکم ہے؟
ج: اگر خاتون کی آواز غنا کی کیفیت نہ رکھتی ہواور اس کا سننا لذت کے لیے اور ریبہ کے ساتھ نہ ہو اور اس پر کوئی دوسرا مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سلسلے میں سوال میں مذکورہ صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
س ١١۴۷:کیا ایران کی روایتی موسیقی کہ جو اس کا قومی ورثہ ہے حرام ہے یا نہیں ؟
ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں لہوی موسیقی ہو اور محافل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہو وہ مطلقاً حرام ہے چاہے ایرانی ہو یا غیر ایرانی چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی۔
س ١١٤۸:عربی ریڈیو سے بعض خاص لحن کی موسیقی نشر ہوتی ہے ، آیا عربی زبان سننے کے شوق کی خاطر اسے سنا جاسکتا ہے؟
ج: لہوی موسیقی جو کہ محافل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہو مطلقاً حرام ہے اور عربی زبان کے سننے کا شوق شرعی جواز نہیں ہے ۔
س ١١٤۹: کیا بغیر موسیقی کے گانے کی طرز پر گائے جانے والے اشعار کا دہرانا جائز ہے؟
ج: غنا حرام ہے چاہے موسیقی کے آلات کے بغیر ہو اور غنا سے مراد یہ ہے کہ اس طرح آواز کو گلے میں گھمایا جائے جس طرح راہ خدا سے منحرف کرنے والی محافل فسق و فجور میں رائج ہے ، البتہ فقط اشعار کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١١۵۰:موسیقی کے آلات کی خریدو فروخت کا کیاحکم ہے اور ان کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟
ج: مشترک آلات کی خرید و فروخت غیر لہوی موسیقی بجانے کے لئے اشکال نہیں رکھتی ۔
س ١١۵۱: کیا دعا ، قرآن اور اذان وغیرہ میں غنا جائز ہے؟
ج: غناء سے مراد ایسی آواز ہے جو ترجیع پر مشتمل ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو اور یہ مطلقاً حرام ہے حتی، دعا، قرآن ، اذان اور مرثیہ و غیرہ میں بھی۔
س١١۵۲: آج کل موسیقی بعض نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے جیسے افسردگی، اضطراب ، جنسی مشکلات اور خواتین کی سرد مزاجی وغیرہ۔ یہ موسیقی کیا حکم رکھتی ہے؟
ج: اگر امین اور ماہرڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ مرض کا علاج موسیقی پر متوقف ہے تو مرض کے علاج کی حدّ تک موسیقی کا استعمال جائز ہے۔
س ١١۵۳:اگر غنا سننے کی وجہ سے زوجہ کی طرف رغبت زیادہ ہوجاتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: ز وجہ کی جانب رغبت کا زیادہ ہونا، غنا سننے کا شرعی جواز نہیں ہے۔
س١١۵۴ : عورتوں کے مجمع میں خاتون کا کنسرٹ اجرا کرناکیا حکم رکھتا ہے جبکہ موسیقی بجانے والی بھی خواتین ہوں ؟
ج: اگر کنسرٹ کا اجرا لہوی ترجیع (غنا) کی صورت میں ہو یا اسکی موسیقی لہوی، راہ خدا سے منحرف کرنے والی اور محافل گناہ سے مناسبت رکھنے والی ہو تو حرام ہے۔
س١١۵۵:اگر موسیقی کے حرام ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ لہوی ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو تو ایسے گانوں اور ترانوں کا کیا حکم ہے جو بعض لوگوں حتی کہ خوب و بد کونہ سمجھنے والے بچوں میں بھی ہیجان پیدا کر دیتے ہیں؟ اور آیا ایسے فحش کیسٹ سننا حرام ہے جو عورتوں کے گانوں پر مشتمل ہوں لیکن ہیجان کا سبب نہ ہوں ؟ اور ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایسی عوامی بسوں میں سفر کرتے ہیں جنکے ڈرائیور مذکورہ کیسٹ استعمال کرتے ہیں؟
ج: موسیقی یا ہر وہ گانا جو ترجیع کے ہمراہ ہے اگر کیفیت و محتوا کے لحاظ سے یا گانے، بجانے کے دوران گانے یا بجانے والے کی خاص حالت کے اعتبار سے غنا یا لہوی اور لہو و گناہ کی محافل کے مناسب موسیقی ہوتو اس کا سننا حرام ہے حتی ایسے افراد کے لئے بھی کہ جنھیں یہ ہیجان میں نہ لائیں اور تحریک نہ کریں اور اگر عوامی بسوں یا دوسری گاڑیوں میں لہوی موسیقی نشر ہو تو ضروری ہے کہ سفر کرنے والے لوگ اسے کان لگا کر نہ سنیں اور نہی عن المنکرکریں۔
س١١۵۶ : آیا شادی شدہ مرداپنی بیوی سے لذت حاصل کرنے کے قصد سے نا محرم عورت کا گانا سن سکتا ہے؟ آیا زوجہ کا غنا اپنے شوہر یا شوہر کا اپنی زوجہ کے لءے جاءز ہے ؟ اور آیا یہ کہنا صحیح ہے کہ شارع مقدس نے غنا کو اس لئے حرام کیا ہے کہ غنا کے ہمراہ ہمیشہ محافل لہو و لعب ہوتی ہیں اور غنا کی حرمت ان محافل کی حرمت کا نتیجہ ہے۔
ج: غنا کہ جو اس طرح ترجیع صوت پر مشتمل ہو کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والا بھی اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسب ہو مطلقا حرام ہے حتی میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے بھی اور بیوی سے لذت کا قصد غنا کو مباح نہیں کرتا اور غنا وغیرہ کی حرمت شریعت مقدسہ میں تعبداً ثابت ہے اور شیعہ فقہ کے مسلمات میں سے ہے اور انکی حرمت کا دارو مدار فرضی معیارات اور نفسیاتی و اجتماعی اثرات کے اوپر نہیں ہے بلکہ یہ مطلقاً حرام ہیں اور ان سے مطلقاً اجتناب واجب ہے جب تک ان پر یہ عنوانِ حرام صادق ہے۔
س١١۵۷: بعض آرٹ کا لجزکے طلبا کے لئے اسپیشل دروس کے دوران انقلابی ترانوں اور نغموں کی کلاس میں شرکت لازمی ہے۔ جہاں وہ موسیقی کے آلات کی تعلیم لیتے ہیں اور مختصر طور پر موسیقی سے آشنا ہوتے ہیں اس درس کے پڑھنے کا اصلی آلہ اَرگن ہے۔ اس مضمون کی تعلیم کا کیا حکم ہے ؟جبکہ اس کی تعلیم لازمی ہے۔ مذکورہ آلہ کی خریدو فروخت اور اسکا استعمال ہمارے لئے کیا حکم رکھتا ہے؟ ان لڑکیوں کیلئے کیا حکم ہے جو مردوں کے سامنے پریکٹس کرتی ہیں؟
ج: انقلابی ترانوں، دینی پروگراموں اور مفید ثقافتی و تربیتی سرگرمیوں میں موسیقی کے آلات سے استفادہ کرنے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے ۔ مذکورہ اغراض کے لئے موسیقی کے آلات کی خرید و فروخت نیز انکا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اسی طرح خواتین حجاب اور اسلامی آداب و رسوم کی مراعات کرتے ہوئے کلاس میں شرکت کرسکتی ہیں ۔
س١١۵۸: بعض نغمے ظاہری طور پر انقلابی ہیں اور عرف ِعام میں بھی انہیں انقلابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ گانے والے نے انقلابی قصد سے نغمہ گایا ہے یا طرب اور لہو کے ارادے سے ، ایسے نغموں کے سننے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ان کے گانے والا مسلمان نہیں ہے ، لیکن اس کے نغمے ملی ہوتے ہیں اور انکے بول جبری تسلّط کے خلاف ہوتے ہیں اور استقامت پر ابھارتے ہیں۔
ج: اگر سامع کی نظر میں عرفاًگانے کی کیفیت اور راہ خدا سے منحرف کرنے والے گانے جیسی نہ ہو تو اس کے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور گانے والے کے قصد، ارادے اورمحتوا کااس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
س ١١۵۹:ایک جوان بعض کھیلوں میں بین الاقوامی کوچ اورریفری کے طور پر مشغول ہے اسکے کام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بعض ایسے کلبوں میں بھی جائے جہاں حرام موسیقی اور غنا نشر ہو رہے ہوتے ہیں اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ اس کام سے اسکی معیشت کا ایک حصہ حاصل ہوتاہے اورا سکے رہائشی علاقے میں کام کے مواقع بھی کم ہیں کیا اسکے لئے یہ کام جائز ہے ؟
ج: اس کے کام میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ لہوی موسیقی اور غنا کا سننا اس کے لئے حرام ہے اضطرار کی صورت میں حرام غنا اورموسیقی کی محفل میںجانا اس کے لئے جائز ہے البتہ توجہ سے موسیقی نہیں سن سکتا ،بلا اختیار جو چیز کان میں پڑے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
س ١١۶۰:آیا توجہ کے ساتھ موسیقی کا سننا حرام ہے یا کان میں آواز کا پڑنا بھی حرام ہے؟
ج: غنا یا لہوی موسیقی کے کان میں پڑنے کا حکم اسے کان لگاکرسننے کی طرح نہیں ہے سوائے بعض ان مواقع کے جن میں عرف کے نزدیک کان میں پڑنا بھی کان لگا کر سننا شمار ہوتاہے۔
س ١١۶۱:کیا قرأت قرآن کے ہمراہ ایسے آلات کے ذریعے موسیقی بجانا کہ جن سے عام طور پر لہو و لعب کی محافل میں استفادہ نہیں کیا جاتا جائز ہے؟
ج: اچھی آواز اور قرآن کریم کے شایان شان صدا کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہتر امر ہے بشرطیکہ حرام غنا کی حدّ تک نہ پہنچے البتہ تلاوت قرآن کے ساتھ موسیقی بجانے کا کوئی شرعی جواز اور دلیل موجود نہیں ہے۔
س١١۶۲:محفل میلاد و غیرہ میں طبلہ بجانے کا کیا حکم ہے ؟
ج: لہوی اور لہو و گناہ کی محافل کے مناسب کیفیت میں آلات موسیقی سے استفادہ کرنا مطلقاً حرام ہے ۔
س ١١٦۳: موسیقی کے ان آلات کا کیا حکم ہے کہ جن سے تعلیم و تربیت والے نغموں کے پڑھنے والی ٹیم کے رکن طلبا استفادہ کرتے ہیں ؟
ج: موسیقی کے ایسے آلات جو عرف عام کی نگاہ میں مشترک اور حلال کاموں میں استعمال کے قابل ہوں انہیں غیر لہوی طریقے سے حلال مقاصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے لیکن ایسے آلات جو عرف کی نگاہ میں لہو کے مخصوص آلات سمجھے جاتے ہوں انکا استعمال جائز نہیں ہے۔
س ١١۶۴:کیا موسیقی کا وہ آلہ جسے ستار کہتے ہیں بنانا جائز ہے اور کیا پیشے کے طور پر اس سے کسبِ معاش کیا جاسکتا ہے ، اس کی صنعت کو ترقی دینے اور اسے بجانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری ومالی امداد کی جاسکتی ہے؟ اور اصل خالص موسیقی پھیلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ایرانی روایتی موسیقی کی تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں؟
ج: قومی یا انقلابی ترانوں یا ہر حلال اور مفید چیزمیں موسیقی کے آلات کا استعمال جب تک محافل گناہ کے مناسب لہو تک نہ پہنچے بلا اشکال ہے اسی طرح اس کے لئے آلات کا بنانا اور مذکورہ ہدف کے لئے تعلیم و تعلم بھی بذاتِ خود اشکال نہیں رکھتے۔
س ١١۶۵: کونسے آلات آلاتِ لہو شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کا استعمال کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے؟
ج: وہ آلات جو عام طور پر لہو و لعب میں استعمال ہوتے ہیں اور جن کی کوئی حلال منفعت نہیں ہے ۔
س ١١۶۶:جو آڈیوکیسٹ حرام چیزوں پر مشتمل ہے کیا اس کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے؟
ج: جن کیسٹوں کا سننا حرام ہے ان کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
- رقص
رقص
س ١١۶۷:آیا شادیوں میں علاقائی رقص جائز ہے؟ اور ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص حرام ہے اور عورت کا عورتوں کے درمیان رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ نشست محفل رقص بن جاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگررقص میں ایسی کیفیت پائی جاتی ہو جو شہوت کو ابھارے یا کسی حرام فعل کے ہمراہ ہو (جیسے حرام موسیقی اور گانا) یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو یا وہاں کوئی نا محرم مرد موجود ہو تو حرام ہے اور اس حکم میں شادی اور غیر شادی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ رقص کی محافل میں شرکت کرنا اگر دوسروں کے فعل حرام کی تائید شمار ہو یا فعل ِحرام کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ کوئی حرج نہیں ہے۔
س ١١٦۸: کیا خواتین کی محفل میں بغیر موسیقی کی دھن کے رقص کرنا حرام ہے یا حلال ؟ اور اگر حرام ہے توکیا شرکت کرنے والوں پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟
ج: عورت کا عورتوں کیلئے رقص اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ محفل محفل رقص میں بدل جائے تو محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگر رقص اس طرح ہو کہ شہوت کو ابھارے یا فعل حرام کا سبب بنے یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو حرام ہے ۔ فعل حرام پر اعتراض کے طور پر محفل کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔
س ١١٦۹: مرد کا مرد کے لئے اور عورت کا عورت کے لئے یا مرد کا خواتین کے درمیان یا عورت کا مردوں کے درمیان علاقائی رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص کرنا حرام ہے اور عورت کا عورتوں کیلئے رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ پروگرام محفل رقص میں تبدیل ہوجاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اس کا ترک کرنا ہے اور اس صورت کے علاوہ اگر رقص میں ایسی کیفیت پاءی جاتی ہو کہ وہ شہوت کو ابھارے یا فعل ِحرام (جیسے حرام موسیقی اور گانا) کے ہمراہ ہو یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہویا کوئی نا محرم مرد وہاں موجود ہو تو حرام ہے۔
س ١١۷۰:مردوں کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا حکم کیا ہے؟ ٹیلیویژن و غیرہ پر چھوٹی بچیوں کا رقص دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر رقص شہوت کو ابھارے یا اس سے گناہ گار انسان کی تائید ہوتی ہو یا اسکے لئے مزید جرأت کا باعث ہو اور یا کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جائز نہیں ہے۔
س ١١۷۱:اگر شادی میں شرکت کرنا معاشرتی آداب کے احترام کی وجہ سے ہو تو کیا رقص کے احتمال کے ہوتے ہوئے اس میں شرکت کرنا شرعا اشکال رکھتا ہے ؟
ج: ایسی شادیوں میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن میں رقص کا احتمال ہو جب تک کہ فعل حرام کو انجام دینے والے کی تائید شمار نہ ہو اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب نہ بنے۔
س ١١۷۲:آیا بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا حرام ہے؟
ج: بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا اگرکسی اور حرام کام کے ہمراہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١١۷۳ : آیا اولاد کی شادی میں رقص کرنا جائز ہے؟اگرچہ رقص کرنے والے ماں باپ ہوں۔
ج: اگر رقص حرام کا مصداق ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی میں رقص کریں۔
س ١١۷۴: ایک شادی شدہ عورت شادیوں میں شوہر کی اطلاع کے بغیر نامحرم مردوں کے سامنے ناچتی ہے اور یہ عمل چند بار انجام دے چکی ہے اور شوہر کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس پر اثر نہیں کرتا اس صورت میں کیا حکم ہے؟
ج: عورت کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا مطلقاً حرام ہے اور عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا بھی بذات ِ خود حرام ہے اورنشوز کا سبب ہے جس کے نتیجے میں عورت نان و نفقہ کے حق سے محروم ہوجاتی ہے۔
س١١۷۵:دیہاتوں کے اندرہونے والی شادیوں میں عورتوں کا مردوں کے سامنے رقص کرنے کاکیاحکم ہے؟ جبکہ اس میں آلات ِموسیقی بھی استعمال ہوں؟ مذکورہ عمل کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: عورتوں کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا اور ہر وہ رقص جو شہوت کو ابھارے اور مفسدے کا سبب بنے حرام ہے اور موسیقی کے آلات کا استعمال اور موسیقی کا سننا اگرموسیقی لہوی اور مطرب ہو تو وہ بھی حرام ہے ، ان حالات میں مکلّفین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہی از منکر کریں۔
س ١١۷۶:ممیزبچے یا بچی کا زنانہ یا مردانہ محفل میں رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: نا بالغ بچہ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مکلف نہیں ہے لیکن بالغ افراد کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ اسے رقص کی ترغیب دلائیں۔
س ١١۷۷:رقص کی تربیت کے مراکز قائم کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: رقص کی تعلیم و ترویج کے مراکز قائم کرنا حکومت اسلامی کے اہداف کے منافی ہے۔
س ١١٧۸: مردوں کا محرم خواتین کے سامنے اور خواتین کا محرم مردوں کے سامنے رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ چاہے محرمیت سببی ہو یا نسبی ؟
ج: وہ رقص جو حرام ہے اس کا مرد اور عورت یا محرم اور نامحرم کے سامنے انجام دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س ١١٧۹:آیا شادیوں میں ڈنڈوں سے لڑائی کی نمائش کرنا جائز ہے اور اگر اسکے ساتھ آلات موسیقی استعمال کئے جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تفریحی اور ورزشی کھیل کی صورت میں ہو اور جان کا خطرہ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے کے طریقے سے آلات ِموسیقی کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے۔
س ١١۸۰:دبکہ کا کیا حکم ہے؟ (دبکہ ایک طرح کا علاقائی رقص ہے جس میں افرادہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اچھل کر جسمانی حرکات کے ساتھ ملکر زمین پر پاؤں مارتے ہیں تا کہ ایک شدید اورمنظم آواز پیدا ہو)
ج: اگر یہ عرف میں رقص شمار ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو رقص کا حکم ہے۔
- تالی بجانا
تالی بجانا
س١١۸۱: میلاد اور شادی و غیرہ جیسے زنانہ جشن میں خواتین کے تالیاں بجانے کا کیا حکم ہے؟ برفرض اگر جائز ہو تو محفل سے باہر نامحرم مردوں کو اگر تالیوں کی آواز پہنچے تو اسکا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر اس پر کوئی مفسدہ مترتب نہ ہو تومروجہ انداز سے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ نامحرم کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے۔
س ١١۸۲:معصومین علیہم السلام کے میلاد یا یوم وحدت و یوم بعثت کے جشنوں میں خوشحالی کے طور پر قصیدہ یا رسول اکرمؐ اور آپ کی آل پر درود پڑھتے ہوئے تالی بجانے کا کیا حکم ہے ؟ اس قسم کے جشن کامساجد اورسرکاری اداروں میں قائم نماز خانوں اور امام بارگاہ جیسی عبادت گاہوں میں برپا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بطور کلی عید و غیرہ جیسے جشنوں میں داد و تحسین کے لئے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ دینی محفل کی فضا درود وتکبیر سے معطر ہو بالخصوص ان محافل میں جو مساجد، امام بارگاہوں ،نمازخانوں وغیرہ میں منعقد کی جائیں تاکہ تکبیر اور درود کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکے۔
- نامحرم کی تصویر اور فلم
نامحرم کی تصویر اور فلم
س١١۸۳:بے پرد ہ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ٹیلی ویژن میں عورت کا چہرہ دیکھنے کا کیا حکم ہے؟کیا مسلمان اور غیر مسلم عورت میں فرق ہے؟کیا براہ راست نشر ہونے والی تصویر اور ریکارڈنگ دیکھنے میں فرق ہے؟
ج: نامحرم عورت کی تصویرکا حکم خود اسے دیکھنے کے حکم جیسا نہیں ہے لہذا مذکورہ تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو اور گناہ میں پڑنے کا خوف نہ ہو اور تصویر بھی ایسی مسلمان عورت کی نہ ہو جسے دیکھنے والا پہچانتاہے۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نا محرم عورت کی وہ تصویر جو براہ راست نشر کی جا رہی ہو نہ دیکھی جائے لیکن ٹیلی ویژن کے وہ پروگرام جو ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں ان میں خاتون کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ریبہ اور گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو۔
س١١۸۴:ٹیلیویژن کے ایسے پروگرام دیکھنے کا کیا حکم ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں؟ خلیج فارس کے گردو نواح میں رہنے والوں کا خلیجی ممالک کے ٹیلیویژن دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: وہ پروگرام جو مغربی ممالک سے سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہوتے ہیں اور اسی طرح اکثر ہمسایہ ممالک کے پروگرام چونکہ گمراہ کن، مسخ شدہ حقائق اور لہو و مفسدہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا دیکھنا غالباً ، گمراہی ، مفاسد اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتاہے لہذا ان کا دریافت کرنا اورمشاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
س١١۸۵:کیا ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ طنز و مزاح کے پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج ہے؟
ج: طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں کسی مؤمن کی توہین ہو۔
س١١۸۶: شادی کے جشن میں میری کچھ تصویریں اتاری گئیں جبکہ میں پورے پردے میں نہیں تھی وہ تصویریں حال حاضر میں میری سہیلیوںاور میرے رشتہ داروں کے پاس موجود ہیں کیا مجھ پر ان تصویروں کا واپس لینا واجب ہے؟
ج: اگر دوسروں کے پاس تصاویر موجود ہونے میں کوئی مفسدہ نہ ہویا مفسدہ ہو لیکن ان تصویروں کے دینے میں آپ کا کوئی دخل نہ ہو یا تصاویر واپس لینے میں آپ کیلئے زحمت و مشقّت ہو تو ان تمام صورتوں میں آپ پر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔
س ١١۸۷:ہم عورتوں کیلئے حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور شہداء کی تصویروں کو چومنے کا کیا حکم ہے جب کہ وہ ہمارے نامحرم ہیں۔
ج: بطور کلی نامحرم کی تصویر خود نامحرم والا حکم نہیں رکھتی لہذا احترام، تبرک اور اظہار محبت کے لئے نامحرم کی تصویر کو بوسہ دینا جائز ہے البتہ اگر قصد ریبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
س١١٨۸:کیا سینماکی فلموں وغیرہ میں برہنہ یا نیم برہنہ عورتوں کی تصاویر جنہیں ہم نہیں پہچانتے دیکھنا جائز ہے؟
ج: تصویر اور فلم دیکھنے کا حکم خود نامحرم کو دیکھنے کی طرح نہیں ہے لہذا شہوت، ربیہ (بری نیت) اور خوف مفسدہ کے بغیر ہو تو شرعاً اسے دیکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن چونکہ شہوت کو ابھارنے والی برہنہ تصاویر کو دیکھنا عام طور پر شہوت کے بغیر نہیں ہوتا لہذا ارتکاب گناہ کا مقدمہ ہے پس حرام ہے ۔
س ١١٨۹:کیا شادی کی تقریبات میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیئے تصویر اتروانا جائز ہے؟ جواز کی صورت میں آیا مکمل حجاب کی مراعات کرنا اس پر واجب ہے ؟
ج: بذات خود تصویر اتروانے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے البتہ اگر یہ احتمال پایا جاتاہو کہ عورت کی تصویر کو کوئی نامحرم دیکھے گا اور عورت کی طرف سے مکمل حجاب کا خیال نہ رکھنا مفسدہ کا باعث بنے گا تو اس صورت میں حجاب کا خیال رکھنا واجب ہے ۔
س ١١۹۰:آیا عورت کے لئے مردوں کے کشتی کے مقابلے دیکھنا جائز ہے؟
ج: ان مقابلوں کو اگر کشتی کے میدان میں حاضر ہو کر دیکھا جائے یا پھرلذت وریبہ کے قصد سے دیکھا جائے اور یا مفسدے اور گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہو تو جائزنہیں ہے اور اگر ٹی وی سے براہ راست نشر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا جائے تو بنابر احتیاط جائز نہیں ہےاس کے علاوہ دیگر صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔
س ١١۹۱: اگر دلہن شادی کی محفل میں اپنے سر پر شفاف و باریک کپڑا اوڑھے تو کیا نامحرم مرد اس کی تصویر کھینچ سکتا ہے یانہیں؟
ج: اگر یہ نامحرم عورت پر حرام نگاہ کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ جائز ہے۔
س ١١۹۲:بے پردہ عورت کی اسکے محارم کے درمیان تصویر لینے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر احتمال ہو کہ نامحرم اسے دھوتے اور پرنٹ کرتے وقت دیکھے گا تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تصویر کھینچنے والا مصور جو اسے دیکھ رہا ہے اس کے محارم میں سے ہو توتصویر لینا جائز ہے اوراسی طرح اگر مصور اسے نہ پہچانتا ہو تو اس سے تصویر دھلانے اور پرنٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١١۹۳: بعض جوان فحش تصاویر دیکھتے ہیں اور اس کے لئے خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس طرح کی تصاویر کا دیکھنا انسان کی شہوت کوایک حدّ تک تسکین دیتا ہو کہ جو اسے حرام سے بچانے میں مؤثر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تصاویر کا دیکھنا بری نیت سے ہو یا یہ جانتا ہو کہ تصاویر کا دیکھنا شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنے گا یا مفسدے اور گناہ کے ارتکاب کا خوف ہو تو حرام ہے اور ایک حرام عمل سے بچنا دوسرے حرام کے انجام دینے کا جواز فراہم نہیں کرتا ۔
س١١۹۴:ایسے جشن میں فلم بنانے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے جہاں موسیقی بج رہی ہو اور رقص کیا جارہا ہو؟ مرد کا مردوں کی تصویر اور عورت کا خواتین کی تصویر کھینچنے کا کیا حکم ہے؟ مرد کا شادی کی فلم کو دھونے کا کیا حکم ہے چاہے اس خاندان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ؟ اور اگر عورت فلم کو دھوئے تو کیا حکم ہے؟ کیا ایسی فلموں میں موسیقی کا استعمال جائز ہے؟
ج: خوشی کے جشن میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مرد کا مردوں اور عورت کا خواتین کی فلم بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جب تک غنا اورحرام موسیقی سننے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی کسی اور حرام فعل کے ارتکاب کا باعث بنے۔ مردوں کا عورتوں اور عورتوں کا مردوں کی فلم بنانا اگرریبہ کے ساتھ نگاہ یا کسی دوسرے مفسدے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے اور اسی طرح لہو و گناہ کی محافل سے مناسب لہوی موسیقی کا شادی کی فلموں میں استعمال حرام ہے۔
س١١۹۵:اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ملکی اور غیر ملکی فلموں اور موسیقی کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں دیکھنے اور سننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر سامعین اور ناظرین کی تشخیص یہ ہے کہ وہ موسیقی جو ریڈیو یا ٹیلیویژن سے نشر ہو رہی ہے وہ ایسی لہوی موسیقی ہے جو محافل لہو گناہ سے مناسبت رکھتی ہے اور وہ فلم جو ٹیلیویژن سے دکھائی جارہی ہے اس کے دیکھنے میں مفسدہ ہے تو انکے لئے ان کا سننا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور محض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونا جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے۔
س١١۹۶: سرکاری مراکز میں آویزاں کرنے کی غرض سے رسول اکرمؐ ، امیر المؤمنین اور امام حسین سے منسوب تصاویر چھاپنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: مذکورہ تصاویر کے چھاپنے میں بذات ِخودکوئی مانع نہیں ہے، بشرطیکہ ایسی کسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو عرف عام کی نگاہ میں موجب ہتک اور اہانت ہے نیز ان عظیم ہستیوں کی شان سے منافات نہ رکھتی ہوں۔
س١١۹۷:ایسی فحش کتابیں اور اشعار پڑھنے کا کیا حکم ہے جو شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنیں؟
ج: ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
س١١٩۸: بعض ٹی وی اسٹیشنز اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے براہ راست سلسلہ وار پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جو مغرب کے معاشرتی مسائل پیش کرتے ہیں لیکن ان پروگراموں میں مرد و عورت کے اختلاط اور ناجائز تعلقات کی ترویج جیسے فاسد افکار بھی پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ پروگرام بعض مومنین پر بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جسے ان کو دیکھنے کے بعد اپنے متاثر ہونے کا احتمال ہو؟ اور اگر کوئی اس غرض سے دیکھے کہ دوسروں کے سامنے اس کے نقصان کو بیان کرسکے یا اس پر تنقید کرسکے اور لوگوں کو نہ دیکھنے کی نصیحت کرسکے تو کیا اس کا حکم دوسروں سے فرق کرتا ہے؟
ج: لذت کی نگاہ سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر دیکھنے سے متاثر ہونے اورمفسدے کا خطرہ ہو تو بھی جائز نہیں ہے ہاں تنقید کی غرض سے اور لوگوں کو اسکے خطرات سے آگاہ کرنے اور نقصانات بتانے کے لئے ایسے شخص کے لیئے دیکھنا جائز ہے جو تنقید کرنے کا اہل ہو اور اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ ان سے متأثر ہوکر کسی مفسدہ میں نہیں پڑے گا اور اگراسکے لیئے کچھ قوانین ہوں تو انکی ضرور رعایت کی جائے ۔
س١١٩۹: ٹیلی ویژن پر آنے والی اناؤ نسر خاتون جو بے پردہ ہوتی ہے اور اسکا سر و سینہ بھی عریاں ہوتا ہے کے بالوں کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے ؟
ج: اگرلذت کے ساتھ نہ ہو اور اس سے حرام میں پڑنے اورمفسدہ کا خوف نہ ہو اور نشریات بھی براہ راست نہ ہوں تو فقط دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١۲۰۰: شادی شدہ شخص کے لیئے شہوت انگیز فلمیں دیکھنا جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اگر دیکھنے کا مقصد شہوت کو ابھارنا ہو یا انکا دیکھنا شہوت کے بھڑکانے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔
س ١۲۰۱:شادی شدہ مردوں کیلئے ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں حاملہ عورت سے مباشرت کرنے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ہے جبکہ اس بات کا علم ہے کہ مذکورہ عمل اسے حرام میں مبتلا نہیں کرے گا؟
ج: ایسی فلموں کا دیکھنا چونکہ ہمیشہ شہوت انگیز نگاہ کے ہمراہ ہوتا ہے لہذاجائز نہیں ہے ۔
س ١۲۰۲:مذہبی امور کی وزارت میں کام کرنے والے فلموں ، مجلات اور کیسٹوں کی نظارت کرتے ہیں تاکہ جائز مواد کو ناجائز مواد سے جدا کریں اس چیز کے پیش نظر کہ نظارت کے لئے انہیں غور سے سننا اوردیکھنا پڑتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
ج: کنٹرول کرنے والے افراد کے لیئے قانونی فریضہ انجام دیتے ہوئے بقدر ضرورت دیکھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان پر لازم ہے کہ لذت و ریبہ کے قصد سے پرہیز کریں نیز جن افراد کو مذکورہ مواد کے کنٹرول پر تعینات کیا جاتاہے ان کا فکری اور روحانی حوالے سے اعلی حکام کے زیر نظر اور زیر رہنمائی ہونا واجب ہے ۔
س١۲۰۳: کنٹرول کرنے کے عنوان سے ایسی ویڈیو فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو کبھی کبھی قابل اعتراض مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں تاکہ ان مناظر کو حذف کرکے ان فلموں کو دوسرے افراد کے دیکھنے کے لئے پیش کیا جائے؟
ج: فلم کا اسکی اصلاح اور اسے فاسد و گمراہ کن مناظر کے حذف کرنے کے لئے مشاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اصلاح کرنے والا شخص خود حرام میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو۔
س١۲۰۴:آیا میاں بیوی کے لئے گھر میں جنسی فلمیں دیکھنا جائز ہے ؟ آیا وہ شخص جس کے حرام مغز کی رگ کٹ گئی ہو وہ مذکورہ فلمیں دیکھ سکتا ہے تاکہ اپنی شہوت کو ابھارے اور اس طرح اپنی زوجہ کے ساتھ مباشرت کے قابل ہوسکے؟
ج: جنسی ویڈیو فلموں کے ذریعہ شہوت ابھارنا جائز نہیں ہے۔
س١۲۰۵: حکومت اسلامی کی طرف سے قانونی طور پر ممنوع فلمیں اور تصاویر دیکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ ان میں کسی قسم کا مفسدہ نہ ہو؟ اور جو ان میاں بیوی کے لئے مذکورہ فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: ممنوع ہونے کی صورت میں انھیں دیکھنے میں اشکال ہے۔
س١۲۰۶: ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں کبھی کبھی اسلامی جمہوریہ (ایران)کے مقدسات یا رہبر محترم کی توہین کی گئی ہو؟
ج: ایسی فلموں سے اجتناب واجب ہے۔
س١۲۰۷:ایسی ایرانی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد بنائی گئی ہیں اور ان میں خواتین ناقص حجاب کے ساتھ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی انسان کو بُری چیزیں سکھاتی ہیں؟
ج: اگرلذت اور ریبہ کے قصد سے نہ ہو اور مفسدہ میں مبتلا ہونے کا موجب بھی نہ ہو تو بذاتِ خود ایسی فلمیں دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن فلمیں بنانے والوں پر واجب ہے کہ ایسی فلمیں نہ بنائیں جو اسلام کی گرانقدر تعلیمات کے منافی ہوں۔
س١٢٠۸:ایسی فلموں کی نشر و اشاعت کا کیا حکم ہے جنکی تائید مذہبی اور ثقافتی امور کی وزارت نے کی ہو؟ اور یونیورسٹی میں موسیقی کی ایسی کیسٹوں کے نشر کرنے کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذکورہ وزارت نے کی ہو؟
ج: اگر مذکورہ فلمیں اور کیسٹیں مکلف کی نظر میں عرفاغنا اور محافل لہو و گناہ کے ساتھ مناسبت رکھنے والی موسیقی پر مشتمل ہوں تو ان کا نشر کرنا، پیش کرنا ، سننا اور دیکھنا جائز نہیں ہے، اور بعض متعلقہ اداروں کا تائید کرنا مکلف کے لئے جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے جب کہ موضوع کی تشخیص میں خود اس کی رائے تائید کرنے والوں کی نظر کے خلاف ہو۔
س ١٢٠۹:زنانہ لباس کے ایسے مجلات کی خرید و فروخت اورانہیں محفوظ رکھنے کا کیا حکم ہے کہ جن میں نامحرم خواتین کی تصاویر ہوتی ہیں اور جن سے کپڑوں کے انتخاب کیلئے استفادہ کیا جاتا ہے؟
ج: ان مجلات میں صرف نامحرم کی تصاویرکا ہونا خرید و فروخت کو ناجائز نہیں کرتا اور نہ ہی لباس کو انتخاب کرنے کیلئے ان سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے مگر یہ کہ مذکورہ تصاویر پر کوئی مفسدہ مترتب ہو ۔
س ١٢۱۰:کیا ویڈیو کیمرے کی خریدو فروخت جائز ہے؟
ج: اگر حرام امور میں استعمال کی غرض سے نہ ہوتو ویڈیو کیمرے کی خرید و فروخت جائز ہے ۔
س ١٢۱۱:فحش ویڈیو فلمیں اوروی سی آر کی فروخت اور کرائے پر دینے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ فلمیں ایسی ہیجان آور تصاویر پر مشتمل ہوں جو شہوت کو ابھاریں اور انحراف اور مفسدے کا موجب بنیں یا غنا اور لہوی موسیقی جو کہ محافل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہے پر مشتمل ہوں تو ایسی فلموں کا بنانا ،انکی خرید و فروخت ، کرایہ پر دینا اور اسی طرح وی سی آر کا مذکورہ مقصد کے لئے کرا ئے پر دینا جائز نہیں ہے۔
س ١٢۱۲:غیر ملکی ریڈیو سے خبریں اور ثقافتی اور علمی پروگرام سننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مفسدے اور انحراف کا سبب نہ ہوں تو جائز ہے۔
- ڈش ا نٹینا
ڈش ا نٹینا
س ١٢۱۳:کیا ڈش کے ذریعے ٹی وی پروگرام دیکھنا ، ڈش خریدنا اور رکھنا جائز ہے؟ اور اگر ڈش مفت میں حاصل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: چونکہ ڈش، ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لئے محض ایک آلہ ہے اور ٹی وی پروگرام جائز بھی ہوتے ہیں اور ناجائز بھی لہذا ڈش کا حکم بھی دیگر مشترک آلات جیسا ہے کہ جنہیں حرام مقاصد کے لئے بیچنا ،خریدنا اور اپنے پاس رکھنا حرام ہے لیکن جائز مقاصد کے لئے جائز ہے البتہ چونکہ یہ آلہ جسکے پاس ہو اسے یہ حرام پروگراموں کے حاصل کرنے کے لئے کاملاًمیدان فراہم کرتاہے اور بعض اوقات اسے گھر میں رکھنے پر دیگر مفاسد بھی مترتب ہوتے ہیں لہذا اسکی خرید و فروخت اور رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اس شخص کے لئے جائز ہے جسے اپنے اوپر اطمینان ہوکہ اس سے حرام استفادہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے گھر میں رکھنے پر کوئی مفسدہ مترتب ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قانون ہو تو اسکی مراعات کرنا ضروری ہے۔
س١٢۱۴:آیا جو شخص اسلامی جمہوریہ ایران سے باہر رہتا ہے اسکے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھنے کے لیئے سیٹلائٹ چینلز دریافت کرنے والا ڈش انٹیناخریدنا جائز ہے؟
ج: مذکورہ آلہ اگرچہ مشترک آلات میں سے ہے اور اس بات کی قابلیت رکھتا ہے کہ اس سے حلال استفادہ کیا جائے لیکن چونکہ غالباً اس سے حرام استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اسے گھر میں رکھنے سے دوسرے مفاسد بھی پیدا ہوتے ہیں لہذا اسکا خریدنا اور گھر میں رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کو اطمینان ہو کہ اسے حرام میں استعمال نہیں کرے گا اور اسکے نصب کرنے پر کوئی اور مفسدہ بھی مترتب نہیں ہوگا تو اسکے لئے جائز ہے ۔
س١٢۱۵:ایسے ڈش انٹینا کا کیا حکم ہے جو اسلامی جمہوریہ کے چینلز کے علاوہ بعض خلیجی اور عرب ممالک کی خبریں اور انکے مفید پروگراموں کے ساتھ ساتھ تمام مغربی اور فاسد چینلز بھی دریافت کرتاہے؟
ج: مذکورہ آلہ کے ذریعے ٹیلیویژن پروگرام کے حصول اور استعمال کا معیار وہی ہے جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اورمغربی اور غیر مغربی چینلز میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س١٢۱۶:علمی اور قرآنی اور ان جیسے دیگر پروگراموں سے مطلع ہونے کے لئے کہ جنہیں مغربی ممالک اور خلیج فارس کے پڑوسی ممالک نشر کرتے ہیں ڈش کے استعمال کا حکم کیا ہے؟
ج: مذکورہ آلے کو علمی ، قرآنی وغیرہ پروگراموں کے مشاہدے کے لئے استعمال کرنا بذات ِ خود صحیح ہے۔ لیکن وہ پروگرام جو سیٹلائٹ کے ذریعہ مغربی یا اکثر ہمسایہ ممالک نشر کرتے ہیں غالباً گمراہ کن افکار، مسخ شدہ حقائق اور لہو ومفسدے پر مبنی ہوتے ہیں حتی کہ قرآنی ، علمی پروگرام دیکھنا بھی مفسدے اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے لہذا ایسے پروگرام دیکھنے کیلئے ڈش کا استعمال شرعاً حرام ہے۔ ہاں اگر خالص علمی اور قرآنی پروگرام ہوں اور ان کے دیکھنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو اور اس سے کسی حرام کام میں بھی مبتلا نہ ہو تو جائز ہے البتہ اس سلسلے میں اگر کوئی قانون ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے۔
س١٢۱۷:میرا کام ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام دریافت کرنے والے آلات کی مرمت کرنا ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے ڈش لگانے اور مرمت کرانے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مذکورہ مسئلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور ڈش کے اسپئیر پارٹس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مذکورہ آلہ سے حرام امور میں استفادہ کیا جائے جیسا کہ غالباً ایسا ہی ہے یا آپ جانتے ہیں کہ جو شخص اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے حرام میں استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کا فروخت کرنا، خریدنا ، نصب کرنا ، چالو کرنا، مرمت کرنا اور اس کے اسپئیر پارٹس فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
- تھیٹر اور سینما
تھیٹر اور سینما
س١٢١۸:کیا فلموں میں ضرورت کے تحت علماء دین اور قاضی کے لباس سے استفادہ کرنا جائز ہے؟کیا ماضی اور حال کے علما پر دینی اور عرفانی پیرائے میں فلم بنانا جائز ہے؟ اس شرط کے ساتھ کہ ان کا احترام اور اسلام کی حرمت بھی محفوظ رہے ؟ اور انکی شان میں کسی قسم کی بے ادبی اور بے احترامی بھی نہ ہو بالخصوص جب ایسی فلمیں بنانے کا مقصد دین حنیف اسلام کی اعلی اقدار کو پیش کرنا اور عرفان اور ثقافت کے اس مفہوم کو بیان کرنا ہو جو ہماری اسلامی امت کا طرہ امتیاز ہے اور اس طرح سے دشمن کی گندی ثقافت کا مقابلہ کیا جائے اور اسے سینما کی زبان میں بیان کیا جائے کہ جو جوانوں کے لئے بالخصوص جذاب اور زیادہ موثر ہے ؟
ج: اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سینما بیداری ، شعور پیدا کرنے اور تبلیغ کا ذریعہ ہے پس ہر اس چیز کی تصویر کشی کرنا یا پیش کرنا جو نوجوانوں کے فہم و شعور کو بڑھائے اور اسلامی ثقافت کی ترویج کرے، جائز ہے۔ انہیں چیزوں میں سے ایک علما ء دین کی شخصیت ، انکی ذاتی زندگی اور اسی طرح دیگر صاحبان علم و منصب کی شخصیت اور انکی شخصی زندگی کا تعارف کراناہے۔ لیکن ان کی ذاتی حیثیت اور ان کے احترام کی رعایت کرنا اور انکی ذاتی زندگی کے حریم کا پاس رکھنا واجب ہے اور یہ کہ ایسی فلموں سے اسلام کے منافی مفاہیم کو بیان کرنے کے لئے استفادہ نہ کیا جائے۔
س١٢١۹: ہم نے ایک ایسی داستانی اور حماسی فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے کہ جو کربلا کے ہمیشہ زندہ رہنے والے واقعہ کی تصویر پیش کرے اور ان عظیم اہداف کو پیش کرے کہ جنکی خاطر امام حسین شہید ہوئے ہیں البتہ مذکورہ فلم میں امام حسین ـ کو ایک معمولی اور قابل رؤیت فرد کے طور پر نہیں دکھا یا جائے گا بلکہ انہیں فلم بندی ،اسکی ساخت اور نورپردازی کے تمام مراحل میں ایک نورانی شخصیت کی صورت میں پیش کیا جائے گا کیا ایسی فلم بنانا اور امام حسین علیہ السلام کو مذکورہ طریقے سے پیش کرنا جائز ہے ؟
ج: اگر فلم قابل اعتماد تاریخی شواہد کی روشنی میں بنائی جائے اور موضوع کا تقدس محفوظ رہے اور امام حسین اور ان کے اصحاب اور اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ ملحوظ رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ موضوع کے تقدس کو اس طرح محفوظ رکھنا جیسے کہ محفوظ رکھنے کا حق ہے اور اسی طرح امام اور ان کے اصحاب کی حرمت کو باقی رکھنا بہت مشکل ہے لہذا اس میدان میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
س١٢۲۰:اسٹیج یا فلمی اداکاری کے دوران مردوں کے لئے عورتوں کا لباس اور عورتوں کے لئے مردوں والا لباس پہننے کا کیا حکم ہے؟ اور عورتوں کے لئے مردوں کی آواز کی نقل اتارنے اور مردوں کیلئے عورتوں کی آواز کی نقل اتارنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اداکاری کے دوران کسی حقیقی شخص کی خصوصیات بیان کرنے کی غرض سے جنس مخالف کے لئے ایک دوسرے کا لباس پہننا یا آواز کی نقل اتارنا اگر کسی مفسدے کا سبب نہ بنے تو اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔
س١٢۲۱: اسٹیج شو یاتھیڑمیں خواتین کے لئے میک اپ کا سامان استعمال کرنے کا کیاحکم ہے؟ جبکہ انہیں مرد مشاہدہ کرتے ہوں؟
ج: اگر میک اپ کا عمل خود انجام دے یا خواتین کے ذریعے انجام پائے یا کوئی محرم انجام دے اور اس میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو جائز ہے وگرنہ جائز نہیں ہے البتہ میک اپ شدہ چہرہ نامحرم سے چھپانا ضروری ہے ۔
- مصوری اور مجسمہ سازی
مصوری اور مجسمہ سازی
س١٢۲۲:گڑیا ، مجسمے، ڈراءنگ اور ذی روح موجودات جیسے نباتات، حیوانات اور انسان کی تصویریں بنانے کا کیا حکم ہے؟ انکی خرید و فروخت ،گھر میں رکھنے یا انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: موجودات کی مجسمہ سازی اور تصویریں اور ڈراءنگ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ وہ ذی روح ہوں اسی طرح مجسموں اور ڈرائنگ کی خرید و فروخت ان کی حفاظت کرنے نیز انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٢۲۳: جدید طریقۂ تعلیم میں خود اعتمادی کے عنوان سے ایک درس شامل ہے جس کا ایک حصہ مجسمہ سازی پر مشتمل ہے بعض اساتید طالب علموں کو دستی مصنوعات کے عنوان سے کپڑے یا کسی اور چیز سے گڑیا یا کتّے ، خرگوش و غیرہ کا مجسمہ بنانے کا حکم دیتے ہیں ۔ مذکورہ اشیاء کے بنانے کا کیا حکم ہے ؟ استاد کے اس حکم دینے کا کیا حکم ہے؟کیا مذکورہ اشیاء کے اجزا کا مکمل اور نامکمل ہونا انکے حکم میں اثر رکھتا ہے؟
ج: مجمسہ سازی اور اس کا حکم دینا بلا مانع ہے۔
س١٢۲۴: بچوں اورنوجوانوں کا قرآنی قصّوں کے خاکے اور ڈراءنگ بنانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً بچوں سے یہ کہا جائے کہ اصحاب فیل یا حضرت موسیٰ کے لئے دریا کے پھٹنے کے واقعہ کی تصویریں بنائیں؟
ج: بذات خود اس کام میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہواورغیر واقعی اور ہتک آمیزنہ ہو۔
س١٢۲۵: کیا مخصوص مشین کے ذریعے گڑیا یا انسان و غیرہ جیسے ذی روح موجودات کا مجسمہ بنانا جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٢۲۶:مجسمے کی طرز کا زیور بنانے کا کیا حکم ہے؟کیا مجسمہ سازی کے لئے استعمال شدہ مواد بھی حرام ہونے میں مؤثر ہے؟
ج: مجمسہ بنانے میں اشکال نہیں ہے اور اس سلسلے میں اس مواد میں کوئی فرق نہیں ہے جس سے مجسمہ بنایا جاتاہے۔
س١٢۲۷: آیا گڑیا کے اعضا مثلاً ہاتھ پاؤں یا سر دوبارہ جوڑنا مجسمہ سازی کے زمرے میں آتاہے؟ کیا اس پر بھی مجسمہ سازی کا عنوان صدق کرتاہے؟
ج: صرف اعضا بنانا یا انھیں دوبارہ جو ڑنا ، مجسمہ سازی نہیں کہلاتا اور ہر صورت میں مجسمہ بنانا اشکال نہیں رکھتا۔
س١٢٢۸:جلد کو گودناــ (خالکوبی )جو کہ بعض لوگوں کے ہاں رائج ہے کہ جس سے انسانی جسم کے بعض اعضا پر اس طرح مختلف تصاویر بنائی جاتی ہیں کہ وہ محو نہیں ہوتیںــکیا حکم رکھتاہے؟اور کیا یہ ایسی رکاوٹ ہے کہ جس کی وجہ سے وضو یا غسل نہیں ہوسکتا ؟
ج: گودنے اور سوئی کے ذریعے جلد کے نیچے تصویر بنانا حرام نہیں ہے اور وہ اثر جو جلد کے نیچے باقی ہے وہ پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہے لہذا غسل اور وضو صحیح ہے۔
س١٢٢۹:ایک میاں بیوی معروف مصور ہیں۔ ان کا کام تصویری فن پاروں کی مرمت کرنا ہے۔ ان میں سے بہت سے عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ بعض میں صلیب یا حضرت مریم یا حضرت عیسی کی شکل ہوتی ہے مذکورہ اشیا کو گرجا والے یا مختلف کمپنیاں ان کے پاس لے کر آتی ہیں تاکہ ان کی مرمت کی جائے جبکہ پرانے ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے بعض حصے ضایع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ آیا ان کے لئے ان چیزوں کی مرمت کرنا اور اس عمل کے عوض اجرت لینا صحیح ہے؟ اکثر تصاویر اسی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کا یہی واحد پیشہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ وہ دونوں اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں آیا مذکورہ تصاویر کی مرمت اور اس کا م کے بدلے اجرت لینا انکے لئے جائز ہے؟
ج: محض کسی فن پارے کی مرمت کرنا اگرچہ وہ عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت مریم علیہا السلام کی تصاویر پر مشتمل ہوں جائز ہے اور مذکورہ عمل کے عوض اجرت لینا بھی صحیح ہے اور اس قسم کے عمل کو پیشہ بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ یہ باطل اور گمراہی کی ترویج یا کسی اور مفسدے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔
- جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا
- قسمت آزمائی
قسمت آزمائی
س١٢۳۷:قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے اور مکلّف کے لئے اس سے حاصل شدہ انعام کا کیا حکم ہے؟
ج: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنا اور فروخت کرنا بنابرا احتیاط واب حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام کا مالک نہیں بنتا اور اسے مذکورہ مال کے لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
س١٢٣۸:وہ ٹکٹ جو ایک ویلفیر پیکج (ارمغان بہزیستی)کے نام سے نشر کیئے جاتے ہیں انکی بابت پیسے دینا اور انکی قرعہ اندازی میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟
ج: بھلائی کے کاموں کیلئے لوگوں سے ہدایا جمع کرنے اور اہل خیر حضرات کی ترغیب کی خاطر ٹکٹ چھاپنے اور تقسیم کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اسی طرح مذکورہ ٹکٹ بھلائی کے کاموںمیں شرکت کی نیت سے خرید نے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔
س١٢٣۹: ایک شخص کے پاس گاڑی ہے جسے وہ بخت آزمائی کیلئے پیش کرتا ہے اس طرح کہ مقابلے میں شرکت کرنے والے افراد ایک خاص ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک مقررہ تاریخ کو ایک معیّن قیمت کے تحت انکی قرعہ اندازی ہوگی معیّنہ مدت کے ختم ہونے پر اور لوگوں کی ایک تعداد کی شرکت کے بعد قرعہ اندازی کی جاتی ہے جس شخص کے نام قرعہ نکلتاہے وہ اس قیمتی گاڑی کو لے لیتا ہے تو کیا قرعہ اندازی کے ذریعے مذکورہ طریقے سے گاڑی بیچنا شرعاً جائز ہے؟
ج: بنابر احتیاط ان ٹکٹوں کی خرید و فروش حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام (گاڑی) کا مالک نہیں بنے گا بلکہ مالک بننے کیلئے ضروری ہے کہ انعام (گاڑی) کا مالک بیع، ہبہ یا صلح وغیرہ جیسے کسی شرعی عقد کے ذریعے اسے جیتنے والے کو تملیک کرے ۔
س١٢۴۰:کیا رفاہ عامہ کیلئے ٹکٹ فروخت کرکے عام لوگوں سے چندہ جمع کرنا اور بعد میں حاصل شدہ مال میں سے ایک مقدار کو قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والوں کو تحفہ کے طورپردینا جائزہے؟ جبکہ باقی مال رفاہ عامہ میں خرچ کردیا جائے؟
ج: مذکورہ عمل کو بیع کہنا صحیح نہیں ہے ہاں بھلائی کے کاموں کے لئے ٹکٹ جاری کرنا صحیح ہے۔ اور قرعہ اندازی کے ذریعہ لوگوں کو انعام دینے کے وعدے کے ذریعہ انہیں چندہ دینے پر آمادہ کرنا بھی جائز ہے۔البتہ اس شرط کے ساتھ کہ لوگ بھلائی کے کاموں میں شرکت کے قصدسے ٹکٹ حاصل کریں۔
س١٢۴۱:کیا بخت آزمائی (lotto)کے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟جبکہ مذکورہ ٹکٹ ایک خاص کمپنی کی ملکیت ہیں اور ان ٹکٹوں کی بیس فیصد منفعت عورتوں کے فلاحی ادارے کو دی جاتی ہے؟
ج: ان ٹکٹوں کی خرید و فروش بنابر احتیاط واجب حرام ہے اور جیتنے والے جیتی ہوئی رقم کے مالک نہیں بنیں گے۔
- رشوت
- طبی مسائل
- تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
س ١٣19:کیا پیش آنے والے مسائل شرعیہ کو نہ سیکھنا گنا ہ ہے ؟
ج: اگر نہ سیکھنے کی وجہ سے ترک واجب یا فعل حرام کامرتکب ہو تو گناہ گار ہوگا۔
س١٣20:اگر دینی طالب علم سطحیات تک کے مراحل طے کرلے اور وہ اپنے آپ کو درجہ اجتہاد تک کی تعلیم مکمل کرنے پر قادر سمجھتا ہو تو کیا ایسے شخص کے لئے تعلیم مکمل کرنا واجب عینی ہے؟
ج: بلا شک علوم دینی کی تحصیل اور درجہ اجتہادتک پہنچنے کیلئے اسے جاری رکھنا عظیم فضیلت ہے ، لیکن صرف درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کی قدرت رکھنا اسکے واجب عینی ہونے کا باعث نہیں بنتا۔
س١٣21: اصول دین میں حصول یقین کا کیا طریقہ ہے؟
ج: عام طور پر یقین عقلی براہین و دلائل سے حاصل ہوتا ہے۔البتہ مکلفین کے ادراک و فہم میں اختلاف مراتب کی وجہ سے براہین و دلائل بھی مختلف ہیں۔ بہرحال اگر کسی شخص کو کسی دوسرے طریقے سے یقین حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔
س١٣22:حصول علم میں سستی کرنے اور وقت ضائع کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آیا یہ حرام ہے؟
ج: بے کار رہنے اور وقت ضائع کرنے میں اشکال ہے۔ اگر طالب علم، طلاب کے لئے مخصوص سہولیات سے استفادہ کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طلاب کیلئے مخصوص درسی پروگرام کی بھی رعایت کرے وگرنہ اس کے لئے مذکورہ سہولیات جیسے ماہانہ وظیفہ اور امدادی مخارج و غیرہ سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے۔
س١٣23:اکنامکس کی بعض کلاسوں میں استاد سودی قرض سے متعلق بعض مسائل پر گفتگو کرتا ہے اور تجارت و صنعت وغیرہ میں سود حاصل کرنے کے طریقوں کا مقایسہ کرتا ہے مذکورہ تدریس اور اس پر اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟
ج: صرف سودی قرضے کے مسائل کا جائزہ لینا اور ان کی تدریس حرام نہیں ہے۔
س١٣24: اسلامی جمہوری(ایران ) میں عہد کی پابندی کرنے والے اور ذمہ دار ماہرین تعلیم کیلئے دوسروں کو تعلیم دینے کیلئے کونسا صحیح طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ اوراداروں میں کون لوگ حساس ٹیکنیکی علوم اور معلومات حاصل کرنے کے لائق ہیں؟
ج: کسی شخص کا کوئی بھی علم حاصل کرنا اگر جائز عقلائی مقصد کیلئے ہو اور اس میں فاسد ہونے یا فاسد کرنے کا خوف نہ ہو تو بلا مانع ہے سوائے ان علوم و معلومات کے کہ جنکے حاصل کرنے کیلئے حکومت اسلامی نے خاص قوانین اور ضوابط بنائے ہیں۔
س١٣25:آیا دینی مدارس میں فلسفہ پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے؟
ج: جس شخص کو اطمینان ہے کہ فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے سے اسکے دینی اعتقادات میں تزلزل نہیں آئیگااس کیلئے فلسفہ پڑھنا اشکال نہیں رکھتابلکہ بعض موارد میں واجب ہے۔
س١٣26:گمراہ کن کتابوں کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ مثلاً کتاب آیات شیطانی؟
ج: گمراہ کن کتابوں کا خریدنا، بیچنا اور رکھنا جائز نہیں ہے مگر اس کا جواب دینے کیلئے البتہ اگرعلمی لحاظ سے اس پر قادر ہو۔
س١٣27:حیوانات اور انسانوں کے بارے میں ایسے خیالی قصّوں کی تعلیم اور انہیں بیان کرنا کیا حکم رکھتا ہے جن کے بیان کرنے میں فائدہ ہو؟
ج: اگر قرائن سے معلوم ہورہاہو کہ داستان تخیلی ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٣28: ایسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنے کا کیا حکم ہے جہاں بے پردہ عورتوں کے ساتھ مخلوط ہونا پڑتاہے؟
ج: تعلیمی مراکز میں تعلیم و تعلم کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خواتین اور لڑکیوں پر پردہ کرنا واجب ہے اور مردوں پر بھی واجب ہے کہ انکی طرف حرام نگاہ سے پرہیز کریں اور ایسے اختلاط سے اجتناب کریں کہ جس میں مفسدے اور فاسد ہونے کا خوف ہو۔
س١٣29:آیا خاتون کا غیر مرد سے ایسے مقام پر جو ڈرائیونگ سکھانے کے لئے مخصوص ہے ڈرائیونگ سیکھنا جائز ہے؟ جبکہ خاتون شرعی پردے اور عفت کی پابند ہو؟
ج: نامحرم سے ڈرائیونگ سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جب پردے اور عفت کا خیال رکھا جائے اورمفسدہ میں نہ پڑنے کا اطمینان ہوہاں اگر کوئی محرم بھی ساتھ ہو تو بہتر ہے بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ نامحرم مرد کی بجائے کسی عورت یا اپنے کسی محرم سے ڈرائیونگ سیکھے۔
س١٣30:کالج ، یونیورسٹی میں جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور کلاس فیلو ہونے کی بنیاد پردرس وغیرہ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات لذت اوربرے قصد کے بغیر ہنسی مذاق بھی ہوجاتا ہے آیا مذکورہ عمل جائز ہے؟
ج: اگر پردے کی پابندی کی جائے بری نیت بھی نہ ہو اور مفسدے میں نہ پڑنے کا اطمینان ہو تو اشکال نہیں رکھتا ورنہ جائز نہیں ہے۔
س١٣31:حالیہ دور میں کس علم کا ماہر ہونا اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے؟
ج: بہتر یہ ہے کہ علماء ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے طلباء ان تمام علوم میں ماہر ہونے کو اہمیت دیں جو مفید اور مسلمانوں کی ضرورت ہیں تا کہ غیروں سے اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بے نیاز ہو سکیں۔ ان میں سے مفید ترین کی تشخیص موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے متعلقہ ذمہ دار لوگوں کا کام ہے ۔
س١٣32:گمراہ کن کتابوں اور دوسرے مذاہب کی کتابوں سے آگاہ ہونا کیسا ہے؟ تاکہ ان کے دین اور عقائد کے بارے میں زیادہ اطلاعات اور معرفت حاصل ہوسکے؟
ج: فقط معرفت اور زیادہ معلومات کے لئے انکے پڑھنے کے جواز کا حکم مشکل ہے ہاں اگر کوئی شخص گمراہ کنندہ مواد کی تشخیص دے سکے اور اسکے ابطال اور اس کا جواب دینے کیلئے مطالعہ کرے تو جائز ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ حق سے منحرف نہیں ہوگا۔
س١٣33:بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرانے کا کیا حکم ہے جہاں بعض فاسد عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے اس فرض کے ساتھ کہ بچے ان سے متاثر نہیں ہوں گے؟
ج: اگر ان کے دینی عقائد کے بارے میں خوف نہ ہو اور باطل کی ترویج بھی نہ ہو اوران کیلئے فاسد اور گمراہ کن مطالب کو سیکھنے سے دوررہنا ممکن ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣34: میڈیکل کا طالب علم چار سال سے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ اسے دینی علوم کا بہت شوق ہے ، آیا اس پر واجب ہے کہ تعلیم جاری رکھے یا اسے ترک کرکے علوم دینی حاصل کرسکتا ہے؟
ج: طالب علم اپنے لئے علمی شعبہ اختیار کرنے میں آزادہے لیکن یہاں پر ایک نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر اسلامی معاشرے کی خدمت پر قادر ہونے کیلئے دینی علوم کی اہمیت ہے تو امت اسلامی کو طبی خدمات پہنچانے ،انکی بیماریوں کا علاج کرنے اور انکی جانوں کو نجات دینے کیلئے آمادہ ہونے کے قصد سے میڈیکل کی تعلیم بھی امت اسلامی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
س١٣35:استاد نے کلاس میں ایک طالب علم کو سب کے سامنے بہت شدت سے ڈانٹا کیاطالب علم بھی ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟
ج: طالب علم کو اس طرح جواب دینے کا حق نہیں ہے جو استاد کے مقام کے لائق نہ ہو اور اس پر واجب ہے کہ استاد کی حرمت کا خیال رکھے اور کلاس کے نظم کی رعایت کرے البتہ شاگرد قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے اسی طرح استاد پر واجب ہے کہ وہ بھی طالب علم کی حرمت کادوسرے طلّاب کے سامنے پاس رکھے اور تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت کرے۔
- حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
س١٣36: کتب اورمقالات جو باہر سے آتے ہیں یا اسلامی جمہوریہ(ایران) میں چھپتے ہیں ان کے ناشروں کی اجازت کے بغیر انکی اشاعت مکرر کا کیا حکم ہے؟
ج: اسلامی جمہوریہ (ایران)سے باہر چھپنے والی کتب کی اشاعت مکرر یا افسیٹ مذکورہ کتب کے بارے میں اسلامی جمہوریہ(ایران) اور ان حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تابع ہے لیکن ملک کے اندر چھپنے والی کتب میں احوط یہ ہے کہ ناشر سے انکی تجدید طباعت کے لئے اجازت لیکر اسکے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔
س١٣37: آیا مؤلفین ، مترجمین اور کسی ہنرکے ماہرین کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی زحمت کے عوض یا اپنی کوشش ،وقت اور مال کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے اس کام پرخرچ کیا ہے ( مثلاً ) حق تالیف کے عنوان سے رقم کا مطالبہ کریں؟
ج: انہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنے علمی اورہنری کام کے پہلے یا اصلی نسخے کے بدلے میں ناشرین سے جتنا مال چاہیں دریافت کریں۔
س١٣٣8:اگر مؤلف ، مترجم یا صاحب ہنرپہلی اشاعت کے عوض مال کی کچھ مقدار وصول کرلے اور یہ شرط کرے کہ بعد کی اشاعت میں بھی میرا حق محفوظ رہے گا۔ تو آیا بعد والی اشاعتوں میں اسے مال کے مطالبہ کا حق ہے؟ اور اس مال کے وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر پہلا نسخہ دیتے وقت ناشر کے ساتھ ہونے والے معاملے میں بعد والی اشاعتوں میں بھی رقم لینے کی شرط کی ہو یا قانون اس کا تقاضا کرے تو اس رقم کا لینا اشکال نہیں رکھتا اور ناشر پر شرط کی پابندی کرنا واجب ہے۔
س١٣٣9:اگر مصنف یا مؤلف نے پہلی اشاعت کی اجازت کے وقت اشاعت مکرر کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہو تو آیا ناشر کے لئے اسکی اجازت کے بغیر اور اسے مال دیئے بغیر اسکی اشاعت مکرر جائزہے؟
ج: چاپ کے سلسلے میں ہونے والا معاہدہ اگر صرف پہلی اشاعت کے لئے تھا تو احوط یہ ہے کہ مؤلف کے حق کی رعایت کی جائے اور بعد کی اشاعتوں کیلئے بھی اس سے اجازت لی جائے۔
س١٣40:اگر مصنف سفر یا موت و غیرہ کی وجہ سے غائب ہو تو اشاعت مکرر کے لئے کس سے اجازت لی جائے اور کسے رقم دی جائے؟
ج: مصنف کے نمائندے یا شرعی سرپرست یا فوت ہونے کی صورت میں وارث کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
س١٣41:آیا اس عبارت کے باوجود ( تمام حقوق مؤلف کے لئے محفوظ ہیں) بغیر اجازت کے کتاب چھاپنا صحیح ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ مؤلف اور ناشر کے حقوق کی رعایت کی جائے اور طبع جدید میں ان سے اجازت لی جائے البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی قانون ہو تو اس کی رعایت کرنا ضروری ہےاور بعد والے مسائل میں بھی اس امر کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س١٣42:تواشیح اور قرآن کریم کی بعض کیسٹوں پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے ( کاپی کے حقوق محفوظ ہیں) آیا ایسی صورت میں اس کی کاپی کرکے دوسرے لوگوں کو دینا جائز ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ اصلی ناشر سے کاپی کرنے کی اجازت لی جائے۔
س١٣43:آیا کمپیوٹر کی ڈسک کاپی کرنا جائز ہے؟بر فرض حرمت آیا یہ حکم اس ڈسک کے ساتھ مختص ہے جوایران میں تیارکی گئی ہے یاباہر کی ڈسک کو بھی شامل ہے؟یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ بعض کمپیوٹر ڈسکوں کی قیمت انکے محتوا کی اہمیت کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتی ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ ملک کے اندر بننے والی ڈسک کی کاپی کرنے کیلئے مالکوں سے اجازت لی جائے اور انکے حقوق کی رعایت کی جائے اور بیرون ملک سے آنے والی ڈسکیں معاہدہ کے تحت ہیں۔
س١٣44:آیا دوکانوں اور کمپنیوں کے نام اور تجارتی مارک ان کے مالکوں سے مختص ہیں ؟ اس طرح کہ دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دوکانوں یا کمپنیوں کو ان ناموں کے ساتھ موسوم کریں؟ مثلاً ایک شخص ایک دوکان کا مالک ہے اور اس دوکان کا نام اس نے اپنے خاندان کے نام پر رکھا ہوا ہے آیا اسی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو مذکورہ نام سے دوکان کھولنے کی اجازت ہے؟ یا کسی اور خاندان کے شخص کواپنی دوکان کیلئے مذکورہ نام استعمال کرنے کی اجازت ہے؟
ج: اگر حکومت کی طرف سے دوکانوں اور کمپنیوں کے نام ملکی قوانین کے مطابق ایسے افراد کو عطا کیئے جاتے ہوں جو دوسروں سے پہلے مذکورہ عنوان کو اپنے نام کروانے کیلئے باقاعدہ طور پر درخواست دیتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں ان کے نام رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں دوسروں کیلئے اس شخص کی اجازت کے بغیر اس نام سے استفادہ اور اقتباس کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کی دوکان یا کمپنی کیلئے یہ رجسٹرڈ ہو چکا ہے اور اس حکم کے لحاظ سے فرق نہیں ہے کہ استعمال کرنے والا شخص اس نام والے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا نہ ۔ اور اگر مذکورہ صورت میں نہ ہو تو دوسروں کے لئے اس نام سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٣45:بعض افراد فوٹوکاپی کی دوکان پر آتے ہیں اور وہاں پر لائے گئے کاغذات اور کتابوں کی تصویر برداری کی درخواست کرتے ہیں اور دوکاندار جو کہ مومن ہے تشخیص دیتا ہے کہ یہ کتاب یا رسالہ یا کاغذات سب مومنین کے لئے مفید ہیں آیا اس کے لئے کتاب کے مالک سے اجازت لئے بغیر کتاب یا رسالے کی تصویر برداری جائز ہے؟ اور اگر دوکاندار کو علم ہو کہ صاحب کتاب راضی نہیں ہے تو آیا مسئلہ میں فرق پڑے گا؟
ج: احوط یہ ہے کہ کتاب یا اوراق کے مالک کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر برداری نہ کی جائے۔
س١٣46:بعض مومنین ویڈیو کیسٹ کرائے پر لاتے ہیں اور جب ویڈیو کیسٹ مکمل طور پر انکی پسند کا ہو تو اس وجہ سے کہ بہت سارے علما کے نزدیک حقوق طبع محفوظ نہیں ہوتے دوکاندار کی اجازت کے بغیر اسکی کاپی کرلیتے ہیں کیاان کا یہ عمل جائز ہے؟ اور بر فرض عدم جواز ، اگر کوئی شخص ریکارڈ کرلے یا اس کی کاپی کرلے تو کیا اس پر لازم ہے کہ وہ دوکاندار کو اطلاع دے یاریکارڈشدہ مواد کا صاف کردینا کافی ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ بغیر اجازت ریکارڈ نہ کی جائے لیکن اگر بغیر اجازت کے ریکارڈ کرلے تو محو کرنا کافی ہے۔
- غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
س١٣47:آیا اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ اور اگر یہ کام وقوع پذیر ہوجائے اگرچہ اضطرارکی وجہ سے تو آیا مذکورہ مال کو فروخت کرنا جائز ہے؟
ج: ایسے معاملات سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ جو غاصب اور اسلام و مسلمین کی دشمن اسرائیلی حکومت کے نفع میں ہوں اور کسی کے لئے بھی ان کے اس مال کو درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز نہیں ہے جس کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسے فائدہ پہنچے ، اور مسلمانوں کے لئے ان اشیاء کا خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفسدہ اور ضرر ہے۔
س١٣٤8:کیااس ملک کے تاجروں کے لئے جس نے اسرائیل سے اقتصادی بائیکات کو ختم کردیاہے اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟
ج: واجب ہے کہ اشخاص ایسی اشیاء کہ جن کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسرائیل کی پست حکومت کو فائدہ پہنچتا ہو اجتناب کریں۔
س١٣٤9:آیا مسلمانوں کے لئے ان اسرائیلی مصنوعات کو خریدنا جائز ہے کہ جو اسلامی ممالک میں بکتی ہیں؟
ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی مصنوعات کی خریداری اور ان سے استفادہ کرنے سے پرہیز کریں کہ جن کے بنانے اور بیچنے کا فائدہ اسلام و مسلمین کے ساتھ بر سر پیکار صیہونی دشمنوں کو پہنچے۔
س١٣50:آیا اسلامی ممالک میں اسرائیل کے سفر کے لئے دفاتر کھولنا جائز ہے؟ اور آیا مسلمانوں کے لئے ان دفاتر سے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟
ج: چونکہ اس کام میں اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہے لہذا جائز نہیں ہے اور اسی طرح کسی شخص کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کام کرے جو اسرائیل کی دشمن اور محارب حکومت سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے خلاف ہو۔
س١٣51:آیا ایسی یہودی،امریکی یا کینڈین کمپنیوں کی مصنوعات خریدنا جائز ہے جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ وہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں ؟
ج: اگران مصنوعات کی خریدو فروخت اسرائیل کی گھٹیا اور غاصب حکومت کی تقویت کا سبب بنے یا یہ اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنی کیلئے کام میں لائی جاتی ہوں تو کسی فرد کے لئے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے وگرنہ اشکال نہیں ہے۔
س١٣52:اگراسرائیلی مال اسلامی ممالک میں درآمد کیا جائے تو کیا جائز ہے کہ تجار اس کا کچھ حصہ خرید کر لوگوں کوبیچیں اور اس کی ترویج کریں؟
ج: چونکہ اس کام میں بہت مفاسد ہیں لہذا جائز نہیں ہے ۔
س١٣53:اگر کسی اسلامی ملک کی عام مارکیٹوں میں اسرائیلی مصنوعات پیش کی جائیں تو اگر ضرورت کی غیر اسرائیلی مصنوعات کو مہیا کرنا ممکن ہو کیا مسلمانوں کے لیے اسرائیلی مصنوعات خریدنا جائز ہے؟
ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایسی اشیاء کے خریدنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کریں کہ جن کے بنانے اور خریدنے کا فائدہ اسلام ومسلمین سے برسر پیکار صہیونیوں کو پہنچتا ہو۔
س١٣54:اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ اسرائیلی مصنوعات کو ان کی اسرائیلی مہر تبدیل کرنے کے بعد ترکی یا قبرص کے ذریعے دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان خریداریہ سمجھیں کہ مذکورہ مصنوعات اسرائیلی نہیں ہیں اس لئے کہ اگر مسلمان اس امر کو جان لے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی ہیں تو انہیں نہیں خریدے گا ایسی صورت حال میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج: مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی مصنوعات کے خریدنے، ان سے استفادہ کرنے اورانکی ترویج کرنے سے اجتناب کریں۔
س١٣55:امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ حکم تمام مغربی ممالک جیسے فرانس، برطانیہ کو شامل ہے؟ آیا یہ حکم ایران کے لیے مخصوص ہے یا تما م ممالک میں جاری ہے؟
ج: اگر غیر اسلامی ممالک سے درآمد شدہ مصنوعات کی خریداری اوران سے استفادہ ان کافر استعماری حکومتوں کی تقویت کا باعث ہو کہ جو اسلام ومسلمین کی دشمن ہیں یا اس سے پوری دنیا میں اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے اوپر حملے کرنے کیلئے انکی قوت مضبوط ہوتی ہو تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مصنوعات کی خریداری، ان سے استفادہ کرنے اور انکے استعمال سے اجتناب کریں۔ اور مذکورہ حکم تمام مصنوعات اور تمام کافر اور اسلام ومسلمین کی دشمن حکومتوں کے لیے ہے اور مذکورہ حکم ایران کے مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے۔
س١٣56: ان لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے جو ایسے کارخانوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ کافر حکومتوں کو پہنچتا ہے او ریہ امر ان کے استحکام کا سبب بنتا ہے؟
ج: جائز کاموں کے ذریعے کسب معاش کرنا بذات خوداشکال نہیں رکھتااگر چہ اس کی منفعت غیر اسلامی حکومت کوپہنچے مگر جب وہ حکومت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہواور مسلمانوں کے کام کے نتیجے سے اس جنگ میں استفادہ کیا جائے تو جائز نہیں ہے۔
- ظالم حکومت میں کام کرنا
ظالم حکومت میں کام کرنا
س١٣57: آیا غیر اسلامی حکومت میں کوئی ذمہ داری انجام دینا جائز ہے؟
ج: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذمہ داری بذات خود جائز ہو۔
س١٣٥8:ایک شخص کسی عرب ملک کی ٹریفک پولیس میں ملازم ہے اور اس کاکام ان لوگوں کی فائلوں پر دستخط کرنا ہے جو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تاکہ انھیں قید خانے میں ڈالا جائے وہ جس کی فائل پردستخط کردے توقانون کی مخالفت کرنے والے اس شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے آیا یہ نوکری جائز ہے؟ اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے جووہ مذکورہ کام کے عوض حکومت سے لیتا ہے؟
ج: معاشرے کے نظم و نسق کے قوانین اگر چہ غیراسلامی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہوں ان کی رعایت کرناہر حال میں واجب ہے اور جائز کام کے بدلے میں تنخواہ لینا اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣٥9:امریکہ یا کینیڈا کی شہریت لینے کے بعد آیا مسلمان شخص وہاں کی فوج یا پولیس میں شامل ہوسکتا ہے؟ اورکیا سرکاری اداروں جیسے بلدیہ اور دوسرے ادارے کہ جو حکومت کے تابع ہیں اُن میں نوکری کرسکتا ہے؟
ج: اگراس پر مفسدہ مترتب نہ ہو اور کسی حرام کو انجام دینے یا واجب کے ترک کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣60:آیا ظالم حاکم کی طرف سے منصوب قاضی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ تاکہ اس کی اطاعت کرنا واجب قرار پائے؟
ج: جامع الشرائط مجتہد کے علاوہ وہ شخص کہ جوایسے شخص کی طرف سے منصوب نہیں ہے جسے قاضی نصب کرنے کا حق ہے اس کیلئے منصب قضاوت کو سنبھالنا اور لوگوں کے درمیان قضاوت انجام دینا جائز نہیں ہے۔اور لوگوں کیلئے اسکی جانب رجوع کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا حکم نافذ ہے مگر ضرورت اور مجبوری کی حالت میں۔
- لباس کے احکام
لباس کے احکام
س١٣61:لباس شہرت کا معیار کیا ہے؟
ج: لباس شہرت ایسے لباس کو کہا جاتاہے جو رنگت، سلائی،بوسیدگی یا اس جیسے دیگر اسباب کی وجہ سے پہننے والے کے لئے مناسب نہ ہو اور لوگوں کے سامنے پہننے سے لوگوں کی توجہ کا سبب بنے اور انگشت نمائی کا باعث ہو۔
س١٣62:اس آواز کا کیا حکم ہے جو چلنے کے دوران خاتون کے جوتے کے زمین پر لگنے سے پیدا ہوتی ہے؟
ج: بذات خود جائز ہے جب تک لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ بھی نہ ہو۔
س١٣63:آیا لڑکی کے لئے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے؟
ج: بذات خود جائز ہے بشرطیکہ لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ نہ ہو ۔
س١٣64: کیا خواتین کے لئے ایسا تنگ لباس پہننا جائز ہے جس سے بدن کا نشیب و فراز نمایاں ہو یا شادیوں میں عریاں اور ایسا باریک لباس پہننا جس سے بدن نمایاں ہو؟
ج: اگر نامحرم مردوں کی نظرسے اورمفسدے کے مترتب ہونے سے محفوظ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔
س١٣65:آیا مومنہ خاتون کے لئے چمکدار کالے جوتے پہننا جائز ہے؟
ج: اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رنگ یا شکل نامحرم کی توجہ کو جذب کرنے یا اسکی طرف انگشت نمائی کا سبب بنے۔
س١٣66:آیا خاتون کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے لباس جیسے اسکارف ، شلوار اور قمیص کے لئے فقط سیاہ رنگ کا انتخاب کرے؟
ج: شکل، رنگ اور طرز سلائی کے اعتبار سے عورت کے کپڑوں کا وہی حکم ہے جو گزشتہ جواب میں جوتوں کے بارے میں گزر چکا ہے۔
س١٣67:آیا جائز ہے کہ عورت کا لباس اور پردہ ایسا ہو جو لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا جنسی خواہشات کو ابھارے مثلاً اس طرح چادر پہنے جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے یا کپڑے اور جوراب کا ایسا رنگ انتخاب کرے جو جنسی خواہشات کو ابھارنے کا سبب ہو ؟
ج: جو چیز بھی رنگ، ڈیزائن یا پہننے کے انداز کے اعتبار سے نامحرم کی توجہ جذب کرنے کا باعث ہو اور مفسدے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے اس کا پہننا جائز نہیں ہے۔
س١٣٦8: آیا عورت اور مرد کے لئے جنس مخالف سے مشابہت کی نیت کے بغیر گھر کے اندر ایک دوسرے کی مخصوص اشیاء پہننا جائز ہے۔؟
ج: اگراسے اپنے لئے لباس کے طور پر انتخاب نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
س١٣٦9: مردوں کیلئے خواتین کے مخصوص پوشیدہ لباس کا فروخت کرناکیا حکم رکھتا ہے؟
ج: اگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا موجب نہ بنے تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١٣70:آیا باریک جورابیں بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا شرعاً جائز ہے ؟
ج: اگرانہیں بنانا اور انکی خرید و فروخت اس قصد سے نہ ہو کہ خواتین انہیں نامحرم مردوں کے سامنے پہنیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٣71: کیا غیر شادی شدہ افرادکیلئے شرعی قوانین اور اخلاقی آداب کا خیال رکھتے ہوئے زنانہ لباس اور میک اپ کا سامان فروخت کرنے کے مراکز میں کام کرنا جائز ہے؟
ج: کام کرنے کا جائز ہونا اور کسب حلا ل شرعاً کسی خاص صنف سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی شرعی قوانین اور اسلامی آداب کی رعایت کرتا ہو اسے اس کا حق ہے لیکن اگر تجارتی یا کام کا لائسنس دینے کیلئے بعض اداروں کی جانب سے عمومی مصالح کی خاطر بعض کاموں کے لئے خاص شرائط ہوں تو ان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س١٣72:مردوں کے لیے زنجیر پہننے کا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر زنجیرسونے کا ہو یا ایسی چیز کا ہو کہ جس سے استفادہ کرناخواتین کے لیئے مخصوص ہو تو مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔
- مغربی ثقافت کی پیروی
- جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
س١٣٨8: ہمیں مکتوب طور پر ایک شخص کی طرف سے حکومت کا مال غبن کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تحقیقات کے بعد بعض جرائم کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا لیکن جب اس شخص سے تحقیقات کی گئیں تو اس نے جرائم سے انکار کردیا آیا ہمارے لئے ان معلومات کو کورٹ میں پیش کرنا جائز ہے؟ کیونکہ مذکورہ عمل اس کی عزت کو ختم کردے گا ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو ایسے افراد کی کیا ذمہ داری ہے جو اس مسئلے سے مطلع ہیں؟
ج: بیت المال اور سرکاری اموال کی حفاظت پر مامور افسر کو جب اطلاع ہوجائے کہ انکے ملازم یا کسی دوسرے شخص نے سرکاری مال و دولت کا غبن کیا ہے تو اس شخص کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ اس کیس کو متعلقہ ادارے کے سامنے پیش کرے تاکہ حق ثابت ہوسکے اورملزم کی آبرو کی پائمالی کا خوف بیت المال کی حفاظت کیلئے حق کو ثابت کرنے میں کوتاہی کا جواز شمار نہیں ہوتا اور دیگر افراداپنی معلومات کو مستند طور پر متعلقہ حکام تک پہنچائیں تا کہ وہ تحقیق و تفحص اور ان کے اثبات کے بعد اقدام کرسکیں۔
س١٣٨9:بعض اخبارات آئے دن چوروں ، دھوکا بازوں ، اداروں کے اندر رشوت خور گروہوں، بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والوں نیز فسادو فحشاکے مراکز اور نائٹ کلبوں کی خبریں چھاپتے ہیں کیا اس قسم کی خبریں چھاپنا اور منتشر کرنا ایک طرح سے ترویج فحشا کے زمرے میں نہیں آتا؟
ج: اخبارات میں محض واقعات شائع کرنا فحشا کو پھیلانا شمار نہیں ہوتا۔
س١٣90:کیا کسی تعلیمی ادارے کے طالب علموں کیلئے جائز ہے کہ وہ جن منکرات اور برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں انکی اطلاع تعلیم و تربیت کے ذمہ دار افراد تک پہنچائیں تاکہ ان کی روک تھام کی جاسکے؟
ج: اگر رپورٹ علنی اور ایسے امور کے بارے میں ہو جو ظاہر ہیں اور اس پر جاسوسی اور غیبت کا عنوان صدق نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر یہ نہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے۔
س١٣91: آیا اداروں کے بعض افسروں کی خیانت اور ظلم کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا جائز ہے؟
ج: ظلم کی تحقیق اور اطمینان کے بعد ایسے معاملات کی چھان بین اور پیچھا کرنے کیلئے متعلقہ مراکز کو اطلاع دینا اشکال نہیں رکھتا بلکہ اگرنہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے انکو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ حکومت اسلامی کوکمزور کرنے اور فتنہ و فساد کا باعث ہو تو حرام ہے۔
س١٣92:مومنین کے اموال کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسکی رپورٹ ظالم حکومت اور ظالم حکمرانوں کودینا کیا حکم رکھتا ہے ؟ بالخصوص اگر ان کے لئے نقصان اور تکلیف کا باعث ہو؟
ج: ایسے کام شرعاً حرام ہیں اوراگر نقصان کا سبب ظالم کے سامنے مؤمنین کے خلاف رپورٹ پیش کرنا ہو تو یہ ضامن ہونے کا سبب ہے۔
س١٣93:کیاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر مومنین کے ذاتی وغیرذاتی امور کی جاسوسی کرناجائز ہے؟البتہ جب ان سے منکر کا انجام دینا اورمعروف کا ترک کرنا مشاہدہ کیا گیا ہو؟ اور ایسے اشخاص کا کیا حکم ہے جو لوگوں کی خلاف ورزیوں کی جاسوسی میں لگے رہتے ہیں جبکہ یہ کام ان کی ذمہ داری نہیں ہے؟
ج: تحقیق و تفحص کے باقاعدہ طور پر ذمہ دار افراد کیلئے اداروں کے ملازمین اور دوسرے لوگوں کے کام کے بارے میں قوانین و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے قانونی تحقیق و تفتیش کرنا اشکال نہیں رکھتا لیکن اسرار فاش کرنے کیلئے قوانین و ضوابط کی حدود سے باہر دوسروں کے کاموں کی جاسوسی کرنا یا ملازمین کے اعمال و کردار کی تحقیق کرنا ان ذمہ دار لوگوں کیلئے بھی جائز نہیں ہے۔
س١٣94:کیالوگوں کے سامنے اپنے ذاتی اسرار اور ذاتی پوشیدہ امور کو بیان کرنا جائز ہے؟
ج: دوسروں کے سامنے اپنے ان ذاتی اور خصوصی امور کو بیان کرنا جائز نہیں ہے جو کسی طرح سے دوسروں سے بھی مربوط ہوں یا کسی مفسدے کے مترتب ہونے کا موجب ہوں۔
س١٣95:نفسیاتی ڈاکٹرعام طور پر مریض کے ذاتی اور خاندانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں تاکہ اس کے مرض کے اسباب اورپھر علاج کے طریقے معلوم کیے جاسکیں آیا بیمار کے لئے ان سوالات کاجواب دینا جائز ہے؟
ج: اگر کسی تیسرے شخص کی غیبت یا اہانت نہ ہو اور کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہو تو جائز ہے۔
س١٣96: سکیورٹی کے بعض افراد بے حیائی و فحشا کے مراکز اور دہشت گرد گروہوں کو کشف کرنے کیلئے بعض مراکز میں داخل ہونا اور بعض گروہوں میں نفوذ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ تحقیق اور تجسس کا تقاضا ہے۔ مذکورہ عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ کام متعلقہ افسر کی اجازت سے ہو اور قوانین و ضوابط کی رعایت کی جائے اور گناہ کے ساتھ آلودہ ہونے اور فعل حرام کے ارتکاب سے اجتناب کیا جائے تو اشکال نہیں رکھتا اور افسروں پر بھی واجب ہے کہ اس لحاظ سے ان کے کاموں پر پوری توجہ اور کڑی نگاہ رکھیں ۔
س١٣97:بعض لوگ دوسروں کے سامنے اسلامی جمہوریہ (ایران) میں موجود بعض کمزوریوں کو بیان کرتے ہیں ان باتوں کو سننے اور پھر انہیں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: واضح ہے کہ کسی بھی ایسے کام کو انجام دینا جو اسلامی جمہوریہ (ایران) جو کہ عالمی کفر و استکبار سے برسر پیکار ہے کوبدنام کرے وہ اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ میں نہیں ہے پس اگر یہ باتیں اسلامی جمہوری (ایران) کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب ہوں تو جائز نہیں ہے۔
- سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
س١٣٩8:عمومی مقامات اور سرکاری دفاتر میں دخانیات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر عمومی مقامات اور دفاتر کے داخلی قوانین کے خلاف ہو یا دوسروں کے لئے اذیت و آزار یا ضرر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔
س١٣٩9: میرا بھائی منشیات کے استعمال کا عادی ہے اور منشیات کا سمگلر بھی ہے آیا مجھ پر واجب ہے کہ اس کی اطلاع متعلقہ ادارے کو دوں تاکہ اسے اس عمل سے روکا جاسکے؟
ج: آپ پر نہی از منکر واجب ہے اور ضروری ہے کہ نشہ کو ترک کرنے میں اسکی مدد کریں اور اسی طرح اسے منشیات کی سمگلنگ، انکے فروخت کرنے اور پھیلانے سے منع کریں اور اگر متعلقہ ادارے کو اطلاع دینا مذکورہ امر میں اس کا معاون ہویا نہی از منکر کا پیش خیمہ شمار ہو تو یہ واجب ہے۔
س١400:آیا نسوار کا استعمال جائز ہے؟ اس کے عادی بننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر قابل اعتنا ضرر رکھتا ہو توا س کا استعمال اور اس کا عادی ہونا جائز نہیں ہے۔
س١401: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال کا کیا حکم ہے؟
ج: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال بذات خود جائز ہے۔ ہاں اگر اس کے استعمال میں شخص کیلئے قابل اعتنا ضرر ہو تو اس کی خرید و فروخت اور استعمال جائز نہیں ہے۔
س ١402:آیا بھنگ پاک ہے؟ اور کیا اس کا استعمال کرنا حرام ہے؟
ج: بھنگ پاک ہے ۔ لیکن اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔
س١403: نشہ آور اشیاء جیسے بھنگ، چرس، افیون، ہیروئین، مارفین ، میری جوانا …کے کھانے، پینے، کھینچنے، انجکشن لگانے یا حقنہ کرنے کے ذریعے استعمال کا کیا حکم ہے؟ اور ان کی خرید و فروخت اور انکے ذریعے کمانے کے دوسرے طریقوں جیسے انکا حمل ونقل، انکی حفاظت اور اسمگلنگ کا کیا حکم ہے؟
ج: منشیات کا استعمال اور ان سے استفادہ کرنا ، انکے برے اثرات جیسے انکے استعمال کے قابل توجہ معاشرتی اور فردی مضرات کے پیش نظر حرام ہے اور اسی بنا پر ان کے حمل و نقل، انکو محفوظ کرنے اور انکی خریدوفروخت و غیرہ کے ذریعے کسب معاش کرنا بھی حرام ہے۔
س١404:کیا منشیات کے استعمال سے مرض کا علاج کرنا جائز ہے؟ اور برفرض جواز آیا مطلقاً جائز ہے یا علاج کے اسی پر موقوف ہونے کی صورت میں جائز ہے ؟
ج: اگر مرض کا علاج کسی طرح منشیات کے استعمال پر موقوف ہو اور یہ امر قابل اطمینان ڈاکٹر کی تجویز سے انجام پائے تو اشکال نہیں رکھتا۔
س١405:خشخاش اور کویی و غیرہ کہ جن سے افیون، ہیروئن، مارفین ، بھنگ اور کوکین وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں کی کاشت اور دیکھ بھال کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس قسم کی فصلوں کی کاشت اور نگہداری جو اسلامی جمہوریہ (ایران)کے قانون کے خلاف ہے جائز نہیں ہے۔
س١406: منشیات کے تیار کرنے کا کیا حکم ہے چاہے اسے قدرتی اور طبیعی مواد سے تیار کیا جائے جیسے مارفین، ہیروئن، بھنگ، میری جوانا وغیرہ یامصنوعی مواد سے جیسے I.S.D و غیرہ ؟
ج: جائز نہیں ہے۔
س١٤٠7:آیا ایسا تنباکو استعمال کرنا جائز ہے جس پربعض قسم کی شراب چھڑکی گئی ہو ؟ آیا اس کے دھوئیں کو سونگھنا جائز ہے؟
ج: اگر عرف کی نگاہ میں یہ تنباکو پینا شراب پینا نہ کہلائے اور نشہ آور نہ ہو اور قابل توجہ ضرر کا سبب نہ ہو تو جائز ہے۔ اگرچہ احوط اس کا ترک کرنا ہے ۔
س١٤٠8:آیا دخانیات کے استعمال کو شروع کرنا حرام ہے ؟اور اگر عادی شخص دخانیات کے استعمال کو چند ہفتوں یا اس سے زیادہ مدت تک ترک کردے تو ان کا دوبارہ استعمال کرنا حرام ہے؟
ج: دخانیات کے استعمال کے ضرر کے درجے کے مختلف ہونے سے اس کا حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے کلی طور پر اس مقدار میں دخانیات کا استعمال کہ جس سے بدن کو قابل توجہ ضرر پہنچتاہے جائز نہیں ہے اور اگر انسان کو معلوم ہو کہ دخانیات کا استعمال شروع کرنے سے اس مرحلہ تک پہنچ جائے گا تو بھی جائز نہیں ہے۔
س١٤٠9:ایسے مال کا کیا حکم ہے جس کا بعینہ خود حرام ہونا معلوم ہو مثلاً نشہ آور اشیاء کی تجارت سے حاصل شدہ مال ؟ اور اگر اس کے مالک کا علم نہ ہو تو آیایہ مال مجہول المالک کے حکم میں ہے؟ اور اگر مجہول المالک کے حکم میں ہو تو کیا حاکم شرعی یا اس کے وکیل عام کی اجازت سے اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟
ج: عین مال کی حرمت کے علم کی صورت میں اگرانسان مال کے شرعی مالک کو جانتا ہو اگرچہ محدود افراد کے درمیان تو مال کو اس کے مالک تک پہنچنانا واجب ہے ورنہ اسے اسکے شرعی مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال اسکے حلال مال سے مل گیا ہو اور اس کی مقداراور شرعی مالک کو نہ جانتا ہو تو واجب ہے کہ اس کا خمس متولی خمس کو دے۔
- داڑھی مونڈنا
داڑھی مونڈنا
س١٤10: نیچے والا جبڑا۔ کہ جس کے بالوں کو رکھنا واجب ہے۔ سے کیا مراد ہے اور کیا یہ دو رخساروں کو بھی شامل ہے؟
ج: معیار یہ ہے کہ عرفاً کہا جائے کہ اس شخص نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔
س١٤11: لمبی اور چھوٹی ہونے کے اعتبار سے ریش کے کیا حدود ہیں؟
ج: اس کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؟ بلکہ معیار یہ ہے کہ عرف کی نظر میں داڑھی کہلائے ، ہاں ایک مٹھی سے زیادہ لمبی ہونا مکروہ ہے۔
س١٤12: مونچھ کو بڑھانے اور داڑھی کو چھوٹا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بذات خود اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤13:بعض لوگ اپنی ٹھوڑی کے بال نہیں مونڈتے اور باقی بال مونڈ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
ج: داڑھی کے بعض حصے کے مونڈنے کا حکم پوری داڑھی مونڈنے جیسا ہے۔
س١٤14:کیا داڑھی مونڈنا فسق شمار ہوتا ہے؟
ج: احتیاط کی بنا پر داڑھی مونڈنا حرام ہے اور احوط یہ ہے کہ اس پر فسق کے احکام جاری ہوں گے۔
س١٤15: مونچھوں کے مونڈ نے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا بہت لمبا کرنا جائز ہے؟
ج: مونچھیں مونڈ نا، رکھنا اور انہیں بڑھانا بذات خود اشکال نہیں رکھتا ہاں انہیں اتنا لمبا کرنا کہ کھانے اور پینے کے دوران طعام یا پانی کے ساتھ لگیں تو مکروہ ہے۔
س١٤16:ایسے فنکار کیلئے بلیڈیا داڑھی مونڈنے والی مشین سے داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے کہ جس کا شغل مذکورہ عمل کا تقاضا کرتا ہو؟
ج: اگر اس پر داڑھی مونڈنا صادق آتا ہو تو احتیاط کی بناپر حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا یہ کام اسلامی معاشرے کی لازمی ضرورت شمار ہوتا ہو تواس ضرورت کی مقدار مونڈ نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤١7: میں اسلامی جمہوریہ (ایران )کی ایک کمپنی میں تعلقات عامہ کا افسر ہوں اور مجھے مہمانوں کے لئے شیو کے آلات خرید کر انہیں دینا ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی داڑھی مونڈسکیں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: داڑھی مونڈنے کے آلات کی خریداری اور دوسروں کو پیش کرنا احتیاط کی بناپرجائز نہیں ہے مگر ضرورت کے مقام میں۔
س١٤١8 : اگر داڑھی رکھنا اہانت کا باعث ہو تو داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے؟
ج: جو مسلمان اپنے دین کو اہمیت دیتا ہے اس کے لئے داڑھی رکھنے میں کوئی اہانت نہیں ہے اوراحتیاط کی بنا پرداڑھی کا مونڈنا جائز نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ اس کے رکھنے میں ضرر یا حرج ہو ۔
س١٤١9: اگر داڑھی رکھنا جائز مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہو تو کیا داڑھی مونڈنا جائز ہے ؟
ج: مکلفین پر حکم الہی کی اطاعت کرنا واجب ہے مگر یہ کہ قابل توجہ ضرریا حرج رکھتا ہو۔
س١٤20:کیا شیونگ کریم کہ جس کا اصل استعمال داڑھی مونڈنے میں ہوتا ہے کا خریدنا ، فروخت کرنا اور بنانا جائز ہے؟ جبکہ یہ کبھی کبھی اس کے علاوہ بھی استعمال کی جاتی ہے؟
ج: اگر کریم داڑھی مونڈنے کے علاوہ دیگرحلال فوائد رکھتی ہو تو اس مقصد سے اس کا بنانا ،اور فروخت کرنا اشکال نہیں رکھتا۔
س١٤21:کیاداڑھی مونڈنے کے حرام ہونے سے مرادیہ ہے کہ چہرے کے بال کامل طور پر اگے ہوئے ہوں اورپھرانہیں مونڈا جائے یا یہ اس صورت کو بھی شامل ہے کہ جہاں چہرے پر کچھ بال اگے ہوئے ہوں۔
ج: کلی طور پر چہرے کے اتنے بال مونڈنا کہ جس پر داڑھی مونڈنا صادق آئے احتیاط کی بنا پر حرام ہے۔ ہاں اتنی مقدار مونڈنا کہ جس پر مذکورہ عنوان صادق نہ آئے اشکال نہیں رکھتا۔
س١٤22:کیا وہ اجرت جو نائی داڑھی مونڈنے کے عوض لیتا ہے حرام ہے؟ برفرض حرمت اگر وہ مال مالِ حلال سے مخلوط ہوجائے تو کیا خمس نکالتے وقت اس کا دودفعہ خمس نکالنا واجب ہے یا نہیں؟
ج: داڑھی مونڈنے کے عوض اجرت لینا بنابر احتیاط حرام ہے لیکن وہ مال جو حرام سے مخلوط ہوگیا ہے اگر حرام مال کی مقدار معلوم ہو اور اسکا مالک بھی معلوم ہو تو اس پر واجب ہے کہ مال کو اس کے مالک تک پہنچائے یا اسکی رضامندی حاصل کرے اور اگرمالک کو نہ پہچانتا ہو حتی کہ محدود افراد میں بھی تو واجب ہے کہ اس کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال کی مقدار کا علم نہ ہو لیکن مالک کو جانتا ہو تو واجب ہے کہ کسی طرح اس کی رضایت رضامندی حاصل کرے اور اگر نہ مال کی مقدار کا علم ہو اور نہ ہی مالک کا تو اس صورت میں مال کا خمس نکالنا واجب ہے تاکہ مال ،حرام سے پاک ہوجائے۔ اب اگر خمس نکالنے کے بعد باقیماندہ مقدار کا کچھ حصہ سالانہ اخراجات کے بعد بچ جائے تو سالانہ بچت کے عنوان سے بھی اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔
س١٤23:بعض اوقات لوگ میرے پاس شیونگ مشین کی مرمت کرانے آتے ہیں اور چونکہ داڑھی مونڈنا شرعاً حرام ہے کیا میرے لئے مرمت کرنا جائز ہے؟
ج: مذکورہ آلہ چونکہ داڑھی مونڈنے کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے ، لہذا اس کی مرمت کرنا اور اجرت لینا اشکال نہیں رکھتا بشرطیکہ یہ داڑھی مونڈنے کیلئے استعمال کرنے کے مقصد سے نہ ہو۔
س١٤24: کیا رخسارکے ابھرے ہوئے حصے سے دھاگے یا چمٹی کے ذریعے بال کاٹنا حرام نہیں ہے؟
ج: اس حصّے کے بال کاٹنا مونڈنے کی صورت میں بھی جائز ہے۔
- محفل گناہ میں شرکت کرنا
محفل گناہ میں شرکت کرنا
س١٤25: بعض اوقات غیر ملکی یونیورسٹی یا اساتذہ کی طرف سے اجتماعی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پہلے سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی محافل میں شراب ہوتی ہے۔ایسے جشن میں شرکت کا ارادہ رکھنے والے یونیورسٹی کے طلبا کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: کسی کیلئے بھی ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جس میں شراب پی جاتی ہے ایسی محفلوں میں شرکت نہ کیجئے تا کہ انہیں پتا چلے کہ آپ نے مسلمان ہونے کی وجہ سے شراب نوشی کی محفل میں شرکت نہیں کی اور آپ شراب نہیں پیتے۔
س١٤26:شادی کے جشن میں شرکت کا کیا حکم ہے؟کیا شادی کی ایسی محفل کہ جس میں رقص ہے میں شرکت پر یہ عنوان(الداخل فی عمل قوم فہو منہم) "کسی قوم کے کام میں شریک ہونے والا انہیں میں سے ہے "صادق آتاہے پس ایسی محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ یا رقص اور ایسی دوسری رسومات میں شرکت کئے بغیر شادی میں جانا اشکال نہیں رکھتا؟
ج: اگر محفل ایسی نہ ہو کہ اس پر، لہو ولعب اور گناہ کی محفل کا عنوان صدق کرے اور نہ ہی وہاں جانے میں کوئی مفسدہ ہو تو اس میں شرکت کرنے اور بیٹھنے میںکوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اسے عرفا اسکی عملی تائید شمار نہ کیا جائے جو کہ جائز نہیں ہے۔
س١٤٢7: ١۔ ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جہاں مرد اور خواتین جداگانہ طور پر رقص کرتے ہیں اور موسیقی بجاتے ہیں؟
٢۔ آیا ایسی شادی میں شرکت کرنا جہاں رقص و موسیقی ہو جائز ہے؟
٣ ۔ آیا ایسی محافل میں نہی عن المنکر کرنا واجب ہے جہاں پر رقص ہو رہاہو جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کاان پر کوئی اثر نہ ہو؟
٤ ۔ مرد اور خواتین کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ج: کلی طور پر رقص اگرشہوت کو ابھارنے کا سبب ہو یا حرام عمل کے ہمراہ انجام پائے یا اس کا سبب ہو یا نامحرم مرد اور خواتین ایک ساتھ انجام دیں تو جائز نہیں ہے اور کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ شادی کے جشن میں ہو یا کسی اور پروگرام میں اور گناہ کی محفل میں شرکت کرنا اگر عمل حرام کے ارتکاب کا سبب ہو جیسے ایسی مطرب اور لہوی موسیقی کا سننا جو کہ محفل لہو و گناہ سے مناسبت رکھتی ہے یا اس میں شرکت گناہ کی تائید شمار ہوتی ہو تو جائزنہیں ہے۔ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اثر کرنے کا احتمال نہ ہو تو انکا وجوب ساقط ہے۔
س١٤٢8:اگر نامحرم مرد شادی کی محفل میں داخل ہو اور اس محفل میں بے پردہ عورت ہو اور مذکورہ شخص اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس خاتون پر نہی از منکر کا کوئی اثر نہیں ہوگا تو کیا اس مرد پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟
ج: اعتراض کے طور پر محفل گناہ کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔
س١٤٢9:آیا ایسی محافل میں شرکت کرنا جائز ہے جہاں فحش غنا کے کیسٹ سنے جا رہے ہوں؟ اور اگر اسکے غنا ہونے میں شک ہو جبکہ کیسٹ کو روک بھی نہ سکتا ہو تو حکم کیا ہے؟
ج: لہوی موسیقی اور غنا کی ایسی محفل میں جانا کہ جو لہو و گناہ کی محفل سے مناسبت رکھتی ہے اگر اسکے سننے کا باعث ہویا اسکی تائید شمار ہو تو جائز نہیں ہے لیکن موضوع میں شک کی صورت میں اس محفل میں شرکت کرنے اور اسکے سننے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤30:ایسی محفل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے کہ جہاں انسان کو بعض اوقات غیر مناسب کلام سننا پڑتا ہے؟ مثلاً دینی شخصیات یا اسلامی جمہوریہ کے عہدے داروں یادوسرے مومنین پر بہتان باندھنا؟
ج: صرف جانا اگر فعل حرام میں مبتلا ہونے ــمثلاً غیبت کا سنناــ اور برے کام کی ترویج و تائید کا سبب نہ بنے تو بذات خود جائز ہے۔ ہاں شرائط کے ہوتے ہوئے نہی عن المنکر واجب ہے۔
س١٤31:بعض غیر اسلامی ممالک کی میٹنگوں اور نشستوںمیں روایتی طور پر مہمانوں کی ضیافت کے لئے شراب استعمال کی جاتی ہے۔ آیا ایسی میٹنگوں اور نشستوں میں شرکت کرنا جائز ہے؟
ج: ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جہاں شراب پی جاتی ہو اور مجبوری کی صورت میں قدر ضرورت پر اکتفا کرنا واجب ہے۔
- دعا لکھنا اور استخارہ
دعا لکھنا اور استخارہ
س١٤32:آیا دعا لکھنے کے عوض پیسے دینا اور لینا جائز ہے؟
ج: منقول دعاؤں کے لکھنے کی اجرت کے طور پر پیسے دینے ا ور لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤33:ایسی دعاؤں کا کیا حکم ہے جن کے لکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دعاؤں کی قدیم کتابوں سے لی گئی ہیں؟ آیا مذکورہ دعائیں شرعاً معتبر ہیں؟ اور ان کی طرف رجوع کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مذکورہ دعائیں ائمہ (علیھم السلام )سے منقول اور مروی ہوں یا ان کا محتوا حق ہو تو ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی طرح مشکوک دعاؤں سے اس امید کے ساتھ کہ یہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے ہوں گی طلب برکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س١٤34:آیا استخارے پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج: استخارے پر عمل کرنا شرعاً واجب نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ استخارے کے خلاف عمل نہ کیا جائے۔
س١٤35: یہ جو کہا جاتا ہے کہ عمل خیر کے انجام دینے میں استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکی بنا پر آیا انکے انجام دینے کی کیفیت یا دوران عمل ممکنہ طور پر پیش آنے والی غیر متوقع مشکلات کے بارے میں استخارہ کرنا جائز ہے؟ اور آیا استخارہ غیب کی معرفت کا ذریعہ ہے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے؟
ج: استخارہ مباح کاموں میں تردد اورحیرت دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چاہے یہ تردد خود عمل میں ہو یا کیفیت عمل میں لہذا اعمال نیک کہ جن میں کوئی تردد نہیں ہے ان میں استخارہ ضروری نہیں ہے اسی طرح استخارہ کسی عمل اور شخص کے مستقبل کو جاننے کیلئے نہیں ہے۔
س١٤36: آیا طلاق کے مطالبے اور طلاق نہ دینے جیسے مواردکے لئے قرآن سے استخارہ کرنا صحیح ہے؟ اور اگر کوئی شخص استخارہ کرے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو کیا حکم ہے؟
ج: قرآن اور تسبیح سے استخارے کا جواز کسی خاص موردسے مختص نہیں ہے بلکہ ہر مباح کام کہ جس میں انسان کو اس طرح تردد اور حیرت ہو کہ اس میں تعمیم نہ کرسکتا ہو اس کیلئے استخارہ کیا جاسکتا ہے اور استخارے پر شرعاً عمل کرنا واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ انسان اس کی مخالفت نہ کرے۔
س١٤٣7: آیا تسبیح اور قرآن کے ذریعہ شادی جیسے زندگی کے بنیادی مسائل کیلئے استخارہ کرنا جائز ہے ؟
ج: بہتر یہ ہے کہ جن مسائل میں انسان کوئی فیصلہ کرنا چاہے سب سے پہلے انکے بارے میں غور و فکر کرے یا پھر تجربہ کاراور بااعتماد افراد سے مشورہ کرے اگر مذکورہ امور سے اسکی حیرت ختم نہ ہو تو استخارہ کرسکتاہے۔
س١٤٣8:آیا ایک کام کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ استخارہ کرنا صحیح ہے؟
ج: استخارہ چونکہ تردد اور حیرت کو برطرف کرنے کے لئے ہے لہذا پہلے استخارے کے ساتھ تردد برطرف ہونے کے بعد دوبارہ استخارے کا کوئی مطلب نہیں ہے مگر یہ کہ موضوع تبدیل ہوجائے۔
س١٤٣9:بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ امام رضا کے معجزات پر مشتمل نوشتہ جات مساجد اور اہلبیت علیھم السلام کے حرموں میں موجود زیارت کی کتابوں کے صفحات کے درمیان رکھ کر لوگوں کے درمیان پھیلائے جاتے ہیں اور ان کے پھیلانے والے نے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اس پر واجب ہے کہ اسے اتنی تعداد میں تحریر کر کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرے تاکہ اس کی حاجت پوری ہوجائے ؟ آیا یہ امر صحیح ہے؟ اور آیا پڑھنے والے پر لکھنے والے کی درخواست پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج: شرعی نقطہ نظر سے ایسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شخص انہیں پڑھتا ہے وہ لکھنے والے کی طرف سے اسے مزید لکھنے کی درخواست پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔
- دینی رسومات کا احیاء
- ذخیرہ اندوزی اور اسراف
ذخیرہ اندوزی اور اسراف
س١٤٦8:کن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شرعاً حرام ہے ؟ اور آیا آپ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر مالی تعزیر (مالی جرمانہ) لگانا جائز ہے؟
ج: ذخیرہ اندوزی کا حرام ہونا اسکے مطابق جو روایات میں وارد ہوا ہے اور مشہور فقہا کی بھی یہی رائے ہے صرف چارغلوں اور سمن و زیت (گھی اور تیل) میں ہے کہ جن کی معاشرے کے مختلف طبقات کو ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی حکومت مفاد عامہ کے تحت لوگوں کی تمام ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے سکتی ہے، اور اگر حاکم شرع مناسب سمجھے تو ذخیرہ اندوزوں پر مالی تعزیرات لگانے میں اشکال نہیں ہے ۔
س١٤٦9: کہا جاتاہے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کی خاطر بجلی استعمال کرنا اسراف کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا کیا یہ بات درست ہے؟
ج: بلا شک ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور خرچ کرنا حتی بجلی اور بلب کی روشنی اسراف شمار کیا جاتا ہے جو صحیح ہے وہ رسول اللہؐ سے منقول یہ کلام ہے کہ "لاسرف فی خیر " کار خیر میں اسراف نہیں ہے۔
- تجارت و معاملات
- سود کے احکام
سود کے احکام
س١٦١9:ایک ڈرائیور نے ٹرک خریدنے کے ارادے سے ا یک دوسرے شخص سے پیسے لئے تا کہ اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کے لئے ٹرک خریدے اور پھر پیسے دینے والا شخص وہی ٹرک ڈرائیور کو قسطوں پر فروخت کردے اس معاملہ کا کیا حکم ہے؟
ج: اگرڈرائیور صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اس معاملے کو انجام دے اور پھر وہ خود اسے ڈرائیور کو قسطوں پر بیچ دے تو اگر اس کام سے ان کا قصد سود سے بچنے کیلئے حیلہ کرنا نہ ہو اور دونوں معاملوں میں خرید و فروخت کا واقعی قصد رکھتے ہوں تو اشکال نہیں ہے۔
س١٦20:قرض والاسود کیا ہے اور آیا وہ چند فیصد مقدار جو بینک سے اپنی رقم کے منافع کے عنوان سے لی جاتی ہے سود شمار کی جائے گی؟
ج: قرض والا سود قرض کی رقم پر وہ اضافی مقدار ہے جو قرض لینے والا قرض دینے والے کو دیتا ہے لیکن جو رقم بینک میں اس غرض سے رکھی جاتی ہے کہ صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اسے کسی صحیح شرعی معاملے میں استعمال کیا جائے تو اسکے استعمال سے حاصل ہونے والا نفع سود نہیں ہے اور اس میں اشکال نہیں ہے۔
س١٦21:سودی معاملے کا معیار کیاہے؟ اورکیا یہ صحیح ہے کہ سود فقط قرض میں ہوتا ہے نہ کسی اورمورد میں؟
ج: سود جیسے قرض میں ہوسکتا ہے اسی طرح معاملے میں بھی ہوسکتا ہے اور معاملے میں سود سے مراد ہے وزن یا پیمانے والی شے کو اسکی ہم جنس کے بدلے میں زیادہ مقدار کے ساتھ بیچنا۔
س١٦22: اگر بھوک کی وجہ سے انسان کی جان خطرے میں ہو اور اس کے پاس مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو کہ جسے کھا کر وہ جان بچا سکے تو جس طرح اس کیلئے ایسی مجبوری کے وقت مردار کھانا جائز ہوتا ہے ؟اسی طرح کیا مجبوری کی حالت میں ایسے شخص کیلئے سود کھانا جائز ہے کہ جو کام نہیں کرسکتا لیکن اسکے پاس تھوڑا سا سرمایہ ہے اور ناچار ہے کہ اسے سودی معاملات میں استعمال کرے تا کہ اسکے منافع سے اپنی گزر بسر کرے۔
ج: سود حرام ہے اوراسے اضطرار کی حالت میں مردار کھانے کے ساتھ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔اس لئے کہ مردار کھانے پر مجبور شخص کے پاس مردار کے علاوہ کوئی شے نہیں ہے کہ جس سے وہ اپنی جان بچا سکے لیکن جو شخص کام نہیں کرسکتا وہ اپنے سرمایہ کو مضاربہ جیسے کسی اسلامی معاملہ کے ضمن میں کام میں لاسکتا ہے۔
س١٦23:بعض اوقات تجارتی معاملات میں ڈاک کے ٹکٹ معین شدہ قیمت سے زیادہ قیمت میں فروخت کئے جاتے ہیں۔مثلاً ایک ٹکٹ جس کی قیمت بیس ریال ہے اسے پچیس ریال میں فروخت کیا جاتا ہے آیایہ معاملہ صحیح ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے اضافے کوسود شمارنہیں کیا جاتا۔ کیونکہ سودی معاملہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں پیمانے یا وزن کے ساتھ بکنے والی دو ہم جنس چیزوں کا آپس میں معاملہ کیا جائے اور ایک دوسری سے زیادہ ہو اور ایسا معاملہ باطل ہوتا ہے ۔
س١٦24:آیا سود کا حرام ہونا تمام حقیقی اور حقوقی افراد کے لئے ایک جیسا ہے یا بعض خاص موارد میں استثنا بھی پایا جاتا ہے؟
ج: سود کلی طور پر حرام ہے سوائے اس سود کے جو باپ اور اولاد اورمیاں بیوی کے درمیان اور اسی طرح سوائے اس سود کے جو مسلمان کافر غیر ذمی سے لیتا ہے۔
س١٦25:اگرکسی معاملے میں خرید و فروخت معین قیمت پر انجام پا جائے لیکن دونوں طرف اس پر اتفاق کریں کہ اگر خریدار نے قیمت کے عنوان سے مدت والاچیک دیا تو خریدار معین قیمت کے علاوہ کچھ مزید رقم فروخت کرنے والے کو ادا کرے گا۔ آیا ان کے لئے ایسا کرناجائز ہے؟
ج: اگرمعاملہ معین قیمت پرانجام پایاہو اور اضافی قیمت اصلی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہو تو یہ وہی سود ہے جو شرعاً حرام ہے اور دونوں کے اضافی مقدار کے ادا کرنے پر توافق کر لینے سے وہ پیسہ حلال نہیں ہوگا۔
س١٦26:اگر کسی شخص کوکچھ رقم کی ضرورت ہو اور کوئی اسے قرض حسنہ دینے والا نہ ہو تو کیا وہ مندرجہ ذیل طریقے سے اس رقم کو حاصل کر سکتا ہے کہ کسی چیز کوادھار پر اس کی واقعی قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے اور پھر اسی جگہ پر وہی چیزفروخت کرنے والے کو کم قیمت پر فروخت کر دے مثلاً ایک کلو زعفران ایک سال کے ادھار پر ایک معین قیمت کے ساتھ خریدے اور اسی وقت اسی فروخت کرنے والے کو کم قیمت پر مثلا قیمت خرید کے ۶۶ فیصد کے ساتھ بطور نقد فروخت کر دے؟
ج: ایسا معاملہ کہ جو در حقیقت قرض والے سود سے فرار کیلئے ایک حیلہ ہے شرعاً حرام اور باطل ہے۔
س١٦٢7:میں نے منافع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل معاملہ انجام دیا-:
میں نے ایک گھر پانچ لاکھ تومان کا خریدا جبکہ اس کی قیمت اس سے زیادہ تھی اور معاملے کے دوران ہم نے یہ شرط لگائی کہ فروخت کرنے والے کو پانچ مہینے تک معاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگا لیکن اس شرط پر کہ فسخ کرنے کی صورت میں وہ لی ہوئی قیمت واپس کردیگا ۔ معاملے کے انجام پانے کے بعد میں نے وہی گھر فروخت کرنیوالے کو پندرہ ہزار تومان ماہانہ کرایہ پر دے دیا۔ اب معاملہ کرنے سے چار مہینے گذرنے کے بعد مجھے حضرت امام خمینی کا یہ فتویٰ معلوم ہوا کہ سود سے فرار کرنے کے لئے حیلہ کرنا جائز نہیں ہے۔آپ کی نظر میں مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ج: اگر یہ معاملہ حقیقی قصد کے ساتھ انجام نہیں پایا بلکہ صرف ظاہری اور بناوٹی تھا اور مقصد یہ تھا کہ فروخت کرنے والے کو قرض مل جائے اور خریدار کو نفع تو ایسا معاملہ سود والے قرض سے بچنے کا ایک حیلہ ہے کہ جو حرام اور باطل ہے۔ایسے معاملات میں خریدار کو صرف وہ رقم واپس لینے کا حق ہے جو اس نے فروخت کرنے والے کو گھر کی قیمت کے طور پر دی تھی۔
س١6٢8:سود سے بچنے کے لئے کسی شے کا مال کے ساتھ ضمیمہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس کا م کا سودی قرض کے جائز ہونے میں کوئی اثر نہیں ہے اور کسی شے کے ضم کرنے سے مال حلال نہیں ہوتا۔
س١٦٢9:ملازم اپنی نوکری کے دوران ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پنشن اکاؤنٹ میں ڈالتا ہے تاکہ بڑھاپے میں اسکے کام آئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے اس میں کچھ اضافی رقم ڈال دی جاتی ہے کیا اس کا لینا جائز ہے ؟
ج: اصل رقم لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اضافی رقم جو اسکی ہر ماہ کاٹی گئی رقم کے علاوہ حکومت اسے دیتی ہے وہ اسکی رقم کا منافع نہیں ہوتا اور سود شمار نہیں ہوگا۔
س١٦30:بعض بینک رجسٹری والے گھر کی تعمیر کیلئے جعالہ کے عنوان سے قرض دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اپنے قرض کو چند فیصد اضافے کے ساتھ معین مدت میں قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا کیا اس صورت میں قرض لینا جائزہے؟ اوراس میں جعالہ کیسے متصور ہوگا؟
ج: اگر یہ رقم گھر کے مالک کو گھر کی تعمیر کیلئے قرض کے عنوان سے دی گئی ہے تو اس کا جعالہ ہونا بے معنی ہے اور قرض میں زائد رقم کی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اصل قرض بہرحال صحیح ہے لیکن کوئی مانع نہیں ہے کہ گھر کا مالک گھر کی تعمیر میں بینک کیلئے انعام ( عوض) قرار دے اور اس صورت میں انعام ( عوض) صرف وہ نہیں ہوگا جو بینک نے گھر کی تعمیر میں خرچ کیا ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے کہ جس کا بینک گھر کی تعمیر کے مقابلے میں مطالبہ کرر ہا ہے۔
س١٦31: آیا کوئی شے نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر بطور ادھار خریدنا جائز ہے ؟ اور آیا یہ سود کہلائے گا ؟
ج: کسی شے کا بطورادھارنقد قیمت سے زیادہ قیمت پر خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور نقد و ادھار کے درمیان تفاوت سود شمار نہیں ہوگا۔
س١٦32: ایک شخص نے اپنا گھر خیار والے معاملے کے تحت فروخت کیا لیکن وہ مقررہ وقت پر خریدار کو قیمت واپس نہ کرسکا لذا ایک تیسرے شخص نے خریدار کو معاملے والی قیمت ادا کردی تاکہ فروخت کرنے والا معاملہ فسح کر سکے البتہ اس شرط پر کہ اپنی رقم لینے کے علاوہ کچھ رقم اپنے کام کی مزدوری کے طور پر لے گا اس مسئلہ کا شرعاً کیا حکم ہے؟
ج: اگر وہ تیسرا شخص بیچنے والے کی طرف سے قیمت واپس کرنے اور فسخ کرنے کیلئے وکیل ہو اس طرح کہ پہلے فروخت کرنے والے کووہ رقم قرض دے اور پھر اسکی وکالت کے طور پر وہ رقم خریدار کو ادا کرے اور اسکے بعد معاملے کو فسخ کردے تو اس کا یہ کام اور وکالت کی اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس نے خریدارکو جو قیمت ادا کی ہے وہ فروخت کرنے والے کیلئے بعنوان قرض ہو تو اس صورت میں اسے فروخت کرنے والے سے فقط اس رقم کے مطالبے کا حق ہے جو اس نے اسکی طرف سے قیمت کے طور پر ادا کی ہے ۔
- حقِ شفعہ
حقِ شفعہ
س١٦33:کیا دو اشخاص پر وقف شدہ چیز میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے جب ان میں سے ایک اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے البتہ جب اسے اسکے فروخت کرنے کا حق ہو ؟ اسی طرح اگر دو شخص کسی ملک یا موقوفہ جائیداد کو کرایہ پر لیں پھر ان میں سے ایک اپنا حق صلح یا اجارے کے ساتھ تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو کیا کرائے والی جائیداد میں حق شفعہ ثابت ہوگا؟
ج: حق شفعہ وہاں ہوتا ہے جہاں عین کی ملکیت میں شراکت ہو اور دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے۔ لہذا اگر دو اشخاص کیلئے وقف ہو اور ایک شخص اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے جبکہ اس کا فروخت کرنا جائز ہو تو اس صورت میں حق شفعہ نہیں ہے اوراسی طرح کرایہ پر لی ہوئی عین میں اگر ایک شخص اپنا حق کسی تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو بھی شفعہ کا حق نہیں ہے۔
س١٦34:شفعہ کے باب میں فقہی متون کی عبارتوں اور ملکی قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعہ کا حق ہے بنابرایں اگر ایک شریک کسی خریدار کو اس بات پر ابھارے کہ وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے اور یہ کہ وہ اپنا حق شفعہ استعمال نہیں کر ے گا تو کیا یہ عمل حق شفعہ کا اسقاط شمار ہوگا؟
ج: صرف ایک شریک کا کسی تیسرے شخص کو اپنے شریک کا حصہ خریدنے کی تشویق دلانا اس کیلئے حق شفعہ کے ثابت رہنے سے منافات نہیں رکھتا۔بلکہ اگروہ وعدہ کرے کہ اسکے شریک اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہوجانے کی صورت میں وہ حق شفعہ استعمال نہیں کریگا تو اس سے بھی معاملے کے انجام پانے کے بعد حق شفعہ ساقط نہیں ہوتا۔
س١٦35:کیا شریک کے اپنا حصہ فروخت کرنے سے پہلے حق شفعہ کو ساقط کرنا صحیح ہے کیونکہ یہ ایسی چیز کا اسقاط ہے جو ابھی ثابت نہیں ہوئی "استقاط ما لم یجب" ہے۔
ج: جب تک حق شفعہ ثابت نہ ہوجائے اور دو میں سے ایک شریک کے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنے کے ساتھ یہ مرحلہ فعلیت کو نہ پہنچ جائے اسے ساقط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک شریک عقد لازم کے ضمن میں اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنائے کہ اگر اسکے شریک نے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کیا تو وہ شفعہ نہیں کریگا تو اشکال نہیں ہے۔
س١٦36: ایک شخص نے ایک ایسے دو منزلہ گھر کی ایک منزل کرایہ پرلی کہ جس کے مالک دو بھائی ہیں اور وہ کرایہ دار کے مقروض ہیں اور دو سال سے مسلسل اصرار کے باوجود اس کا قرض ادانہیں کر رہے تھے اس طرح کہ یہ عمل کرایہ دار کے لئے حق تقاص کے ثبوت کا باعث بنتا ہے۔ گھر کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے ۔اب اگر وہ اپنے قرض کی مقدار اس گھر کو اپنی ملکیت میں لے لے اور ان کے ساتھ گھر میں شریک ہوجائے تو کیا باقیماندہ مقدار کی نسبت اسے حق شفعہ حاصل ہوگا ؟
ج: سوال کی مفروضہ صورت میں شفعہ کا موضوع نہیں ہے۔ اس لئے کہ حق شفعہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں کسی شریک نے اپنا حصہ ایک تیسرے شخص کو فروخت کیا ہو اورخرید و فروخت سے پہلے شراکت ہونہ اس شخص کو جو دو میں سے ایک کا حصہ خرید کر یا تقاص کی وجہ سے اس کا مالک بن کر دوسرے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ علاوہ از ین اگر ایک شریک اپنا حصہ بیچ دے تو اس صورت میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اس ملک میں صرف دوشخص شریک ہوں نہ زیادہ۔
س١٦٣7: ایک جائیدا د دو افراد کے درمیان مشترک ہے اور ہر ایک آدھے حصے کا مالک ہے اور اسکی رجسٹری بھی دونوں کے نام ہے تقسیم کے ایک سادہ وثیقے کی بنیاد پر کہ جو انکے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے مذکورہ ملک معین حدود کے ساتھ ان کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے تو اگر ایک شریک تقسیم اور اپنا حصہ علیحدہ کر لینے کے بعد اپنا حصہ تیسرے شحص کو فروخت کر دے تو کیادوسرے شریک کوصرف اس بنیاد پر حق شفعہ حاصل ہے کہ اس جائیداد کی رجسٹری ان کے درمیان مشترک ہے۔
ج: فروخت کیا گیا حصہ اگر معاملے کے وقت دوسرے شریک کے حصے سے علیحدہ اور معین حدود کے ساتھ جدا کردیا گیا ہو تو صرف دو زمینوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا یا سابقہ شراکت یا رجسٹری کا مشترک ہونا حق شفعہ کے ثبوت کا باعث نہیں ہوگا۔
- اجارہ
- ضمانت
ضمانت
س ١٦82: جس شخص کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی رقم موجود نہ ہو۔ کیا وہ کسی دوسرے شخص کی ضمانت کے طور پر اپنا چیک دے سکتاہے؟
ج: اس قسم کے امور کا معیار اسلامی جمہوریہ ایران کا قانون ہے۔
س ١٦83: ایک شخص میرا مقروض تھا جو قرضہ ادا کرنے میں پس و پیش کررہا تھا چنانچہ اسکے ایک رشتہ دار نے میرے قرض کی رقم کے برابر معینہ مدت والاایک چیک مجھے دیا اس شرط پر کہ میں مقروض کوکچھ مہلت دوں ۔اس طرح وہ ضامن بن گیا کہ اگر مقروض شخص نے چیک کی مقررہ مدت تک قرض ادا نہ کیا تو وہ ادا کرے گا۔ اسی دوران مقروض کہیں روپوش ہوگیا اور اسوقت مجھے اسکا کوئی پتہ نہیں ہے کیا شرعا جائز ہے کہ میں اپناپورا قرض ضامن سے وصول کروں؟
ج: اگر وہ صحیح اور شرعی طریقے سے ضامن ہوا ہے تو جائز ہے کہ آپ اس سے مقررہ مدت تمام ہونے پر اپنے قرض کا مطالبہ کریں ا ور اپنا تمام قرض اس سے وصول کریں۔
- رہن
رہن
س ١٦84: ایک شخص نے اپنا گھر بینک سے قرض لے کر اسکے پاس گروی رکھاہے پھر وہ اپنا قرض ادا کرنے سے پہلے انتقال کرگیا اور اسکے نابالغ ورثاء پورا قرض ادا نہ کرسکے نتیجہ کے طور پر بینک نے مذکورہ گھر اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ اس گھر کی قیمت قرض والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔گھر کی اضافی رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور نابالغ ورثاء اور انکے حق کے متعلق کیا حکم ہے ؟
ج: جن مقامات میں مرتہن (جسکے پاس وہ چیز گروی رکھی گئی ہے ) کیلئے گروی رکھی ہوئی چیز کو اپنا قرض وصول کرنے کیلئے فروخت کرنا جائز ہے وہاں اس پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے۔ اگر وہ اس شے کو اپنے قرض کی مقدار سے زیادہ پر فروخت کرے تو ضروری ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے بعد باقیماندہ رقم اسکے شرعی مالک کے حوالے کردے لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں اضافی رقم ورثاء کو ملے گی۔
س١٦85: کیا جائز ہے کہ بالغ و عاقل شخص کسی دوسرے سے معین مدت کیلئے کچھ رقم قرض پر لے اور اپنا گھر قرض کے بدلے اسکے پاس گروی رکھ دے اور پھر اسی گھر کومرتہن سے معین رقم کے ساتھ معینہ مدت کیلئے کرایہ پر لے لے؟
ج: اس میں ایک اشکال تو یہ ہے کہ مالک اپنی ہی ملک کو کیسے کرائے پر لے سکتا ہے اسکے علاوہ اس قسم کے معاملات ، سودی قرض حاصل کرنے کیلئے ایک حیلے کے طور پر کئے جاتے ہیں جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے۔
س ١٦86: ایک شخص نے قرض کے بدلے میں اپنی زمین کا ایک قطعہ دوسرے شخص کے پاس گروی رکھاہے اس بات کو چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ راہن اور مرتہن دونوں انتقال کرگئے اور راہن کے وارثوں نے کئی مرتبہ مرتہن کے وارثوں سے زمین واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن انہوں نے انکے مطالبے کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ زمین انہیں انکے باپ سے وراثت میں ملی ہے ۔کیا راہن کے ورثاء یہ زمین ان سے واپس لے سکتے ہیں؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ مرتہن اس بات کا مجاز تھا کہ وہ اپنا حق وصول کرنے کیلئے زمین کو اپنی ملکیت میں لے لے اور اسکی قیمت بھی قرض کے برابر یا اس سے کمتر ہو اور اس کے مرنے تک زمین اسکے قبضہ میں رہی ہو تو بظاہر اسکی ملکیت ہے اور اسکے انتقال کے بعد اسکا ترکہ شمار ہوگی اور اسکے ورثاء اسکے وارث ہونگے . ورنہ زمین راہن کے ورثا کی میراث ہوگی اور وہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں اورراہن کے ورثاء کیلئے ضروری ہے کہ اسکے ترکہ سے مرتہن کے ورثاء کو اس کا قرض ادا کریں۔
س ١٦87: کیا جائز ہے کہ جس شخص نے مکان کرایہ پر لیا ہے وہ اپنے قرض کے مقابلے میں یہ مکان کسی دوسرے شخص کے پاس گروی رکھ دے یا یہ کہ رہن کے صحیح ہونے میں شرط ہے کہ رہن پر رکھی جانے والی شے راہن کی ملکیت ہو؟
ج: اگر گھر کے مالک کی اجازت ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٦٨8: میں نے ایک شخص سے قرض لے کر ایک سال کیلئے اپنا مکان اسکے پاس گروی رکھ دیااور ہم نے اس سلسلے میں دستاویز بھی لکھ لی لیکن معاملے سے علیحدہ طور پر میں نے اسے وعدہ دیا کہ یہ مکان اسکے پاس تین سال تک رہے گا۔ کیا اب رہن کی وہ مدت معیار ہے جو دستاویز میں لکھی گئی ہے یا وہ مدت کہ جس کا میں نے باتوں میں اسے وعدہ دیا ہے اور رہن کے باطل ہونے کی صورت میں راہن اور مرتہن کیلئے کیا حکم ہے ؟
ج: رہن کی مدت کے سلسلے میں تحریر ی دستاویزیا وعدہ یا اس جیسی کوئی اور چیز معیار نہیں ہے بلکہ اصلی معیار قرض والا معاملہ ہے پس اگر یہ معاملہ معینہ مدت کے ساتھ مشروط ہو تو اس مدت کے ختم ہونے پر یہ بھی ختم ہوجائیگا ورنہ رہن کی صورت میں باقی رہے گایہاں تک کہ قرض ادا کردینے یاقرض خواہ کے اپنے قرض سے چشم پوشی کر لینے کی وجہ سے یہ گھر گروی ہونے سے نکل جائے اور اگر وہ مکان رہن سے آزاد ہوجائے یا یہ پتہ چل جائے کہ رہن ابتدا ہی سے باطل تھا تو راہن اپنے اس مال کا مرتہن سے مطالبہ کرسکتاہے اورمرتہن کو حق نہیں ہے کہ وہ اسکے لوٹانے سے انکار کرے اوراس پر صحیح رہن کے آثار مترتب کرے۔
س ١٦٨9: میرے باپ نے تقریباً دوسال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے، سونے کے کچھ سکے اپنے قرض کے مقابلے میں گروی رکھے تھے اور پھر اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مرتہن کو اجازت دے دی کہ وہ انہیں بیچ دے لیکن اس نے اس بات سے مرتہن کو آگاہ نہیں کیا پھر میں نے اپنے باپ کی رحلت کے بعد اس قرض کے برابر رقم کسی سے قرض لے کر مرتہن کو دے دی لیکن میرا ارادہ باپ کے قرض کو ادا کرنا یا اسے بری الذمہ کرنا نہیں تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ گروی رکھا ہوا مال اس سے لے کر کسی اور کے پاس گروی رکھوں لیکن مرتہن نے اس میں تمام ورثاء کے متفق ہونے کی شرط لگادی اور ان میں سے بعض نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی پس میں نے اسے لینے کیلئے مرتہن سے رجوع کیا لیکن اس نے یہ کہا کہ میں نے اسے اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لیا ہے اور اس طرح اسے تحویل دینے سے انکار کردیا اس مسئلہ کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ کیا جائز ہے کہ مرتہن اپنا قرض وصول کرنے کے بعد گروی رکھا ہوا مال واپس کرنے سے انکار کردے اور باوجود اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں تھا اور جو کچھ میں نے اسے دیا تھا وہ باپ کا قرض ادا کرنے کے عنوان سے نہیں دیا تھا کیا اسے حق ہے کہ وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لے اور واپس نہ لوٹائے؟ اور کیا وہ گروی رکھے ہوئے مال کو واپس لوٹانے میں تمام ورثاء کی موافقت کی شرط لگا سکتاہے؟
ج: اگر وہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے مرتہن کو دی گئی تھی تو اس سے میت بری الذمہ ہوجائے گی اور گروی رکھی ہوئی چیز آزاد ہوکر مرتہن کے پاس امانت بن جائے گی لیکن چونکہ اس کا تعلق تمام ورثاء سے ہے لہذا سب کی رضامندی کے بغیر بعض ورثاء کے حوالے نہیں کر سکتا اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے دی گئی تھی بالخصوص جب مرتہن اسکا اقرار بھی کر رہاہو تو وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں نہیں لے سکتا بلکہ اس پر واجب ہے کہ جس نے اسے یہ رقم دی ہے اسے واپس لوٹادے بالخصوص جب اس کا دینے والا اس کا مطالبہ کررہا ہو اور سونے کے سکے اسکے پاس رہن کے عنوان سے باقی رہیں گے یہاں تک کہ ورثا، میت کاقرض ادا کرکے رہن کو چھڑوا لیں یا مرتہن کو اجازت دے دیں کہ وہ اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کرلے۔
س ١٦90: راہن نے جو مال گروی رکھاہے کیا اسے چھڑانے سے پہلے اپنے قرض کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کے پاس رہن کے طور پر رکھ سکتاہے؟
ج: جب تک پہلا رہن چھڑانہ لیا جائے راہن کی طرف سے مرتہن کی اجازت کے بغیر دوسرا رہن فضولی کے حکم میں ہے اور مرتہن کی اجازت پر موقوف ہے۔
س١٦91: ایک شخص نے اپنی زمین دوسرے کے پاس رہن رکھی تاکہ اس سے کچھ رقم قرض لے سکے لیکن مرتہن نے یہ عذر پیش کیا کہ مذکورہ رقم اسکے پاس نہیں ہے اور اسکے بجائے دس عدد بھیڑیں زمین کے مالک کو دے دیں اور اب دونوں چاہتے ہیں کہ رہن آزاد ہوجائے اور راہن اور مرتہن دونوں اپنا اپنا مال لے لیں لیکن مرتہن اس بات پر مصر ہے کہ وہی دس بھیڑیں اسے واپس دی جائیں کیا شرعاً اسے ایسا کرنے کا حق ہے؟
ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے مقابلے میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں انکے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہیں۔
- شراکت
شراکت
س١٦92: میں نے ایک کمپنی کے مالک کو سرمایہ دیا اور یوں اس کے ساتھ سرمایہ میں اس طرح شریک ہوگیاکہ وہ میرے سرمائے کوکام میں لانے میں میری طرف سے وکیل ہوگا۔ اورہر ماہ حصص کے منافع سے مجھے پانچ ہزار روپے دے گا۔ ایک سال گزرنے کے بعد میں نے اس مال اور منافع کے بدلے میں اس سے زمین کا ایک قطعہ لے لیا مذکورہ زمین کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں شراکت سرمایہ لگانے میں ہے اور کمپنی کے مالک کو اسے کام میں لانے کی اجازت ہے اگر نفع شرعا حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو تو اسکے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٦93: کچھ لوگوں نے مشترکہ طور پر ایک چیز کو اس شرط پر خریدا کہ وہ اپنے درمیان قرعہ ڈالیں گے اور جسکے نام قرعہ نکلے گا یہ چیز اسکی ہوگی اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر قرعہ ڈالنے میں مدنظریہ ہو کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا دیگر شرکاء اپنی مرضی کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اسے ہبہ کردیں گے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اگرمقصود یہ ہو کہ مالِ مشترک قرعہ کے ذریعہ اس شخص کی ملکیت ہوجائے گا کہ جسکے نام قرعہ نکلے گا تو یہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کا اصلی مقصود ہار جیت ہو۔
س١٦94: دو آدمیوں نے مل کر زمین خریدی اور وہ اس میں بیس سال سے مشترکہ طور پر کاشت کاری کررہے ہیں اب ان میں سے ایک نے اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے کیا اسے ایسا کرنے کا حق ہے یا صرف اسکے شریک کو اسکا حصہ خریدنے کا حق ہے ؟ اور اگر وہ اپنے شریک کو زمین بیچنے سے انکار کرے تو کیا اسکا شریک اعتراض کا حق رکھتاہے؟
ج: ایک شریک کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے شریک کو مجبور کرے کہ وہ اپنا حصہ اسے فروخت کرے اور اگر شریک اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردے تو بھی دوسرے شریک کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن معاملہ بیع انجام پانے کے بعد اگر اس مورد میں حق شفعہ کے تمام شرائط موجود ہوں تو وہ شفعہ کر سکتاہے۔
س ١٦95: صنعتی یا تجارتی کمپنیوں یا بعض بینکوں کے حصص کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ۔ ہوتاایسے ہے کہ ایک شخص کچھ حصص میں سے ایک خریدتا ہے اور پھر انہیں بازار حصص میں خرید و فروخت کیلئے پیش کردیتاہے جسکے نتیجے میں اسکی قیمت ، قیمت خرید سے کم یا زیادہ ہوجاتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ خودحصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے نہ سرمایہ کی، اسی طرح اگر مذکورہ کمپنیوں میں سودی کارو بار ہویا اس سلسلے میں ہمیں شک ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر ان کمپنیوں ، کارخانوں اور بینکوں کے حصص کی قیمت خود حصص کے اعتبار سے ہو اور انکی قیمت گزاری ایسے شخص کے ذریعے انجام پائی ہو جو اس کام کیلئے مجاز ہے تو انکے خریدنے اور بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اسی طرح اگر ان حصص کی قیمت خود کارخانے، کمپنی اور بینک کی قیمت یا انکے سرمایہ کے اعتبار سے ہو یعنی اس طرح کہ حصص میں سے ہر ایک اس کی جز کی قیمت کو بیان کر رہا ہو تو بھی ان حصص کی خرید و فروخت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسے کمپنی کے تمام حصص او ر دیگران چیزوں کا علم ہو کہ غررسے بچنے کیلئے جن کا جاننا عرفاً ضروری ہے ۔ نیز اس کمپنی، کارخانے یا بینک کا کاروبار شرعی طور پر حلال ہو۔
س ١٦96: ہم تین آدمی مرغیوں کے ایک ذبح خانہ اور اسکے تحت آنے والی املاک میں باہمی طور پر شریک ہیں اورہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر ہم نے شراکت ختم کرنے اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کا ارادہ کرلیا چنانچہ مذکورہ مذبح اور اسکی املاک کو ہم نے شرکاء کے درمیان نیلامی کیلئے پیش کیا اور ہم میں سے ایک اسے خریدنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اسو قت سے لے کر آج تک اس نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے کیا اس معاملہ نے اپنا اعتبار کھودیا ہے ؟
ج: صرف نیلامی کا اعلان کر نا اور کسی شریک یا دوسرے کی جانب سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرنا معاملہ ہو جانے اور انتقال ملکیت کیلئے کافی نہیں ہے اور جب تک حصص کی فروخت صحیح اور شرعی طور پر انجام نہ پائے شراکت باقی ہے۔ لیکن اگر بیع صحیح صورت میں واقع ہو تو خریدار کے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرنے سے معاملہ باطل نہیں ہوگا۔
س ١٦97:ایک کمپنی کی بنیاد ڈالنے اور رجسٹریشن کرانے کے بعد میں نے اپنا حصہ دوسرے شرکاء کی رضامندی سے ایک اور شخص کو فروخت کردیا اور خریدار نے اسکی قیمت چیک کی صورت میں مجھے ادا کردی لیکن (اکاؤنٹ میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے ) چیک کیش نہیں ہوئے ۔میں خریدار کے پاس گیا تو اس نے وہ چیک مجھ سے لے لئے اور کمپنی کا میرا حصہ مجھے واپس کردیا۔ لیکن اسکی قانونی دستاویزاسی کے نام رہی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے وہ حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے کیا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے یا مجھے اپنے حصے کے مطالبے کا حق ہے؟
ج: اگر آپ کے ساتھ کئے گئے معاملے کے ختم ہونے کے بعد اس نے کسی دوسرے کو بیچنے کا اقدام کیا ہے تو یہ بیع ( خرید و فروخت ) فضولی ہے کہ جسکا صحیح ہونا آپ کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر معاملہ فسخ ہونے سے پہلے اس نے وہ حصہ کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا ہو تووہ معاملہ صحیح ہے۔
س١٦٩8: دو بھائیوں کو اپنے باپ کی میراث سے ایک مکان ملا ہے ان میں سے ایک اس مکان کو تقسیم یا فروخت کرکے دوسرے بھائی سے الگ ہونا چاہتا ہے لیکن دوسرا بھائی اسکی کوئی بات قبول نہیں کرتا نہ وہ مکان کی تقسیم پر راضی ہے نہ بھائی کا حصہ خریدنے پر اور نہ ہی اپنا حصہ اسے بیچنے پر ۔ جسکی وجہ سے پہلے بھائی نے معاملہ عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے بھی مکان کے معاملہ کو اپنے ماہر کی رپورٹ اور تحقیق سے منسلک کردیا عدالت کے ماہرنے رپورٹ پیش کی کہ گھر نا قابل تقسیم ہے اور شراکت ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ یا دو بھائیوں میں سے ایک اپنا حصہ دوسرے کو فروخت کرے یا مکان کسی تیسرے شخص کو فروخت کر کے اسکی قیمت دونوں میں تقسیم کردی جائے ۔ عدالت نے اپنے ماہر کی بات قبول کر لی اور مکان کو نیلامی کیلئے پیش کردیا۔ اور مکان بیچنے کے بعد اسکی رقم دونوں کے حوالے کردی۔ کیا یہ بیع صحیح اور معتبر ہے ؟ اور ان میں سے ہر ایک اپنا حصہ مکان کی قیمت سے وصول کرسکتا ہے؟
ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ١٦٩9:کمپنی کے ایک شریک نے کمپنی کے پیسے سے ایک ملک خریدکر اپنی بیوی کے نام کردی۔ کیا یہ خریدی ہوئی ملک تمام شرکاء سے متعلق ہے اور زمین بھی ان سب کی ہے ؟ اور کیا شرعی طور پر اس شخص کی بیوی اس بات کی پابند ہے کہ وہ مذکورہ ملک کو تمام شرکاء کے نام کردے اگرچہ اسکا شوہر اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دے؟
ج: اگر اس شخص نے مذکورہ ملک کو اپنے لیئے یا اپنی بیوی کیلئے خریدا ہو اور اسکی قیمت کلی در ذمہ کی صورت میں ہو اور پھر اس نے کمپنی کے اموال سے اسکی قیمت ادا کی ہو تو وہ ملک خود اسکی یا اسکی بیوی کی ہے اوروہ صرف دیگرشرکاء کے اموال کی مقدار میں انکا مقروض ہے لیکن اگر اس ملک کو کمپنی کے عین مال سے خریدا ہو تو دوسرے شرکاء کے سہم کی نسبت معاملہ فضولی ہے کہ جسکا صحیح ہونا انکی اجازت پر منحصر ہے۔
س ١700: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء یا انکے وکیل دوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر ملک مشاع میں کوئی تصرف یا معاملہ انجام دیں؟
ج: جائز نہیں ہے کہ شرکاء میں سے کوئی بھی مشترکہ ملکیت میں تصرف کرے مگر یہ کہ اس میں دوسرے شرکاء کا اذن یا اجازت شامل ہو اور اسی طرح مشترکہ ملک میں کوئی معاملہ بھی صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں تمام شرکاء کی اجازت یا اذن ہو۔
س ١701: اگر بعض شرکاء ملک مشاع کو فروخت کردیں یا کوئی دوسرا شخص اسے فروخت کردے اور شرکاء میں سے بعض اس معاملہ کی اجازت دے دیں؟ توکیا دوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر یہ معاملہ ان سب کی طرف سے صحیح اور معتبر ہے یا یہ کہ انکی طرف سے وہ اسی وقت صحیح ہوگا جب ان سب کی رضامندی اور موافقت حاصل ہوجائے؟ اورا گر تمام شرکاء کی رضامندی شرط ہو تو کیا اس میں کوئی فرق ہے کہ اس ملک میں شراکت ایک تجارتی کمپنی کی صورت میں ہو یا غیر تجارتی کمپنی کی صورت میں اس طرح کہ تمام شرکاء کی رضامندی دوسری صورت میں شرط ہو اور پہلی میں شرط نہ ہو۔
ج: یہ معاملہ فقط اس شخص کے اپنے حصے کی نسبت صحیح ہے کہ جو اس نے فروخت کیا ہے اور معاملہ کا دوسرے شرکاء کے حصہ میں صحیح ہونا انکی اجازت پر منحصر ہے ۔اور شراکت چاہے جیسی بھی ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س ١702: ایک شخص نے بینک سے اس بنیاد پر قرضہ لیا کہ وہ اسکے ساتھ مکان بنانے میں شریک ہوگا۔ مکان تعمیر کرنے کے بعد حادثات کے مقابلے میں اسے بینک کے پاس بیمہ کردیا مکان کا ایک حصہ بارش یا کنویں کا پانی آنے کی وجہ سے گر ہوگیا ہے اور اسکی تعمیر کیلئے رقم کی ضرورت ہے لیکن بینک اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کررہا اور بیمہ کمپنی بھی اس نقصان کو اپنی بیمہ پالیسی کے دائرے سے باہر سمجھتی ہے اس سلسلے میں کون اس چیز کا ذمہ دار اور ضامن ہے ؟
ج: بیمہ کمپنی طے شدہ اور قوانین سے باہر کے نقصانات کی ضامن نہیں ہے ۔ عمارت کی تعمیرکے اخراجات اور اسکے وہ نقصانات جنہیں ادا کرنے کا کوئی دوسرا ضامن نہیں بنا وہ مالک کے ذمہ ہیں اور اگر عمارت میں بینک کی شراکت مدنی ہو تو وہ اپنے حصے کی مقدار میں اخراجات ادا کرے مگر یہ کہ وہ نقصان کسی خاص شخص نے کیا ہو۔
س ١703: تین آدمیوں نے مشترکہ طور پر چند تجارتی دوکانیں خریدیں تا کہ باہمی طور پر ان میں تجارت کریں لیکن ان میں سے ایک شریک ان دوکانوں سے استفادہ کرنے حتی انہیں کرایہ پر دینے اور بیچنے پر بھی دوسروں کے ساتھ موافق نہیں ہے۔
سوال یہ ہے :
١ ۔ کیا جائز ہے ایک شریک دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کردے یا کرایہ پر دیدے؟
٢۔کیا جائز ہے کہ وہ دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر ان دوکانوں میں کاروبارشروع کردے؟
٣ ۔ کیا جائزہے کہ ان دوکانوں میں سے ایک کو خود سے مخصوص کرلے اور دیگر دوکانیں دوسرے دو شرکاء کو دیدے۔ج: ١ ۔ شرکاء میں سے ہر ایک اپنے مشترکہ حصے(مشاع) کو بیچ سکتاہے اور اس میں دوسروں کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
٢۔شرکاء میں سے کسی کے لیئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی رضامندی کے بغیر مشترکہ مال میں تصرف کرے۔
٣۔ شرکاء میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کی موافقت کے بغیر مشترکہ مال سے اپنا حصہ جدا کرلے۔س ١704: ایک علاقہ کے بعض لوگ ایسی زمین میں امام بارگاہ بنانا چاہتے ہیں جس میں درخت ہیں لیکن ان میں سے بعض لوگ جو مذکورہ زمین میں حصہ دار ہیں اس کام پر راضی نہیں ہیں لہٰذااس میں امام بارگاہ بنانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ احتمال موجود ہو کہ مذکورہ زمین انفال میں سے یا شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو تو اسکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر وہ زمین علاقہ کے لوگوں کی مشترکہ (ملک مشاع)ہے تو اس میں تصرف کیلئے تمام شرکاء کی رضامندی ضروری ہے لیکن اگر انفال میں سے ہو تو اسکا اختیار حکومت اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ہے اور یہی حکم ہے جب وہ جگہ شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو۔
س١705: اگر ورثاء میں سے کوئی وارث مشترکہ باغ میں سے اپنا حصہ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوتو کیا جائزہے کہ دوسرے شرکاء یا حکومتی اداروں میں سے کوئی ادارہ اسے اس کام پر مجبور کرے؟
ج: اگر اپنے اپنے حصوں کی تقسیم اور انکے الگ الگ کرنے کا امکان موجود ہو تو شرکاء یا دوسرے افراد کیلئے کسی شریک کو اس بات پر مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اپنا حصہ بیچ دے اور اس سلسلے میں ہر شریک کو فقط یہ حق ہے کہ وہ دوسروں سے اپنا حصہ الگ کرنے کا مطالبہ کرے ۔ مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے ایسے باغ کہ جس میں درخت ہیں کی تقسیم اور حصوں کو الگ کرنے کے سلسلے میں خاص قوانین و ضوابط ہوں تواس صورت میں ان قوانین کی پابندی واجب ہے لیکن اگر مشترکہ ملک تقسیم اور جدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں شرکا ء میں سے ہرایک حاکم شرع کے پاس جائے تا کہ وہ دوسرے شریک کو اسکا حصہ خریدنے یا اسے اپنا حصہ بیچنے پر مجبور کرسکے۔
س ١706: چار بھائی اپنے مشترکہ اموال کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہیں چند سال بعد ان میں سے دو بھائی شادی کرلیتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں میں سے ایک ایک کی کفالت کریں گے اور انکی شادی کے اسباب فراہم کریں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنے عہد پر عمل نہیں کیا ۔ جسکے نتیجے میں دونوں چھوٹے بھائیوں نے ان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔اور مشترکہ مال کی تقسیم کا مطالبہ کردیا۔ شرعی لحاظ سے انکا مشترکہ مال ان کے درمیان کس طرح تقسیم ہوگا؟
ج: اگر کسی نے مشترکہ مال میں سے اپنے اوپر خرچ کیا ہے تو وہ اس مقدار میں دوسرے ان شرکا کا مقروض ہے کہ جنہوں نے مشترکہ مال سے اپنے حصے کے بدلے اس مقدار کے برابر اپنے اوپر خرچ نہیں کیا جسکے نتیجے میں انہیں یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اپنے مال سے اس کا عوض ادا کرے اور باقیماندہ مشترکہ مال اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کریں یا پہلے جن شرکاء نے مشترکہ مال سے استفادہ نہیں کیا یا دوسروں سے کم استفادہ کیا ہے تو انہیں اتنی مقدار دیا جائے کہ مشترکہ مال سے استفادہ کرنے میں سب شرکا برابر ہوجائیں اور پھر باقیماندہ مال کو اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرلیں۔
س١707: چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو اپنی کمپنی کے ساتھ شراکت یا اس کا ممبر بننے پر مجبور کرتی ہے کیا مذکورہ کمپنی کیلئے چائے بیچنے والوں کو اپنی شراکت پر مجبورکرنا جائز ہے؟ اور کیا یہ جبری شراکت صحیح ہے؟
ج: جس وقت چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو سہولیات مہیا کرتی ہے۔ اورتقسیم کرنے کیلئے چائے انکی تحویل میں دیتی ہے اورانہیں اس طرح کی خدمات فراہم کرتی ہے اگر انکے ساتھ شرط لگاتی ہے کہ وہ کمپنی میں شراکت اختیار کریں اور فقط اسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو یہ شرط صحیح ہے اور مذکورہ شراکت میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔
س١٧٠8:کیا کسی کمپنی کے مینجر کیلئے کمپنی کی آمدنی کو مالکان حصص کی اجازت کے بغیر کار خیر میں خرچ کرنا جائز ہے؟
ج: شرکاء میں سے ہر ایک مشترکہ مال کے منافع سے اپنے حصہ کا مالک و مختار ہے اور اسکے خرچ کرنے کا اختیار خود اسکے ہاتھ میں ہے اوراگر کوئی دوسرا شخص اسکی طرف سے اجازت اور وکالت لیئے بغیر اسے خرچ کرے تو وہ ضامن ہے اگر چہ اس نے کار خیر میں ہی اسے خرچ کیا ہو۔
س ١٧09: تین آدمی ایک تجارتی جگہ میں با ہم شریک ہیں لیکن پہلے شریک نے آدھا سرمایہ اور دوسرے دوشرکاء میں سے ہر ایک نے اسکا ایک چوتھائی سرمایہ دیا ہے اور باہمی طور پر یہ طے کیا ہے کہ اس سے حاصل شدہ منافع اور آمدنی انکے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔ لیکن دوسرا اور تیسرا شریک اس تجارتی جگہ میں مسلسل کام کرتے ہیں جبکہ پہلا شریک بہت کم کام کرتاہے کیا مذکورہ شرط کے ساتھ یہ شراکت صحیح ہے؟
ج: شراکت میں یہ شرط نہیں ہے کہ سرمایہ میں شرکاء میں سے ہرایک کاحصہ مساوی ہو اور شرکاء کے درمیان منافع کے مساوی طورپرتقسیم کرنے کی شرط میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اگر چہ سرمایہ میں ان کے حصے برابر نہ بھی ہوں۔ لیکن اس جگہ میں کام کرنے کے سلسلے میں اگر عقد شراکت میں کوئی چیز ذکر نہ ہوئی ہو تو ان میں سے ہر ایک اپنے کام کی مقدار اجرة المثل کا مستحق ہوگا۔
س ١٧10: ایسی کمپنی جو بعض افراد کے خصوصی سرمائے اور مختلف لوگوں کے عمومی سرمائے سے وجود میں آئی ہے اور مالکان حصص کے نمائندے اسکے امور کی نگرانی کرتے ہیں کیا اس کمپنی کے مینجر حضرات اور دیگر ملازمین کے لیئے اسکے ذرائع حمل و نقل کو متعارف حد تک اپنے ذاتی کاموں کیلئے استعمال کرنا جائز ہے؟
ج: کمپنی کے حمل و نقل اوردیگر وسائل سے ذاتی کاموں میں استفادہ کرنا اسی صورت میں جائز ہے جب مالکان حصص یا ان کے نمائندے اسکی اجازت دیں۔
س ١٧11: کمپنی کے قوانین و ضوابط کے مطابق اختلافات کو حل کرنے کیلئے ہیئت منصفہ کی تشکیل ضروری ہے لیکن مذکورہ ہیئت جب تک ممبران کی طرف سے تشکیل نہ دی جائے اپنے فرائض کو انجام نہیں دے سکتی۔ اور اس وقت چونکہ حصص کے مالکان اور شرکاء میں سے اکاون فیصد نے اپنے حقوق سے صرف نظر کر لیا ہے اسلئے وہ اس ہیئت کی تشکیل کیلئے تیار نہیں ہیں کیا جنہوں نے صرف نظر کر لیا ہے ان پر واجب ہے کہ وہ ان مالکان حصص کے حقوق کی حفاظت کیلئے کہ جنہوں نے اپنے حقوق سے صرف نظر نہیں کیا اس ہیئت کے تشکیل دینے میں شریک ہوں۔
ج: اگر کمپنی کے ممبران نے کمپنی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ عہد کیا ہو کہ وہ ضروری مواقع میں ہیئت منصفہ کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عہد پر عمل کریں اور بعض ممبران کا اپنے حق سے صرف نظر کرلینا اس بات کا جوازفراہم نہیں کرتا کہ وہ ہیئت منصفہ کی تشکیل کے سلسلے میں اپنے عہد کو پورا نہ کریں۔
س ١٧12: دو آدمی مشترکہ سرمایہ کے ساتھ ایسی جگہ تجارت کرتے ہیں جسکی پگڑی میں بھی وہ شریک ہیں اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرکے اپنے درمیان تقسیم کرتے ہیں حال ہی میں ان میں سے ایک نے اپنا روزانہ کا کام چھوڑ کر اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے جبکہ دوسرا شریک بدستور اس جگہ معاملات انجام دے رہاہے اور اسوقت وہ پہلاشریک مدعی ہے کہ وہ خاص معاملات جو اسکے شریک نے اپنے لیئے انجام دیئے ہیں ان میں وہ بھی شریک ہے اس مسئلہ کاکیا حکم ہے ؟
ج: صرف کسی ملک یا تجارتی جگہ کی پگڑی میں شراکت تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں شراکت کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اسکا معیار تجارتی سرمایہ میں اشتراک ہے۔ لہذا جب دونوں شرکاء نے مشترکہ سرمایہ کو صحیح طور پر تقسیم کرلیا ہے اور ان میں سے ایک نے اپنا حصہ واپس لے لیاہے اور دوسرا شریک اس جگہ تجارت کررہاہے تو جس شخص نے اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے اسکا دوسرے شخص کی تجارت میں کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ صرف اس جگہ سے اپنے حصے کے کرائے یا اجرة المثل کا مطالبہ کرسکتاہے۔ لیکن اگر اس کی تجارت کو وہاں جاری رکھنا مشترکہ سرمایہ کی تقسیم سے پہلے ہو تو دوسرا شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے پہلے شریک کی تجارت میں حق رکھتاہے۔
س ١٧13: اس بات کے پیش نظر کہ ممکن ہے میری بہن اپنے مال کو غلط اور منحرف افکار کی نشر و اشاعت میں خرچ کرے ، کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اسے اس کے مال تک رسائی حاصل نہ کرنے دوں اور کمپنی سے اسکا حصہ الگ کرنے اور اسے ادا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کروں؟
ج: شرکاء میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر دوسرا شریک الگ ہونا چاہے تو وہ اسکے لیئے رکاوٹ پیدا کرے اور اس خوف کے پیش نظر کہ وہ اپنے مال کو غلط اور گمراہی کے راستوں میں خرچ کریگا اسکے مال کو روک نہیں سکتا بلکہ واجب ہے کہ اس سلسلے میں اس کا مطالبہ پورا کیا جائے اگر چہ جس طرح خود اس پر اپنے مال کو حرام کاموں میں استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح دوسروں پر بھی واجب ہے کہ اگر وہ اپنے مال کو غلط راستے میں استعمال کرے تو وہ اسے نہی عن المنکر کریں اور اسے ایسا کرنے سے منع کریں۔
س ۱۷۱۴: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔
- دین و قرض
دین و قرض
س١٧58:ایک کارخانہ کے مالک نے خام مال خریدنے کیلئے مجھ سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی اور کچھ عرصہ کے بعد اضافی رقم کے ساتھ اس نے مجھے وہ رقم واپس کردی، اور اس نے وہ اضافی رقم پوری طرح اپنی رضامندی کے ساتھ مجھے دی ہے اور اس میں نہ تو پہلے کسی قسم کی کوئی شرط طے پائی تھی اور نہ ہی مجھے اسکی توقع تھی کیا میرے لئے اس اضافی رقم کالینا جائز ہے ؟
ج: مذکورہ سوال کی روشنی میں چونکہ قرض ادا کرنے میں اضافی رقم لینے کی شرط طے نہیں ہوئی اور وہ اضافی رقم قرض لینے والے نے اپنی خوشی سے دی ہے لہذآپ اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔
س ١٧٥9:اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کردے اور قرض خواہ چیک کی رقم وصول کرنے کیلئے اسکے خلاف عدالت میں شکایت کردے اور اسکی وجہ سے وہ شخص اس بات پر مجبور ہوجائے کہ اصل قرض کے علاوہ عدالتی فیصلہ کے اجراکے سلسلے میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرے تو کیا قرض دینے والا شرعاًاس کا ذمہ دار ہے؟
ج: جو مقروض اپنا قرض اداکرنے میں کوتاہی کرتاہے اگر اجراء حکم کے سلسلے میں اس پر حکومت کو ٹیکس ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس میں قرض دینے والے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
س ١٧60: میرے بھائی کے ذمہ میرا کچھ قرضہ ہے جب میں نے گھر خریدا تو اس نے مجھے ایک قالین دیا جس کے بارے میں میں نے یہ تصور کیا کہ یہ ہدیہ ہے لیکن بعد میں جب میں نے اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا وہ قالین میں نے قرض کی جگہ دیاہے اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس نے اس سلسلے میں مجھ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی کیا اسکے لیئے صحیح ہے کہ وہ اس قالین کو قرض ادا کرنے کے عنوان سے حساب کرلے؟ اور اگر میں قرض کی ادائیگی کے عنوان سے اسے قبول نہ کروں تو کیا وہ قالین میں اسے واپس کردوں؟ اور پیسے کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے کیا میں اصل قرض کے علاوہ اضافی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں کیونکہ اس زمانے میں اس پیسے کی قیمت اب سے کہیں زیادہ تھی؟
ج: قالین یا اسکے علاوہ ایسی چیزوں کا قرض کے عوض میں دینا جوجنس قرض سے نہیں ہیں قرض خواہ کی موافقت کے بغیر کافی نہیں ہے اور اگر آپ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اسے واپس کر دیجئے کیونکہ اس صورت میں وہ قالین ابھی اسی کی ملکیت ہے اور پیسے کی قیمت مختلف ہو جانے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ آ پس میں صلح کرلیں۔
س ١٧61: حرام مال کے ذریعہ قرض ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: دوسرے کے مال سے قرض ادا کرنے سے قرض ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی مقروض اس سے بری الذمہ ہوسکتاہے۔
س ١٧62: ایک عورت مکان خریدنا چاہتی تھی اور اس مکان کی قیمت کاتیسرا حصہ اس نے قرض لیا اور اس نے قرض دینے والے سے یہ طے کیا کہ مالی حالت بہتر ہونے کے بعد وہ مال اسے لوٹا دے گی اور اسی وقت اس کے بیٹے نے قرض کی رقم کے مساوی ایک چیک ضمانت کے طور پر اسے دے دیا اب جبکہ طرفین کو فوت ہوئے چار سال گذر چکے ہیں اور انکے ورثاء اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کیا اس عورت کے ورثاء گھرکا تیسرا حصہ جو قرض کی رقم سے خریدا گیا ہے اس شخص کے ورثاء کو دیں یا اسی چیک کی رقم کو ادا کردیناکافی ہے؟
ج: قرض خواہ کے ورثاء گھر سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے وہ صرف اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو اس عورت نے قرض دینے والے سے مکان خریدنے کیلئے بطور قرض لی تھی اور اس میں یہ شرط ہے کہ جو مال اس نے میراث کے طور پر چھوڑا ہے وہ اسکا قرض ادا کرنے کیلئے کافی ہو اور احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے تفاوت کی صورت میں باہمی طور پر مصالحت کریں۔
س ١٧63: ہم نے ایک شخص سے کچھ رقم ادھارلی کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص غائب ہوگیا اور اب وہ نہیں مل رہا اسکے قرض کے متعلق ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: آپ پر واجب ہے کہ اس کا انتظار کریں اور اپنا قرض ادا کرنے کیلئے اسے تلاش کریں تا کہ وہ رقم اسے یا اس کے ورثاء کو واپس کر سکیں۔ اور اگر اس کے ملنے کی امید نہ ہو تو آپ اس سلسلے میں حاکم شرعی کی طرف رجوع کریں یا مالک کی طرف سے صدقہ دے دیں۔
س ١٧64: قرض خواہ عدالت میں اپنا قرض ثابت کرنے کیلئے جو اخراجات برداشت کرتاہے کیا مقروض سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
ج: شرعی طور پر مقروض وہ اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے جو قرض خواہ نے عدالت میں کئے ہیں ۔ بہرحال ایسے امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی پابندی ضروری ہے۔
س١٧65:اگر مقروض اپنا قرض ادا نہ کرے یا اسکے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو کیا قرض خواہ اسکا مال بطور تقاص لے سکتا ہے مثلا اپنا حق مخفی طور پر یا کسی دوسرے طریقے سے اس کے مال سے وصول کرلے؟
ج: اگرمقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کرے یا بغیر کسی عذر کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو قرض خواہ اسکے مال سے تقاص لے سکتا ہے لیکن اگر وہ شخص خود کو مقروض نہیں سمجھتا یا وہ نہیں جانتا کہ واقعا قرض خواہ کا کوئی حق اس کے ذمے ہے یا نہیں تو اس صورت میں قرض خواہ کا اس سے تقاص لینا محل اشکال ہے بلکہ جائز نہیں ہے۔
س ١٧66: کیا میت کا قرض حق الناس میں سے ہے کہ اسکے ورثاء پر اسکی میراث سے اسکا ادا کرنا واجب ہو؟
ج: کلی طور پر قرض چاہے کسی شخص کا ہو یا کسی ادارے و غیرہ سے لیا گیا ہو حق الناس میں سے ہے اور مقروض کے ورثاء پر واجب ہے کہ میت کی میراث سے اس کا قرض خود قرض خواہ یا اسکے ورثاء کو ادا کریں اور جب تک اسکا قرض ادا نہ کردیں انہیں اسکے ترکہ میں تصرف کا حق نہیں ہے۔
س ١٧67: ایک شخص کی زمین ہے لیکن اس میں موجود عمارت کسی دوسرے شخص کی ہے زمین کا مالک دو افراد کا مقروض ہے کیا قرض دینے والوں کیلئے جائز ہے کہ وہ اس زمین اور اس میں موجود عمارت کو اپنا قرض وصول کرنے کیلئے قرقی کردیں یا انہیں صرف زمین کے متعلق ایسا کرنے کا حق ہے؟
ج: انہیں اس چیز کے قرقی کرنے کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو مقروض کی ملکیت نہیں ہے۔
س ١٧68:کیا وہ مکان کہ جس کی مقروض اور اسکے اہل و عیال کو رہائش کیلئے ضرورت ہے وہ مقروض کے اموال کی قرقی سے مستثنی ہے؟
ج: مقروض اپنی زندگی کو جاری رکھنے کیلئے جن چیزوں کی طرف محتاج ہے جیسے گھر اور اسکا سامان،گاڑی ،ٹیلیفون اور تمام وہ چیزیں جو اسکی زندگی کا جزء اور اسکی شان کے مناسب شمار ہوتی ہیں وہ بیچنے کے ضروری ہونے کے حکم سے مستثنا ہیں۔
س ١٧69: اگر ایک تاجر اپنے قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ ہوجائے اور ایک عمارت کے علاوہ اسکے پاس کوئی اور چیز نہ ہو اور اسے بھی اس نے بیچنے کیلئے پیش کردیا ہو لیکن اسکے بیچنے سے صرف آدھا قرض ادا ہوسکتاہو اور وہ اپنا باقی قرض ادا نہ کرسکتاہو توکیا قرض خواہوں کیلئے جائز ہے کہ اسے عمارت بیچنے پر مجبور کریں یا یہ کہ وہ اسے مہلت دیں تا کہ وہ اپنا قرض بتدریج ادا کرے؟
ج: اگر وہ عمارت اسکا اور اسکے اہل و عیال کا رہائشی گھر نہیں ہے تو قرض ادا کرنے کیلئے اسے اس کے بیچنے پر مجبور کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ وہ تمام قرض ادا کرنے کیلئے کافی نہ ہو اور واجب نہیں ہے کہ قرض خواہ اسے اس کیلئے مہلت دیں ، بلکہ باقی قرض کیلئے صبر کریں تاکہ وہ اسکے ادا کرنے کی قدرت حاصل کرلے۔
س١٧70:کیا اس رقم کا ادا کرنا واجب ہے جو ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے بطور قرض لیتا ہے ؟
ج : اس قرض کے ادا کرنے کا وجوب بھی دیگر قرضوں کی طرح ہے ۔
س ١٧71: اگر کوئی شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے توکیا مقروض پر واجب ہے کہ وہ قرض ادا کرنے والے کو اسکا عوض دے؟
ج: جو شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اسکا قرض ادا کردے اسے اس کاعوض طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور مقروض پر واجب نہیں ہے کہ وہ اسکی ادا کردہ رقم اسے دے۔
س ١٧72: اگر مقروض قرض کو مقررہ وقت پر ادا کرنے میں تاخیر کرے تو کیا قرض خواہ قرض کی مقدار سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے ؟
ج: قرض خواہ شرعی طور پر قرض کی رقم سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔
س ١٧73: میرے والد صاحب نے ایک بناوٹی معاملہ کی شکل میں کہ جو در حقیقت قرض تھاایک شخص کو کچھ رقم دی اور مقروض بھی ہر ماہ کچھ رقم اسکے نفع کے طور پر ادا کرتارہا اورقرض خواہ (میرے والد) کی وفات کے بعد بھی مقروض نفع کی رقم ادا کرتارہا یہاں تک کہ اسکا بھی انتقال ہوگیا کیا وہ رقم جو نفع کے عنوان سے ادا کی گئی ہے سود شمار ہوگی اورقرض خواہ کے ورثاء پر واجب ہے کہ وہ رقم مقروض کے ورثاء کو واپس کریں؟
ج: اس چیز کے پیش نظر کہ وہ رقم اس کو قرض کے عنوان سے دی گئی تھی لہٰذا جو پیسہ اصل رقم کے نفع کے طور پر ادا کیا گیا ہے وہ سود شمار ہوگا اور شرعی طور پر حرام ہے لہذا وہی رقم یا اس کا بدل قرض خواہ کی میراث میں سے خود مقروض یا اسکے ورثاء کو ادا کرنا ضروری ہے۔
س ١٧74: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنا مال دوسرے کے پاس بطور امانت رکھے اور ہر ماہ اس سے نفع دریافت کرے؟
ج: اگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے مال کسی دوسرے کو سپرد کرنا کسی صحیح عقد کے ذ ریعہ انجام پائے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والے نفع میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر قرض کے عنوان سے ہو تو اگر چہ اصل قرض صحیح ہے لیکن اس میں نفع کی شرط لگانا شرعی طور پر باطل ہے اور اس سے لیا جانے والا نفع ، سود اور حرام ہے۔
س ١٧75: ایک شخص نے ایک اقتصادی منصوبے کیلئے کچھ رقم قرض پرلی اگر وہ منصوبہ اسکے لیئے نفع بخش ہوتو کیا اسکے لیئے جائز ہے کہ اس منافع سے کچھ رقم اس قرض خواہ کو دے دے ؟ اور کیا جائز ہے کہ قرض خواہ اسکا مطالبہ کرے ؟
ج: قرض خواہ کا اس منافع میں کوئی حق نہیں ہے جو مقروض نے قرض والے مال کے ساتھ تجارت کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور نہ وہ اسکا مطالبہ کرسکتا ہے لیکن اگر مقروض پہلے سے طے کئے بغیر اپنی مرضی سے اصل قرض کے علاوہ کچھ اضافی رقم قرض خواہ کو دے کر اسکے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ یہ مستحب ہے ۔
س ١٧76: ایک شخص نے تین مہینے کیلئے کچھ سامان ادھار پر لیا ہے اور مقررہ وقت پہنچنے پر اس نے بیچنے والے سے درخواست کی کہ وہ اسے تین مہینے کی مزید مہلت اس شرط پر دے دے کہ وہ سامان کی قیمت سے زائد رقم اسے ادا کریگا کیا ان دونوں کیلئے یہ جائز ہے ؟
ج: یہ زائدرقم سود اور حرام ہے ۔
س ١٧77: اگر زید نے خالد سے سود پر قرض لیا ہو اور ایک تیسرا شخص قرض کی دستاویز اور اسکی شرائط کو انکے لیئے تحریر کرے اور چوتھا شخص جو دفتر میں منشی اور اکاؤنٹنٹ ہے اور جسکا کام معاملات کا اندراج کرنا ہے وہ انکے اس معاملہ کو حساب کے رجسٹرمیں اندراج کرے تو کیا اکاؤنٹنٹ بھی انکے اس سودی معاملے میں شریک ہے اور اس سلسلے میں اسکا کام اور اجرت لینا بھی حرام ہے ؟ پانچواں شخص بھی ہے جسکی ذمہ داری آڈٹ کرنا ہے وہ رجسٹر میں کچھ لکھے بغیر صرف اسکی چھان بین کرتا ہے کہ کیا سودی معاملات کے حساب میں کسی قسم کی غلطی تو نہیں ہوئی اور پھر وہ اکاؤنٹنٹ کو اسکے نتیجے کی اطلاع دیتا ہے کیا اسکا کام بھی حرام ہے ؟
ج: ہر کام جو سودی قرض کے معاملے یا اسکی انجام دہی یا تکمیل یامقروض سے سود کی وصولی میں دخالت رکھتاہو شرعاً حرام ہے اور اس کا انجام دینے والا اجرت کا حقدار نہیں ہے ۔
س ١٧78 : بعض مسلمان سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سے سرمایہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس پر انہیں سود دینا پڑتا ہے کیا کفار یا غیر اسلامی حکومتوں کے بینکوں سے سودی قرض لینا جائز ہے؟
ج: سودی قرض حکم تکلیفی کے اعتبار سے بطور مطلق حرام ہے اگرچہ غیر مسلم سے لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص ایسا قرض لے لے تو اصل قرض صحیح ہے ۔
س١٧٧9: ایک شخص نے کچھ رقم تھوڑے عرصہ کیلئے اس شرط پر بطور قرض لی کہ وہ قرض خواہ کے حج و غیرہ جیسے سفر کے اخراجات بھی ادا کریگا کیا ان کے لیئے یہ کام جائز ہے ؟
ج: عقد قرض کے ضمن میں قرض خواہ کے سفرکے اخراجات کی ادائیگی یا اس جیسی کوئی اور شرط لگانا درحقیقت وہی قرض پر منافع وصول کرنے کی شرط ہے جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے لیکن اصل قرض صحیح ہے ۔
س ١٧80: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دیتے وقت شرط لگاتے ہیں کہ اگر مقروض نے دو یا زیادہ اقساط مقررہ وقت پر ادا نہ کیں تو ادارے کو حق ہوگا کہ اس شخص سے پورا قرض ایک ہی مرتبہ وصول کرے کیا اس شرط پر قرض دینا جائز ہے ؟
ج: کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٧81: ایک کو آپریٹوکمپنی کے ممبران کمپنی کو کچھ رقم سرمایہ کے عنوان سے دیتے ہیں اور وہ کمپنی اپنے ممبران کو قرض دیتی ہے اور ان سے کسی قسم کا منافع یا اجرت وصول نہیں کرتی بلکہ اسکا مقصد مدد فراہم کرنا ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے جسے ممبران نیک ارادے اور صلہ رحمی کی غرض سے انجام دیتے ہیں ؟
ج: مومنین کو قرض فراہم کرنے کیلئے با ہمی تعاون اور ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچانے کے جواز بلکہ رجحان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اگر چہ یہ اسی صورت میں انجام پائے جسکی سوال میں وضاحت کی گئی ہے لیکن اگر کمپنی میں رقم جمع کرانا قرض کے عنوان سے ہو کہ جس میں شرط لگائی گئی ہو کہ رقم جمع کرانے والے کو آئندہ قرض دیا جائے گا تو یہ کام شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ اصل قرض حکمِ وضعی کے لحاظ سے صحیح ہے ۔
س ١٧82: قرض دینے والے بعض ادارے ان پیسوں سے جائدادیں اور دوسری چیزیں خریدتے ہیں جو لوگوں نے ان کے پاس امانت کے طور پر جمع کئے ہوتے ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ جبکہ پیسہ جمع کرانے والے بعض لوگ ان کاموں کے ساتھ موافق نہیں ہیں ، کیا ادارے کے ذمہ دار کو یہ حق ہے کہ وہ ان اموال میں تصرف کرے مثلاً ان کے ساتھ خرید وفروخت کا کام انجام دے؟ کیا یہ کام شرعی طور پر جائز ہے ؟
ج: اگر لوگوں کی جمع کرائی ہوئی رقوم بطور امانت ادارے کے پاس اسلئے ہیں کہ ادارہ جسے چاہے گا قرض دے دیگا تو اس صورت میں جائداد یا دوسری چیزیں خریدنے میں ان کا استعمال کرنا فضولی اور ان کے مالکوں کی اجازت پرمنحصر ہے لیکن اگر جمع کرائی ہوئی رقم اس ادارے کو قرض الحسنہ کے عنوان سے دی گئی ہو چنانچہ اسکے ذمہ دار افراد ان اختیارات کی بنیاد پر جو انہیں دئیے گئے ہیں جائداد اور دوسری چیزیں خریدنے کا اقدام کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س١٧83:بعض لوگ دوسروں سے کچھ مقدار پیسے لیتے ہیں اور اس کے عوض ہر مہینے ان کو منافع ادا کرتے ہیں اوریہ کام کسی شرعی عقد کے تحت انجام نہیں دیتے بلکہ یہ کام صرف دوطرفہ توافق کی بنیاد پر انجام پاتا ہے ، اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اس قسم کے معاملات سودی قرض شمار ہوتے ہیں اورقرض میں نفع کی شرط لگانا باطل ہے اوریہ اضافی رقم سود اور شرعاً حرام ہے اور اسکا لینا جائز نہیں ہے ۔
س ١٧84: جس شخص نے قرض الحسنہ دینے والے ادارے سے قرض لیا ہے اگر وہ قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بغیر کسی سابقہ شرط کے اصل قرض سے کچھ زیادہ رقم ادا کرتا ہے توکیا اس اضافی رقم کا لینا اور اسے تعمیراتی کاموں میں خرچ کرنا جائز ہے ؟
ج : اگر قرضہ لینے والا وہ اضافی رقم اپنی مرضی سے اوراس عنوان سے دے کہ قرضہ ادا کرتے وقت یہ کام مستحب ہے تو اسکے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن ادارے کے ذمہ دار افراد کا اسے تعمیراتی یا دوسرے کاموں میں خرچ کرنا اس سلسلے میں انکے اختیارات کی حدودکے تابع ہے ۔
س ١٧85: قرض الحسنہ دینے والے ایک ادارے کے ملازمین نے اس رقم سے جو ایک شخص سے قرض لی گئی تھی ایک عمارت خرید لی اور ایک مہینے کے بعد اس شخص کی رقم لوگوں کی جمع کرائی گئی رقم سے انکی مرضی کے بغیر واپس کردی ، کیا یہ معاملہ شرعی ہے ؟ اور اس عمارت کا مالک کون ہے؟
ج: ادارے کیلئے اس رقم سے عمارت خرید نا جو اسے قرض دی گئی ہے اگرادارے کے ملازمین کی صلاحیت اور اختیارات کے مطابق انجام پائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور خریدی گئی عمارت ادارہ اور ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کا اس ادارے میں پیسہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ معاملہ فضولی اور اس رقم کے مالکان کی اجازت پر موقوف ہے ۔
س ١٧86: بینک سے قرض لیتے وقت اسے اجرت ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر مذکورہ اجرت قرض کے امور انجام دینے کے سلسلے میں ہو جیسے رجسٹر میں درج کرنا ، دستاویز تیار کرنا یا ادارے کے دیگر اخراجات جیسے پانی بجلی وغیرہ اوراسکی بازگشت قرض کے نفع کی طرف نہ ہو تو اسکے لینے اور دینے اور اسی طرح قرض لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٧87: ایک رفاہی ادارہ اپنے ممبران کوقرض دیتا ہے لیکن قرض دینے کیلئے شرط لگا تا ہے کہ قرض لینے والا تین یا چھ مہینے تک کیلئے اس میں رقم جمع کرائے اور یہ مدت گزرنے کے بعد اس نے جتنی رقم جمع کرائی ہے اس کے دو برابر اسے قرض ملے گااور جب قرض کی تمام قسطیں ادا ہوجاتی ہیں تو وہ رقم جو قرض لینے والے نے ابتدا میں جمع کرائی تھی اسے لوٹا دی جاتی ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگرادارہ میں رقم جمع کرانا اس عنوان سے ہو کہ وہ رقم ایک مدت تک ادارہ کے پاس قرض کے عنوان سے اس شرط کے ساتھ رہے گی کہ ادارہ اس مدت کے ختم ہونے پر اسے قرض دیگا یا ادارے کا قرض دینا اس شرط کے ساتھ ہو کہ وہ شخص پہلے کچھ رقم ادارے میں جمع کرائے تویہ شرط سود کے حکم میں ہے جو حرام اور باطل ہے البتہ اصل قرضہ دونوں طرف کیلئے صحیح ہے۔
س ١٧88: قرض الحسنہ دینے الے ادارے قرض دینے کیلئے بعض امور کی شرط لگاتے ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اس ادارے کا ممبر ہو اور اسکی کچھ رقم ادارے میں موجود ہو یا یہ کہ قرض لینے والا اسی محلے کا رہنے والا ہوکہ جس میں یہ ادارہ قائم ہے اور بعض دیگر شرائط کیا یہ شرائط سود کے حکم میں ہیں؟
ج: ممبر ہونے یا محلہ میں سکونت یا اس طرح کی دیگر شرطیں اگر محدود پیمانے پر افراد کو قرض دینے کیلئے ہوں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ادارے میں اکاؤنٹ کھلانے کی شرط کا مقصد بھی اگر یہ ہو کہ قرض صرف انہیں افراد کو دیا جائے تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اسکا مقصد یہ ہو کہ مستقبل میں قرض لینا اس کے ساتھ مشروط ہو کہ قرض لینے والا کچھ رقم بینک میں جمع کرائے تو یہ شرط قرض میں منفعتِ حکمی ہے کہ جو باطل ہے ۔
س ١٧٨9: کیا بینک کے معاملات میں سود سے بچنے کیلئے کوئی راستہ ہے ؟
ج: اس کا راہ حل یہ ہے کہ اس سلسلے میں شرعی عقود سے انکی شرائط کی مکمل مراعات کے ساتھ استفادہ کیا جائے ۔
س ١٧90: وہ قرض جو بینک کسی خاص کام پر خرچ کرنے کیلئے مختلف افراد کو دیتاہے کیا اسے کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز ہے؟
ج: بینک افراد کو جو پیسہ دیتا ہے اگر وہ واقعاً قرض ہو اور بینک شرط کرے کہ اسے حتمی طور پر خاص مورد میں استعمال کیا جائے تو اس شرط کی مخالفت جائز نہیں ہے اور اسی طرح وہ رقم جو بینک سے شراکت یا مضاربہ و غیرہ کے سرمایہ کے طور پر لیتا ہے اسے بھی اس کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے ۔
س ١٧91: اگر دفاع مقدس کے مجروحین میں سے کوئی شخص قرضہ لینے کیلئے بینک سے رجوع کرے ، اور اپنے بارے میں مجاہد فاؤنڈیشن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی بینک کو پیش کردے تا کہ اسطرح وہ اس کے ذریعے مسلط کردہ جنگ کے مجروحین کیلئے مخصوص ان سہولیات اور قرضوں سے استفادہ کر سکے جو مجروحین کے کام سے معذور ہونے کے مختلف درجوں کے مطابق انہیں دیئے جاتے ہیں اور وہ خود جانتا ہے کہ اس کا درجہ اس سے کم تر ہے جو اس سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اس کے بارے میں ڈاکٹروں اور ماہرین کی تشخیص درست نہیں ہے کیا وہ ان کے دیئے ہوئے سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک کی خصوصی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟
ج: اگر اس کے درجے کا تعین ان ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ ہوا ہو جو ڈاکٹری معائنات اپنی تشخیص و رائے کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں اور سہولیات دینے کیلئے قانونی لحاظ سے بینک کے نزدیک انکی رائے معیار ہے تو اس مجاہد کیلئے اس درجے کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں کہ جس کا سرٹیفکیٹ اسے ان ڈاکٹروں نے دیا ہے کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ خود اسکی نظر میں اس کا درجہ کمتر ہو ۔
- صلح
صلح
س ١٧92: ایک شخص نے اپنی تمام جائدادکہ جس میں مکان ، گاڑی ،قالین اور اس کے گھر کا سارا سامان شامل ہے صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو د ے دیا ہے اور اسی طرح اسے اپنا وصی اور اپنے نابالغ بچوں کا سرپرست بھی قرار دیا ہے کیا اسکے مرنے کے بعد اسکے ماں باپ، کواس کے ترکہ سے کسی چیز کے مطالبہ کا حق ہے؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ میت نے اپنی زندگی میں تمام جائداد صلح کے ساتھ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو دے دی تھی اس طرح کہ کوئی چیز اپنی وفات تک اپنے لئے باقی نہ چھوڑی ہو ، تو ماں باپ یا دوسرے ورثاء کیلئے اس کا کوئی ترکہ ہی نہیں ہے جو انکی وراثت ہو لہٰذا انہیں اس مال کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو اسکی زندگی میں اسکی بیوی کی ملکیت بن چکا ہے ۔
س ١٧93: ایک شخص نے اپنے اموال کا کچھ حصہ صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیا لیکن چند سال گزرنے کے بعد وہی اموال اپنے اسی بیٹے کو فروخت کردیئے اور اسوقت اسکے ورثا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ گھر بیچنے سے کچھ عرصہ پہلے سے لیکر معاملہ انجام دینے تک ان کے باپ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا کیا یہ مال اسے بیچنا کہ جسے یہ بطور صلح پہلے ہی دے چکا ہے اس صلح سے عدول شمار ہوگا اور معاملہ بیع صحیح ہے ؟ اور بالفرض اگر صلح صحت پر باقی ہو تو کیا یہ اس مال کے تیسرے حصے میں صحیح ہے کہ جس پر صلح کی گئی ہے یا پورے مال میں ؟
ج: پہلی صلح صحیح اور نافذ ہے اور جب تک اس میں صلح کرنے والے ( مصالح ) کیلئے حق فسخ ثابت نہ ہو یہ لازم بھی ہے لہٰذا صلح کرنے والے کا اس مال کو بیچنا صحیح نہیں ہے اگر چہ فروخت کے وقت اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو اور یہ صلح جو صحیح اور لازم ہے اس پورے مال میں نافذ ہے کہ جس پر یہ واقع ہوئی ہے۔
س ١٧94: ایک شخص اپنے تمام اموال یہاں تک کہ محکمہ صحت میں جو اسکے حقوق ہیں صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیتا ہے لیکن مذکورہ محکمہ اعلان کرتا ہے کہ اس شخص کو ان حقوق پر صلح کرنے کا قانونی حق نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں محکمہ صحت اسکے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردیتا ہے خود صلح کرنے والا بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کیلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس صلح کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: دوسروں کے مال یا ایسے مال پر صلح کہ جسکے ساتھ دوسروں کے حق کا تعلق ہوچکا ہے صلح فضولی ہے اور اسکا انحصار مالک یا صاحب حق کی اجازت پر ہے اور اگر صلح ، صلح کرنے والے کی خالص ملکیت پر انجام پائی ہو لیکن اس صلح کا مقصد قرض خواہوں کے قرض کی ادائیگی سے بچنا ہو تو ایسی صلح کا صحیح اور نافذ ہونا محل اشکال ہے بالخصوص جب اسے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کرکے اپنے قرض ادا کرنے کی کوئی امید نہ ہو ۔
س ١٧95: صلح کی ایک دستاویز میں یوں لکھا ہے کہ باپ نے اپنے کچھ اموال صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیئے ہیں کیا یہ دستاویز قانونی اور شرعی لحاظ سے معتبر ہے ؟
ج: جب تک دستاویز کے محتوا کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہوفقط یہ دستاویز ،عقد صلح کے انشاء اور اسکی کیفیت پر شرعی دلیل اور حجت شمار نہیں ہوگی البتہ اگر مالک کی طرف سے صلح کے ثابت ہونے کے بعد ہمیں اسکے شرعی طورپر صحیح واقع ہونے میں شک ہو تو عقد صلح شرعاً صحیح ہے اور وہ مال اس شخص کی ملکیت ہوگا جس کے ساتھ صلح کی گئی ہے۔
س ١٧96: میرے سسرنے اپنے بیٹے کے ساتھ میری شادی کے وقت زمین کا ایک قطعہ کچھ رقم کے عوض صلح کے ساتھ مجھے دے دیا اور چند گواہوں کے سامنے اس سے متعلق ایک دستاویز بھی تحریر کردی لیکن اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معاملہ فقط ظاہری اور بناوٹی تھا۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: مذکورہ صلح شرعی طور پر صحیح ہے اور اسکے ظاہری اور بناوٹی ہونے کا دعویٰ جب تک مدعی کی طرف سے ثابت نہ ہوجائے کوئی اثر نہیں رکھتا ۔
س ١٧97: میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال صلح کے ساتھ مجھے دے دیئے اس شرط پر کہ انکی وفات کے بعد میں اپنی بہنوں میں سے ہر ایک کو کچھ رقم ادا کروں ۔میری بہنیں بھی اس چیز پر راضی ہوگئیں اور وصیت والی دستاویزپر دستخط کردیئے ، باپ کی وفات کے بعد میں نے ان کا حق ادا کردیا اور باقی اموال خود لے لئے۔ کیا اس مال میں میرے لیئے تصرف کرنا جائز ہے ؟ اور اگر وہ اس امر پر راضی نہ ہوں تو اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟
ج: اس صلح میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ صورت میں جس مال پر صلح ہوئی ہے وہ آپ کاہے اور دیگر ورثاء کے راضی نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے ۔
س ١٧98: اگر ایک شخص اپنے بعض بچوں کی عدم موجودگی میں اور جو موجود ہیں ان کی موافقت کے بغیر صلح کے ساتھ اپنے اموال ایک بیٹے کو دے دیتا ہے تو کیا یہ صلح صحیح ہے؟
ج: اگر مالک اپنی زندگی میں اپنے اموال صلح کے ساتھ کسی ایک وارث کو دے دے تو اس میں دیگر ورثاء کی موافقت ضروری نہیں ہے اور انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ہاں اگر یہ کام اسکی اولاد کے درمیان فتنہ و فساداورنزاع کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے ۔
س ١٧٩9:اگر ایک شخص صلح کے ساتھ اپنا کچھ مال دوسرے کو اس شرط پر دے کہ فقط وہ خود اس مال سے استفادہ کرے گا تو کیا یہ شخص جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے یہ مال اسی استفادے کیلئے صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر کسی تیسرے شخص کو دے سکتا ہے یا استفادہ میں اسے اپنے ساتھ شریک کر سکتا ہے؟اور صحیح ہونے کی صورت میں کیا صلح کرنے والا اس صلح سے عدول کر سکتا ہے؟
ج : متصالح (جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے) عقد صلح میں جن شرطوں پر عمل کرنے کا پابند ہوا ہے ان کی مخالفت نہیں کر سکتااور اگر وہ ان شروط کی مخالفت کرے تو مصالح (جس نے صلح کے ساتھ مال دیا ہے)عقد صلح کو ختم اور فسخ کرسکتا ہے ۔
س ١800:کیا عقد صلح ہو جانے کے بعدمُصالح اس سے عدول کرسکتا ہے اور پہلے متصالح کو بتائے بغیروہی مال دوبارہ صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟
ج : اگر صلح صحیح طور پرمنعقد ہوئی ہو، تو یہ مُصالح کی نسبت لازم ہے اور جب تک اس نے اپنے لیئے حق فسخ قرار نہیں دیا اسے عدول کرنے کا حق نہیں ہے لہذا اگر وہ وہی مال صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے دے تو یہ صلح فضولی ہوگی جسکا صحیح ہونا پہلے متصالح کی اجازت پرموقوف ہے ۔
س ١801: ماں کی جائداد اسکے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے ،قانونی مراحل طے کرنے ، حصر وراثت (یعنی یہ کہ ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے) کا سرٹیفکیٹ لینے اور ورثاء میں سے ہر ایک کے اپنا اپنا حصہ لے لینے کے بہت عرصے کے بعد اسکی ایک بیٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ اسکی ماں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اموال صلح کے ساتھ اسے دے دیئے تھے اور اس سلسلے میں ایک معمولی دستاویز بھی ہے کہ جس پر اسکے اور اسکے شوہر کے دستخط موجود ہیں اور اس پر انگوٹھے کا نشان بھی ہے جو اسکی ماں کی طرف منسوب ہے اور وہ بیٹی ماں کاپورا ترکہ لینا چاہتی ہے اسکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ ماں نے اپنی حیات میں اپنا مال صلح کے ساتھ اس بیٹی کو دے دیا تھا اسے اس چیز کے بارے میں کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ دعوی کرتی ہے اور فقط صلح کی دستاویز معتبر نہیں ہے جب تک واقع کے ساتھ اسکی مطابقت ثابت نہ ہوجائے ۔
س ١802: ایک باپ نے اپنی جائداد صلح کے ساتھ اپنی اولادکو اس شرط پردی کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے اس میں تصرف کا اختیار ہو گا اس چیزکے پیش نظر مندرجہ ذیل موارد کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الف : کیا یہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ؟
ب: صحیح اور نافذ ہونے کی صورت میں کیا جائز ہے کہ مُصالح اس صلح سے عدول کرے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگراس مال کا کچھ حصہ بیچ دے کہ جس پر صلح ہوئی تھی توکیا اسکا یہ کام صلح سے عدول شمار کیا جائیگا ؟ اور اگر یہ عدول ہے تو کیا تمام اموال کی نسبت عدول سمجھا جائیگا یا صرف بیچے گئے مال کی نسبت؟
ج : یہ عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " جو صلح کی دستاویز میں بیان ہوئی ہے کیا حق فسخ کے معنیٰ میں ہے یا کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کے حق کے معنیٰ میں یا اپنی زندگی میں ان اموال میں حق تصرف و استعمال کے معنیٰ میں؟ج :
الف: مذکورہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ۔
ب: عقد صلح ، عقود لازم میں سے ہے لہذا جب تک صلح کے ساتھ دینے والا اس میں حق فسخ نہ رکھتا ہو اسے فسخ اور ختم نہیں کر سکتا لذا اگر صلح کرنے کے بعد اوراس میں حق فسخ کے بغیر اس مال کا کچھ حصہ ان میں سے کسی کو فروخت کردے کہ جن کے ساتھ صلح کی گئی تھی، تو یہ معاملہ خریدار کے اپنے حصے میں باطل ہے اور دوسروں کے حصوں کی نسبت فضولی ہے جسکا صحیح ہونا انکی اجازت پر موقوف ہے۔
ج: ظاہری طور پر اس عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " سے مقصود حق تصرف و استعمال ہے نہ حق فسخ اورنہ کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کا حق۔ - وکالت
- صدقہ
صدقہ
س ١٨2٠: امام خمینی ویلفیئرٹرسٹ (کمیتہ امداد امام خمینی)نے صدقات اور خیرات جمع کرنے کیلئے جو مخصوص ڈبے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں یا سڑکوں اورشہر و دیہات کے عمومی مقاما ت پر نصب کر رکھے ہیں تا کہ ان میں جمع ہونے والی رقم فقرا اور مستحقین تک پہنچاسکیں کیا جائز ہے کہ ا س ٹرسٹ کے ملازمین کواس ماہانہ تنخواہ اور سہولیات کے علاوہ جو انہیں ٹرسٹ کی طرف سے ملتی ہیں ان ڈبوں سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ فیصد اجرت کے طور پر دیا جائے ؟اور کیا جائز ہے کہ اس سے کچھ مقدار رقم ان لوگوں کو دی جائے جو اس رقم کو جمع کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن وہ ٹرسٹ کے ملازم نہیں ہیں ؟
ج :ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ کے علاوہ جو وہ لیتے ہیں صدقات کے ڈبوں سے کچھ مقدار رقم اجرت کے طور پر دینے میں اشکال ہے ۔ بلکہ جب تک صاحبان مال کی رضامندی ثابت نہ ہوجائے جائز نہیں ہے لیکن اس میں سے کچھ رقم ان لوگوں کو اجرة المثل (مناسب اجرت)کے عنوان سے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جو ڈبوں کی رقم جمع کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں البتہ اگر صدقات جمع کرنے اور مستحق تک پہنچانے میں انکی ضرورت ہو، بالخصوص اگر ظاہری علامات صاحبان اموال کے اس کام پر راضی ہونے پر دلالت کریں ۔
س ١٨2١: کیا ان گدا گروں کوجو گھروں پر آتے ہیں یا سڑکوں کے کنارے بیٹھتے ہیں صدقہ دینا جائز ہے یا یتیموں اور مسکینوں کو دینا بہتر ہے یا صدقات کے ڈبوں میں ڈالے جائیں تا کہ وہ رقم ویلفیئرٹرسٹ کے پاس پہنچ جائے ؟
ج: بہتر یہ ہے کہ مستحبی صدقات دیندار اور پاکدامن فقراء کو دیئے جائیں ، اسی طرح انہیں ویلفیئر ٹرسٹ کو دینے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ یہ صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے کی صورت میں ہو ، لیکن واجب صدقات میں ضروری ہے کہ انہیں انسان خود یا اس کا وکیل مستحق فقرا تک پہنچائے اور اگر انسان کو علم ہو کہ ویلفیئر ٹرسٹ کے ملازمین ڈبوں سے جمع ہونے والی رقم مستحق فقیروں تک پہنچاتے ہیں تو صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٨2٢: ان گداگروں کے بارے میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں او رگدائی کے ذریعہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو بدنما بناتے ہیں خصوصاً اب جبکہ حکومت نے ان سب کو پکڑنے کا اقدام کیا ہے ؟ کیا ان کی مدد کرنا جائز ہے ؟
ج: کوشش کریں کہ صدقات متدین اور پاکدامن فقرا کو دیں ۔
س ١٨2٣:میں مسجد کاخادم ہوں اور میرا کام رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ ہوجاتا ہے اسی وجہ سے بعض نیک اورمخیر لوگ مجھے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتے ہیں کیا میرے لیئے اسکا لینا جائز ہے ؟
ج : جو کچھ وہ لوگ آپ کو دیتے ہیں وہ انکی طرف سے آپ کے ساتھ ایک نیکی ہے پس آپکے لیئے حلال ہے اور اسکے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
- عاریہ اور ودیعہ
عاریہ اور ودیعہ
س ١٨2٤: ایک کارخانہ اپنے تمام وسائل و آلات ، خام مال اور ان چیزوں سمیت جو بعض افراد نے امانت کے طور پر اسکے سپرد کر رکھی تھیں جَل گیا ہے کیا کارخانے کا مالک انکا ضامن ہے یا مینیجر ؟
ج : اگر آگ لگنے میں کوئی شخص ملوث نہ ہو اور کسی نے ان چیزوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کی ہو تو کوئی شخص ان کا ضامن نہیں ہے ۔
س ١٨2٥: ایک شخص نے اپنا تحریری وصیت نامہ کسی دوسرے کے حوالے کیا تا کہ اسکی وفات کے بعد اسکے بڑے بیٹے کی تحویل میں دیدے لیکن وہ اسے بڑے بیٹے کی تحویل میں دینے سے انکار کرتا ہے کیا اسکا یہ کام امانت میں خیانت شمار ہوگا ؟
ج: امانت رکھنے والے کی طرف سے معین کردہ شخص کو امانت واپس نہ کرنا ایک قسم کی خیانت ہے ۔
س ١٨2٦: فوجی ٹریننگ کی مدت کے دوران میں نے فوج سے اپنے ذاتی استفادے کیلئے کچھ اشیاء لیں لیکن ٹریننگ کی مدت ختم ہونے کے بعد میں نے وہ چیزیں واپس نہیں کیں، اس وقت ان کے سلسلے میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ کیا انکی قیمت مرکزی بینک کے عمومی خزانے میں جمع کرادینا کافی ہے ؟
ج : وہ اشیا جو آپ نے فوج سے لی تھیں اگر بطور عاریہ تھیں تو اگر وہ موجود ہوں خود انکا فوج کے اسی مرکز میں لوٹانا واجب ہے اور اگر نگہداشت و حفاظت میں کوتاہی اگرچہ وہ واپس کرنے میں تاخیر کی صورت میں ہوگی کی بناپر و ہ تلف ہوگئی ہوں تو فوج کو انکی قیمت یا مثل ادا کرناضروری ہے ورنہ آپکے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے ۔
س ١٨2٧: ایک امین شخص کو ایک شہر سے دوسرے میں منتقل کرنے کیلئے کچھ رقم دی گئی لیکن وہ راستے میں چوری ہوگئی کیا وہ شخص اس رقم کا ضامن ہے ؟
ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ اس شخص نے مال کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی اس وقت تک وہ ضامن نہیں۔
س ١٨2٨: میں نے اہل محلہ کی طرف سے مسجد کیلئے دی گئی رقومات میں سے مسجد کی تعمیر اور اسکے لئے بعض وسائل جیسے لوہا و غیرہ ،خریدنے کی خاطر مسجد کے ٹرسٹ سے کچھ رقم لی لیکن راستے میں وہ میری ذاتی چیزوں سمیت گم ہوگئی اب میری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج : اگر آپ نے اسکی حفاظت او رنگہداشت میں افراط و تفریط اور کوتاہی نہ کی ہو تو آپ ضامن نہیں ہیں۔
- وصیّت
وصیّت
س ١٨2٩: بعض شہداء نے یہ وصیت کی ہے کہ انکے ترکہ میں سے ایک تہائی دفاع مقدس کے محاذوں کی تقویت کیلئے خرچ کیا جائے اب جب ان وصیتوں کا موضوع ہی ختم ہوچکا ہے انکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر وصیت کے عمل کا مورد ختم ہوجائے تو وہ مال انکے ورثاء کی میراث قرار پائے گا اور احوط یہ ہے کہ ورثاء کی اجازت سے اسے کارخیر میں خرچ کیا جائے ۔
س ١٨3٠: میرے بھائی نے وصیت کی کہ اسکے مال کا ایک تہائی حصہ ایک خاص شہر کے جنگی مہاجرین کیلئے خرچ کیا جائے لیکن اس وقت مذکورہ شہر میں کوئی بھی جنگی مہاجر موجود نہیں ہے اسکے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر ثابت ہوجائے کہ جنگی مہاجرین سے موصی(وصیت کرنے والا) کی مرادوہ لوگ ہیں جو اس وقت اس شہر میں زندگی بسرکررہے ہیں تو اس صورت میں چونکہ اس وقت اس شہر میں کوئی مہاجر نہیں ہے اسکا مال ورثاء کو ملے گا ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ضروری ہے کہ وہ رقم ان جنگی مہاجرین کو دی جائے جو اس شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اگر چہ اس وقت وہ وہاں سے جاچکے ہوں ۔
س ١٨3١: کیا کسی شخص کیلئے یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ اسکے مرنے کے بعد اس کا آدھا مال اس کے ایصال ثواب کی مجلس میں خرچ کیا جائے یا یہ کہ اس مقدار کا معین کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اسلام نے ان موارد کیلئے خاص حدود کو معین کردیا ہے ؟
ج: وصیت کرنے والے کا اپنے اموال اپنے لئے ایصال ثواب کے کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی طور پر اسکے لیئے کوئی خاص حد معین نہیں ہے لیکن میت کی وصیت صرف اسکے ترکہ کے ایک تہائی حصے میں نافذ ہے اور اس سے زیادہ میں تصرف کرنا ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے۔
س ١٨3٢: کیا وصیت کرنا واجب ہے یعنی اگر انسان اسے ترک کرے تو گنا ہ کا مرتکب ہوگا ؟
ج : اگر اسکے پاس دوسروں کی امانتیں ہوں اور اسکے ذمے حقوق العباداورحقوق اللہ ہوں اور اپنی زندگی کے دوران انہیں ادا کرنے کی توانائی نہ رکھتا ہو تو انکے متعلق وصیت کرنا واجب ہے ورنہ واجب نہیں ہے ۔
س ١٨3٣: ایک شخص نے اپنے اموال میں سے ایک تہائی سے کم حصہ اپنی بیوی کو دینے کیلئے وصیت کی اور اپنے بڑے بیٹے کو اپنا وصی قرار دیا لیکن دیگر ورثا اس وصیت پر معترض ہیں اس صورت میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج : اگر وصیت اموال کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہوتو ورثاء کا اعتراض صحیح نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں ۔
س ١٨3٤: اگر ورثاء ، وصیت کا بالکل انکار کردیں تو اس صورت میں ذمہ داری کیا ہے ؟
ج : وصیت کے مدعی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے شرعی طریقے سے ثابت کرے اور ثابت کردینے کی صورت میں اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہو تو اسکے مطابق عمل کرنا واجب ہے اور ورثاء کا انکار اور اعتراض کوئی اثر نہیں رکھتا۔
س ١٨3٥: ایک شخص نے اپنے قابل اطمینان افراد کہ جن میں سے ایک خود اس کا بیٹا ہے کے سامنے وصیت کی کہ اسکے ذمہ جو شرعی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة ، کفارات اور اسی طرح اسکے ذمے جو بدنی واجبات ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ انہیں ادا کرنے کیلئے اسکی بعض املاک اسکے ترکہ سے نکال لی جائیں لیکن اسکے بعض ورثاء اسے قبول نہیں کرتے بلکہ وہ بغیر کسی استثناء کے تمام املاک ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟
ج :اگر دلیل شرعی یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ وصیت ثابت ہوجائے تو وہ ملک جسکی وصیت کی گئی ہے اگر پورے ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو انہیں اسکی تقسیم کے مطالبہ کا حق نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں اور میت کے ذمہ جومالی حقوق اور دیگر بدنی واجبات ہیں کہ جنکی میت نے وصیت کی ہے انکے ادا کرنے کیلئے خرچ کریں بلکہ اگر شرعی طریقہ سے یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ میت لوگوں کی مقروض ہے یا اسکے ذمہ خدا تعالیٰ کے مالی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة، کفارات یا اسکے ذمہ مالی و بدنی حقوق ہیں جیسے حج تو بھی ان پر واجب ہے کہ وہ اس کا پورا دین اسکے اصل ترکہ سے ادا کریں اور پھر باقیماندہ ترکہ اپنے درمیان تقسیم کریں اگر چہ انکے متعلق کوئی وصیت نہ بھی کی ہو ۔
س ١٨3٦: ایک شخص جو ایک زرعی زمین کا مالک ہے نے وصیت کی ہے کہ اس زمین کو مسجد کی تعمیر کیلئے خرچ کیا جائے لیکن اسکے ورثاء نے اسے فروخت کردیا ہے کیا متوفیٰ کی وصیت نافذ ہے ؟ اور کیا ورثاء اس ملک کو بیچنے کا حق رکھتے ہیں ؟
ج: اگر وصیّت کا محتوا یہ ہو کہ زرعی زمین کو بیچ کر اسکی قیمت مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت بھی ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو وصیت نافذ ہے اور زمین فروخت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت کرنے والے کی مراد یہ ہو کہ زمین کی آمدنی مسجد کی تعمیر کیلئے خرچ کی جائے تو اس صورت میں ورثاء کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س ١٨3٧: ایک شخص نے وصیت کی کہ اسکی اراضی میں سے ایک قطعہ اس کی طرف سے نماز و روزہ اور دوسرے نیک کام انجام دینے کیلئے خرچ کیا جائے کیا اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے یا اسے وقف شمار کیا جائے گا ؟
ج: جب تک قرائن و شواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہو کہ اسکی مراد یہ تھی کہ زمین اپنی حالت پر باقی رہے تا کہ اسکی آمدنی ان کاموں کیلئے خرچ کی جائے بلکہ فقط یہ وصیت کی ہو کہ زمین کو خود اسکے لیئے خرچ کیا جائے تو یہ وصیت زمین کے وقف کے حکم میں نہیں ہے ، پس اگر اسکی قیمت ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو اسکا فروخت کرنا اور اسکی قیمت کو خود اس کیلئے خرچ کرنے میں اشکال نہیں ہے ۔
س ١٨3٨: کیا جائز ہے کہ کچھ مال ترکہ کے ایک تہائی حصہ کے عنوان سے علیحدہ کر دیا جائے یا کسی شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تا کہ اسکی وفات کے بعد اسے اپنے مصرف میں خرچ کیا جائے ؟
ج : اس کام میں اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اسکی وفات کے بعد اسکے ورثاء کیلئے اسکے دوبرابر مال باقی رہے۔
س ١٨3٩: ایک شخص نے اپنے باپ کو وصیّت کی کہ کچھ مہینوں کی قضا نمازیں اور روزے اس کے ذمہ ہیں لہذا کسی کو اجیر بنا کر انکی قضا کرادینا اس وقت خود وہ شخص لاپتہ ہوگیا ہے کیا اسکے باپ پر واجب ہے کہ وہ اسکی قضا نما زوں اور روزوں کیلئے کسی کو اجیر بنائے؟
ج: جب تک وصیت کرنے والے کی موت ،شرعی دلیل یا وصی کے علم کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے اسکی طرف سے اسکی قضا نماز وں اورروزوں کوبجالانے کیلئے کسی کو اجیر بنانا صحیح نہیں ہے ۔
س ١٨4٠: میرے باپ نے اپنی زمین کے ایک تہائی حصے میں مسجد بنانے کی وصیت کی ہے لیکن اس زمین کے پڑوس میں دو مسجدیں موجود ہیں اور وہاں سکول کی سخت ضرورت ہے کیا جائز ہے کہ ہم مسجد کی جگہ وہاں سکول قائم کردیں؟
ج: مسجد کی جگہ سکول بنا کر وصیت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصود خود اس زمین میں مسجد بنانا نہ ہو تو اسے فروخت کرکے اسکی رقم سے کسی ایسی جگہ مسجد بنانے میں حرج نہیں ہے کہ جہاں مسجد کی ضرورت ہے۔
س ١٨4١: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ اسکی وفات کے بعد اس کا جسم میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دیا جائے تا کہ اسے چیر کر اس سے تعلیم و تعلم کیلئے استفادہ کیا جائے یا چونکہ یہ کام مسلمان میت کے جسم کو مُثلہ کرنے کا موجب بنتا ہے لہذا حرام ہے؟
ج : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مُثلہ اوراس جیسے دیگر امور کی حرمت پر جو دلیلیں ہیں وہ کسی اور چیز کی طرف ناظر ہیں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا گیا ہے اس جیسے امور کہ جن میں میت کے بدن کو چیرنے میں اہم مصلحت موجود ہے سے، منصرف ہیں اور اگر مسلمان میت کے احترام کی شرط کہ جو اس جیسے مسائل میں اصل مسلّم ہے حاصل ہو تو ظاہراً بدن کے چیرنے میں اشکال نہیں ہے۔
س ١٨4٢: اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اسکے مرنے کے بعد اسکے بدن کے بعض اعضاء کسی ہسپتال یا کسی دوسرے شخص کو ہدیے کے طور پردے دیئے جائیں تو کیا یہ وصیت صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج : اس قسم کی وصیتوں کا ان اعضاء کے متعلق صحیح اور نافذ ہونا بعید نہیں ہے کہ جنہیں بدن سے جدا کرنا بے احترامی نہ سمجھا جاتا ہو اور ایسے موارد میں وصیت پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
س ١٨4٣: اگر ورثاء ،وصیت کرنے والے کی حیات کے دوران ، ایک تہائی سے زیادہ میں اس کی وصیت کی اجازت دے دیں تو کیا یہ اس کے نافذ ہونے کیلئے کافی ہے؟ اور کافی ہونے کی صورت میں ، کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والے کے مرنے کے بعد ورثاء اپنی اجازت سے عدول کرلیں؟
ج :وصیت کرنے والے کی حیات کے دوران ورثاء کا ایک تہائی سے زیادہ کی نسبت اجازت دینا وصیت کے نافذ اور صحیح ہونے کیلئے کافی ہے اور اس کی وفات کے بعد انہیں اس سے عدول کرنے کاحق نہیں ہے اور ان کے عدول کا کوئی اثر نہیں ہے۔
س ١٨4٤: ایک شہید نے اپنی قضا نمازوں اور روزوں کے بارے میں وصیت کی لیکن اسکا کوئی ترکہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف گھر اور گھریلو سامان کہ جنہیں فروخت کرنے کی صورت میں اسکے نابالغ بچوں کیلئے عسر و حرج لازم آتا ہے۔ اس وصیت کے بارے میں اسکے ورثاء کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج: اگر اس شہید کا ترکہ اور میراث نہیں ہے تو اسکی وصیت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ، لیکن اسکے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجالائے لیکن اگر اسکا ترکہ موجود ہے تو واجب ہے کہ اسکا تیسرا حصہ اسکی وصیت کے سلسلے میں خرچ کیا جائے اور فقط ورثاء کا ضرورت مند اور صغیر ہونا وصیت پر عمل نہ کرنے کا عذر شرعی نہیں بن سکتا ۔
س ١٨4٥: کیا مال کے بارے میں وصیت کے صحیح اور نافذ ہونے کیلئے موصیٰ لہ(جسکے لئے وصیت کی گئی ہے) کا وصیت کے وقت موجود ہونا شرط ہے؟
ج : کسی شے کی تملیک کی وصیت میں موصیٰ لہ کاوصیت کے وقت وجود شرط ہے اگر چہ وہ جنین کی صورت میں ماں کے رحم میں ہو حتی اگر اس جنین میں ابھی روح پھونکی نہ گئی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ وہ زندہ دنیا میں آئے۔
س١٨4٦: وصیت کرنے والے نے اپنی وصیتوں کو عملی جامہ پہنا نے کیلئے اپنی تحریری وصیت میں وصی منصوب کرنے کے علاوہ ایک شخص کو ناظر کے عنوان سے منتخب کیا ہے لیکن اسکے اختیارات کے سلسلے میں وضاحت نہیں کی یعنی معلوم نہیں ہے کہ اسکی نظارت سے مراد صرف وصی کے کاموں سے مطلع ہونا ہے تا کہ وہ وصیت کرنے والے کے مقرر کردہ طریقہ کے خلاف عمل نہ کرے یا یہ کہ وہ وصیت کرنے والے کے کاموں کے سلسلے میں نگران ہے اور وصی کے کاموں کا اس ناظر کی رائے اور صوابدید کے مطابق انجام پا ناضروری ہے اس صورت میں ناظر کے اختیارات کیا ہیں؟
ج : اگر وصیت مطلق ہے تو وصی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اسکے امور میں ناظر کے ساتھ مشورہ کرے ، اگرچہ احوط یہی ہے اور ناظر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وصی کے کاموں سے مطلع ہونے کیلئے نظارت کرے۔
س ١٨4٧: ایک شخص اپنے بڑے بیٹے کو وصی اور مجھے اس پر ناظر بناکر فوت ہو گیا پھر اسکا بیٹا بھی وفات پاگیا اور میں اسکی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اکیلا رہ گیا ہوں لیکن اسوقت اپنے خاص حالات کی وجہ سے میرے لئے اسکے وصیت کردہ بعض امور کو انجام دینا مشکل ہوگیا ہے کیا میرے لئے مورد وصیت کو تبدیل کرنا جائز ہے کہ میں اسکے ترکہ کے تیسرے حصے سے حاصل ہونے والی آمدنی محکمہ حفظان صحت کو دے دوں تا کہ وہ اسے بھلائی کے کاموں اور اپنے زیر کفالت ضرورتمند افراد پر کہ جو مدد اور تعاون کے مستحق ہیں خرچ کر دے۔
ج : ناظر بطور مستقل میت کی وصیتوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا حتی کہ وصی کی موت کے بعدبھی مگر یہ کہ وصیت کرنے والے نے وصی کی موت کے بعد ناظر کووصی قرار دیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وصی کی موت کے بعد ضروری ہے کہ وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اسکی جگہ مقرر کرے بہرحال میت کی وصیت سے تجاوز اور اس میں رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ۔
س ١٨4٨: اگر ایک شخص وصیت کرے کہ اسکے اموال کا کچھ حصہ نجف اشرف میں تلاوت قرآن کی غرض سے خرچ کیا جائے یا وہ اپنا کچھ مال اس کام کیلئے وقف کردے اور وصی یا وقف کے متولی کیلئے نجف اشرف میں کسی کو تلاوت قرآن کیلئے اجیر بناکر وہاں مال بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس سلسلے میں اسکی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: اگر مستقبل میں بھی اس مال کا نجف اشرف میں تلاوت قرآن کیلئے خرچ کرنا ممکن ہو توواجب ہے کہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔
س ١٨4٩: میری والدہ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میں اس کا سونا جمعہ کی راتوں میں نیک کاموں کیلئے خرچ کروں اور میں اب تک اس کام کو انجام دیتا رہاہوں لیکن دوسرے ممالک کے سفر کے دوران کہ جنکے باشندوں کے بارے میں زیادہ احتمال یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ خرچ کرنے سے اسکی مراد مسلم اور غیر مسلم دونوں پر خرچ کرنا تھا توواجب ہے کہ وہ مال صرف مسلمانوں کیلئے بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جائے اگر چہ اس کیلئے یہ مال کسی اسلامی سرزمین میں ایک امین شخص کے پاس رکھناپڑے جو اسے مسلمانوں پر خرچ کرے۔
س ١٨5٠: ایک شخص نے وصیت کی کہ اسکی کچھ زمین بیچ کر اسکی رقم عزاداری اورنیکی کے کاموں میں خرچ کی جائے لیکن ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو بیچنا ورثا کیلئے مشکل اور زحمت کا سبب بنے گاکیونکہ مذکورہ زمین اور دوسری زمینوں کو علیحدہ کرنے میں بہت سی مشکلات ہیں کیا جائز ہے کہ خود ورثاء اس زمین کو قسطوں پر خریدلیں اور ہر سال اسکی کچھ قیمت ادا کرتے رہیں تاکہ اسے وصی اور ناظر کی نگرانی میں وصیت کے مورد میں خرچ کیا جائے۔
ج: ورثاء کیلئے وہ زمین اپنے لیئے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اوراسے قسطوں پر اور عادلانہ قیمت کے ساتھ خرید نے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ بات ثابت نہ ہوکہ وصیت کرنے والے کی مراد یہ تھی کہ اسکی زمین کو نقد بیچ کر اسی سال اسکی قیمت مورد وصیت میں خرچ کی جائے نیز اس کی شرط یہ ہے کہ وصی اور ناظر بھی اس کام میں مصلحت سمجھتے ہوں اور قسطیں بھی اسطرح نہ ہوں کہ وصیت نظر انداز ہوجائے اور اس پرعمل نہ ہو پائے۔
س١٨5١: ایک شخص نے جان لیوا بیماری کی حالت میں دو آدمیوں میں سے ایک کو وصی اور دوسرے کو نائب وصی کے طور پر مقرر کیا لیکن بعد میں اپنی رائے میں تبدیلی کی وجہ سے وصیت کو باطل کرکے وصی اور اسکے نائب کو اس سے آگاہ کردیا اور ایک دوسرا وصیت نامہ لکھا کہ جس میں اپنے ایک ایسے رشتہ دار کو اپنا وصی قرار دیا جو غائب ہے ، کیا اس عدول اور تبدیلی کے بعد بھی پہلی وصیت اپنی حالت پر باقی اور معتبر ہے؟ اور اگر دوسری وصیت صحیح ہے اور وہ غائب شخص وصی ہے تو اگر معزول وصی اور اسکا نائب وصیت کرنے والے کی باطل کردہ وصیت کا سہارا لیکر اس پر عمل کریں تو کیا انکا یہ عمل اور تصرف ظالمانہ شمار ہوگا اور کیا ان پر واجب ہے کہ جو کچھ انہوں نے میت کے مال سے خرچ کیا ہے وہ دوسرے وصی کو لوٹائیں؟
ج: اگر میت نے اپنی زندگی میں پہلی وصیت سے عدول کر لیا ہو اور اس نے پہلے وصی کو بھی معزول کردیا ہو تو معزول ہونے والا وصی اپنے معزول ہونے سے آگاہ ہونے کے بعد پہلی وصیت کا سہارا لیکر اس پر عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا لہذا وصیت سے متعلق مال کے سلسلے میں اسکے تصرفات فضولی شمار ہونگے اور وصی کی اجازت پر موقوف ہونگے اور اگر وصی انکی اجازت نہ دے تو معزول ہونے والا وصی ان اموال کا ضامن ہوگا جو اس نے خرچ کئے ہیں۔
س١٨5٢: ایک شخص نے وصیت کی ہے کہ اسکی املاک میں سے ایک ملک اسکے بیٹے کی ہے پھر دوسال کے بعد اس نے اپنی وصیت کو مکمل طور پر بدل دیا کیا اسکا پہلی وصیت سے دوسری وصیت کی طرف عدول کرنا شرعی طور پر صحیح ہے؟ جبکہ یہ شخص مریض ہے اور اسکی خدمت ونگہداری کی سخت ضرورت ہے ، کیا یہ ذمہ داری اسکے مقرر کردہ وصی یعنی اسکے بڑے بیٹے کی ہے یا یہ کہ اسکی ساری اولاد مساوی طور پر اسکی ذمہ دار ہے؟
ج: جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اور اس کا ذہنی توازن صحیح و سالم ہے تو شرعی طور پر اس کیلئے اپنی وصیت سے عدول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور شرعی لحاظ سے صحیح اورمعتبر بعد والی وصیت ہوگی اور اگر بیمار اپنی خدمت کیلئے کوئی نوکر رکھنے پر قادر نہ ہو تو مریض کی خدمت اور اسکی دیکھ بھال کی ذمہ داری اسکی تمام اس اولاد پر بطور مساوی ہے جو اسکی نگہداری کی قدرت رکھتی ہے اوریہ صرف وصی کی ذمہ داری نہیں ہے۔
س١٨5٣:ایک باپ نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لیئے وصیت کی ہے اور مجھے اپنا وصی بنایا ہے، میراث تقسیم کرنے کے بعد ایک تہائی مال الگ رکھ دیا ہے کیا میں اسکی وصیت کو پورا کرنے کیلئے ایک تہائی مال سے کچھ مقدار کو بیچ سکتا ہوں؟
ج: اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کا ایک تہائی مال اسکی وصیت کو پورا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے تو ترکہ سے جدا کرنے کے بعد اس کے بیچنے اور وصیت نامہ میں ذکر کئے گئے موارد میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت یہ کی ہو کہ ایک تہائی اموال سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعہ اسکی وصیت کو پورا کیا جائے تو اس صورت میں خود ایک تہائی مال کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ یہ وصیت کے موارد میں خرچ کیلئے ہو۔
س ١٨5٤: اگر وصیت کرنے والا، وصی اور ناظر کو معین کرے ، لیکن انکے اختیارات اور فرائض کو ذکر نہ کرے اور اسی طرح اپنے ایک تہائی اموال اور انکے مصارف کا بھی ذکر نہ کرے ، اس صورت میں وصی کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا جائز ہے کہ وصی اسکے ترکہ سے ایک تہائی اموال الگ کرکے نیکی کے کاموں میں خرچ کردے؟ کیا صرف وصیت کرنے اور وصی کے معین کرنے سے وصی کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ وصیت کرنے والے کے ترکہ سے ایک تہائی اموال کو جدا کرے تا کہ اس پر ایک تہائی اموال الگ کر کے انہیں وصیت کرنے والے کیلئے خرچ کرنا واجب ہو؟
ج: اگر قرائن و شواہد یا وہاں کے مقامی عرف کے ذریعہ وصیت کرنے والے کا مقصود معلوم ہوجائے تو واجب ہے کہ وصی وصیت کے مورد کی تشخیص اور وصیت کرنے والے کے مقصود کہ جسے وہ ان ذرائع سے سمجھا ہے کے مطابق عمل کرے ورنہ وصیت مبہم اور متعلقِ وصیت کے ذکر نہ کرنے کی بناپر باطل اور لغو قرار پائے گی۔
س ١٨5٥: ایک شخص نے اس طرح وصیت کی ہے کہ : " تمام سلے اور ان سلے کپڑے و غیرہ میری بیوی کے ہیں" کیا کلمہ ' 'و غیرہ " سے مراد اسکے منقولہ اموال ہیں یا وہ چیزیں مراد ہیں جو لباس اور کپڑے سے کمتر ہیں جیسے جوتا اور اسکی مانند؟
ج: جب تک وصیت نامہ میں مذکور کلمہ " وغیرہ " سے اسکی مراد معلوم نہ ہوجائے اورکسی دوسرے قرینے سے بھی وصیت کرنے والے کی مراد اس سے سمجھ میں نہ آئے تو وصیت نامہ کا یہ جملہ مبہم ہونے کی بنا پر قابل عمل نہیں ہے اور سوال میں بیان کئے گئے احتمالات پر اسکی تطبیق کرنا ورثاء کی رضامندی اور موافقت پر موقوف ہے۔
س١٨5٦: ایک عورت نے وصیت کی کہ اسکے ترکے کے ایک تہائی مال سے اسکی آٹھ سال کی قضا نمازیں پڑھائی جائیں اور باقی مال رد مظالم ، خمس اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔ اور چونکہ اس وصیت پر عمل کرنے کا زمانہ دفاع مقدس کا زمانہ تھا کہ جس میں محاذ جنگ پر مدد پہنچانا بہت ضروری تھا اور وصی کو یہ یقین ہے کہ عورت کے ذمہ ایک بھی قضا نماز نہیں ہے لیکن پھر بھی اس نے اسکی دو سال کی نمازوں کیلئے ایک شخص کو اجیر بنایا اور ایک تہائی مال کا کچھ حصہ محاذجنگ پر مدد کیلئے بھیج دیا اور باقی مال خمس ادا کرنے اور رد مظالم میں خرچ کردیا ۔کیا وصیت پر عمل کرنے کے سلسلے میں وصی کے ذمہ کوئی چیز باقی ہے؟
ج: وصیت پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جس طرح میت نے کی ہے۔اور کسی ایک مورد میں بھی وصی کیلئے وصیت پر عمل کو ترک کرنا جائز نہیں ہے لہذا اگر کچھ مال وصیت کے علاوہ کسی اور جگہ میں خرچ کیا ہو تو وہ اس مقدار کاضامن ہے ۔
س ١٨5٧: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصیت کی کہ اسکی وفات کے بعد وصیت نامہ میں مذکور مطالب کے مطابق عمل کریں اور وصیت نامہ کی تیسری شق میں یوں لکھاہے کہ وصیت کرنے والے کا تمام ترکہ ۔چاہے وہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ، نقد رقم ہو یا لوگوں کے پاس قرض کی صورت میں ۔ جمع کیا جائے اور اس کا قرض اسکے اصل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ، اسکا ایک تہائی حصہ جدا کرکے وصیت نامہ کی شق نمبر٤، ٥اور٦ کے مطابق خرچ کیا جائے ، اور سترہ سال کے بعد اس ایک تہائی حصے کاباقی ماندہ اسکے فقیر ورثاء پر خرچ کیا جائے لیکن وصیت کرنے والے کے دونوں وصی اسکی وفات سے لیکر اس مدت کے ختم ہونے تک اسکے مال کا ایک تہائی حصہ جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کیلئے مذکورہ شقوق پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ورثاء مدعی ہیں کہ مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد وصیت نامہ باطل ہوچکاہے اور اب وہ دونوں و صی وصیت کرنے والے کے اموال میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتے اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟ اور ان دونوں وصیوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج : وصیت پر عمل کرنے میں تاخیر سے وصیت اور وصی کی وصایت ( وصی کا وصی ہونا) باطل نہیں ہوتا بلکہ ان دو وصیوں پر واجب ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اگر چہ اسکی مدت طولانی ہوجائے اور جب تک انکی وصایت ایسی خاص مدت تک نہ ہو جو ختم ہوگئی ہو اس وقت تک ورثاء کو حق نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کیلئے وصیت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنیں۔
س ١٨5٨: میت کے ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم ہونے اور انکے نام ملکیت کی دستاویزجاری ہونے کے چھ سال گزرنے کے بعد ورثاء میں سے ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ متوفیٰ نے زبانی طور پر اسے وصیت کی تھی کہ گھر کا کچھ حصہ اسکے ایک بیٹے کو دیا جائے اور بعض عورتیں بھی اس امر کی گواہی دیتی ہیں کیا مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اسکا یہ دعویٰ قابل قبول ہے ؟
ج: اگر شرعی دلیل سے وصیت ثابت ہوجائے توزمانے کے گزرنے اور ترکہ کی تقسیم کے قانونی مراحل طے ہوجانے سے وصیت کے قابل قبول ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔نتیجةً اگر مدعی اپنے دعوے کو شرعی طریقے سے ثابت کردے تو سب پر واجب ہے کہ اسکے مطابق عمل کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو جس شخص نے اسکے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اسکے محتوا کے مطابق اور ترکہ میں سے اپنے حصے کی مقدار میں اس پر عمل کرے ۔
س ١٨5٩ : ایک شخص نے دوآدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک قطعہ فروخت کرکے اسکی طرف سے حج بجالائیں اور اپنے وصیت نامہ میں اس نے ان میں سے ایک کو اپنا وصی اور دوسرے کو اس پر ناظر مقرر کیا ہے ایک تیسرا شخص ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وصی اور ناظر کی اجازت کے بغیر اسکی طرف سے حج انجام دے دیا ہے اب وصی فوت ہوچکا ہے اور ناظر زندہ ہے کیا ناظر کیلئے ضروری ہے کہ وہ زمین کی رقم سے میت کی طرف سے دوبارہ فریضہ حج بجا لائے؟ یا اس پر واجب ہے کہ زمین کی رقم اس شخص کو دے دے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے میت کی طرف سے فریضۂ حج ادا کردیا ہے یا اس سلسلے میں اس پر کچھ واجب نہیں ہے ؟
ج: اگرمیت پر حج واجب ہو او روہ وصیت کے ذریعہ نائب کے توسط سے اسے ادا کرانا چاہتا ہو تو اگر تیسرا شخص میت کی طرف سے حج بجالائے تو اس کیلئے کافی ہے لیکن اس شخص کو کسی سے اجرت طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ناظر اور وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اور زمین کی رقم سے اس کی طرف سے فریضۂ حج کو بجالائیں اور اگر وصی، وصیت پر عمل کرنے سے پہلے مرجائے تو ناظر پر واجب ہے کہ وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم شرع کی طرف رجوع کرے ۔
س ١٨6٠: کیا ورثاء ، وصی کو میت کی قضا نمازوں اور روزوں کے ادا کرنے کیلئے معین رقم خرچ کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور اس سلسلے میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج: میت کی وصیت پر عمل کرنے کی ذمہ داری وصی کی ہے اور اس کیلئے اپنے تشخیص کردہ مصالح پر عمل کرنا ضروری ہے اور ورثاء کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س ١٨6١:تیل کے ذخائر پربمباری کے موقع پر وصیت کرنے والے کی شہادت ہوجاتی ہے اور تحریری وصیت جو اسکے ہمراہ تھی وہ بھی اس حادثے میں جل جاتی ہے یا گم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی اسکے متن اور محتوا سے آگاہ نہیں ہے اس وقت وصی نہیں جانتا کہ کیا وہ اکیلا اس کا وصی ہے یا کوئی دوسرا شخص بھی ہے ، اس صورت میں اسکی ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: اصل وصیت کے ثابت ہونے کے بعد ، وصی پر واجب ہے کہ جن موارد میں اسے تبدیلی کا یقین نہیں ہے ان میں وصیت کے مطابق عمل کرے اور اس احتمال کی پروا نہ کرے کہ ممکن ہے کوئی دوسرا وصی بھی ہو ۔
س ١٨6٢: کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والا اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنے وصی کے طور پر منتخب کرے؟ اور کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسکے اس کام کی مخالفت کرے ؟
ج : وصیت کرنے والا جن افراد کو اس کام کے لائق سمجھتاہے ان میں سے وصی کا انتخاب اور اس کا مقرر کرنا خود اس کے ہاتھ میں ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا وصی بنائے اور اسکے ورثاء کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س ١٨6٣: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء دوسروں کے ساتھ مشورہ کئے بغیر یا وصی کی موافقت حاصل کرنے کیلئے میت کے اموال سے وصی کی دعوت کے عنوان سے اسکے لیئے انفاق کریں ؟
ج: اگر اس کام سے انکی نیت وصیت پر عمل کرنا ہے تو اسکا انجام دینا میت کے وصی کے ذمہ ہے اور انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وصی کی موافقت کے بغیر اپنے طور پر یہ کام کریں اور اگر انکا ارادہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء کی میراث میں سے خرچ کریں تو اسکے لیئے بھی تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو دوسرے ورثاء کے حصے کی نسبت یہ کام غصب کے حکم میں ہے۔
س ١٨6٤: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں ذکر کیا ہے کہ فلاں شخص اسکا پہلا وصی ، زید دوسرا وصی اور خالد تیسرا وصی ہے کیا تینوں اشخاص باہمی طور پراسکے وصی ہیں یا یہ کہ صرف پہلا شخص اسکا وصی ہے؟
ج: یہ چیز وصیت کرنے والے کی نظر اور اسکے قصد کے تابع ہے اورجب تک قرائن وشواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہوجائے کہ اسکی مراد تین اشخاص کی اجتماعی وصایت ہے یا ترتیبی وصایت ، ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر اجتماعی طور پر عمل کریں ۔
س ١٨6٥: اگر وصیت کرنے والا تین افراد کو اجتماعی طور پر اپنا وصی مقرر کرے لیکن وہ لوگ وصیت پر عمل کرنے کی روش پر متفق نہ ہوں تو ان کے درمیان اس اختلاف کو کیسے حل کیا جائے ؟
ج : اگر وصی متعدد ہوں اور وصیت پر عمل کرنے کے طریقے میں اختلاف ہوجائے تو ان پر واجب ہے کہ حاکم شرع کی طرف رجوع کریں ۔
س ١٨6٦: میں اپنے باپ کا بڑا بیٹاہوں اور شرعی طور پر اسکی قضا نمازوں اور روزوں کو بجا لانے کا ذمہ دار ہوں اگر میرے باپ کے ذمہ کئی سال کی قضا نمازیں اور روزے ہوں لیکن اس نے وصیت کی ہو کہ اسکے لیے صرف ایک سال کی قضا نمازیں اور روزے ادا کئے جائیں تواس صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ اسکی قضا نمازوں اور روزوں کی اجرت اسکے ایک تہائی ترکہ سے ادا کی جائے تو ایک تہائی ترکہ سے کسی شخص کو اسکی نمازوں اور روزوں کیلئے اجیر بناناجائز ہے اور اگر اسکے ذمہ قضا نمازیں اور روزے اس مقدار سے زیادہ ہوں کہ جسکی اس نے وصیت کی ہے تو آپ پر انکا بجالانا واجب ہے اگر چہ اس کیلئے آپ اپنے اموال سے کسی کو اجیر بنائیں۔
س ١٨6٧: ایک شخص نے اپنے بڑے بیٹے کو وصیت کی ہے کہ اسکی اراضی میں سے ایک معین قطعہ فروخت کر کے اسکی رقم سے اسکی طرف سے حج بجالائے اور اس نے بھی یہ عہد کیا کہ باپ کی طرف سے حج بجالائے گا لیکن ادارہ حج و زیارات کی طرف سے اسے سفرِ حج کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ حج انجام نہیں دے سکا اور اس وقت چونکہ حج کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لئے اس زمین کی رقم سے حج پر جانا ممکن نہیں ہے لہذا باپ کی وصیت پر بڑے بیٹے کا عمل کرنا اسوقت ناممکن ہوگیا ہے او روہ کسی دوسرے کو حج انجام دینے کیلئے نائب بنا نے پر مجبور ہے لیکن زمین کی رقم نیابت کی اجرت کیلئے کافی نہیں ہے کیا باقی ورثاء پر واجب ہے کہ باپ کی وصیت پر عمل کرنے کیلئے اسکے ساتھ تعاون کریں یا یہ کہ صرف بڑے بیٹے پر اسکا انجام دینا واجب ہے کیوں کہ بہرحال بڑے بیٹے کیلئے باپ کی طرف سے فریضہ حج کو انجام دینا ضروری ہے؟
ج : سوال کی روشنی میں حج کے اخراجات دیگرورثاء پر واجب نہیں ہیں لیکن اگر وصیت کرنے والے کے ذمے میں حج مستقر ہوچکاہے اور زمین کی وہ رقم جو نیابتی حج انجام دینے کیلئے معین کی گئی ہے وہ میقات سے نیابتی حج کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہ ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ حج میقاتی کے اخراجات اصل ترکے سے پورے کئے جائیں ۔
س ١٨6٨: اگر ایسی رسید موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ میت نے اپنے شرعی حقوق ادا کئے ہیں یا کچھ لوگ گواہی دیں کہ وہ اپنے حقوق ادا کرتا تھا تو کیا ورثاء پر اسکے ترکہ سے اسکے شرعی حقوق ادا کرنا واجب ہے ؟
ج : محض رسید کا موجود ہونا اور گواہوں کا گواہی دینا کہ وہ اپنے حقوقِ شرعی ادا کرتا تھا میت کے بری الذمہ ہونے پر حجت شرعی نہیں ہے اور اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوگا کہ اسکے مال میں حقوق شرعی نہیں تھے لذا اگر اس نے اپنی حیات کے دوران یا وصیت نامہ میں اس بات کا اعتراف کیا ہو کہ وہ کچھ مقدار حقوق شرعی کا مقروض ہے یا اسکے ترکہ میں حقوق شرعی موجود ہیں یا ورثاء کو اس کا یقین حاصل ہوجائے تو ان پرواجب ہے کہ جس مقدار کا میت نے اقرار کیا ہے یا جس مقدار کا انہیں یقین حاصل ہوگیا ہے اسے میت کے اصل ترکہ سے ادا کریں ورنہ ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔
س ١٨6٩: ایک شخص نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لیئے وصیت کی اور اپنے وصیت نامہ کے حاشیہ پر قید لگادی کہ باغ میں جو گھر ہے وہ ایک تہائی حصہ کے مصارف کیلئے ہے اور اسکی وفات کے بیس سال گزرنے کے بعد وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے بیچ کراسکی رقم اسکے لیئے خرچ کرے کیا ایک تہائی حصہ اسکے پورے ترکہ یعنی گھر اور اسکے دیگر اموال سے حساب کیا جائیگا تاکہ اگر گھر کی قیمت ایک تہائی مقدار سے کمتر ہو تو اسے اسکے دیگر اموال سے پورا کیا جائے یا یہ کہ ایک تہائی حصہ صرف اس کا گھر ہے اور ورثاء سے تہائی حصہ کے عنوان سے دوسرے اموال نہیں لیئے جائیں گے ؟
ج : جو کچھ میت نے وصیت نامے اور اسکے حاشیہ میں ذکر کیا ہے اگر اس سے اس کا مقصود صرف اپنے گھر کو ایک تہائی کے عنوان سے اپنے لئے معین کرنا ہو اور وہ گھر بھی میت کا قرض ادا کرنے کے بعد اسکے مجموعی ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف گھر ایک تہائی ہے اور وہ میت سے مختص ہے اور یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب ا س نے اپنے لیئے ترکہ کے ایک تہائی کی وصیت کے بعد گھر کو اس کے مصارف کیلئے معین کیا ہو اور اس گھر کی قیمت میت کے قرض کو ادا کرنے کے بعد باقی بچنے والے ترکہ کا ایک تہائی ہواوراگر ایسا نہ ہو تو ضروری ہے کہ ترکے کے دوسرے اموال میں سے اتنی مقدار گھر کی قیمت کے ساتھ ملائی جائے کہ انکی مجموعی مقدار ترکے کے ایک تہائی کے برابر ہوجائے؟
س ١٨7٠: ترکہ کو تقسیم کئے ہوئے بیس سال گزر گئے ہیں اور چار سال پہلے میت کی بیٹی اپنا حصہ فروخت کرچکی ہے اب ماں نے ایک وصیت نامہ ظاہر کیا ہے جسکی بنیاد پر شوہر کے تمام اموال اسکی بیوی کے متعلق ہیں اور اسی طرح اس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ وصیت نامہ اسکے شوہر کی وفات کے وقت سے اسکے پاس تھا لیکن اس نے ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا کیا اسکی بناپر میراث کی تقسیم اور میت کی بیٹی کا اپنے حصے کو فروخت کرنا باطل ہوجائے گا ؟ اور باطل ہونے کی صورت میں ، کیا اس ملک کی قانونی دستاویز کوجسے تیسرے شخص نے میت کی بیٹی سے خریدا ہے ، میت کی بیٹی اور اسکی ماں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے باطل کرنا صحیح ہے ؟
ج: مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے اور دلیل معتبر کے ذریعہ اسکے ثابت ہونے کی صورت میں، چونکہ ماں کو اپنے شوہر کی وفات سے لیکر ترکہ کی تقسیم تک اس وصیت کے بارے میں علم تھا اوربیٹی کو اسکا حصہ دیتے وقت اور اسکا اپنے حصے کو کسی دوسرے کے پاس فروخت کے وقت ، وصیت نامہ ماں کے پاس تھا لیکن اسکے باوجود اس نے وصیت کے بارے میں خاموشی اختیار کی اور بیٹی کو اس کا حصہ دینے پرکوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ اعتراض کر سکتی تھی اور اعتراض کرنے سے کوئی چیز مانع بھی نہ تھی اور اسی طرح جب بیٹی نے اپنا حصہ فروخت کیا تب بھی اس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماں لڑکی کے میراث کا حصہ لینے اور پھر اسکے فروخت کرنے پر راضی تھی ۔اسکے بعد ماں کو حق حاصل نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے لڑکی کو دیا ہے اسکا مطالبہ کرے اسی طرح و ہ خریدار سے بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور اسکی لڑکی نے جو معاملہ کیا ہے وہ صحیح ہے اور بیچی گئی چیز بھی خریدار کی ملکیت ہے۔
س ١٨7١: ایک شہید نے اپنے باپ کو وصیت کی کہ اگر اسکا قرض ادا کرنا اسکا مکان فروخت کئے بغیر ممکن نہ ہو تو اسکا مکان بیچ دے اور اسکی رقم سے اسکا قرض ادا کرے اسی طرح اس نے یہ بھی وصیت کی کہ کچھ رقم نیک کاموں میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت اسکے ماموں کو دی جائے اور اسکی ماں کو حج پربھیجے او رکچھ سالوں کی قضا نمازیں اور روزے اسکی طرف سے بجالائے جائیں پھر اسکے بعد اسکے بھائی نے اسکی بیوی سے شادی کرلی اور اس بات سے آگاہ ہونے کے ساتھ کہ گھر کا ایک حصہ شہید کی بیوی نے خرید لیا ہے وہ اس گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور اس نے مکان کی تعمیر کیلئے کچھ رقم بھی خرچ کردی اور شہید کے بیٹے سے سونے کا ایک سکہ بھی لے لیا تا کہ اسے گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے شہید کے گھر اور اسکے بیٹے کے اموال میں اسکے تصرفات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس امر کے پیش نظر کہ اس نے شہید کے بیٹے کی تربیت کی ہے اور اسکے اخراجات پورے کئے ہیں اسکا اس ماہانہ وظیفہ سے استفادہ کرنا جو شہید کے بیٹے سے مخصوص ہے کیا حکم رکھتاہے؟
ج : واجب ہے کہ اس شہید عزیز کے تمام اموال کا حساب کیا جا ئے اور اس سے اسکے تمام قرضے ادا کرنے کے بعد ، اسکے باقیماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ اسکی وصیت پر عمل کرنے کیلئے خرچ کیا جائے چنانچہ قضا نمازوں اور روزوں کے سلسلے میں اسکی وصیتوں کو پورا کیا جائے ،اسکی ماں کو سفرحج کے لئے اخراجات فراہم کئے جائیں اور اسی طرح دوسرے کام اور پھر دیگر دو حصوں اور مذکورہ ایک تہائی کے باقیماندہ مال کو شہید کے و رثا یعنی باپ ماں اولاد اور اس کی بیوی کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔اور اسکے گھر اور باقی اموال میں ہر قسم کے تصرفات کیلئے شہید کے ورثاء اور اسکے بچے کے شرعی ولی کی اجازت لینا ضروری ہے اور شہید کے بھائی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس نے گھر کی تعمیرکیلئے نابالغ بچے کے ولی کی اجازت کے بغیر جو اخراجات کئے ہیں انہیں وہ نابالغ کے مال سے وصول کرے اور اسی طرح اسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ نابالغ بچے کا سونے کا سکہ اور اس کا ماہانہ وظیفہ گھر کی تعمیر اور اپنے مخارج میں خرچ کرے بلکہ وہ انہیں خود بچے پر بھی خرچ نہیں کرسکتا البتہ اسکے شرعی ولی کی اجاز ت سے ایسا کرسکتا ہے ور نہ وہ اس مال کا ضامن ہوگا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ مال بچے کو واپس لوٹا دے اور اسی طرح ضروری ہے کہ گھر کی خرید بھی بچے کے شرعی ولی کی اجازت سے ہو۔
س١٨7٢: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا ہے کہ اسکے تمام اموال جو تین ایکڑپھلوں کے باغ پر مشتمل ہیں ان میں اس طرح مصالحت ہوئی ہے کہ اسکی وفات کے بعد ان میں سے دو ایکڑ اسکی اولاد میں سے بعض کیلئے ہواور تیسرا ایکڑ خود اس کیلئے رہے تا کہ اسے اسکی وصیت کے مطابق خرچ کیا جائے لیکن اسکی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ اسکے تمام باغات کا رقبہ دوایکڑ سے بھی کم ہے لہذا اولاً تو یہ بتائیے کہ جو کچھ اس نے وصیت نامہ میں لکھا ہے کیا وہ اسکے اموال پر اسی طرح مصالحہ شمار کیاجائے گا جیسے اس نے لکھا ہے یا یہ کہ اسکی وفات کے بعد اسکے اموال کے سلسلے میں وصیت شمار ہوگی ؟ ثانیاً جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسکے باغات کا رقبہ دو ایکڑ سے کمتر ہے تو کیا یہ سب اسکی اولاد سے مخصوص ہوگااورایک ایکڑ جو اس نے اپنے لیئے مخصوص کیاتھا منتفی ہوجائے گا یا یہ کہ کسی اور طرح سے عمل کیا جائے؟
ج : جب تک اس کی طرف سے اسکی زندگی میں صحیح اورشرعی صورت پر صلح کا ہونا ثابت نہ ہوجائے ـکہ جو اس بات پر موقوف ہے کہ جس سے صلح کی گئی ہے (مصالح لہ ) وہ صلح کرنے والے (مصالح) کی زندگی میں صلح کو قبول کرلے۔ اسوقت تک جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اسے وصیت شمار کیا جائے گا چنانچہ اسکی وصیت جو اس نے پھلوں کے باغات کے متعلق اپنی بعض اولاد اور خود اپنے لئے کی ہے وہ اسکے پورے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوگی اور اس سے زائد میں ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ایک تہائی سے زائد حصہ انکی محصے یراث ہے ۔
س ١٨7٣: ایک شخص نے اپنے تمام اموال اس شرط پر اپنے بیٹے کے نام کردیئے کہ باپ کی وفات کے بعد اپنی ہربہن کو میراث سے اسکے حصے کی بجائے نقد رقم کی ایک معین مقدار دے گا لیکن باپ کی وفات کے وقت اسکی بہنوں میں سے ایک بہن موجود نہ تھی جس کے نتیجے میں وہ اپنا حق نہ لے سکی جب وہ اس شہر میں واپس آئی تواس نے بھائی سے اپنا حق طلب کیا لیکن اس کے بھائی نے اس وقت اسے کچھ نہیں دیا اب جب کہ اس واقعہ کوکئی سال گزر چکے ہیں اور جس رقم کی وصیت کی گئی تھی اس کی قیمت کافی کم ہو گئی ہے اس وقت اسکے بھائی نے وصیت شدہ رقم ادا کرنے کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بہن وہ رقم موجودہ قیمت کے مطابق طلب کرتی ہے اور اسکا بھائی اسے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور بہن پر سود مانگنے کا الزام لگاتاہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اورشرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جسکی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو احوط یہ ہے کہ دونوں اس مقدار کے تفاوت کےسلسلے میں با ہمی طور پر مصالحت کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔
س ١٨7٤: میرے ماں باپ نے اپنی زندگی میں اپنے سب بچوں کے سامنے اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کے عنوان سے اپنی زرعی زمین کا ایک قطعہ مختص کیا تا کہ انکی وفات کے بعد اس سے کفن ، دفن اور قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے اخراجات میں استفادہ کیا جائے چونکہ میں انکا تنہا بیٹاہوں لہذا اس کے متعلق انہوں نے مجھے وصیت کی اورچونکہ انکی وفات کے بعدانکے پاس نقد رقم نہیں تھی لذا ان تمام امور کو انجام دینے کیلئے میں نے اپنی طرف سے رقم خرچ کی کیا اب میں وہ رقم مذکورہ ایک تہائی حصے سے لے سکتا ہوں۔
ج: جو کچھ آپ نے میت کیلئے خرچ کیا ہے اگر وہ اس نیت سے خرچ کیا ہو کہ اسے وصیت نامہ کے مطابق اسکے ایک تہائی اموال سے لے لوں گا تو آپ لے سکتے ہیں ورنہ جائز نہیں ہے۔
س ١٨7٥: ایک شخص نے وصیت کی کہ اگر اسکی بیوی اسکے مرنے کے بعد شادی نہ کرے تو جس گھر میں وہ رہتی ہے اسکا تیسرا حصہ اسکی ملکیت ہے اور اس بات کے پیش نظر کہ اسکی عدت کی مدت گزر گئی ہے اور اس نے شادی نہیں کی اور مستقبل میں بھی اسکے شادی کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تو وصیت کرنے والے کی وصیت پر عمل کے سلسلے میں وصی اوردیگر ورثا کی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: ان پر واجب ہے کہ فی الحال جسکی وصیت کی گئی ہے وہ ملک اسکی بیوی کو دے دیں لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے چنانچہ اگر بعد میں وہ شادی کرلے تو ورثاء کو فسخ کرنے اور ملک واپس لینے کا حق ہوگا۔
س ١٨7٦: جب ہم نے باپ کی وہ میراث تقسیم کرنے کاارادہ کیا جو اسے اپنے باپ سے ملی تھی اور جو ہمارے ،ہمارے چچا اور ہماری دادی کے درمیان مشترک تھی اور انہیں بھی وہ مال ہمارے دادا کی طرف سے وراثت میں ملاتھا تو انھوں نے دادا کا تیس سال پرانا وصیت نامہ پیش کیا جس میں دادی اور چچا میں سے ہر ایک کو میراث سے انکے حصے کے علاوہ ، معین مقدار میں نقد رقم کی بھی وصیت کی گئی تھی لیکن ان دونوں نے مذکورہ رقم کو اسکی موجودہ قیمت میں تبدیل کرکے مشترکہ اموال سے وصیت شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اپنے لیئے مخصوص کرلیا ہے کیا انکا یہ کام شرعی طور پر صحیح ہے؟
ج: احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے تفاوت کے متعلق با ہمی طور پر مصالحت کریں۔
س ١٨7٧: ایک شہید عزیز نے وصیت کی ہے کہ جو قالین اس نے اپنے گھر کیلئے خریدا ہے اسے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حرم کو ہدیہ کردیا جائے ، اسوقت اگر اسکی وصیت پر عمل کے امکان تک اس قالین کو ہم اپنے گھر میں رکھیں تو اسکے ضائع ہونے کا خوف ہے ۔ کیا نقصان سے بچنے کیلئے اس سے محلہ کی مسجد یا امام بارگاہ میں استفادہ کر سکتے ہیں؟
ج: اگر وصیت پر عمل کرنے کا امکان پیدا ہونے تک قالین کی حفاظت اس بات پر موقوف ہو کہ اسے وقتی طور پر مسجد یا امام بارگاہ میں استعمال کیا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے۔
س ١٨7٨: ایک شخص نے وصیت کی کہ اسکی بعض املاک کی آمدنی کی ایک مقدار مسجد ، امام بارگاہ ، دینی مجالس اور نیکی کے دیگر کاموں میں خرچ کی جائے لیکن اسکی مذکورہ ملک اور دوسری املاک غصب ہوگئی ہیں اور انکے غاصب سے واپس لینے کیلئے خرچ کرنے کی ضرورت ہے کیا ان اخراجات کااسکی وصیت کردہ مقدار سے وصول کرنا جائز ہے؟ اور کیاصرف ملک کے غصب سے آزاد ہونے کا امکان وصیت کے صحیح ہونے کیلئے کافی ہے؟
ج: غاصب کے قبضہ سے املاک واپس لینے کے اخراجات وصیت شدہ ملک سے وصول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کسی ملک کے بارے میں وصیت کے صحیح ہونے کیلئے اس کا وصیت کے مورد میں قابل استفادہ ہونا کافی ہے اگر چہ یہ غاصب کے ہاتھ سے مال واپس لینے اور اس کیلئے خرچ کرنے کے بعد ہی ممکن ہو۔
س ١٨7٩: ایک شخص نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال کی اپنے بیٹے کیلئے وصیت کی اور یوں اس نے چھ بیٹیوں کو میراث سے محروم کردیا کیا یہ وصیت نافذ اور قابل عمل ہے؟ اور اگر قابل عمل نہیں ہے تو ان اموال کو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے؟
ج: اجمالی طور پر مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ میراث کے صرف تیسرے حصے میں نافذ ہے اور اس سے زائد مقدار میں تمام ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے ۔ نتیجتاً اگر بیٹیاں اسکی اجازت سے انکار کریں تو ان میں سے ہر ایک ترکہ کے باقیماندہ دو تہائی میں سے اپنا حصہ لے گی لہذا اس صورت میں باپ کا مال چو بیس حصوں میں تقسیم ہوگا اور اس میں سے بیٹے کا حصہ وصیت شدہ مال کے ایک تہائی کے عنوان سے ٢٤/٨اور باقی ماندہ دو تہائی (٢٤/١٦)میں سے بیٹے کا حصہ ٢٤/٤ہوگا اور بیٹیوں میں سے ہرایک کا حصہ ٢٤/٢ ہوگا اور باالفاظ دیگر پورے ترکے کا آدھا حصہ بیٹے کا ہے اور دوسرا آدھا حصہ چھ بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔
- غصب
غصب کے احکام
س ١٨8٠: ایک شخص نے زمین کا ایک قطعہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر خرید کر ایک معمولی دستاویز اسکے نام پر یوں مرتب کی:" فروخت کرنے والا فلاں شخص ہے اور خریدنے والا بھی اسکا فلاں بیٹا ہے" بچے نے بالغ ہونے کے بعد وہ زمین دوسرے شخص کو فروخت کردی لیکن باپ کے ورثاء دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انکے باپ کی میراث ہے اور باوجود اس کے کہ انکے باپ کا اس دستاویز میں نام ہی نہیں ہے انہوں نے اس زمین پر قبضہ کر لیا ہے ۔ کیا اس صورت میں ورثادوسرے خریدارکیلئے مزاحمت پیدا کرسکتے ہیں؟
ج: صرف معاملہ کی دستاویز میں نابالغ بچے کا نام خریدار کے طور پر ذکر ہونا اسکی ملکیت کی دلیل نہیں ہے البتہ اگر ثابت ہو جائے کہ باپ نے جو زمین اپنے پیسے سے خریدی ہے اسے اپنے بیٹے کو ہبہ کردیا ہے یا اسکے ساتھ صلح کرلی ہے تو اس صورت میں زمین بیٹے کی ملکیت ہے اور بالغ ہونے کے بعد اگروہ زمین صحیح شرعی طور پر دوسرے خریدار کو فروخت کردے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسکے لیئے رکاوٹ پیداکرے یا اس سے زمین چھینے۔
س ١٨8١: زمین کا ایک قطعہ جسے چندخریداروں نے خریدا اور بیچا ہے میں نے اسے خرید کر اس میں مکان بنالیاہے اب ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک وہ ہے اور اسکی رجسٹری بھی انقلاب اسلامی سے پہلے قانونی طور پر اسکے نام ثبت ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے اس نے میرے اور میرے بعض پڑوسیوں کے خلاف عدالت میں شکایت کی ہے کیا اسکے دعویٰ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس زمین میں میرے تصرفات غصب شمار ہونگے؟
ج: پہلے جس شخص کے قبضے میں یہ زمین تھی اسے اس سے خرید نا ظاہر شریعت کے مطابق صحیح ہے اور زمین خریدار کی ملکیت ہے اور جب تک وہ شخص جو زمین کی پہلی ملکیت کا مدعی ہے عدالت میں اپنی شرعی ملکیت ثابت نہ کردے اسے موجودہ مالک اورتصرف کرنے والے کیلئے رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں ہے۔
س ١٨8٢: ایک زمین ایک معمولی دستاویز میں باپ کے نام ہے اور کچھ عرصے کے بعد اسکی قانونی دستاویز اسکے نابالغ بچے کے نام صادر ہوتی ہے لیکن ابھی زمین باپ کے قبضے میں ہے اب بچہ بالغ ہوگیا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین اسکی ملکیت ہے کیونکہ سرکاری رجسٹری اسکے نام ہے لیکن اسکا باپ یہ کہتا ہے کہ اس نے یہ زمین اپنی رقم سے خود اپنے لیئے خریدی ہے اور صرف ٹیکس سے بچنے کیلئے اسے اپنے بیٹے کے نام کیا ہے کیا اگر اسکا بیٹا اس زمین میں اپنے باپ کی مرضی کے خلاف تصرف کرے تو وہ غاصب شمار ہوگا؟
ج: اگر باپ نے وہ زمین اپنی رقم سے خریدکی ہے اوربیٹے کے بالغ ہونے کے بعد تک اس میں تصرف کررہا تھا توجب تک بیٹا یہ ثابت نہ کردے کہ باپ نے وہ زمین اسے ہبہ کی ہے اور اسکی ملکیت اسے منتقل کردی ہے اس وقت تک اسے حق نہیں ہے کہ وہ صرف رجسٹری اپنے نام ہونے کی بنا پر باپ کو زمین میں تصرف کرنے سے منع کرے اور اسکے لیئے رکاوٹ پیدا کرے۔
س١٨8٣: ایک شخص نے پچاس سال پہلے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اب وہ ایک اونچے پہاڑ کے نام کا سہارا لیکر کہ جسکا ذکر رجسٹری میں زمین کی حدود کے طور پر آیا ہے ،دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دسیوں لاکھ میٹر عمومی زمین اوران دسیوں پرانے گھروں کا مالک ہے جو اسکی خریدی ہوئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان واقع ہیں اسی طرح وہ اس بات کا بھی مدعی ہے کہ اس علاقہ کے لوگوں کی ان گھروں اور مذکورہ زمینوں میں نماز غصب کی بناپر باطل ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دور میں ان زمینوں اور پرانے مکانوں میں اس نے کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جو اس جگہ واقع ہیں اور ایسے دلائل بھی موجود نہیں ہیں جو اس زمین کی سینکڑوں سالہ پرانی صورت حال کو واضح کریں اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟
ج: جو زمین خریدی گئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان ہے کہ جو اسکی حدود کے طور پر اسکی دستاویز میں مذکور ہے اگر وہ غیر آباد زمین ہو کہ جو پہلے کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں تھی یا ان زمینوں میں سے ہو کہ جو گذشتہ لوگوں کے تصرف میں تھیں اور اب ان سے منتقل ہو کر دوسروں کے تصرف میں آگئی ہیں تو اس صورت میں جس شخص کے پاس جتنی مقدارزمین یا مکان ہے اوروہ اسکے مالکانہ تصرف میں ہے شرعی طور پر وہ اس کا مالک ہے اور جب تک مدعی اپنی مالکیت کو شرعی طور پر عدالت میں ثابت نہ کردے اس وقت تک اس ملک میں ان کے تصرفات مباح اور حلال ہیں۔
س ١٨8٤: قاضی نے جس زمین کے ضبط کرنے کا حکم دیا ہوکیا اس میں اسکے پچھلے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا جائز ہے؟ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا جائز ہے؟
ج : اگر مذکورہ زمین حاکم شرع کے حکم سے یا حکومت اسلامی کے موجودہ قانون کی بناپر پہلے مالک سے ضبط کی گئی ہو یا اس کی ملکیت کے مدعی کیلئے شرعی ملکیت ثابت نہ ہوتو اس کی ملکیت کے مدعی یا پہلے مالک کی اجازت لازمی نہیں ہے پس اس میں مسجد بنانا ، نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا اشکال نہیں رکھتا۔
س ١٨8٥: ایک زمین نسل بہ نسل میراث کے ذریعہ ورثاء تک پہنچی پھر ایک غاصب نے اسے غصب کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کے قائم ہونے کے بعد ورثا نے غاصب سے اس زمین کو واپس لینے کا اقدام کیا ۔ کیا شرعی طور پر یہ ورثاء کی ملکیت ہے یا انہیں صرف اسکے حکومت سے خریدنے میں حق تقدم حاصل ہے؟
ج: ارث کے ذریعہ فقط گذشتہ تصرفات کا لازمہ اسکی ملکیت یا اسکے خریدنے میں حق تقدم نہیں ہے لیکن جب تک اسکے برخلاف ثابت نہ ہو جائے تب تک شرعی طور پر ملکیت ثابت ہے لہذا اگر ثابت ہوجائے کہ ورثاء زمین کے مالک نہیں ہیں یا زمین پر کسی اور کی ملکیت ثابت ہوجائے تو ورثاء کو زمین یا اسکے عوض کے مطالبہ کا حق نہیں ہے ورنہ ذو الید (قبضے والا) ہونے کے اعتبارسے انہیں اصل زمین یا اسکے عوض کے مطالبہ کا حق ہے۔
- بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
س ١٨8٦:ایک شخص کی ایک بیٹی اور ایک بالغ سفیہ بیٹا ہے جو اسکے زیر سرپرستی ہے ، کیا باپ کے مرنے کے بعد جائز ہے کہ بہن اپنے سفیہ بھائی کے اموال میں ولایت اورسرپرستی کے عنوان سے تصرف کرے؟
ج: بھائی اور بہن کو اپنے سفیہ بھائی پر ولایت حاصل نہیں ہے اوراگر اس کا دادا موجود نہ ہو اور باپ نے بھی اس پر ولایت اور سرپرستی کے سلسلے میں کسی کو وصیت نہ کی ہو تو سفیہ بھائی اور اسکے اموال پر حاکم شرع کو ولایت حاصل ہو گی۔
س ١٨8٧: کیا لڑکے اور لڑکی کے سن بلوغ میں شمسی سال معیار ہے یا قمری ؟
ج : قمری سال معیار ہے۔
س ١٨8٨: اس امر کو تشخیص دینے کیلئے کہ ایک شخص بالغ ہونے کے سن کو پہنچا ہے یا نہیں کس طرح قمری سال کی بنیاد پر اسکی تاریخ ولادت کو سال اور مہینے کے اعتبار سے حاصل کرسکتے ہیں؟
ج: اگر شمسی سال کی بنیاد پر اسکی ولادت کی تاریخ معلوم ہو تو اسے قمری اور شمسی سال کے درمیان فرق کا حساب کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
س ١٨8٩: جو لڑکا پندرہ سال سے پہلے محتلم ہوجائے کیا اسے بالغ سمجھا جائیگا؟
ج: احتلام ہو جانے سے وہ بالغ سمجھا جائے گا کیونکہ شرعی طورپر احتلام بلوغ کی علامات میں سے ہے۔
س١٨9٠: اگر دس فیصد احتمال ہوکہ بلوغ کی دوسری دو علامتیں ( مکلف ہونے کے سن کے علاوہ) جلدی ظاہر ہوگئی ہیں تو اس صورت میں حکم کیا ہے؟
ج: محض یہ احتمال دینا کہ وہ دو علامتیں جلدی ظاہر ہوگئی ہیں بلوغ کا حکم ثابت ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔
س ١٨9١: کیا جماع کرنا بالغ ہونے کی علامات میں سے شمار ہو تا ہے اور اسکے انجام دینے سے شرعی فرائض واجب ہوجاتے ہیں؟اور اگر کوئی شخص اسکے حکم سے واقفیت نہ رکھتا ہو اور اسطرح کئی سال گزر جائیں تو کیا اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے؟ اور وہ اعمال جن میں طہارت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اگر انہیں غسل جنابت کرنے سے پہلے انجام دے تو کیا وہ باطل ہیں؟ اور انکی قضا واجب ہے؟
ج: انزال اور منی خارج ہوئے بغیر صرف جماع ، بالغ ہونے کی علامت نہیں ہے لیکن یہ جنابت کا باعث بن جاتاہے لہذابلوغ کے وقت غسل کرنا واجب ہوگا اور جب تک بلوغ کی کوئی علامت انسان میں نہ پائی جائے شرعی طور پر وہ بالغ نہیں ہے اور اس کیلئے احکام شرعی کا بجالانا ضروری نہیں ہے اور جو شخص بچپن میں جماع کی وجہ سے مجنب ہوا ہو اور بالغ ہونے کے بعد غسل جنابت انجام دیئے بغیر اس نے نمازیں پڑھی اور روزے رکھے ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کرے لیکن اگر وہ جنابت کے بارے میں جاہل تھا تو اس پر روزوں کی قضا بجالانا واجب نہیں ہے۔
س ١٨9٢: ہمارے سکول کے بعض طالب علم لڑکے اور لڑکیاں اپنی ولادت کی تاریخ کے اعتبار سے بالغ ہوگئے ہیں لیکن انکے حافظہ میں خلل اور کمزوری کی وجہ سے انکا طبّی معائنہ کیا گیا تا کہ انکی ذہنی صلاحیت اور حافظہ چیک کیا جائے معائنہ کے نتیجے میں ثابت ہوا کہ وہ گذشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے ذہنی طور پر پسماندہ ہیں لیکن ان میں سے بعض کو پاگل شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ دینی اور معاشرتی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیا اس مرکز کی تشخیص ڈاکٹروں کی تشخیص کی طرح معتبر ہے اور ان طالب علموں کیلئے ایک معیار ہے؟
ج : انسان پر شرعی ذمہ داریاں عائد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ شرعی طور پر بالغ ہو اور عرف کے اعتبار سے عاقل ہو لیکن ہوش و فہم کے درجات معتبر نہیں ہیں اور اس میں انکا کوئی اثر نہیں ہے۔
س ١٨9٣: بعض احکام میں خاص طورپر ممیّز بچے کے سلسلے میں آیا ہے :" جو بچہ خوب اور بد کوپہچانتا ہو " خوب اور بد سے کیا مراد ہے؟ اور تمیز کا سن کونسا سن ہے؟
ج: خوب و بد سے مراد وہ چیز ہے جسے عرف خوب اور بد سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں بچے کی زندگی کے حالات ، عادات و آداب اورمقامی رسم و رواج کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور سن تمیز ، افراد کی استعداد اور درک و فہم کے اختلاف کی بنیاد پر مختلف ہے۔
س ١٨9٤: کیا لڑکی کیلئے نوسال پورے ہونے سے پہلے ایسے خون کا دیکھنا جس میں حیض کی نشانیاں موجود ہوں ، اسکے بالغ ہونے کی علامت ہے؟
ج: یہ خون لڑکی کے بالغ ہونے کی شرعی علامت نہیں ہے اور حیض کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ اس میں حیض کی علامات موجود ہوں۔
س ١٨9٥: جو شخص کسی وجہ سے عدالت کی طرف سے اپنے مال میں تصرف کرنے سے ممنوع ہوجائے اگر وہ اپنی وفات سے پہلے اپنے اموال میں سے کچھ مقدار اپنے بھتیجے کی خدمت کے شکریے اور قدردانی کے عنوان سے اسے دے اوروہ بھتیجا اپنے چچاکی وفات کے بعد مذکورہ اموال اسکی تجہیز و تکفین اور دوسری خاص ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کردے ، تو کیاعدالت اس سے اس مال کا مطالبہ کرسکتی ہے؟
ج: اگر وہ مال جو اس نے اپنے بھتیجے کو دیا ہے حجر کے دائرے میں ہو یا کسی دوسرے کی ملک ہو تو شرعی طور پراسے حق نہیں ہے کہ وہ مال بھتیجے کو دے اور اسکا بھتیجا بھی اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اور عدالت کیلئے جائز ہے کہ وہ اس مال کااس سے مطالبہ کرے ورنہ کسی کو وہ مال واپس لینے کا حق نہیں ہے ۔
- مضاربہ
مضاربہ کے احکام
س ١٨9٦: کیا سونے اور چاندی کے غیرکے ساتھ مضاربہ جائز ہے ؟
ج : جو کرنسی آج کل رائج ہے اسکے ساتھ مضاربہ میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اجناس اور سامان کے ساتھ مضاربہ جائز نہیں ہے ۔
س ١٨9٧: کیا تجارت ، سپلائی ، سرویس فراہم کرنے اور پیداوار کے سلسلے میں عقد مضاربہ سے استفادہ کرنا صحیح ہے ؟ اور کیا وہ عقود جومضاربہ کے عنوان سے غیر تجارتی کاموں میں آج کل متعارف ہوگئے ہیں شرعی طور پر صحیح ہیں یا نہیں؟
ج : عقد مضاربہ صرف خرید و فروش کے ذریعہ تجارت میں سرمایہ کاری کرنے سے مخصوص ہے اور اس سے سپلائی ،سرویس فراہم کرنے ،پیداواری کاموں اور اس جیسے دیگر امور میں استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن ان امور کو دیگر شرعی عقود کے ساتھ انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے جعالہ ، صلح و غیرہ ۔
س ١٨9٨: میں نے اپنے دوست سے مضاربہ کے عنوان سے ایک مقدار رقم اس شرط پر لی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ اسے واپس لوٹا دوں گا اور میں نے رقم میں سے کچھ مقدار اپنے ایک ضرورتمند دوست کو دے دی اور یہ طے پایا کہ منافع کا ایک تہائی وہ ادا کرے گاکیا یہ کام صحیح ہے ؟
ج : اس شرط پر کسی سے رقم لینا کہ کچھ عرصے کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کرے گا مضاربہ نہیں ہے بلکہ سودی قرض ہے جو کہ حرام ہے اور اس رقم کا مضاربہ کے عنوان سے لینا ، اس کی جانب سے قرض شمار نہیں ہوگا لہٰذا یہ رقم لینے والے کی ملک قرار نہیں پائے گی بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت پر باقی ہے اور رقم لینے والے اور عامل کو صرف اس سے تجارت کرنے کا حق ہے اور دونوں نے باہمی طور پرجو توافق کیا ہے اسکی روشنی میں یہ اسکے منافع میں شریک ہیں اور عامل کو حق نہیں ہے کہ وہ مال کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں سے کچھ رقم کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے یامضاربہ کے عنوان سے کسی دوسرے کے اختیار میں قرار دے ۔
س ١٨9٩:ان لوگوں سے مضاربہ کے نام پر رقم قرض لینا ۔ جو مضاربہ کے عنوان سے رقم دیتے ہیں تاکہ طے شدہ معاملہ کے مطابق ہر مہینہ ایک لاکھ تومان کے عوض تقریباً چار یا پانچ ہزار تومان منافع حاصل کریں ۔کیا حکم رکھتاہے ؟
ج : مذکورہ صورت میں قرض لینا مضاربہ نہیں ہے بلکہ یہ وہی سودی قرض ہے جو حکم تکلیفی کے لحاظ سے حرام ہے اور عنوان میں ظاہری تبدیلی لانے سے حلال نہیں ہوگا ۔ اگرچہ اصل قرض صحیح ہے اور قرض لینے والا مال کا مالک بن جاتا ہے ۔
س900 ١: ایک شخص نے کچھ رقم دوسرے کو دی تا کہ وہ اس سے تجارت کرے اور ہر مہینہ کچھ رقم منافع کے طور پر اسے ادا کرے اور اسکے تمام نقصانات بھی اسی کے ذمہ ہوں کیا یہ معاملہ صحیح ہے ؟
ج: اگریوں طے کریں کہ اسکے مال کے ساتھ صحیح شرعی طور پر مضاربہ عمل میں آئے اور عامل پر شرط لگائے کہ ہر مہینہ اسکے منافع میں سے اسکے حصے سے کچھ مقدار اسے دیتا رہے اور اگر سرمایہ میں کوئی خسارہ ہوا تو عامل اس کا ضامن ہے تو ایسا معاملہ صحیح ہے۔
س ١90١: میں نے ایک شخص کو وسائل حمل و نقل کے خریدنے ، ان کے درآمد کرنے اور پھر بیچنے کیلئے کچھ رقم دی اور اس میں یہ شرط لگائی کہ ان کو فروخت کرنے سے جو منافع حاصل ہوگا وہ ہمارے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگا اور اس نے ایک مدت گزرنے کے بعد کچھ رقم مجھے دی اور کہا : یہ تمہارا منافع ہے کیا وہ رقم میرے لیئے جائز ہے ؟
ج: اگرآپ نے سرمایہ مضاربہ کے عنوان سے اسے دیا ہے اور اس نے بھی اس سے وسائل حمل و نقل کو خریدا اور بیچاہو اور پھر اسکے منافع سے آپ کا حصہ دے تو وہ منافع آپ کے لیئے حلال ہے۔
س ١90٢: ایک شخص نے دوسرے کے پاس کچھ رقم تجارت کیلئے رکھی ہے اور ہر مہینہ اس سے اندازے کے ساتھ کچھ رقم لیتا ہے اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرتے ہیں اگر رقم کا مالک اور وہ شخص با ہمی رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے کو نفع و نقصان بخش دیں تو کیا ان کیلئے اس کام کا انجام دینا صحیح ہے؟
ج: اگر یہ مال صحیح طور پر مضاربہ انجام دینے کے عنوان سے اسے دیا ہے تو مال کے مالک کیلئے ہر مہینہ عامل سے منافع کی رقم کی کچھ مقدارلینے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسی طرح ان دونوں کیلئے ان چیزوں کی نسبت مصالحت کرنا بھی صحیح ہے جو شرعی طور پر وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں لیکن اگر وہ مال قرض کے طور پر ہو اور اس میں یہ شرط طے پائی ہو کہ مقروض قرض خواہ کوہر مہینہ کچھ منافع ادا کرے اور پھر سال کے آخر میں جو مال وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں اس کے بارے میں صلح کرلیں تو یہ وہی سودی قرض ہے جو حرام ہے اوراسکے ضمن میں شرط کرنا بھی باطل ہے اگر چہ اصل قرض صحیح ہے اور یہ کام محض دونوں کے ایک دوسرے کو نفع و نقصان ھبہ کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا لہذا قرض خواہ کسی قسم کا منافع نہیں لے سکتا جیسا کہ وہ کسی قسم کے نقصان کا بھی ضامن نہیں ہے ۔
س ١90٣: ایک شخص نے مضاربہ کے عنوان سے دوسرے سے مال لیا اور اس میں یہ شرط لگائی کہ اس کے منافع کا دو تہائی حصہ اس کا ہوگا اور ایک تہائی مالک کا ہوگا اس مال سے اس نے کچھ سامان خرید کر اپنے شہر کی طرف بھیجا جو راستے میں چوری ہوگیا یہ نقصان کس کے ذمہ ہے ؟
ج: تجارت کے مال یا سرمایہ کے تمام یا بعض حصے کا تلف اور ضائع ہوجانا اگر عامل یا کسی دوسرے شخص کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو تو سرمایہ لگانے والے کے ذمہ ہے اور مال کے منافع سے اس نقصان کو پورا کیا جائیگا مگر یہ کہ اس میں شرط ہو کہ سرمایہ لگانے والے کانقصان عامل کے ذمہ ہوگا ۔
س ١90٤: کیاجائز ہے کہ جو مال کاروبار یا تجارت کیلئے کسی کو دیا جائے یا کسی سے لیا جائے اس میں یہ شرط لگائیں کہ اس سے حاصل شدہ منافع بغیر اسکے کہ یہ سود ہو ان دونوں کے درمیان انکی رضامندی سے تقسیم کیاجائے ؟
ج: اگر تجارت کیلئے مال کا دینا یا لینا قرض کے عنوان سے ہو تو اسکا تمام منافع قرض لینے والے کا ہے جس طرح کہ اگر مال تلف ہوجائے تو وہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور مال کا مالک مقروض سے صرف اس مال کا عوض لینے کا مستحق ہے اور جائز نہیں ہے کہ وہ اس سے کسی قسم کا منافع وصول کرے اور اگر مضاربہ کے عنوان سے ہو تو اسکے نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عقد مضاربہ انکے درمیان صحیح طور پر منعقد ہواہو اور اسی طرح ان شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جو اسکے صحیح ہونے کیلئے لازمی ہیں اوران میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ دونوں منافع سے اپنا اپنا حصہ کسر مشاع کی صورت میں معین کریں ورنہ وہ مال اور اس سے حاصل شدہ تمام آمدنی مالک کی ہوگی اور عامل صرف اپنے کام کی اجرة المثل (مناسب اجرت) لینے کا مستحق ہوگا۔
س ١90٥: اس امر کے پیش نظر کہ بینک کے معاملات واقعی مضاربہ نہیں ہیں کیونکہ بینک کسی قسم کے نقصان کو اپنے ذمہ نہیں لیتا کیا وہ رقم جو پیسہ جمع کرانے والے ہر مہینہ بینک سے منافع کے طور پر لیتے ہیں حلال ہے؟
ج: صرف نقصان کا بینک کی طرف سے قبول نہ کرنا مضاربہ کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا اور اسی طرح یہ چیز اس عقد کے صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مضاربہ ہونے کی بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مالک یا اس کا وکیل عقد مضاربہ کے ضمن میںشرط کرے کہ عامل، سرمایہ کے مالک کے ضرر اور نقصانات کا ضامن ہوگا لہذا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ مضاربہ جو بینک سرمایہ جمع کرانے والوں کے وکیل کے عنوان سے انجام دینے کا مدعی ہے وہ صرف ظاہری ہے اور کسی سبب سے باطل ہے تب تک وہ مضاربہ صحیح ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع جو سرمایہ جمع کرانے والوں کو دیا جاتاہے حلال ہے۔
س١90٦: میں نے رقم کی ایک معین مقدار ایک زرگر کودی تا کہ وہ اسے خرید و فروش کے کام میں لائے اور چونکہ وہ ہمیشہ منافع حاصل کرتاہے اور نقصان نہیں اٹھاتا کیا جائز ہے کہ ہر مہینہ ، میں اسکے منافع سے خاص رقم کا اس سے مطالبہ کروں؟ اگر اس میں کوئی اشکال ہو تو کیا جائز ہے اس مقدار کے بدلے میں سونا چاندی لے لوں؟ اور اگر وہ رقم اس شخص کے ذریعہ جو ہمارے درمیان واسطہ ہے ادا ہوتو کیا اشکال ختم ہوجائے گا؟ اور اگر وہ اس رقم کے عوض کچھ رقم ہدیہ کے عنوان سے مجھے دے دے تو کیا پھر بھی اشکال ہے؟
ج: مضاربہ میں شرط ہے کہ منافع میں سے سرمائے کے مالک اور عامل ہر ایک کا حصہ نصف، تہائی یا چوتھائی و غیرہ کی صورت میں معین ہولہذا کسی خاص رقم کو ماہانہ منافع کے طورپر سرمائے کے مالک کیلئے معین کرنے سے مضاربہ صحیح نہیں ہوگا چاہے وہ ماہانہ منافع جو مقرر ہوا ہے نقد ہو یا سونا چاندی یا کسی سامان کی شکل میں اور چاہے اسے براہ راست وصول کرے یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ سے اور چاہے اسے منافع میں سے اپنے حصہ کے عنوان سے وصول کرے یا عامل وہ رقم اس تجارت کے بدلے میں جو اس نے اسکے پیسے کے ساتھ کی ہے ، ہدیہ کے عنوان سے اسے دے ۔ہاں یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ سرمائے کا مالک اسکے منافع کے حاصل ہونے کے بعد ہر مہینے اندازے کے ساتھ اس سے کچھ مقدار لیتا رہے گا تا کہ عقد مضاربہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کا حساب کرلیں۔
س١90٧:ایک شخص نے کچھ لوگوں سے مضاربہ کے عنوان سے تجارت کیلئے کچھ رقم لی ہے اور اس میں یہ شرط کی ہے کہ اسکا منافع اسکے اور صاحبان اموال کے درمیان انکی رقم کے تناسب سے تقسیم ہو گا اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج : اگر رقم کا باہمی طور پر تجارت کیلئے خرچ کرنا اسکے ما لکان کی اجازت کے ساتھ ہو تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س١90٨: کیا عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط لگانا جائز ہے کہ عامل ہرماہ صاحب سرمایہ کو منافع میں سے اسکے حصہ سے کچھ رقم دیتار ہے اور کمی اور زیادتی کی نسبت مصالحت کرلیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا صحیح ہے کہ عقد لازم کے ضمن میں ایسی شرط لگائیں جو احکام مضاربہ کے خلاف ہو ؟
ج : اگر شرط وہی صلح ہو یعنی صاحب سرمایہ اسکے منافع میں سے اپنے حصے کا کہ جو کسر مشاع کے طور پر معین کیا گیا ہے عامل کی اس رقم ساتھ مصالحت کرے جو وہ اسے ہر مہینہ دے رہا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ منافع میں سے مالک کے حصہ کا تعین اس رقم کی صورت میں ہوگا کہ جو عامل ہر ماہ اسے ادا کریگا تو یہ شرط، عقدِمضاربہ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے پس باطل ہے۔
س١90٩: ایک تاجرنے کسی شخص سے مضاربہ کے سرمایہ کے عنوان سے اس شرط پر کچھ رقم لی کہ تجارت کے منافع سے چند معین فیصد رقم اسے دے گا نتیجہ کے طور رپر اس نے وہ رقم اور اپنا سرمایہ اکٹھا کر کے تجارت میں لگادیا اور دونوں ابتدا ہی سے جانتے تھے کہ اس رقم کے ماہانہ منافع کی مقدار کو تشخیص دینا مشکل ہے اسی بنا پر انھوں نے مصالحت کرنے پراتفاق کرلیا،کیا شرعی طور پر اس صورت میں مضاربہ صحیح ہے ؟
ج : مالک کے سرمایہ کے منافع کی ماہانہ مقدار کی تشخیص کے ممکن نہ ہونے سے عقد مضاربہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔شرط یہ ہے کہ مضاربہ کی صحت کے دیگر شرائط کی رعایت کی گئی ہو پس اگر عقد مضاربہ اسکی شرعی شرائط کی روشنی میں منعقد کریں اور پھر اتفاق کرلیں کہ حاصل ہونے والے منافع کے سلسلے میں مصالحت کریں اس طرح کہ منافع حاصل ہونے کے بعد سرمایہ کا مالک اس میں سے اپنے حصے پر معین رقم کے بدلے میں صلح کرلے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س ١٩1٠: ایک شخص نے کچھ رقم مضاربہ کے طور پر کسی دوسرے کو اس شرط پر دی کہ تیسرا شخص اس مال کی ضمانت اٹھائے اس صورت میں اگر عامل وہ رقم لیکر بھاگ جائے تو کیا پیسے کے مالک کوحق ہے کہ اپنی رقم لینے کیلئے ضامن کے پاس جائے؟
ج :مذکورہ صورت میں مضاربہ والے مال کو ضمانت کی شرط کے ساتھ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے پس وہ رقم جو عامل نے مضاربہ کے طور پر لی تھی اگر اسے لے کر بھاگ جائے یا کوتاہی کرتے ہوئے اسے تلف کردے تو صاحب سرمایہ کو حق ہے کہ وہ اس کا عوض لینے کیلئے ضامن کے پاس جائے ۔
س ١٩1١: اگر عامل مضاربہ کی اس رقم کی کچھ مقدار جو اس نے متعدد افراد سے لے رکھی ہے اسکے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے دے چاہے یہ رقم مجموعی سرمایہ میں سے ہویا کسی خاص شخص کے سرمایہ سے تو کیا اسے (اس کے ید کو) دوسروں کے اموال کی نسبت جوانھوں نے اسکے پاس مضاربہ کے طور پر رکھے ہیں خیانت کار (ید عدوانی) شمار کیا جائے گا ؟
ج: جو مال اس نے مالک کی اجازت کے بغیر قرض کے طور پر کسی دوسرے کو دیا ہے اسکی نسبت اسکی امانتداری (ید امانی) خیانت کاری (ید عدوانی) میں بدل جائے گی۔ نتیجہ کے طور پر وہ اس مال کا ضامن ہے لیکن دیگر اموال کی نسبت جب تک وہ افراط و تفریط نہ کرے امانتدار کے طور پر باقی رہے گا ۔
- بینک
- بیمہ (انشورنس)
بیمہ (انشورنس)
س ١٩5٢:زندگی کے بیمہ ( لائف انشورنس)کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ١٩5٣: کیا علاج معالجے کے بیمہ کارڈ سے اس شخص کیلئے استفادہ کرنا جائز ہے جو صاحب کارڈ کے اہل و عیال میں سے نہیں ہے؟ اور کیا مالک اس کا رڈ کو دوسروں کے اختیار میں دے سکتاہے؟
ج: علاج معالجہ کے بیمہ کارڈ سے صرف وہی شخص استفادہ کرسکتاہے کہ جس کے ساتھ بیمہ کمپنی نے اپنی بیمہ سہولیات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس سے دوسروں کا استفادہ کرنا ضامن ہونے کا موجب ہے۔
س ١٩5٤: زندگی کے بیمہ کی تحریری دستاویز میں بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے سے یہ عہد کرتی ہے کہ اسکی وفات کے بعد وہ کچھ رقم ان لوگوں کو ادا کریگی جنہیں بیمہ کرانے والا معین کرتا ہے اگر یہ شخص مقروض ہو اور اسکا قرض ادا کرنے کیلئے اس کا مال کافی نہ ہو توکیا اس کے قرض خواہوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے قرض اس رقم سے وصول کرلیں جو بیمہ کمپنی ادا کرتی ہے ؟
ج: یہ چیز اس باہمی توافق کے تابع ہے جو بیمہ کی دستاویز میں لکھا گیا ہے اگر اس میں انہوں نے یہ طے کیا ہے کہ بیمہ کرانے والے شخص کی وفات کے بعد بیمہ کمپنی مقررہ رقم اس شخص یا اشخاص کو ادا کرے جنہیں اس نے معین کیا ہے تو اس صورت میں جو چیز کمپنی ادا کرتی ہے وہ میت کے ترکہ کا حکم نہیں رکھتی بلکہ وہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جنہیں متوفی نے وہ رقم وصول کرنے کیلئے معین کیا ہے۔
- سرکاری اموال
- وقف
- قبرستان کے احکام
قبرستان کے احکام
س ٢10١: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کو اپنی ملکیت میں لانے اور اس میں ذاتی عمارتیں بنانے اور اسے بعض اشخاص کے نام پر ملک کے عنوان سے ثبت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور کیا مسلمانوں کا عمومی قبرستان وقف شمار ہوگا؟ اور کیا اس میں ذاتی تصرف کرنا غصب ہے ؟ اور کیا اس میں تصرف کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تصرفات کے سلسلے میں اجرة المثل ادا کریں ؟ اور اجرة المثل کا ضامن ہونے کی صورت میں اس مال کو کس جگہ خرچ کیا جائیگا؟ اور اس میں تعمیر کی گئی عمارتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کی ملکیت کی محض دستاویزاپنے نام کر ا لینا نہ تو اسکی شرعی ملکیت کی حجت ہے اور نہ ہی غصب کرنے کی دلیل جیسا کہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنا بھی اسکے وقف ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ اگر قبرستان عرف کی نظر میں اس شہرکے تابع شمار ہو تاکہ اس شہر کے باشندے اپنے مردوں کو دفن کرنے یا کسی دوسرے کام کیلئے اس سے استفادہ کریں یا کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جس سے ثابت ہو کہ وہ قبرستان مسلمان مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہوا ہے تو ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ قبرستان کی زمین سے ہاتھ اٹھالیں اور اس میں جو عمارتیں و غیرہ تعمیر کی ہیں انہیں گرا کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیں لیکن تصرفات کی اجرة المثل کا ضامن ہونا ثابت نہیں ہے۔
س ٢10٢: ایک ایسا قبرستان ہے جسکی قبروں کو تقریبا پینتیس سال ہوچکے ہیں اور بلدیہ نے اسے عمومی پارک میں تبدیل کردیا ہے اورسابق حکومت کے زمانے میں اسکے بعض حصوں میں کچھ عمارتیں بنائی گئی ہیں کیا متعلقہ ادارہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس زمین میں دوبارہ عمارتیں بناسکتاہے؟
ج: اگر قبرستان کی زمین مسلمان مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہوئی ہو یا اس میں عمارتیں بنانے سے علما، صلحاء اورمؤمنین کی قبروں کی توہین یا ان کے کھودنے کا سبب ہو یا زمین عام شہریوں کے استفادہ کیلئے ہو تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا اور ذاتی تصرفات اور عمارتیں بنانا جائز نہیں ہے ورنہ اس کام میں بذات خود کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س ٢10٣: ایک زمین مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف کی گئی ہے اور اسکے وسط میں ایک امامزادے کی ضریح واقع ہے اور پچھلے چند سالوں میں بعض شہدا کے جنازے بھی وہاں دفن کئے گئے ہیں اور اس بات کے پیش نظر کہ جوانوں کی ورزش اور کھیل کود کیلئے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کیا اس قبرستان میں آداب اسلامی کی رعایت کرتے ہوئے کھیلنا جائز ہے؟
ج: قبرستان کو ورزش اور کھیل کود کی جگہ میں تبدیل کرنا اور موقوفہ زمین میں جہت وقف کے علاوہ تصرف کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح مومنین اور شہداکی قبروں کی توہین کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
س ٢10٤: کیا جائز ہے کہ ایک امامزادے کے زائرین اپنی گاڑیوں کو اس پرانے قبرستان میں پارک کریں کہ جسے تقریبا سو سال ہوچکے ہیں اور معلوم ہے کہ پہلے اس دیہات کے باشندے اسی جگہ مردے دفن کرتے تھے اور اب انھوں نے مردوں کو دفن کرنے کے لیئے دوسری جگہ منتخب کرلی ہے؟
ج: اگر یہ کام عرف میں مسلمانوں کی قبروں کی توہین شمار نہ ہو اور اس کام سے امامزادے کے زائرین کیلئے کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٥: بعض افراد عمومی قبرستان میں بعض قبروں کے پاس مردے دفن کرنے سے منع کرتے ہیں کیا وہاں دفن کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ ہے اور کیا انھیں روکنے اور منع کرنے کا حق ہے ؟
ج: اگر قبرستان وقف ہو یا اس میں ہر شخص کیلئے مردے دفن کرنا مباح ہو تو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ عمومی قبرستان میں اپنی میت کی قبر کے اطراف میں حریم بناکر اس میں مردہ مؤمنین کو دفن کرنے سے منع کرے۔
س ٢10٦: ایک قبرستان کہ جس میں قبروں کی جگہ پر ہوگئی ہے اسکے قریب ایسی زمین ہے جسے عدالت نے اسکے مالک سے ضبط کرکے اس وقت ایک دوسرے شخص کو دے دی ہے کیا اس زمین میں موجودہ مالک کی اجازت سے مردے دفن کرنا جائز ہے؟
ج: اگر اس زمین کا موجودہ مالک اسکا شرعی مالک شمار ہوتاہے تو اس میں اسکی اجازت اور رضامندی سے تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٧: ایک شخص نے مردوں کو دفن کرنے کیلئے زمین وقف کی اور اسے مسلمانوں کیلئے عمومی قبرستان قراردے دیا۔کیا جائز ہے کہ اسکی انتظامیہ ان لوگوں سے پیسے وصول کرے جو اپنے مردوں کو وہاں دفن کرتے ہیں؟
ج: انہیں موقوفہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنے کے عوض کسی چیز کے مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وہ قبرستان میں دوسرے کام انجام دیتے ہوں یا صاحبان اموات کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوں تو ان خدمات کے عوض اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٨: ہم ایک دیہات میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا چاہتے ہیں لہذا ہم نے دیہات کے باشندوں سے کہا کہ وہ اس کام کیلئے ہمیں کوئی زمین دیں ۔اگراس کام کیلئے دیہات کے وسط میں کوئی زمین نہ ملے تو کیا اس ایکسچینج کو قدیمی قبرستان کے متروکہ حصے میں بنانا جائز ہے؟
ج: اگر وہ عمومی قبرستان مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہو یا اس میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانامسلمانوں کی قبریں کھودنے یا انکی توہین کا سبب ہو تو جائز نہیں ہے ورنہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢10٩: ہم نے دیہات میں مدفون شہداکی قبروں کے پاس اس دیہات کے ان شہیدوں کی یاد میں پتھر نصب کرنے کا عزم کیا ہے جو دوسرے مقامات میں دفن ہوئے ہیں تا کہ مستقبل میں یہ انکا مزار ہو۔کیا یہ کام جائز ہے؟
ج: شہدا کے نام سے قبر کی یادگاربنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ جگہ مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہو تو دوسروں کیلئے مردے دفن کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔
س ٢١10: ہم قبرستان کے قریب ایک بنجر زمین میں مرکز صحت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہاں کے بعض باشندے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے اورذمہ دار افراد کیلئے اسکی تشخیص مشکل ہے کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے یا نہیں اور اس علاقہ کے بعض بوڑھے گواہی دیتے ہیں کہ جس زمین میں بعض لوگ قبر کے وجود کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کوئی قبر موجود نہیں تھی البتہ دونوں گروہ یہ گواہی دیتے ہیں کہ جو زمین مرکز صحت قائم کرنے کیلئے منتخب کی گئی ہے اسکے اطراف میں قبریں موجود ہیں ۔ اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ زمین مسلمان مردوں کے دفن کیلئے وقف ہے اور مذکورہ زمین ان عام جگہوں میں سے بھی نہ ہو جو وہاں کے باشندوں کی ضرورت کیلئے ہیں اور اس میں مرکز صحت قائم کرنے سے قبریں کھودنا لازم نہ آتاہواور مومنین کی قبروں کی اہانت بھی نہ ہوتی ہو تو مذکورہ زمین میں مرکز صحت قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔
س ٢١1١: کیا جائز ہے کہ قبرستان کا ایک حصہ کہ جس میں ابھی کوئی مردہ دفن نہیں ہوا اور وہ قبرستان وسیع و عریض ہے اور اسکے وقف کی کیفیت بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہے اسے رفاہ عامہ جیسے مسجد یا مرکز صحت کی تعمیر میں استفادہ کے لیئے کرایہ پر دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ کی رقم خود قبرستان کے فائدے کیلئے خرچ کی جائے ؟ ( قابل توجہ ہے کہ اس علاقہ میں چونکہ رفاہ عامہ کے مراکز قائم کرنے کیلئے کوئی خالی زمین نہیں ہے لہذا اس علاقے میں ایسے کام کی ضرورت ہے)؟
ج: اگر وہ زمین بالخصوص مردے دفن کرنے کیلئے وقف انتفاع کے طور پر وقف ہوئی ہو تو اسے کرایہ پر دینا یا اس میں مسجد و مرکز صحت و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے لیکن اگر ایسے شواہد موجود نہ ہوں کہ وہ زمین مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہوئی ہے اور علاقہ کے لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے اور اس جیسے دیگر کاموں کی خاطر اس جگہ کی احتیاج نہ ہو اور اس میں قبریں بھی نہ ہوں اور اسکا کوئی خاص مالک بھی نہ ہو تو اس صورت میں اس زمین سے وہاں کے باشندوں کے رفاہ عامہ کیلئے استفادہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢١1٢: بجلی کی وزارت بجلی پیدا کرنے کیلئے کچھ ڈیم بنانا چاہتی ہے ان میں سے ایک ڈیم دریائے کارون کے راستے میں بجلی گھر بنانے کیلئے ہے۔ پروجیکٹ کی ابتدائی تعمیرات اور کام مکمل ہوچکے ہیں اور اس کا بجٹ بھی فراہم کردیا گیا ہے لیکن اس پروجیکٹ والے علاقہ میں ایک قدیمی قبرستان ہے کہ جس میں پرانی اور نئی قبریں موجود ہیں اور اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا ان قبروں کومنہدم کرنے پر موقوف ہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: وہ پرانی قبریں کہ جنکے مردے خاک بن چکے ہیں انکے منہدم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ان قبروں کو منہدم کرنا اور ان کے ان مردوں کو آشکار کرنا کہ جو ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئے جائز نہیں ہے البتہ اگر اس جگہ ان بجلی گھروں کی تعمیر اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ضروری ہو اور اسکے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو اور انہیں اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا قبرستان سے ہٹانا سخت اور مشکل یا طاقت فرساکام ہو تو اس جگہ ڈیم بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن واجب ہے کہ جو قبریں ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئی ہیں انہیں کھودے بغیر کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے اگر چہ اس طرح کہ قبر کے اطراف کو کھودکر پوری قبر کو دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اوراگر اس دوران کوئی بدن ظاہر ہوجائے تو اسے فوراً کسی دوسری جگہ دفن کرنا واجب ہے۔
س ٢١1٣: قبرستان کے قریب ایک زمین ہے کہ جس میں قبر کا کوئی نشان موجود نہیں ہے لیکن یہ احتمال ہے کہ وہ ایک پرانا قبرستان ہوکیا اس زمین میں تصرف کرنا اور اس میں اجتماعی کاموں کیلئے عمارتیں بنانا جائز ہے ؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ وہ زمین اس موقوفہ قبرستان کا حصہ ہے جو مردوں کو دفن کرنے کے لیئے مخصوص ہے یا عرف کی نظر اس کا اطراف (حریم) ہو تو وہ قبرستان کے حکم میں ہے اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
س ٢١1٤: کیا جائز ہے کہ انسان اپنی زندگی کے دوران قبر کو ملکیت کے ارادے سے خریدلے؟
ج: اگر قبر کی جگہ کسی دوسرے کی شرعی ملکیت ہو تو اسکے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ ایسی زمین کا حصہ ہے جو مؤمنین کے دفن کیلئے وقف ہے تو انسان کا اسے خرید کر اپنے لئے محفوظ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اقدام دوسروں کو اس میں مردے دفن کرنے سے روکنے کا موجب بنتاہے۔
س ٢١1٥: اگر ایک سڑک کے ساتھ پیدل چلنے کا راستہ بنانا ان مؤمنین کی بعض قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہو جو بیس سال پہلے اس سڑک کے پاس قبرستان میں دفن ہوئے تھے توکیا یہ کام جائز ہے ؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف نہ ہو تو جب تک یہ کام مسلمان کی قبر کھودنے یا اسکی اہانت کا موجب نہ ہو اس میں پیدل راستہ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢١1٦: شہر کے وسط میں ایک متروکہ قبرستان ہے کہ جسکا وقف ہونا معلوم نہیں ہے کیا اس میں مسجد کا بنانا جائز ہے؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان موقوفہ زمین اور کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو اور اسی طرح مختلف مواقع پر وہاں کے باشندوں کی عام ضرورت کے لیئے بھی نہ ہو اور اس میں مسجد بنانا مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی اورانہیں کھودنے کا سبب بھی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س ٢١1٧: زمین کا ایک حصہ جو تقریبا سو سال سے اب تک عمومی قبرستان ہے اور کچھ سال پہلے کھدائی کے نتیجے میں وہاں پر کچھ قبریں ملی ہیں اس کے کھودنے کا کام مکمل ہونے اور وہاں سے مٹی اٹھانے کے بعد بعض قبریں آشکار اہوگئی ہیں اور ان کے اندر ہڈیاں بھی دیکھی گئی ہیں کیا بلدیہ کیلئے اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے ؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف ہو تو اسکا فروخت کرنا جائز نہیں ہے بہر حال اگر کھدائی قبروں کے کھودنے کا سبب ہو تو وہ بھی حرام ہے۔
س ٢١1٨: وزارت تعلیم نے ایک پرانے قبرستان پر وہاں کے باشندوں کی اجازت حاصل کئے بغیر قبضہ کیا اور وہاں پر ایک سکول بنادیا کہ جس میں طالب علم نماز بھی پڑھتے ہیں اسکے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: جب تک کوئی ایسی معتبر دلیل موجود نہ ہو جس سے یہ ثابت ہوکہ سکول کی زمین مردوں کے دفن کیلئے وقف ہوئی ہے اور ایسی عمومی جگہوں میں سے نہ ہو کہ جسکی شہریوں کو اپنے مردوں کو دفن کرنے یا اس جیسے دیگر کاموں کیلئے ضرورت ہوتی ہے اوریہ کسی کی ذاتی ملکیت بھی نہ ہو تو قوانین و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے اس سے سکول بنانے اور اس میں نماز پڑھنے کیلئے استفادہ کرنے میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔